سورہ طٰہٰ: آیت 1 - طه... - اردو

آیت 1 کی تفسیر, سورہ طٰہٰ

طه

اردو ترجمہ

طٰہٰ

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Taha

آیت 1 کی تفسیر

سورة طہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

طہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لہ الاسمآء الحسنی (1 : 8) ” “۔

نہایت ہی نرم و نازک اور تروتازہ آغاز ہے ‘ حروف مقطعات طا۔ ہا۔ اشارہ یہی ہے کہ یہ وپری سورة ایسے ہی حروف مقطعات سے مرکب ہے۔ جس طرح یہ قرآن ایسے ہی حروف سے مرکب ہے جیسا کہ دوسری سورتوں کے آغاز میں بھی یہی اشارہ ان حروف کے ذریعہ دیا گیا ہے۔ یہاں جو دو حروف چنے گئے ہیں ان میں ایک مزید یہ اشارہ بھی پیش نظر ہے کہ انکے تلفظ کے آخر میں الف مقصورہ آتا ہے جس طرح اس پوری سورة میں فواصل الف مقصورہ پر ختم ہوتے ہیں۔ حروف مقطعات کے بعد قرآن کریم کا ذکر آتا ہے ‘ جس طرح پورے قرآن میں جس سورة کا آغازحروف مقطعات سے ہوتا ہے ‘ ان کے بعد متصلاً قرآن کریم کا ذکر ہوتا ہے۔ یہاں حضور اکرم ﷺ کو خطاب کی شکل میں تبصرہ ہے قرآن مجید اور اس کی دعوت پر کہ یہ مصیبت نہیں ہے۔

مآ انزلنا۔۔۔۔ لتشقی (02 : 2) ” ہم نے یہ قرآن آپ پر اس لئے نازل نہیں کیا کہ تم مصیبت میں پڑ جائو “ یعنی یہ قرآن آپ پر نازل ہوا کہ آپ اس کی تبلیغ کریں ‘ اس کی وجہ سے تم پر کوئی مصیبت نہ آئے گی۔ یہ نہیں کہ اس کی تلاوت میں آپکو تکلیف ہو ‘ یہ نہیں کہ اس پر عمل میں آپ کو کوئی مشقت ہو ‘ یہ تو یاد دہانی اور نصیحت آموزی کے لئے آسان کردیا گیا ہے۔ اس کے اندر جو احکام دیئے گئے ہیں وہ انسانی طاقت کی حدد کے اندر اندر ہیں۔ یہ نعمت خداوندی ہے ‘ مصیبت و عذاب خداوندی نہیں ہے۔ اس کے ذریعہ تو عالم بالا سے انسان کا رابطہ ہوتا ہے اور انسان کو عالم بالا کی تائید حاصل ہوتی ہے اور وہ قوت و اطمینان حاصل کرتا ہے۔ اللہ کی رضا مندی کا شعور ‘ اللہ کے ساتھ انس و محبت کا شعور ‘ اور اللہ کے ساتھ صلے اور رابطے کا شعور اس سے حاصل ہوتا ہے۔

یہ قرآن اس لئے بھی نازل نہیں ہوا کہ اگر لوگ اسے نہیں مانتے تو آپ پر یشان ہوں کیونکہ یہ آپ کے فرائض میں نہیں ہے کہ آپ لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور کریں۔ نہ اس لئے نازل ہوا ہے کہ آپ ان لوگوں کے عدم ایمان کی وجہ سے دل کو حسرتوں کا خزانہ بنادیں۔ یہ تو صرف اس لیے ہے کہ آپ نصیحت کرتے چلے جائیں اور لوگوں کو انجام بد سے ڈراتے چلے جائیں۔

الا تذکرۃ المن یخشی (02 : 3) ” یہ تو ایک یاد دہانی ہے ‘ ہر اس شخص کے لئے جو ڈرے “۔ جو شخص ڈرتا ہے ‘ جب اسے نصیحت کی جائے تو وہ اثر قبول کرتا ہے ‘ اللہ سے ڈرتا ہے اور اللہ سے معافی طلب کرتا ہے بس یہاں تک رسول اور داعی کے فرائض پورے ہوجاتے ہیں۔ رسولوں اور داعیوں کا یہ فریضہ نہیں ہے کہ وہ دلوں کو لگے ہوئے تالے کھول دیں یا لوگوں کے دل و دماغ پر اثر انداز ہوں۔ یہ کام تو اللہ کا ہے جس نے قرآن مجید نازل کیا ہے۔ یہ اللہ ہی ہے جو اس پوری کائنات کو گھیرے میں لئے ہوئے ہے ‘ اس پر محیط ہی اور اس کو دلوں کے خفیہ ارادے اور راز تک معلوم ہیں۔

تنیزلا ممن۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وما تحتا الثری (6) (02 : 4 تا 6) ” نازل کیا گیا ہے اس ذات کی طرف سے جس نے پیدا کیا ہے زمین کو اور بلند آسمانوں کو۔ وہ رحمن (کائنات کے) تخت سلطنت پر جلوہ فرما ہے۔ مالک ہے ان سب چیزوں کا جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور جو زمین و آسمان کے درمیان ہیں اور جو مٹی کے نیچے ہیں “۔ کیونکہ جس نے اس قرآن کو نازل کیا ہے وہی ہے جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ہے ‘ ان بلند ترین آسمانوں کو ‘ کیونکہ یہ قرآن بھی اسی طرح ایک تکوینی مظہر ہے جس طرح زمین و آسمان مظاہر کو نیہ ہیں۔ یہ بھی عالم بالا سے اترا ہے۔ یہاں قرآن مجید ان قوانین قدرت کو جو اس کائنات میں کار فرما ہیں اور ان قوانین کو جو اس قرآن میں ضبط کیے گئے ہیں یکجا کر کے بیان کرتا ہے۔ آسمانوں کا پر تو زمین پر پڑتا ہے اور اس طرح قرآن بھی ملاء اعلیٰ سے زمین کی طرف آتا ہے۔

جس ذات نے ملا اعلیٰ کی طرف سے یہ قرآن نازل کیا ہے اور جس نے زمین اور بلند آسمانوں کو پیدا کیا ہے وہ کون ہے ؟ رحمن ہے اور رحمن جو نہایت ہی مہربان ہوتا ہے ‘ اس کی جانب سے اترا ہوا قرآن کبھی بھی باعث مشقت اور مصیبت نہیں ہوسکتا۔ قرآن اور رحمن دونوں میں صفت رحمت قدر مشرک ہے۔ اور یہ رحمت ہی ہے جس نے اس پوری کائنات کو اپنے گھیرے میں لیا ہوا ہے۔

علم قرآن سب سے بڑی دولت ہے۔ سورة بقرہ کی تفسیر کے شروع میں سورتوں کے اول حروف مقطعات کی تفسیر پوری طرح بیان ہوچکی ہے جسے دوبارہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ گو یہ بھی مروی ہے کہ مراد طہ سے اے شخص ہے کہتے ہیں کہ یہ نبطی کلمہ ہے۔ کوئی کہتا ہے معرب ہے۔ یہ بھی مروی ہے کہ حضور ﷺ نماز میں ایک پاؤں زمین پر ٹکاتے اور دوسرا اٹھا لیتے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری یعنی طہ یعنی زمین پر دونوں پاؤں ٹکا دیا کر۔ ہم نے یہ قرآن تجھ پر اس لئے نہیں اتارا کہ تجھے مشقت و تکلیف میں ڈال دیں۔ کہتے ہیں کہ جب قرآن پر عمل حضور ﷺ نے اور آپ کے صحابہ نے شروع کردیا تو مشرکین کہنے لگے کہ یہ لوگ تو اچھی خاصی مصیبت میں پڑگئے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ یہ پاک قرآن تمہیں مشقت میں ڈالنے کو نہیں اترا بلکہ یہ نیکوں کے لئے عبرت ہے یہ الہامی علم ہے جسے یہ ملا اسے بہت بڑی دولت مل گئی۔ چناچہ بخاری مسلم میں ہے کہ جس کے ساتھ اللہ کا ارادہ بھلائی کا ہوجاتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے حافظ ابو القاسم طبرانی ؒ ایک مرفوع صحیح حدیث لائے ہیں کہ قیامت کے دن جب کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے فیصلے فرمانے کے لئے اپنی کرسی پر اجلاس فرمائے گا تو علماء سے فرمائے گا کہ میں نے اپنا علم اور اپنی حکمت تمہیں اسی لئے عطا فرمائی تھی کہ تمہارے تمام گناہوں کو بخش دوں اور کچھ پرواہ نہ کروں کہ تم نے کیا کیا ہے ؟ پہلے لوگ اللہ کی عبادت کے وقت اپنے آپ کو رسیوں میں لٹکا لیا کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے یہ مشقت اپنے اس کلام پاک کے ذریعہ آسان کردی اور فرما دیا کہ یہ قرآن تمہیں مشقت میں ڈالنا نہیں چاہتا جیسے فرمان ہے جس قدر آسانی سے پڑھا جائے پڑھ لیا کرو یہ قرآن شقاوت اور بدبختی کی چیز نہیں بلکہ رحمت و نور اور دلیل جنت ہے۔ یہ قرآن نیک لوگوں کے لئے جن کے دلوں میں خوف الٰہی ہے تذکرہ وعظ و ہدایت و رحمت ہے۔ اسے سن کر اللہ کے نیک انجام بندے حلال حرام سے واقف ہوجاتے ہیں اور اپنے دونوں جہان سنوار لیتے ہیں۔ یہ قرآن تیرے رب کا کلام ہے اسی کی طرف سے نازل شدہ ہے جو ہر چیز کا خالق مالک رازق قادر ہے۔ جس نے زمین کو نیچی اور کثیف بنایا ہے اور جس نے آسمان کو اونچا اور لطیف بنایا ہے۔ ترمذی وغیرہ کی صحیح حدیث میں ہے کہ ہر آسمان کی موٹائی پانچ سو سال کی راہ ہے اور ہر آسمان سے دوسرے آسمان تک کا فاصلہ بھی پانچ سو سال کا ہے حضرت عباس والی حدیث میں امام ابن ابی حاتم نے اسی آیت کی تفسیر میں وارد کی ہے۔ وہ رحمان اپنے عرش پر مستوی ہے اس کی پوری تفسیر سورة اعراف میں گزر چکی ہے یہاں وارد کرنے کی ضرورت نہیں سلامتی والا طریقہ یہی ہے کہ آیات و احادیث صفات کو بطریق سلف صالحین ان کے ظاہری الفاظ کے مطابق ہی مانا جائے بغیر کیفیت طلبی کے اور بغیر تحریف و تشبیہ اور تعطیل و تمثیل کے۔ تمام چیزیں اللہ کی ہی ملک ہیں اسی کے قبضے اور ارادے اور چاہت تلے ہیں وہی سب کا خالق مالک الہ اور رب ہے کسی کو اس کے ساتھ کسی طرح کی شرکت نہیں۔ ساتویں زمین کے نیچے بھی جو کچھ ہے سب اسی کا ہے۔ کعب کہتے ہیں اس زمین کے نیچے پانی ہے پانی کے نیچے پھر زمین ہے پھر اس کے نیچے پانی ہے اسی طرح مسلسل پھر اس کے نیچے ایک پتھر ہے اس کے نیچے ایک فرشتہ ہے اس کے نیچے ایک مچھلی ہے جس کے دونوں بازو عرش تک ہیں اس کے نیچے ہوا خلا اور ظلمت ہے یہیں تک انسان کا علم ہے باقی اللہ جانے۔ حدیث میں ہے ہر دو زمینوں کے درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ ہے سب سے اوپر کی زمین مچھلی کی پشت پر ہے جس کے دونوں بازوں آسمان سے ملے ہوئے ہیں یہ مچھلی ایک پتھر پر ہے وہ پتھر فرشتے کے ہاتھ میں ہے دوسری زمین ہواؤں کا خزانہ ہے۔ تیسری میں جہنم کے پتھر ہیں چوتھی میں جہنم کی گندھک پانچویں میں جہنم کے سانپ ہیں چھٹی میں جہنمی بچھو ہیں ساتویں میں دوزخ ہے وہیں ابلیس جکڑا ہوا ہے ایک ہاتھ آگے ہے ایک پیچھے ہے جب اللہ چاہتا ہے اسے چھوڑ دیتا ہے یہ حدیث بہت ہی غریب ہے اور اس کا فرمان رسول ﷺ سے ہونا بھی غور طلب ہے۔ مسند ابو یعلی میں ہے حضرت جابر بن عبداللہ ؓ فرماتے ہیں ہم غزوہ تبوک سے لوٹ رہے تھے گرمی سخت تڑاخے کی پڑ رہی تھی دو دو چار چار آدمی منتشر ہو کر چل رہے تھے میں لشکر کے شروع میں تھا اچانک ایک شخص آیا اور سلام کر کے پوچھنے لگا تم میں سے محمد کون ہیں ؟ رسول ﷺ۔ میں اس کیساتھ ہوگیا میرے ساتھی آگے بڑھ گئے۔ جب لشکر کے درمیان کا حصہ آیا تو اس میں حضور رسول ﷺ تھے میں نے اسے بتلایا کہ یہ ہیں حضور رسول ﷺ سرخ رنگ کی اونٹنی پر سوار ہیں سر پر بوجہ دھوپ کے کپڑا ڈالے ہوئے ہیں وہ آپ کی سواری کے پاس گیا اور نکیل تھام کر عرض کرنے لگا کہ آپ ہی محمد ہیں ؟ ﷺ۔ آپ نے جواب دیا کہ ہاں اس نے کہا میں چند باتیں آپ سے دریافت کرنا چاہتا ہوں جنہیں زمین والوں میں سے بجز ایک دو آدمیوں کے اور کوئی نہیں جانتا۔ آپ نے فرمایا تمہیں جو کچھ پوچھنا ہو پوچھ لو۔ اس نے کہا بتائیے انبیاء اللہ سوتے بھی ہیں ؟ آپ نے فرمایا ان کی آنکھیں سو جاتی ہیں لیکن دل جاگتا رہتا ہے۔ اس نے کہا بجا ارشاد ہوا ہے۔ اب یہ فرمائیے کہ کیا وجہ ہے کہ بچہ کبھی تو باپ کی شباہت پر ہوتا ہے کبھی ماں کی ؟ آپ نے فرمایا سنو مرد کا پانی سفید اور غلیظ ہے اور عورت کا پانی پتلا ہے جو پانی غالب آگیا اسی پر شبیہ جاتی ہے اس نے کہا بجا ارشاد فرمایا۔ اچھا یہ بھی فرمائیے کہ بچے کے کون سے اعضاء مرد کے پانی سے بنتے ہیں اور کون سے عورت کے پانی سے ؟ فرمایا مرد کے پانی سے ہڈیاں رگ اور پٹھے اور عورت کے پانی سے گوشت خون اور بال اس نے کہا یہ بھی صحیح جواب ملا۔ اچھا یہ بتایئے کہ اس زمین کے نیچے کیا ہے ؟ فرمایا ایک مخلوق ہے۔ کہا ان کے نیچے کیا ہے ؟ فرمایا زمین کہا اس کے نیچے کیا ہے ؟ فرمایا پانی۔ کہا پانی کے نیچے کیا ہے ؟ فرمایا اندھیرا۔ کہا اس کے نیچے ؟ فرمایا ہوا۔ کہا ہوا کے نیچے ؟ فرمایا تر مٹی، کہا اس کے نیچے ؟ آپ کے آنسو نکل آئے اور ارشاد فرمایا کہ مخلوق کا علم تو یہیں تک پہنچ کر ختم ہوگیا۔ اب خالق کو ہی اس کے آگے کا علم ہے۔ اے سوال کرنے والے اس کی بابت تو جس سے سوال کر رہا ہے وہ تجھ سے زیادہ جاننے والا نہیں۔ اس نے آپ کی صداقت کی گواہی دی آپ نے فرمایا اسے پہچانا بھی ؟ لوگوں نے کہا اللہ اور اس کے رسول کو ہی پورا علم ہے آپ نے فرمایا یہ حضرت جبرائیل ؑ تھے۔ یہ حدیث بھی بہت ہی غریب ہے اور اس میں جو واقعہ ہے بڑا ہی عجیب ہے اس کے راویوں میں قاسم بن عبدالرحمٰن کا تفرد ہے جنہیں امام یحییٰ بن معین ؒ کہتے ہیں کہ یہ کسی چیز کے برابر نہیں۔ امام ابو حاتم رازی بھی انہیں ضعیف کہتے ہیں۔ امام ابن عدی فرماتے ہیں یہ معروف شخص نہیں اور اس حدیث میں غلط ملط کردیا ہے اللہ ہی جانتا ہے کہ جان بوجھ کر ایسا کیا ہے یا ایسی ہی کسی سے لی ہے۔ اللہ وہ ہے جو ظاہر و باطن اونچی نیچی چھوٹی بڑی سب کچھ جانتا ہے جیسے فرمان ہے کہ اعلان کر دے کہ اس قرآن کو اس نے نازل فرمایا ہے جو آسمان و زمین کے اسرار عمل کو اس کے علم سے بھی پہلے اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔ تمام گزشتہ موجودہ اور آئندہ مخلوق کا علم اس کے پاس ایسا ہی ہے جیسا ایک شخص کا علم۔ سب کی پیدائش اور مار کر جلانا بھی اس کے نزدیک ایک شخص کی پیدائش اور اس کی موت کے بعد کی دوسری بار کی زندگی کے مثل ہے۔ تیرے دل کے خیالات کو اور جو خیالات نہیں آتے ان کو بھی وہ جانتا ہے۔ تجھے زیادہ سے زیادہ آج کے پوشیدہ اعمال کی خبر ہے اور اسے تو تم کل کیا چھپاؤ گے ان کا بھی علم ہے۔ ارادے ہی نہیں بلکہ وسوسے بھی اس پر ظاہر ہیں۔ کئے ہوئے عمل اور جو کرے گا وہ عمل اس پر ظاہر ہیں۔ وہی معبود برحق ہے اعلیٰ صفتیں اور بہترین نام اسی کے ہیں۔ سورة اعراف کی تفسیر کے آخر میں اسماء حسنی کے متعلق حدیثیں گزر چکی ہیں۔

آیت 1 - سورہ طٰہٰ: (طه...) - اردو