سورہ طٰہٰ: آیت 5 - الرحمن على العرش استوى... - اردو

آیت 5 کی تفسیر, سورہ طٰہٰ

ٱلرَّحْمَٰنُ عَلَى ٱلْعَرْشِ ٱسْتَوَىٰ

اردو ترجمہ

وہ رحمان (کائنات کے) تخت سلطنت پر جلوہ فرما ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Alrrahmanu AAala alAAarshi istawa

آیت 5 کی تفسیر

الرحمن علی العرش استوی (02 : 5) ” رحمن کا ئنات کے تخت سلطنت پر جلوہ فرما ہے “۔ استوائے عرش کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کا اس کائنات پر پوری طرح کنٹرول ہے اور یہ اس کی مکمل گرفت میں ہے۔ لہٰذا لوگوں کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے ‘ رسول کا کام صرف یہ ہے کہ جو ڈرتا ہے اسے ڈرائے۔

اس کائنات پر مکمل کنٹرول اور گرفت کے ساتھ ساتھ لہ ما فی السموت۔۔۔۔۔۔۔ وما تحت الشری (02 : 6) ” وہ مالک ہے ان سب چیزوں کا جو آسمان و زمین میں ہیں اور جو مٹی کے نیچے ہیں “۔ یہ کائناتی مناظر یہاں اس لئے دیئے گئے کہ اللہ کی ملکیت اور اس کی قدرت کو اس طرح پیش کیا جائے کہ یہ انسانی تصور کے قریب تر ہوجائیں جبکہ اللہ کی ملکیت اور اس کی ضرورت کا تصور اس سے عظیم تر ہے۔ زمین اور آسمانوں اور مٹی کے نیچے کا ذکر محض اس لئے کیا گیا ہے کہ عوام اس بات کو اچھی طرح سمجھ جائیں کہ اللہ کی گرفت میں جو کائنات ہے اس کی وسعت کا ادراک آہستہ آہستہ وسیع ہو رہا ہے اور بہت بڑا ہے۔

رسول اللہ ﷺ کو یہ خطاب اس لیے کیا جارہا ہے کہ آپ کا دل مطمئن ہوجائے اور وہ یہ سمجھ لیں کہ رب ان کے ساتھ ہے۔ رب تعالیٰ ان کو اکیلا نہیں چھوڑتا کہ وہ تکالیف منصب نبوت کی وجہ سے مشقت میں پڑجائیں۔ کافروں کا مقابلہ آپ بلا سند نہیں کررہے ‘ اگر آپ اللہ کو جہراً پکاریں تو بھی حرج نہیں لیکن اللہ سراً اور جہراً دونوں پکارنے والوں کو جانتا ہے۔ انسانی دل و دماغ اور شعور میں جب یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ اللہ اس کے قریب ہے ‘ اور اس کی دلی دنیا سے بھی واقف ہے تو انسان مطمئن ہوجاتا ہے اور راضی برضا ہوتا ہے۔ پھر وہ اس قرآن کو پڑھ کر مطمئن ہوجاتا ہے اور وہ جھٹلا نے ولے مخالفوں کے درمیان تنہائی محسوس نہیں کرتا اور وہ مخالفین کے درمیان اپنے آپ کو یکہ و تنہا بھی محسوس نہیں کرتا۔

یہ ابتدائی آیات ‘ جو تمہیدی بھی ہیں ‘ اس اعلان پر ختم ہوتی ہیں کہ اللہ وحدہ لاشریک ہے اور کائنات اس کے کنٹرول میں ہے۔ وہ اس کائنات کا مالک ہے اور اس کائنات کے بارے میں پوری پوری خبرداری اسے حاصل ہے۔

اس کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ شروع ہوتا ہے۔ یہ قصہ نمونہ ہے اس بات کا کہ اللہ اپنے داعیوں کی حفاظت اور حمایت کس طرح کرتا ہے۔ نبیوں اور رسولوں کے جو قصص قرآن مجید میں وارد ہوئے ہیں ‘ فرعون اور موسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ ان سب کے مقابلے میں قرآن مجید کے اندر زیادہ جگہ لیتا ہے۔ اس قصے کی مختلف کڑیاں قرآن مجید کی مختلف سورتوں میں آتی ہیں۔ ان کڑیوں کا انتخاب ہر سورة کے مضمون اور موضوع کی مناسبت سے کیا جاتا ہے اور اس کا انداز بیان بھی اسی رنگ میں ہوتا ہے جس رنگ میں پوری سورة کا انداز بیان ہوتا ہے۔ اس سے قبل اس قصے کی کچھ کڑیاں ‘ سورة بقرہ ‘ سورة مائدہ ‘ سورة اعراف ‘ سورة یونس ‘ سورة اسرائ ‘ سورة کہف میں آچکی ہیں اور دوسری سورتوں میں بھی اس قصے کی طرف اشارات موجود ہیں۔

مائدہ میں جو کچھ آیا وہ صرف ایک کڑی ہے یعنی یہ کڑی کہ بنی اسرائیل جب بیت المقدس میں آئے تو یہ لوگ شہر کے باہر کھڑے ہوگئے اور شہر کے اندر داخل ہونے سے رک گئے ‘ اس لئے کہ اس شہر میں ایک جبار قوم رہتی ہے۔ سورة کہف میں بھی اس کی ایک ہی کڑی ہے ‘ یعنی حضرت موسیٰ اور عبد صالح کے ساتھ ان کی ملاقات اور مختصر صحبت۔

بقرہ ‘ اعراف ‘ یونس اور طہ میں قصہ موسیٰ و فرعون کی گئی کڑیاں آئی ہیں لیکن ان میں سے بھی مختلف سورتوں میں آنے والی کڑیاں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ جس طرح اس قصے کی کڑیاں مختلف ہیں۔ اسی طرح مختلف سورتوں میں ان کڑیوں کے مختلف پہلو موقع و مناسبت سے مختلف دیئے گئے ہیں اور انداز بیان بھی مختلف ہے۔

سورة بقرہ میں جب یہ قصہ آیا تو اس سے قبل قصہ آدم و ابلیس تھا اور اس میں آدم (علیہ السلام) کو عالم بالا میں اعزاز بخشا گیا تھا۔ آدم (علیہ السلام) کو خلافت ارضی سپرد کی گئی تھی اور آدم کو معاف کر کے ان پر رحمت خداوندی کا نزول ہوا تھا۔ اس کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کے واقعات بیان ہوئے ‘ یہ یاد دلانے کے لئے کہ اے بنی اسرائیل ذرا غور کرو تم پر اللہ نے کیسی کیسی مہربانیاں کیں۔ تمہارے ساتھ عہد کیا ‘ تمہیں فرعون اور اس کی قوم سے نجات دی۔ تمہیں صحرا میں پانی پلایا اور تمہارے لئے پتھروں سے چشمے نکالے ‘ تمہیں صحرا میں من وسلوی کی شکل میں کھانا فراہم کیا۔ پھر موسٰی (علیہ السلام) کی ہمارے ساتھ ملاقات اور ہم کلامی کا وقت آیا اور پیچھے سے تم نے بچھڑے کی پوجا شروع کردی لیکن اللہ نے تمہیں پھر بھی معاف کردیا۔ پہاڑ کے نیچے تم سے عہد لیا۔ پھر سبت کے معاملے میں تم نے حد سے تجاوز کیا۔ اور پھر گائے کے ذبح کرنے کا قصہ تو عجیب تر ہے۔

اعراف میں اس قصے سے پہلے یہ بتایا گیا ہے کہ مکذبین پر اللہ کا عذاب حضرت موسیٰ سے قبل کیسے کیسے آیا۔ اس کے بعد حضرت موسیٰ کا قصہ آیا۔ پہلے موسیٰ (علیہ السلام) کی رسالت کی تقریب ہے۔ اس کے بعد معجزات عصا ’‘ ید بیضا ‘ طوفان ‘ ٹڈی دل ‘ جو میں اور مینڈک اور خون ‘ اور اس کے بعد جادو گروں کے ساتھ مقابلہ ‘ اور فرعون کا بھی اسی طرح خاتمہ جس طرح پہلے کے مکذبین کا ہوا تھا۔ اس کے بعد وہ واقعہ کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی موجودگی میں انہوں نے پچھڑے کو خدا بنا لیا۔ اس کے بعد اس قصے کا خاتمہ اس پر ہوتا ہے کہ اللہ کی رحمت کی وراثت ان لوگوں کے لئے ہے جو نبی امی پر ایمان لے آئیں۔

سورة یونس میں جہاں یہ قصہ آیا ہے ‘ اس میں اس سے قبل ان اقوام کا ذکر ہے جو ہلاک کی گئیں۔ یہاں حضرت موسیٰ ﷺ کی رسالت کی کڑی ‘ جادوگروں کے ساتھ مقابلے کی کڑی اور فرعون اور اس کی قوم کی ہلاکت کی کڑی بالتفصیل لائی گئی ہے۔

ہاں سورة طہ میں سورة کا آغاز ہی اس بات سے ہوتا ہے کہ اللہ جن لوگوں کو رسول بنا کر بھیجتا ہے ان پر اس کی رحمت ہوتی ہے۔ اور وہ اللہ کی پناہ میں ہوتے ہیں اور ان پر رحمتوں کی بارش ہوتی ہے۔ چناچہ قصے کا آغاز اس منظر سے ہوتا جس میں حضرت موسیٰ طور پر رب ذوالجلال سے ہم کلام ہیں ‘ اس کے بعد اس میں وہ مناظرآتے ہیں جن میں صاف نظر آتا ہے کہ حضرت موسیٰ اللہ کی پناہ میں ہیں اور تائید ایز دی ان کی پشت پر ہے ۔ بچپن میں میں ہی رحمت ان کے شامل حال رہی اور ان کی پرورش اور نگرانی ہوتی رہی۔

والقیت۔۔۔۔۔۔۔۔ علی عینی (02 : 93) ” اور میں نے اپنی طرف سے تجھ پر محبت طاری کردی اور ایسا انتظام کیا کہ تو میری نگرانی میں پالاجائے “۔

وھل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ علی النار ھدی (9 : 01) ” اور تمہیں کچھ موسیٰ ؐ کی خبر بھی پہنچی ہے ؟ جب کہ اس نے ایک آگ دیکھی اور اپنے گھر والوں سے کہا کہ ” ذرا ٹھہرو ‘ میں نے ایک آگ دیکھی ہے۔ شاید کہ تمہارے لئے ایک آدھ انگارا لے آئوں ‘ یا اس آگ پر مجھے (راستے کے متعلق ) کوئی رہنمائی مل جائے ؟ “

کیا تمہیں موسیٰ ؐ کی کہانی معلوم ہے۔ اس کہانی سے یہ بات پوری طرح عیاں ہے کہ اللہ جن لوگوں کو منصب رسالت عطا کرتا ہے وہ ان لوگوں کو اپنی خاص پناہ میں رکھتا ہے اور ان کو بروقت ہدایت دیتارہتا ہے۔

آیت 5 - سورہ طٰہٰ: (الرحمن على العرش استوى...) - اردو