سورہ یٰسین: آیت 18 - قالوا إنا تطيرنا بكم ۖ... - اردو

آیت 18 کی تفسیر, سورہ یٰسین

قَالُوٓا۟ إِنَّا تَطَيَّرْنَا بِكُمْ ۖ لَئِن لَّمْ تَنتَهُوا۟ لَنَرْجُمَنَّكُمْ وَلَيَمَسَّنَّكُم مِّنَّا عَذَابٌ أَلِيمٌ

اردو ترجمہ

بستی والے کہنے لگے "ہم تو تمہیں اپنے لیے فال بد سمجھتے ہیں اگر تم باز نہ آئے تو ہم تم کو سنگسار کر دیں گے اور ہم سے تم بڑی دردناک سزا پاؤ گے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qaloo inna tatayyarna bikum lain lam tantahoo lanarjumannakum walayamassannakum minna AAathabun aleemun

آیت 18 کی تفسیر

قالوا انا تطیرنا۔۔۔۔۔ عذاب الیم (36: 18 “۔ تم منحوس لوگ ہو ، تمہاری وجہ سے ہم پر مصبیت آگئی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ تمہاری دعوت کہ وجہ سے ہماری بستی میں شرو فساد پھیل جائے گا۔ اگر تم باز نہ آئے تو ہم خاموش نہ رہ سکیں گے۔ اور ہمارے لیے یہ ممکن نہ ہوگا کہ تم اس طرح دعوت دیتے چلے جاؤ۔

لنرجمنکم ولیمسنکم منا عذاب الیم (36: 18) ” اگر تم باز نہ آئے تو ہم تمہیں سنگسار کردیں گے اور ہم سے تم بڑی دردناک سزا پاؤ گے “۔ یوں باطل نے اپنی برہمی کا اظہار کردیا اور ہدایت دینے والوں کو دھمکی دے دی اور پر امن کلمہ حق کے مقابلے میں سرکشی اختیار کی اور فکر و خیال اور انداز گفتگو میں بدمستی کا اظہار کیا۔ لیکن رسولوں کا فیضہ تو یہ ہے کہ جیسے بھی حالات ہوں وہ اپنی راہ پر چلتے رہیں۔ اس لیے ان کا رویہ بالکل مختلف ہے۔

آیت 18 { قَالُوْٓا اِنَّا تَطَیَّرْنَا بِکُمْ } ”انہوں نے کہا کہ ہمیں تم سے نحوست کا اندیشہ ہے۔“ یعنی ہم تمہیں اپنے لیے فالِ بد سمجھتے ہیں۔ تم نے آکر ہمارے معبودوں کے خلاف جو باتیں کرنی شروع کردی ہیں ان کی وجہ سے ہمیں اندیشہ ہے کہ اس کی نحوست کہیں ہم پر نہ پڑجائے اور اس کی پاداش میں کہیں ہم خدا کی گرفت میں نہ آجائیں۔ { لَئِنْ لَّمْ تَنْتَہُوْا لَنَرْجُمَنَّکُمْ } ”اگر تم باز نہ آئے تو ہم ضرور تمہیں سنگسار کردیں گے“ { وَلَیَمَسَّنَّکُمْ مِّنَّا عَذَابٌ اَلِیْمٌ } ”اور تمہیں ضرور پہنچے گی ہماری طرف سے دردناک سزا۔“

انبیاء و رسل سے کافروں کا رویہ ٭ ان کافروں نے ان رسولوں سے کا کہ تمہارے آنے سے ہمیں کوئی برکت و خیریت تو ملی نہیں۔ بلکہ اور برائی اور بدی پہنچی۔ تم ہو ہی بدشگون اور تم جہاں جاؤ گے بلائیں برسیں گی۔ سنو اگر تم اپنے اس طریقے سے باز نہ آئے اور یہی کہتے رہے تو ہم تمہیں سنگسار کردیں گے۔ اور سخت المناک سزائیں دیں گے رسولوں نے جواب دیا کہ تم خود بدفطرت ہو۔ تمہارے اعمال ہی برے ہیں اور اسی وجہ سے تم پر مصیبتیں آتی ہیں۔ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔ یہی بات فرعونیوں نے حضرت موسیٰ ؑ اور ان کی قوم کے مومنوں سے کہی تھی۔ جب انہیں کوئی راحت ملتی تو کہتے ہم تو اس کے مستحق ہی تھے۔ اور اگر کوئی رنج پہنچتا تو حضرت موسیٰ اور مومنوں کی بدشگونی پر اسے محمول کرتے۔ جس کے جواب میں جناب باری نے فرمایا یعنی ان کی مصیبتوں کی وجہ ان کے بد اعمال ہیں جن کا وبال ہماری جانب سے انہیں پہنچ رہا ہے۔ قوم صالح نے بھی اپنے نبی سے یہی کہا تھا اور یہی جواب پایا تھا۔ خود جناب پیغمبر آخر الزمان حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ سے بھی یہی کہا گیا ہے جیسا کہ اللہ عزوجل کا ارشاد ہے یعنی اگر ان کافروں کو کوئی نفع ہوتا ہے تو کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے اور اگر کوئی نقصان ہوتا ہے تو کہتے ہیں یہ تیری طرف سے ہے تہ کہہ دیجیے کہ سب کچھ اللہ کی جانب سے ہے۔ انہیں کیا ہوگیا ہے کہ ان سے یہ بات بھی نہیں سمجھی جاتی ؟ پھر فرماتا ہے کہ صرف اس وجہ سے کہ ہم نے تمہیں نصیحت کی، تمہاری خیر خواہی کی، تمہیں بھلی راہ سمجھائی۔ تمہیں اللہ کی توحید کی طرف رہنمائی کی تمہیں اخلاص و عبادت کے طریقے سکھائے تم ہمیں منحوس سمجھنے لگے ؟ اور ہمیں اس طرح ڈرانے دھمکانے لگے ؟ اور خوفزدہ کرنے لگے ؟ اور مقابلہ پر اتر آئے ؟ حقیقت یہ ہے کہ تم فضول خرچ لوگ ہو۔ حدود الہیہ سے تجاوز کر جاتے ہو۔ ہمیں دیکھو کہ ہم تمہاری بھلائی چاہیں۔ تمہیں دیکھو کہ تم ہم سے برائی سمجھو۔ بتاؤ تو بھلا یہ کوئی انصاف کی بات ہے ؟ افسوس تم انصاف کے دائرے سے نکل گئے۔

آیت 18 - سورہ یٰسین: (قالوا إنا تطيرنا بكم ۖ لئن لم تنتهوا لنرجمنكم وليمسنكم منا عذاب أليم...) - اردو