سورہ طٰہٰ: آیت 11 - فلما أتاها نودي يا موسى... - اردو

آیت 11 کی تفسیر, سورہ طٰہٰ

فَلَمَّآ أَتَىٰهَا نُودِىَ يَٰمُوسَىٰٓ

اردو ترجمہ

وہاں پہنچا تو پکارا گیا "اے موسیٰؑ!

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Falamma ataha noodiya ya moosa

آیت 11 کی تفسیر

فلمآ اتھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فتردی (21 : 61) ’ اور میں نے تجھ و چن لیا ہے ‘ سن جو کچھ وحی کیا جاتا ہے۔ میں ہی اللہ ہوں ‘ میرے سوا کوئی خدا نہیں ہے ‘ پس تو میری بندگی کر اور میری یاد کے لئے نماز قائم کر۔ قیامت کی گھڑی ضرور آنے والی ہے۔ میں اس کا وقت مخفی رکھنا چاہتا ہوں تاکہ ہر متنفس اپنی سعی کے مطابق بدلہ پائے۔ پس کوئی ایسا شخص جو اس پر ایمان نہیں لاتا اور اپنی خواہش نفس کا بندہ بن گیا ہے تجھ کو اس گھڑی کی فکر سے نہ روک دے ‘ ورنہ تو ہلاکت میں پڑجائے گا “۔

انسان کا خون خشک ہوجاتا ہے اور جسم پر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور کپکپی طاری ہوجاتی ہے۔ محض اس منظر کے تصور سے ‘ ایک غیر آباد پہاڑی پر موسیٰ اکیلے کھڑے ہیں۔ تاریک اور سیاہ رات ہے۔ ہر سو اندھیرا ہی اندھیرا ‘ عجیب اور خوفناک خاموشی ہے ‘ طور کے دامن سے انہوں نے آگ دیکھی تھی ‘ وہ اس کی تلاش میں نکلے تھے ‘ لیکن ان کو ہر طرف سے پوری کائنات کی طرف سے یہ ندا آرہی ہے :

انی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لما یوحی (31) (02 : 21۔ 31) ” اے موسیٰ میں تیرا رب ہوں ‘ جو تیاں اتار دے ‘ تو وادی مقدس طوی میں ہے اور میں نے تجھ کو چن لیا ہے “۔

یہ چھوٹا سا ذرہ ناچیز ‘ یہ محدود بشر لامحدود رب ذوالجلال کے سامنے کھڑا ہے ‘ جسے آنکھ نہیں دیکھ سکتی۔ وہ عظمت و جلال جس کے مقابلے میں یہ نظر آنے والی کائنات زیمن و آسمان سب حقیر ہیں یہ ذرہ ضعیف ‘ انسانی قوائے مدر کہ کے ساتھ ‘ ایک لامحود ذلت کے ساتھ مربوط ہوگیا ‘ اس کی آواز سن رہا ہے ‘ کس طرح ؟ اللہ کی خاص رحمت ہے ‘ ورنہ کیسے ممکن ہے۔ محدود اور لامحدود کا اتصال ؟

پوری انسانیت اب موسیٰ (علیہ السلام) کی شکل میں اٹھائی جارہی ہے ‘ سربلند کی جارہی ہے کہ ایک لمحے کے لئے وہ بشری شخصیت کو لئے ہوئے ہی لامحدود فیض و صول کررہی ہے۔ اس انسانیت کے لئے کیا یہ کوئی کم شرف ہے کہ کسی نہ کسی طرح اس کا اتصال اور رابطہ ‘ اس انداز میں ‘ رب ذوالجلال کے ساتھ ہوگیا ‘ لیکن ہم نہیں جانتے کہ کیونکر وہ گیا یہ ؟ کیونکہ انسانی قوائے مدر کہ اس حقیقت کا نہ ادراک کرسکتی ہیں اور نہ اس بارے میں کوئی فیصلہ دے سکتی ہیں۔ انسان کی قوائے مدرکہ کا بس یہ کام ہے کہ وہ حیران رہ کر اپنے قصور کا اعتراف کریں ‘ ایمان لائیں اور شہادت دیں کہ یہ حق ہے۔

فلما۔۔۔۔۔۔۔ یموسی (11) انی اناربک (21) (12 : 11۔ 21) ” جب وہاں پہنچا تو پکارا گیا اے موسیٰ ‘ میں ہی تیرا رب ہوں “۔ پکارا گیا ‘ ماضی مجہول کا صیغہ استعمال ہوا۔ کیونکہ آواز کے مصدر اور جہت کا تعین ممکن نہیں ہے۔ نہ آواز کی صورت اور کیفیت کا تعین ممکن ہے۔ نہ اس بات کا تعین ممکن ہے کہ کس طرح سنا اور کس طرح سمجھے۔ پکارا گیا جس طرح پکارا گیا اور انہوں نے سمجھا جس طرح سمجھا۔ کیونکہ یہ اتصال ان امور میں سے ہے جن پر ہم ایمان لاتے ہیں کہ ایسا ہوا مگر اس کی کیفیت کے بارے میں نہیں پوچھتے کیونکہ یہ کیفیت انسانی قوت مدر کہ اور انسانی دائرہ تصور سے وراء ہے۔

انی انا۔۔۔۔۔۔۔ طوی (02 : 21) ” اے موسیٰ ‘ میں ہی تیرا رب ہوں ‘ جو تیاں اتار دے تو وادی مقدس طوی میں ہے “۔ تم بار گاہ رب العزت میں ہو ‘ اس لیے پائوں سے جوتے اتار دو تاکہ تم ننگے پائوں آئو ‘ ایک ایسی وادی میں جس پر پاکیزہ انوار کا نزول ہورہا ہے۔ اس لیے اس وادی کو اپنے جوتوں سے نہ روندو۔

اللہ تعالیٰ سے ہمکلامی۔ جب حضرت موسیٰ ؑ آگ کے پاس پہنچے تو اس مبارک میدان کے دائیں جانب کے درختوں کی طرف سے آواز آئی کہ اے موسیٰ ! میں تیرا رب ہوں تو جوتیاں اتار دے۔ یا تو اس لئے یہ حکم ہوا کہ آپ کی جوتیاں گدھے کے چمڑے کی تھیں یا اس لئے کہ تعظیم کرانی مقصود تھی۔ جیسے کہ کعبہ جانے کے وقت لوگ جوتیاں اتار کر جاتے ہیں۔ یا اس لئے کہ اس بابرکت جگہ پر پاؤں پڑیں اور بھی وجوہ بیان کئے گئے ہیں۔ طوی اس وادی کا نام تھا۔ یا یہ مطلب کہ اپنے قدم اس زمین سے ملا دو۔ یا یہ مطلب کہ یہ زمین کئی کئی بار پاک کی گئی ہے اور اس میں برکتیں بھر دی گئی ہیں اور بار بار دہرائی گئی ہیں۔ لیکن زیادہ صحیح پہلا قول ہی ہے۔ جیسے اور آیت میں ہے (اِذْ نَادٰىهُ رَبُّهٗ بالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى 16؀ۚ) 79۔ النازعات :16) میں نے تجھے اپنا برگزیدہ کرلیا ہے، دنیا میں سے تجھے منتخب کرلیا ہے، اپنی رسالت اور اپنے کلام سے تجھے ممتاز فرما رہا ہوں، اس وقت کے روئے زمین کے تمام لوگوں سے تیرا مرتبہ بڑھا رہا ہوں۔ کہا گیا ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ سے پوچھا گیا جانتے بھی ہو کہ میں نے تجھے دوسرے تمام لوگوں میں سے مختار اور پسندیدہ کر کے شرف ہم کلامی کیوں بخشا ؟ آپ نے جواب دیا اے اللہ مجھے اس کی وجہ معلوم نہیں فرمایا گیا اس لئے کہ تیری طرح اور کوئی میری طرف نہیں جھکا۔ اب تو میری وحی کو کان لگا کر دھیان دے کر سن۔ میں ہی معبود ہوں کوئی اور نہیں۔ یہی پہلا فریضہ ہے تو صرف میری ہی عبادت کئے چلے جانا کسی اور کی کسی قسم کی عبادت نہ کرنا، میری یاد کے لئے نمازیں قائم کرنا، میری یاد کا یہ بہترین اور افضل ترین طریقہ ہے یا یہ مطلب کہ جب میں یاد آؤں نماز پڑھو۔ جیسے حدیث میں ہے کہ تم میں سے اگر کسی کو نیند آجائے یا غفلت ہوجائے تو جب یاد آجائے نماز پڑھ لے کیونکہ فرمان الٰہی ہے میری یاد کے وقت نماز قائم کرو۔ بخاری و مسلم میں ہے جو شخص سوتے میں یا بھول میں نماز کا وقت گزار دے اس کا کفارہ یہی ہے کہ یاد آتے ہی نماز پڑھ لے اس کے سوا اور کفارہ نہیں۔ قیامت یقیناً آنے والی ہے ممکن ہے میں اس کے وقت کے صحیح علم کو ظاہر نہ کروں۔ ایک قرأت میں (اخفیھا) کے بعد (من نفسی) کے لفظ بھی ہیں کیونکہ اللہ کی ذات سے کوئی چیز مخفی نہیں۔ یعنی اس کا علم بجز اپنے کسی کو نہیں دوں گا۔ پس روئے زمین پر کوئی ایسا نہیں ہوا جسے قیامت کے قائم ہونے کا مقرر وقت معلوم ہو۔ یہ وہ چیز ہے کہ اگر ہو سکے تو خود میں اپنے سے بھی اسے چھپادوں لیکن رب سے کوئی چیز مخفی نہیں ہے۔ چناچہ یہ ملائیکہ سے پوشیدہ ہے انبیاء اس سے بےعلم ہیں۔ جیسے فرمان ہے (قُلْ لَّا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الْغَيْبَ اِلَّا اللّٰهُ ۭ وَمَا يَشْعُرُوْنَ اَيَّانَ يُبْعَثُوْنَ 65؀) 27۔ النمل :65) زمین آسمان والوں میں سے سوائے اللہ واحد کے کوئی اور غیب دان نہیں اور آیت میں ہے قیامت زمین و آسمان پر بھاری پڑ رہی ہے وہ اچانک آجائے گی یعنی اس کا علم کسی کو نہیں۔ ایک قرأت میں اخفیھا ہے۔ ورقہ فرماتے ہیں مجھے حضرت سعید بن جبیر ؒ نے اسی طرح پڑھایا ہے۔ اس کے معنی ہیں اظہرھا اس دن ہر عامل اپنے عمل کا بدل دیا جائے گا خواہ ذرہ برابر نیکی ہو خواہ بدی ہو اپنے کرتوت کا بدلہ اس دن ضرور ملنا ہے۔ پس کسی کو بھی بےایمان لوگ بہکا نہ دیں۔ قیامت کے منکر، دنیا کے مفتوں، مولا کے نافرمان، خواہش کے غلام، کسی اللہ کے بندے کے اس پاک عقیدے میں اسے تزلزل پیدا نہ کرنے پائیں اگر وہ اپنی چاہت میں کامیاب ہوگئے تو یہ غارت ہوا اور نقصان میں پڑا۔

آیت 11 - سورہ طٰہٰ: (فلما أتاها نودي يا موسى...) - اردو