سورہ یٰسین: آیت 20 - وجاء من أقصى المدينة رجل... - اردو

آیت 20 کی تفسیر, سورہ یٰسین

وَجَآءَ مِنْ أَقْصَا ٱلْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعَىٰ قَالَ يَٰقَوْمِ ٱتَّبِعُوا۟ ٱلْمُرْسَلِينَ

اردو ترجمہ

اتنے میں شہر کے دُور دراز گوشے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا اور بولا "اے میری قوم کے لوگو، رسولوں کی پیروی اختیار کر لو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wajaa min aqsa almadeenati rajulun yasAAa qala ya qawmi ittabiAAoo almursaleena

آیت 20 کی تفسیر

وجآء من اقصا المدینۃ۔۔۔۔۔ اجرا وھم مھتدون (20 – 21) ” “۔

یہ ہے نمونہ فطرت سلیمہ کا۔ جب فطرت سلیمہ ایک سیدھے سادے حق کو سنتی ہے تو وہ فوراً تصدیق کرتی ہے۔ نہایت سادگی اور نہایت ہی گرم جوشی کے ساتھ اور فطرت سلیمہ کی فکر مستقیم ہوئی ہے۔ اور وہ پرشوکت سچائی کے مقابلے میں جوش و خروش سے لبیک کہتی ہے۔

یہ شخص بھی اسی معاشرے اور گاؤں کا فرد ہے ، دعوت اسلامی کو سنتے ہی وہ لبیک کہتا ہے۔ وہ سچائی کے دلائل و نشانات کو اچھی طرح پاتا ہے۔ رسولوں اور ان کی قوم کے درمیان جو مکالمہ ہوا ہے اس کے اندر پائے جانے والی گہری منطق کو وہ پالیتا ہے۔ جب یہ سچائی اس کے دل و دماغ میں جاگزیں ہوگئی تو وہ فوراً حرکت میں آجاتا ہے۔ اب وہ خاموش نہیں رہ سکتا۔ یہ اپنا دروازہ بند کرکے اپنے گھر میں بیٹھا بھی نہیں رہتا جبکہ اس کے اردگرد گمراہی کا دور دورہ ہو ، فسق و فجور عام ہو اور لوگ کفر کر رہے ہوں ، اس کے ضمیر کے اندر جو سچائی اتر چکی ہے اور جس کو اس کا شعور حق تسلیم کرچکا ہے وہ اسے لے کر دوڑتا ہوا آتا ہے ، وہ اپنی قوم کے پاس آتا ہے ، یہ قوم جو انکار کر رہی ہے ، دھمکیاں دے رہی ہے ، تشدد پر اتر آئی ہے۔ یہ شخص شہر کے مضافاتی علاقے میں رہتا ہے۔ یہ اپنا فریضہ ادا کرنے کیلئے بھاگ نکلا ہے۔ اور اپنی اس منکر حق قوم کو دعوت حق دیتا ہے ان کو بغاوت ، سرکشی اور تشدد سے باز رکھنے کی کوشش کرتا ہے جس کا وہ اپنے رسولوں کے بارے میں ارادہ کرچکے ہیں۔

معلوم یوں ہوتا ہے کہ یہ شخص اس سوسائٹی کا کوئی با اثر فرد نہ تھا۔ نہ اس کے پاس کوئی خاندانی وجاہت اور قوت تھی کہ اس کو ان سرکشوں کے تشدد سے بچائے۔ ہاں اس کے قلب میں ایک زندہ اور پر جوش ایمان تھا۔ یہ ولولہ انگیز ایمان تھا جو اسے بستی کے مضافات سے اٹھا لایا۔

وجاء من اقصا ۔۔۔۔۔ اجرا وھم مھتدون (36: 20 – 21) ” اتنے میں شہر کے دور دراز گوشے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا اور بولا ” اے میری قوم کے لوگو ، رسولوں کی پیروی اختیار کرلو۔ پیروی کرو ان لوگوں کی جو تم سے کوئی اجر نہیں چاہتے اور ٹھیک راستے پر ہیں “۔ جو شخص اس قسم کی تحریک اٹھاتا ہے اور اس پر کوئی اجر طلب نہیں کرتا ، نہ کوئی مفاد اس کا اس تحریک سے وابستہ ہوتا ہے۔ بیشک وہ سچا ہے۔ اگر یہ فریضہ اس کی جانب سے عائد نہیں ہے اور اللہ کے لیے نہیں ہے تو پھر وہ کیوں یہ سب کچھ برداشت کرتا ہے۔ لہٰذا لازمی نتیجہ ہے کہ یہ سچا ہے۔ اگر سچا نہیں تو پھر وہ کیوں خواہ مخواہ یہ مشکلات برداشت کرتا ہے۔ لوگوں کو ایسے خیالات و نظریات دیتا ہے جن کے وہ عادی نہیں ہیں ، لوگ اسے اذیت دیتے ہیں ، اس کے ساتھ برا سلوک کرتے ہیں ، اس کے ساتھ مذاق کرتے ہیں ، اس سے انتقام لیتے ہیں ، وہ یہ سب کچھ برداشت کرتا ہے۔ حالانکہ اس کا کوئی مفاد اس کے ساتھ وابستہ نہیں ہے ۔ نہ وہ کوئی اجرت طلب کرتا ہے۔ لہٰذا معقول راہ یہی ہے کہ

اتبعوا من لا۔۔۔۔ مھتدون (36: 21) ” پیروی اختیار کرو ان لوگوں کی جو تم سے کوئی اجر نہیں چاہتے اور ٹھیک راستے پر ہیں “۔ ان کی ہدایت تو ان کی دعوت اور ان کے کردار سے واضح ہے۔ وہ فقط ایک الٰہ کی دعوت دیتے ہیں اور یہ نہایت ہی معقول بات ہے۔ وہ ایک واضح منہاج زندگی کی طرف دعوت دیتے ہیں جو واضح طور پر معقول ہے۔ وہ ایسے عقائد و نظریات کی طرف دعوت دیتے ہیں جن میں کوئی پیچیدگی نہیں ہے اور نہ کوئی وہم و گمان ہے۔ یہ لوگ دراصل ایک نہایت ہی درست اور سیدھے راستے کی طرف راہ پاچکے ہیں اور ہدایت یافتہ ہیں۔

اس پورے معاشرے اور بستی سے پھر یہ اکیلا شخص کیوں ایمان لایا۔ اس کے بارے میں وہ کہتا ہے کہ دیکھو میرے ایمان کے اسباب یہ ہیں۔ میری فطرت جاگ اٹھی ہے۔ اور اپنی فطری سلامتی کی وجہ سے بات میری سمجھ میں آگئی ہے اور کوئی معقول وجہ نہیں ہے کہ اس دعوت سے کوئی سلیم الفطرت شخص منہ موڑے۔

آیت 20 { وَجَآئَ مِنْ اَقْصَا الْمَدِیْنَۃِ رَجُلٌ یَّسْعٰی } ”اور شہر کے َپرلے سرے سے آیا ایک شخص بھاگتا ہوا“ { قَالَ یٰقَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِیْنَ } ”اس نے کہا : اے میری قوم کے لوگو ! تم ان رسولوں علیہ السلام کی پیروی کرو !“ تم لوگ ان پر ایمان لائو ‘ ان کی تصدیق کرو اور ان کی اطاعت کرو۔

مبلغ حق شہید کردیا۔ مروی ہے کہ اس بستی کے لوگ یہاں تک سرکش ہوگئے کہ انہوں نے پوشیدہ طور پر نبیوں کے قتل کا ارادہ کرلیا۔ ایک مسلمان شخص جو اس بستی کے آخری حصے میں رہتا تھا جس کا نام حبیب تھا اور رسے کا کام کرتا تھا، تھا بھی بیمار، جذام کی بیماری تھی، بہت سخی آدمی تھا۔ جو کماتا تھا اس کا آدھا حصہ اللہ کی راہ میں خیرات کردیا کرتا تھا۔ دل کا نرم اور فطرت کا اچھا تھا۔ لوگوں سے الگ تھلگ ایک غار میں بٹھ کر اللہ عزوجل کی عبادت کیا کرتا تھا۔ اس نے جب اپنی قوم کے اس بد ارادے کو کسی طرح معلوم کیا تو اس سے صبر نہ ہوسکا دوڑتا بھاگتا آیا۔ بعض کہتے ہیں یہ بڑھئی تھے۔ ایک قول ہے کہ یہ دھوبی تھے۔ عمر بن حکم فرماتے ہیں جوتی گانٹھنے والے تھے۔ اللہ ان پر رحم کرے۔ انہوں نے آ کر اپنی قوم کو سمجھانا شروع کیا کہ تم ان رسولوں کی تابعداری کرو۔ ان کا کہا مانو۔ ان کی راہ چلو، دیکھو تو یہ اپنا کوئی فائدہ نہیں کر رہے یہ تم سے تبلیغ رسالت پر کوئی بدلہ نہیں مانگتے۔ اپنی خیر خواہی کی کوئی اجرت تم سے طلب نہیں کر رہے۔ درد دل سے تمہیں اللہ کی توحید کی دعوت دے رہے ہیں اور سیدھے اور سچے راستے کی رہنمائی کر رہے ہیں۔ خود بھی اسی راہ پر چل رہے ہیں۔ تمہیں ضرور ان کی دعوت پر لبیک کہنا چاہئے اور ان کی اطاعت کرنی چاہئے۔ لیکن قوم نے ان کی ایک نہ سنی بلکہ انہیں شہید کردیا۔ ؓ وارضاہ۔

آیت 20 - سورہ یٰسین: (وجاء من أقصى المدينة رجل يسعى قال يا قوم اتبعوا المرسلين...) - اردو