سورہ یونس: آیت 2 - أكان للناس عجبا أن أوحينا... - اردو

آیت 2 کی تفسیر, سورہ یونس

أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا أَنْ أَوْحَيْنَآ إِلَىٰ رَجُلٍ مِّنْهُمْ أَنْ أَنذِرِ ٱلنَّاسَ وَبَشِّرِ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ أَنَّ لَهُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِندَ رَبِّهِمْ ۗ قَالَ ٱلْكَٰفِرُونَ إِنَّ هَٰذَا لَسَٰحِرٌ مُّبِينٌ

اردو ترجمہ

کیا لوگوں کے لیے یہ ایک عجیب بات ہو گئی کہ ہم نے خود اُنہی میں سے ایک آدمی کو اشارہ کیا کہ (غفلت میں پڑے ہوئے) لوگوں کو چونکا دے اور جو مان لیں ان کو خوشخبری دیدے کہ ان کے لیے اُن کے رب کے پاس سچی عزت و سرفرازی ہے؟ (کیا یہی وہ بات ہے جس پر) منکرین نے کہا کہ یہ شخص تو کھلا جادوگر ہے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Akana lilnnasi AAajaban an awhayna ila rajulin minhum an anthiri alnnasa wabashshiri allatheena amanoo anna lahum qadama sidqin AAinda rabbihim qala alkafiroona inna hatha lasahirun mubeenun

آیت 2 کی تفسیر

اکان للناس عجبًا ان اوحینآ کیا لوگوں کیلئے عجیب ہے یہ بات کہ ہم نے وحی بھیجی۔ یہ استفہام تعجبی انکاری ہے (یعنی تعجب ہے کہ لوگ اس بات پر تعجب کرتے ہیں کہ اللہ نے انسان کے پاس وحی بھیجی ‘ ان کو اس بات پر تعجب نہ کرنا چاہئے) لِلنَّاسِمیں لازم بتا رہا ہے کہ انسان کا پیغمبر ہونا ان کی نظر میں ایک اعجوبہ تھا ‘ قابل انکار و استہزاء۔ کسی نادر واقعہ کو دیکھ کر اور معمول و عادت کے خلاف کوئی بات مشاہدہ کرنے سے جو حالت پیدا ہوتی ہے ‘ اس کو عجب کہتے ہیں۔

لوگوں کے تعجب کو آیت میں جو تعجب آفریں قرار دیا گیا ہے اور ان کے تعجب کو واجب الانکار بتایا ہے ‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کا پیغمبر بنایا جانا کوئی انوکھا واقعہ نہیں ہے۔ تخلیق آدم (علیہ السلام) کے وقت سے ہی اللہ کا معمول رہا ہے کہ ہمیشہ انسانوں کو ہی پیغمبر بنایا گیا ہے ‘ اسی لئے اللہ نے فرمایا ہے : وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ الاَّ رِجَالاً ہم نے آپ سے پہلے بھی ہمیشہ مردوں کو پیغمبر بنایا۔

بادشاہوں کا یہی قاعدہ ہے کہ تحریر و تقریر کی زبان وہی اختیار کرتے ہیں جس کو مخاطب جانتا ہو اور قاصد بھی اسی کو بنا کر بھیجا جاتا ہے جو ان لوگوں کی جنس سے ہو جن کے پاس بھیجا گیا ہو۔ فائدہ اندوزی اور فائدہ رسانی بغیر مناسبت کے ممکن نہیں۔ اللہ نے اسی لئے فرمایا ہے : قُلْ لَّوْ کَانَ فِی الْاَرْضِ مَلَآءِکَۃٌ یَّمْشُوْنَ مُطْمَءِنِّیْنَ لَنَزَّلْنَا عَلَیْھِمْ مِّنَ السَّمَآءِ مَلَکًا رَّسُوْلاً اگر زمین پر ملائکہ چلتے پھرتے اور رہتے ہوتے تو ہم ان پر آسمان سے کسی فرشتہ کو رسول بنا کر بھیجتے۔

الی رجل منھم ان میں سے ایک شخص کے پاس۔ یعنی ایک معمولی آدمی کے پاس جو (دنیوی دولت و حکومت کے اعتبار سے) بڑے آدمیوں میں سے نہیں ہے۔ کافروں نے کہا تھا کہ اگر انسان کو ہی رسول بنانا تھا تو محمد (ﷺ) کے علاوہ دوسرے بڑے لوگ اس کے مستحق تھے کہ ان کو رسول بنایا جاتا۔ اللہ نے (اسی قول کو ان الفاظ میں نقل کیا ہے اور) فرمایا ہے : لَوْ لاَ نُزِّلَ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰی رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیْمٍیعنی دونوں بستیوں (مکہ اور طائف) میں کے کسی بڑے عظیم آدمی پر قرآن کیوں نہیں نازل کیا گیا۔ بڑے آدمی سے ان کا مقصد تھا : ولید بن مغیرہ مکی اور مسعود بن عمر ثقفی طائفی۔ اس کے رد میں اللہ نے نازل فرمایا : ___ اَھُمْ یَقْسِمُوْنَ رَحْمَۃَ رَبِّکَ کیا وہ اللہ کی رحمت یعنی نبوت و رسالت کو خود بانٹ رہے ہیں (کہ جس کو چاہیں اس کو نبوت دے دیں۔ یہ کافروں کی حماقت اور وحی سے ناواقفیت تھی کہ وہ دنیوی دولت کی افزونی اور قومی سیادت پر استحقاق وحی و رسالت کا مدار سمجھتے تھے) رسول اللہ (ﷺ) کو رجل عظیم نہیں سمجھتے تھے ‘ حالانکہ سوائے مال کے باقی تمام انسانی صفات و خصائل کے اعتبار سے رسول اللہ (ﷺ) سب سے بڑے اور سب سے کامل تھے۔ مال کی کمی کو نبوت میں دخل نہیں ‘ آپ سے پہلے اکثر انبیاء بھی ایسے ہی گذرے ہیں۔

ان انذر الناس وبشر الذین امنوا کہ لوگوں کو (ا اللہ کے احکام کی خلاف ورزی کے برے نتیجہ سے) ڈراؤ اور اہل ایمان کو بشارت دو ۔ سب لوگوں کو عموماً ڈرانے کا حکم دیا کہ بہت کم لوگ ایسے ہیں جو اپنے اعمال کے لحاظ سے مستحق انذار نہیں ہیں۔ اور کافر چونکہ مستحق بشارت نہیں ‘ اسلئے بشارت دینے کا حکم صرف اہل ایمان کیلئے مخصوص کیا۔

ان لھم قدم صدق عند ربھم کہ ان کے رب کے پاس (پہنچ کر) ان کو پورا مرتبہ ملے گا۔

عطاء کے نزدیک قدم صدق سے مراد ہے صدق کا مقام جس میں نہ کوئی زوال ہے نہ دشواری اور تکلیف۔

(مؤلف کے نزدیک) قدم صدق سے مراد ہے اونچا مرتبہ جس کی طرف اہل ایمان بڑھ رہے ہیں اور جہاں ان کا قیام ہوگا۔ مرتبہ کو قدم سے تعبیر اسلئے کیا گیا کہ آگے بڑھنے اور قیام کرنے کا ذریعہ قدم ہی ہوتا ہے (یعنی سبب بول کر مسبب مراد لیا گیا ہے) جیسے نعمت کو ہاتھ کہا جاتا ہے کیونکہ نعمت کی عطاء ہاتھ کے ذریعہ سے ہوتی ہے۔

آیت میں لفظ قدم صدق سے اس امر پر تنبیہ ہے کہ اللہ کے ہاں ان کو اونچا درجہ صرف قول اور نیت کی سچائی کی وجہ سے حاصل ہوگا۔ اور سب سے زیادہ سچی بات لا الٰہ الا اللہ ہے۔ ہم نے جو قدم صدق کی تفسیر مرتبہ سے کی ہے ‘ یہی حاصل حضرت ابن عباس اور ضحاک کی تفسیر کا ہے۔ حضرت ابن عباس نے لفظ قدم کی تشریف میں فرمایا : انہوں نے جو اعمال پہلے سے بھیج دئیے ہوں گے ‘ ان کا اچھا بدلہ ان کو ملے گا (اچھا بدلہ اور مرتبہ دونوں کا مطلب ایک ہی ہے) ضحاک نے کہا : قَدَمَ صدقٍ یعنی سچائی کا ثواب (ضحاک نے مرتبہ کی تعبیر ثواب سے کی اور حضرت ابن عباس نے اجر حسن سے) ۔

حسن نے کہا : قَدَمَ صدقٍ سے مراد وہ نیک اعمال ہیں جو اہل ایمان نے (مرنے سے پہلے) کئے ہوں ‘ گویا حسن کے نزدیک قدم بمعنی تقدیم ہے (یعنی پہلے سے کئے ہوئے اچھے اعمال) اللہ نے اس لفظ سے بشارت دے دی کہ اہل ایمان نے جو اچھے اعمال پہلے سے (یعنی مرنے سے پہلے) کئے ہوں گے ‘ وہ اللہ کے ہاں ان کو ملیں گے۔ ابو عبیدہ نے کہا : عرب کے نزدیک ہر آگے بڑھنے والے کو قدم کہا جاتا ہے ‘ خیر کی طرف بڑھے یا شر کی طرف۔ فلاں شخص کو اسلام میں قدم (سبقت) حاصل ہے۔ میرے پاس اس کو قدم حاصل ہے یا برائی کا قدم ‘ یعنی میرے نزدیک وہ خیر میں سبقت کر رہا ہے یا بدی میں۔

ایک روایت میں حضرت ابن عباس کا قول آیا ہے کہ قدم صدق سے مراد ہے سعادت سابقہ۔ زید بن اسلم نے کہا : اس سے رسول اللہ (ﷺ) کی شفاعت مراد ہے۔ بخاری نے لکھا ہے کہ زید بن اسلم نے کہا : ان کیلئے قدم صدق ہے ‘ یعنی رسول اللہ (ﷺ) (کی شفاعت) ۔

قال الکفرون کافروں نے کہا۔ یعنی کافروں نے جب رسول اللہ (ﷺ) کے معجزات دیکھے اور ناقابل مقابلہ کلام سنا تو محض عناد اور ضد سے کہا۔

ان ھذا السحر المبین۔ بیشک یہ (یعنی مدعی نبوت) کھلا ہوا جادوگر ہے۔

آیت 2 اَکَان للنَّاسِ عَجَبًا اَنْ اَوْحَیْنَآ اِلٰی رَجُلٍ مِّنْہُمْ ”کیا لوگوں کو بہت تعجب ہوا ہے کہ ہم نے وحی بھیج دی ایک شخص پر انہی میں سے“اَنْ اَنْذِرِ النَّاسَ وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنَّ لَہُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّہِمْ ”کہ آپ ﷺ لوگوں کو ‘ خبردار کردیجیے اور اہل ایمان کو بشارت دے دیجیے کہ ان کے لیے ان کے رب کے پاس بہت اونچا مرتبہ ہے۔“قَالَ الْکٰفِرُوْنَ اِنَّ ہٰذَا لَسٰحِرٌ مُّبِیْنٌ ”اس پر کافروں نے کہا کہ یہ تو ایک کھلا جادوگر ہے۔“یعنی یہ تو اللہ کی مرضی پر منحصر ہے۔ اس کا فیصلہ ہے کہ وہ اس منصب کے لیے انسانوں میں سے جس کو چاہے پسند فرما کر منتخب کرلے۔ اگر اس نے محمد ﷺ کا انتخاب کر کے آپ ﷺ کو بذریعہ وحی انذار اور تبشیر کی خدمت پر مامور کیا ہے تو اس میں تعجب کی کون سی بات ہے !

آیت 2 - سورہ یونس: (أكان للناس عجبا أن أوحينا إلى رجل منهم أن أنذر الناس وبشر الذين آمنوا أن لهم قدم صدق عند ربهم...) - اردو