سورہ یونس: آیت 1 - الر ۚ تلك آيات الكتاب... - اردو

آیت 1 کی تفسیر, سورہ یونس

الٓر ۚ تِلْكَ ءَايَٰتُ ٱلْكِتَٰبِ ٱلْحَكِيمِ

اردو ترجمہ

ا ل ر، یہ اُس کتاب کی آیات ہیں جو حکمت و دانش سے لبریز ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Aliflamra tilka ayatu alkitabi alhakeemi

آیت 1 کی تفسیر

درس نمبر 95 ایک نظر میں

جس طرح ہم نے اس سورة کے دیباچے میں کہا ہے یہ پوری سورة ایک ٹکڑا ہے۔ اس کو مختلف اسباق میں تقسیم کرنا بہت ہی مشکل ہے۔ یہ اسی طرح ہے جس طرح پارہ ہفتم میں سورة انعام اور جس کے بارے میں یہی رائے ہم نے دی کہ ہر سورة کا اپنا مزاج اور اپنی شخصیت اور اپنی خصوصیات ہوتی ہیں۔ اسی طرح اس سورت کا بھی معاملہ ہے۔

اس سبق میں ان متعدد امور کا ذکر کیا گیا ہے جو حکیمانہ امور ہیں اور کتاب کی صفت حکمت کی تشریح کے طور پر ان امور کا ذکر کیا ہے۔ مثلا رسول اللہ کی طرف نزول وحی اور یہ کہ وحی ایک انسان پر کیوں اتاری ہے ؟ پھر یہ بتایا گیا ہے کہ تخلیق کائنات اور زمین و آسمان کے فزیکلل نظام میں کس قدر گہری حکمت ہے کہ اس میں سورج کو تیز روشنی اور چاند کو نورانیت عطا کی گئی اور پھر چاند کے لیے منازل طے کی گئیں تاکہ لوگ ماہ و سال کا حساب رکھ سکیں۔ پھر رات اور دن کا اختلاف اور اس کی حکمتیں ۔

درس نمبر 95 تشریح آیات 1 تا 25:

الۗرٰ سورة البقرہ کے شروع میں (حروف مقطعات کی) بحث گزر چکی ہے (یہ بھی دوسرے حروف مقطعات کی طرح ہے) ۔

تلک یہ۔ سورت یا قرآن کی آیات کی طرف اس لفظ سے اشارہ ہے۔ بعض نے کہا : ان آیات کی طرف اشارہ ہے جن کا ذکر اس سورت اس پہلے کردیا گیا۔

اٰیٰت الکتب الحکیم۔ پر حکمت قرآن کی آیات ہیں۔ الحکیم ‘ الکتاب کی صفت ہے : پر حکمت ‘ یا حکیم کا کلام ‘ یا محکم غیر منسوخ۔ مؤخر الذکر مطلب اس وقت ہوگا جب آیات سے مراد صرف اس سورت کی آیات ہیں (اس سورت میں کوئی آیت منسوخ نہیں لیکن پورا قرآن مراد ہو تو حکیم بمعنی غیر منسوخ ...... نہیں کہا جاسکتا (قرآن میں تو بعض آیات کے احکام منسوخ بھی ہیں) یا حکیم بمعنی محکم سے یہ مراد ہے کہ اس میں کوئی آیت غلط نہیں اور کلام میں کہیں اختلاف نہیں۔ حسن نے کہا : آیات کتاب میں حکم دیا گیا ہے : انصاف اور بھلائی کرنے کا ‘ قرابتداروں کو دینے کا ‘ بےحیائی ‘ برے کام اور ظلم و زیادتی سے باز رہنے کا ‘ فرمانبرداروں کیلئے جنت اور نافرمانوں کیلئے دوزخ کا۔

ابن جریر نے بطریق ضحاک ‘ حضرت ابن عباس کا قول نقل کیا ہے کہ اللہ نے جب محمد (ﷺ) کو نبی بنا کر بھیجا تو عرب نے اس کو ماننے سے انکار کردیا اور کہا : اللہ کسی انسان کو پیغمبر بنا کر بھیجے ‘ اس کی شان اس سے بہت بڑی ہے (وہ انسانوں کا محتاج نہیں) اس پر آیت ذیل نازل ہوئی :

1 :۔ ابن مردویہ (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” الٓر “ (جسے حروف مقطعات ) سے مراد ہیں سورتوں کو کھولنے والے اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے یہ بھی ہیں ۔

2 :۔ ابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم وابوالشیخ والبیہقی (رح) نے الاسماء والصفات میں وابن النجار (رح) نے اپنی تاریخ میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا (آیت) ” الٓر “ سے مراد ہے کہ میں اللہ ہوں اور میں دیکھتا ہوں (ساری مخلوق کو ) ۔

3 :۔ ابن منذر (رح) رحمۃ اللہ علیہ نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” الٓر “ سے مراد ہے کہ میں اللہ دیکھ رہا ہوں ۔

4 :۔ ابن ابی حاتم (رح) نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” الٓر “ سے مراد ہے کہ میں اللہ دیکھ رہا ہوں ۔

5 :۔ ابن مردویہ (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” الٓر “ اور حمٓ اور نٓ “ یہ سب اسم مقطع ہیں (یعنی یہ آیت ایک اسم ہے جو الگ الگ حروس میں لھ گیا اور وہ اسم الرحمن ہے۔

6 :ـ۔ ابن جریر وابن ابی حاتم وابوالشیخ (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” الرحیم “ اور نٓ میں لفظ رحمن کے حروف ہیں جدا جدا کئے ہوئے ۔

7 :۔ ابوالشیخ (رح) نے محمد بن کعب قرظی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” الٓر “ اس میں الف اور لام اور راء یہ لفظ رحمن میں سے ہیں ۔

واما قولہ : تلک ایت الکتب الحکیم (1)

8 :۔ ابن ابی حاتم (رح) نے انس بن مالک ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ کے اس قول ” تلک “ سے مراد وہ ہے ھذ۔

9 :۔ ابن ابی حاتم (رح) نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) تلک ایت الکتب “ سے مراد ہے وہ کتابیں جو قرآن مجید سے پہلے گزر گئیں ۔

یہ حروف مقطعات ہیں۔ یہاں پر ایک قابل ذکر نکتہ یہ ہے کہ اس سے پہلے سورة البقرۃ ‘ سورة آل عمران اور سورة الاعراف تین سورتوں کا آغاز حروف مقطعات اآآّ ‘ ا آمآآ سے ہوتا ہے اور ان تینوں مقامات پر حروف مقطعات پر آیت مکمل ہوجاتی ہے ‘ مگر یہاں ان حروف پر آیت مکمل نہیں ہورہی ہے ‘ بلکہ یہ پہلی آیت کا حصہ ہیں۔ بہر حال یہ توقیفی امور حضور ﷺ کے بتانے پر موقوف ہیں۔ گرائمر ‘ منطق ‘ نحو ‘ بیان وغیرہ کے کسی اصول یا قاعدے کو یہاں دخل نہیں ہے۔ تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ الْحَکِیْمِ ”یہ بڑی حکمت بھری کتاب کی آیات ہیں۔“

عقل زدہ کافر اور رسول اللہ ﷺ کافروں کو اس پر بڑا تعجب ہوتا تھا کہ ایک انسان اللہ کا رسول بن جائے۔ کہتے تھے کہ کیا بشر ہمارا ہادی ہوگا ؟ حضرت ہود اور حضرت صالح نے اپنی قوم سے فرمایا تھا کہ کیا تمہیں یہ کوئی انوکھی بات لگتی ہے کہ تم میں سے ہی ایک شخص پر تمہارے رب کی وحی نازل ہوئی۔ کفار قریش نے بھی کہا تھا کہ کیا اس نے اتنے سارے معبودوں کے بجائے ایک ہی اللہ مقرر کردیا ؟ یہ تو بڑے ہی تعجب کی بات ہے۔ حضور ﷺ کی رسالت سے بھی انہوں نے صاف انکار کردیا اور انکار کی وجہ یہی پیش کی کہ محمد ﷺ جیسے ایک انسان پر اللہ کی وحی کا آنا ہی نہیں مان سکتے۔ اس کا ذکر اس آیت میں ہے۔ سچے پائے سے مراد سعادت اور نیکی کا ذکر ہے۔ بھلائیوں کا اجر ہے۔ ان کے نیک کام ہیں۔ مثلاً نماز روزہ صدقہ تسبیح۔ اور ان کے لیے حضور ﷺ کی شفاعت الغرض ان کی سچائی کا ثبوت اللہ کو پہنچ چکا ہے۔ ان کے نیک اعمال وہاں جمع ہیں۔ یہ سابق لوگ ہیں۔ عرب کے شعروں میں بھی قدیم کا لفظ ان معنوں میں بولا گیا ہے۔ جو رسول ان میں ہے وہ بشیر بھی ہے، نذیر بھی ہے، لیکن کافروں نے اسے جادوگر کہہ کر اپنے جھوٹ پر مہر لگا دی۔

آیت 1 - سورہ یونس: (الر ۚ تلك آيات الكتاب الحكيم...) - اردو