سورہ یٰسین: آیت 22 - وما لي لا أعبد الذي... - اردو

آیت 22 کی تفسیر, سورہ یٰسین

وَمَا لِىَ لَآ أَعْبُدُ ٱلَّذِى فَطَرَنِى وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ

اردو ترجمہ

آخر کیوں نہ میں اُس ہستی کی بندگی کروں جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور جس کی طرف تم سب کو پلٹ کر جانا ہے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wama liya la aAAbudu allathee fataranee wailayhi turjaAAoona

آیت 22 کی تفسیر

پارہ ۔۔۔۔ 23

سورة یسین۔ 36

آیات 22 ۔۔۔ تا۔۔۔ 83

وما لی لا اعبد۔۔۔۔۔ امنت بربکم فاسمعون (22 – 25) ” “۔

یہ سوچ اور یہ سوالات ایک ایسی فطرت کے ہیں جسے خالق کائنات کا شعور حاصل ہوچکا ہو ، جو اپنے مقصد و جود کو پا چکی ہو اور اس کے ساتھ پوری طرح وابستہ ہوچکی ہو۔ پھر اس کی پکار یہ ہوتی ہے۔

ومالی لا اعبد الذی فطرنی (36: 22) ” آخر کیوں نہ میں اس ہستی کی بندگی کروں جس نے مجھے پیدا کیا “۔ آخر میں اس فطری منہاج سے کیوں ہٹ جاؤں جو میرے دل میں پیوست ہوچکا ہے۔ کیونکہ انسان کے اندر اس ذات کی کشش ہے جس نے انسان کو پیدا کیا ہے۔ سب سے پہلے انسانی فطرت خدا اور خالق کی طرف متوجہ ہوتی ہے۔ اور اگر فطرت اس راہ سے انحراف کرتی ہے تو اس کے اسباب خارجی ہوتے ہیں اور یہ گمراہ کن اسباب اور موثرات انسانی طبیعت کے اندر نہیں ہوتے۔ اور خالق کی طرف توجہ فطرت کا پہلا اور بہترین داعیہ ہوتا ہے۔ یہ فطرت کے اندر ہوتا ہے اور اس کے لیے کسی بیرونی محرک یا موثر کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ نفس انسانی فطری طور پر اس کی طرف مائل ہوتا ہے جب کسی کے دل میں ایمان داخل ہوجاتا ہے کہ تو نفس کے اندر گہرائیوں میں وہ اپنے خالق کو محسوس کرتا ہے۔ اسی رجل مومن کی یہ تعبیر اس کے اس فطری میلان کا ظہور ہے۔ بلاتکلف وہ پکار اٹھتا ہے کہ کیوں میں اس خالق کی بندگی نہ کروں ؟

یہ فطرت سلیمہ یہ بات بھی محسوس کرتی ہے کہ آخر کار انسان نے اپنے خالق ہی کی طرف لوٹنا ہے۔ ہر چیز اپنے اصل کی طرف لوٹتی ہے۔ اسی لیے وہ کہتا ہے والیہ ترجعون (36: 22) ” اور اسی کی طرف تم سب کو پلٹ کر جانا ہے “۔ فطری سوچ یہ ہے کہ جس نے میری تخلیق کی ہے میں اس کی بندگی کیوں نہ کروں ؟ جبکہ تم سب کو اسی کی طرف لوٹنا ہے کیونکہ تمہارا خالق بھی تو وہ ہے ، اور تمہارا حق بھی یہ ہے کہ تم بھی اسی کی بندگی کرو۔

اب یہ رجل ۔۔۔ مخالفانہ رویہ پر بھی تبصرہ کرتا ہے کہ میرا رویہ اور میری سوچ تو معقول اور فطری ہے اور اس کے خلاف اگر میں رویہ اختیار کروں تو وہ خلاف فطرت اور گمراہ نہ ہوگا۔

آیت 22 { وَمَا لِیَ لَآ اَعْبُدُ الَّذِیْ فَطَرَنِیْ وَاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ } ”اور مجھے کیا ہے کہ میں عبادت نہ کروں اس ہستی کی جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور اسی کی طرف تم سب لوٹا دیے جائو گے۔“ دیکھو ! یہ لوگ جو دعوت دے رہے ہیں وہ یہی تو ہے کہ تم اس اکیلے معبود کی پرستش کرو جس نے تمہیں پیدا کیا ہے اور اسی کی طرف تم سب لوگوں نے پلٹ کر بھی جانا ہے۔ چناچہ مجھے تو کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ میں اس اللہ کی عبادت نہ کروں جو میرا خالق ہے۔

راہ حق کا شہید۔وہ نیک بخت شخص جو اللہ کے رسولوں کی تکذیب و تردید اور توہین ہوتی دیکھ کر دوڑا ہوا آیا تھا اور جس نے اپنی قوم کو نبیوں کی تابعداری کی رغبت دلائی تھی وہ اب اپنے عمل اور عقیدے کو ان کے سامنے پیش کر رہا ہے اور انہیں حقیقت سے آگاہ کرکے ایمان کی دعوت دے رہا ہے، تو کہتا ہے کہ میں تو صرف اپنے خالق مالک اللہ وحدہ لاشریک لہ کی قدرت کی ہی عبادت کرتا ہوں جبکہ صرف اسی نے مجھے پیدا کیا ہے تو میں اس کی عبادت کیوں نہ کروں ؟ پھر یہ نہیں کہ اب ہم اس کی قدرت سے نکل گئے ہیں ؟ اس سے اب ہمارا کوئی تعلق نہیں رہا ہو ؟ نہیں بلکہ سب کے سب لوٹ کر پھر اس کے سامنے جمع ہونے والے ہیں۔ اس وقت وہ ہر بھلائی برائی کا بدلہ دے گا۔ یہ کیسی شرم کی بات ہے کہ میں اس خالق و وقار کو چھوڑ کر اوروں کو پوجوں جو نہ تو یہ طاقت رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئی ہوئی کسی مصیبت کو مجھ پر سے ڈال دیں، نہ یہ کہ ان کے کہنے سننے کی وجہ سے مجھے کوئی برائی پہنچے، اللہ اگر مجھے کوئی ضرر پہنچانا چاہے تو یہ اسے دفع نہیں کرسکتے روک نہیں سکتے نہ مجھے اس سے بچاسکتے ہیں، اگر میں ایسے کمزوروں کی عبادت کرنے لگوں تو مجھ سے بڑھ کر گمراہ اور بہکا ہوا اور کون ہوگا ؟ پھر تو نہ صرف مجھے بلکہ دنیا کے ہر بھلے انسان کو میری گمراہی کھل جائے گی۔ میری قوم کے لوگو ! اپنے جس حقیقی معبود اور پروردگار سے تم منکر ہوئے ہو۔ سنو میں تو اس کی ذات پر ایمان رکھتا ہوں اور یہ بھی معنی اس آیت کے ہوسکتے ہیں کہ اس اللہ کے بندے مرد صالح نے اب اپنی قوم سے روگردانی کرکے اللہ کے ان رسولوں سے یہ کہا ہو کہ اللہ کے پیغمبرو ! تم میرے ایمان کے گواہ رہنا ! میں اس اللہ کی ذات پر ایمان لایا جس نے تمہیں برحق رسول بناکر بھیجا ہے، پس گویا یہ اپنے ایمان پر اللہ کے رسولوں کو گواہ بنا رہا ہے۔ یہ قول بہ نسبت اگلے قول کے بھی زیادہ واضح ہے واللہ اعلم۔ حضرت ابن عباس ؓ وغیرہ فرماتے ہیں کہ یہ بزرگ اتنا ہی کہنے پائے تھے کہ تمام کفار پل پڑے اور زدوکوب کرنے لگے۔ کون تھا جو انہیں بچاتا ؟ پتھر مارتے مارتے انہیں اسی وقت فی الفور شہید کردیا (ؓ وارضاہ) یہ اللہ کے بندے یہ سچے ولی اللہ پتھر کھا رہے تھے لیکن زبان سے یہی کہے جا رہے تھے کہ اللہ میری قوم کو ہدایت کر یہ جانتے نہیں۔

آیت 22 - سورہ یٰسین: (وما لي لا أعبد الذي فطرني وإليه ترجعون...) - اردو