سورہ یٰسین: آیت 12 - إنا نحن نحيي الموتى ونكتب... - اردو

آیت 12 کی تفسیر, سورہ یٰسین

إِنَّا نَحْنُ نُحْىِ ٱلْمَوْتَىٰ وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوا۟ وَءَاثَٰرَهُمْ ۚ وَكُلَّ شَىْءٍ أَحْصَيْنَٰهُ فِىٓ إِمَامٍ مُّبِينٍ

اردو ترجمہ

ہم یقیناً ایک روز مردوں کو زندہ کرنے والے ہیں جو کچھ افعال انہوں نے کیے ہیں وہ سب ہم لکھتے جا رہے ہیں، اور جو کچھ آثار انہوں نے پیچھے چھوڑے ہیں وہ بھی ہم ثبت کر رہے ہیں ہر چیز کو ہم نے ایک کھلی کتاب میں درج کر رکھا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna nahnu nuhyee almawta wanaktubu ma qaddamoo waatharahum wakulla shayin ahsaynahu fee imamin mubeenin

آیت 12 کی تفسیر

چناچہ یہاں یاد دہانی کرائی جاتی ہے کہ ایک دن تم نے خدا کے سامنے حاضر ہونا ہے ، تمہارا حساب نہایت وقت کے ساتھ تیار ہوگا اور اس میں سے کوئی بات چھوٹی ہوئی نہ ہوگی۔

انا نحن ۔۔۔۔۔ امام مبین (36: 12) ” یقیناً ہم ایک روز مردوں کو زندہ کرنے والے ہیں۔ جو کچھ افعال انہوں نے کیے ہیں وہ سب ہم لکھتے جا رہے ہیں اور جو کچھ آثار انہوں نے پیچھے چھوڑے ہیں وہ بھی ہم ثبت کر رہے ہیں۔ ہر چیز کو ہم نے ایک کھلی کتاب میں درج کر رکھا ہے “۔

مردوں کو دوبارہ زندہ کرنا وہ مسئلہ ہے جس پر ہمیشہ مباحثہ ہوتا رہا ہے ۔ اس سورت میں بھی اس کے امکان پر کئی مثالیں دی جائیں گی۔ یہاں ان کو ڈرایا جاتا ہے کہ وہ جو اعمال بھی کر رہے ہیں اور اپنے پیچھے جو بھی اچھے یا برے آثار چھوڑ رہے ہیں وہ سب اللہ کے ہاں ریکارڈ ہو رہے ہیں۔ ان اعمال میں سے نہ کوئی چیز چھوٹ سکتی ہے اور نہ بھول سکتی ہے۔ یہ اللہ ہی ہے جو مردوں کو زندہ کرتا ہے۔ وہی ہے جو ان کے اعمال و آثار کو قلم بند کر رہا ہے۔ وہی ہے جو ہر چیز کو لکھ رہا ہے۔ لہٰذا یہ تمام امور اسی طرح ظہور پذیر ہوں گے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ اپنے دست قدرت سے انہیں ظاہر کرے گا اور جس طرح اللہ نے اپنے ذمہ لیا ہے کہ وہ ان امور کو اسی طرح ظاہر کرے گا۔ امام مبین سے مراد لوح محفوظ ہے یا وہ دفتر جہاں اللہ کے نظام کے مطابق اعمال ریکارڈ ہوتے ہیں ، لوح محفوظ سے اللہ کا ازلی اور قدیم علم مراد ہے۔ اور اللہ کا علم ہر چیز کو احاطہ کیے ہوئے ہے۔

آیت 12 { اِنَّا نَحْنُ نُحْیِ الْمَوْتٰی وَنَکْتُبُ مَا قَدَّمُوْا وَاٰثَارَہُمْ } ”یقینا ہم ہی زندہ کریں گے ُ مردوں کو ‘ اور ہم لکھ رہے ہیں جو کچھ انہوں نے آگے بھیجا اور جو اثرات وہ اپنے پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔“ انسان مرنے سے پہلے اپنی زندگی میں جو اچھے برے اعمال آگے بھیجتا ہے وہ ساتھ ہی ساتھ اس کے اعمال نامے میں درج ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن انسان کے کچھ اعمال و افعال ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے اثرات اس کی موت کے بعد بھی اس دنیا میں رہتے ہیں۔ چناچہ یہاں پر ”آثار“ سے مراد انسان کے ایسے ہی کام ہیں۔ بہر حال انسان کو آخرت میں ان ”آثار“ کا بدلہ بھی دیا جائے گا۔ مثلاً اگر کسی شخص نے اپنی زندگی میں کسی ایسے نیک عمل کی بنیاد ڈالی جس کے اثرات دیر پا ہوں تو جب تک اس نیک کام کا تسلسل اس دنیا میں رہے گا ‘ اس کا اجر وثواب اس شخص کے حساب میں لکھا جاتا رہے گا۔ اسی طرح اگر کسی نے گناہ اور بےحیائی کے کسی کام کی بنیاد رکھی تو جب تک اس کام یا منصوبے کے منفی اثرات اس دنیا میں رہیں گے ‘ اس میں سے متعلقہ شخص کے حصے کے گناہوں کا اندراج اس کے اعمال نامے میں مسلسل ہوتا رہے گا۔ { وَکُلَّ شَیْئٍ اَحْصَیْنٰہُ فِیْٓ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ } ”اور ہرچیز کا احاطہ ہم نے ایک واضح کتاب میں کررکھا ہے۔“ ”اِمَامٍ مُّبِیْنٍ“ سے مراد اللہ تعالیٰ کا علم قدیم ہے جسے سورة الرعد کی آیت 39 اور سورة الزخرف کی آیت 4 میں ”اُمّ الْکِتٰب“ کے نام سے بھی موسوم کیا گیا ہے۔

آیت 12 - سورہ یٰسین: (إنا نحن نحيي الموتى ونكتب ما قدموا وآثارهم ۚ وكل شيء أحصيناه في إمام مبين...) - اردو