سورہ سبا: آیت 7 - وقال الذين كفروا هل ندلكم... - اردو

آیت 7 کی تفسیر, سورہ سبا

وَقَالَ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ هَلْ نَدُلُّكُمْ عَلَىٰ رَجُلٍ يُنَبِّئُكُمْ إِذَا مُزِّقْتُمْ كُلَّ مُمَزَّقٍ إِنَّكُمْ لَفِى خَلْقٍ جَدِيدٍ

اردو ترجمہ

منکرین لوگوں سے کہتے ہیں "ہم بتائیں تمہیں ایسا شخص جو خبر دیتا ہے کہ جب تمہارے جسم کا ذرہ ذرہ منتشر ہو چکا ہو گا اس وقت تم نئے سرے سے پیدا کر دیے جاؤ گے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waqala allatheena kafaroo hal nadullukum AAala rajulin yunabbiokum itha muzziqtum kulla mumazzaqin innakum lafee khalqin jadeedin

آیت 7 کی تفسیر

وقال الذین کفروا۔۔۔۔۔۔ والضلل البعید (7 – 8)

یہ لوگ قیام قیامت کو اس قدر عجیب سمجھتے تھے۔ یہ لوگ قیامت کے قائل کو قابل تعجب یا مجنون یا چھوٹا سمجھتے تھے۔ ذرا انداز گفتگو کو دیکھو “ بتائیں تمہیں ایسا شخص جو کہتا ہے کہ جن تمہارے جسم کا ذرہ ذرہ منتشر ہوجائے گا اس وقت تم نئے سرے سے پیدا کر دئیے جاؤ گے “۔ یہ ایک عجیب و غریب شخص پیدا ہوگیا ہے جو اس قسم کی انہونی باتیں کرتا ہے کہ مرنے کے بعد ، مٹی کے ذرات بن جانے کے بعد کے بعد اور مٹی میں رل مل جانے کے بعد تمہیں دوبارہ زندہ کردیا جائے گا۔

یہ لوگ مزید تعجب کرتے ہیں اور نہایت ہی انوکھا سمجھتے ہوئے یہ پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ یا تو یہ اللہ کے نام سے افتراء باندھتا ہے اور یا پھر یہ شخص مجنون ہے۔ کیونکہ ان کے زعم کے مطابق اس قسم کی باتیں یا تو جھوٹا شخص کرسکتا ہے یا مجنوں کرسکتا ہے۔ اگر مجنون ہے تو یہ کلام ہذیان ہے اور اگر جھوٹا ہے تو یہ تعجب خیز ہے۔ وہ یہ باتیں کیوں کرتے ہیں ؟ اس لیے کہ حضرت محمد ﷺ یہ کہتے ہیں کہ تمہیں دوبارہ پیدا کیا جائے گا لیکن خود ان کی بات تعجب خیز ہے۔ کیا یہ لوگ پہلی بار پیدا نہیں کیے گئے ؟ انسان کی تخلیق کیا کوئی کم واقعہ ہے۔ پہلی بار ایسی تخلیق ؟ اگر یہ اسے تدبر اور غور سے دیکھیں تو کبھی بھی تعجب نہ کریں۔ لیکن یہ گمراہ ہیں اور ہدایت کی راہ نہیں لیتے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اس تعجب پر ان کو سخت دھمکی دی جاتی ہے۔

بل الذین لا یومنون بالاخرۃ فی العذاب والضلل البعید (34: 8) ” بلکہ جو لوگ آخرت کو نہیں مانتے وہ خواب میں مبتلا ہونے والے ہیں اور وہی بری طرح بہکے ہوئے ہیں “۔ اس عذاب سے مراد عذاب آخرت بھی ہوسکتا ہے گویا وہ عذاب ان پر واقعہ ہوگیا ہے۔ چونکہ وہ گمراہی میں بہت دور تک چلے گئے ہیں اس لیے اب ان کے ہدایت پر آنے کی کوئی امید نہیں ہے۔ اس کے دوسرے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ یہ لوگ جس طرح عذاب الٰہی میں مبتلا ہیں اسی طرح گمراہ بھی ہیں۔ یہ بہت گہری حقیقت ہے اس لیے کہ جس شخص کا کوئی نظریہ نہیں ہوتا وہ نفسیاتی لحاظ سے سخت عذاب اور کشمکش میں ہوتا ہے۔ ایسے شخص کو دنیا کی بےانصافیوں میں نہ انصاف کی امید ہوتی ہے ، نہ عدل کی ، نہ جزائے آخرت کی اور نہ اخروی اجر کی۔ انسانی زندگی میں ایسے واقعات اور حوادث آتے ہیں کہ انسان انہیں صرف اجر اخروی کی خاطر ہی برداشت کرسکتا ہے اور یہ تسلی رکھتا ہے کہ نیکوکار کے لیے اجر حسن ہے اور بدکار کے لئے سزا ہے۔ کئی ایسی مشکلات ہوتی ہیں کہ انسان رضائے الٰہی اور جزائے اخروی کے لیے انہیں برداشت کرتا ہے کیونکہ آخرت میں چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی ضائع نہیں ہوتا۔ اگر وہ ذرا برابر ہو اور کسی چٹان کے اندر ہو ، وہاں سے بھی اللہ اس مطلوب ذرے کو جو رائی کے دانے کے برابر ہو ، لے کر آتا ہے اور جو شخص اس تروتازہ اور فرحت بخش اور روشن چراغ سے محروم ہے وہ گویا دائمی عذاب میں ہے۔ اس دنیا میں بھی منکر آخرت ایک مسلسل عذاب میں گرفتار ہوتا ہے اور آخرت میں تو وہ اپنے اعمال کی جزا بہرحال پائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ آخرت کا عقیدہ انسان کے لیے ایک رحمت ہے ، ایک عظیم نعمت ہے جس کے مستحق اللہ کے مخلص بندے ہوتے ہیں ، جو حق کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں اور جن کی خواہش ہر وقت یہ ہوتی ہے کہ وہ راہ راست پر گامزن ہوں ۔ راجح بات یہی ہے کہ اس آیت میں اسی نکتے کی طرف اشارہ ہے کہ جو لوگ آخرت پر یقین نہیں رکھتے وہ گمراہی کے ساتھ ساتھ اس دنیا میں بھی ایک مصیبت میں گرفتار ہیں۔

ان مکذبین کو اب ایک سخت دھمکی دی جاتی ہے کہ اگر اللہ چاہے تو ان کی اس گمراہی کی وجہ سے مزید عذاب دنیا ان پر نازل کر دے اور آسمان کا ایک ٹکڑا ان پر گرا دے یا ان کو اس ضلالت کی وجہ سے زمین کے اندر دھنسا دے۔ یہ اس نظام کائنات پر غور نہیں کرتے کہ یہ نظام تو کسی بھی وقت بگڑ سکتا ہے۔

آیت 7{ وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ہَلْ نَدُلُّکُمْ عَلٰی رَجُلٍ یُّنَبِّئُکُمْ اِذَا مُزِّقْتُمْ کُلَّ مُمَزَّقٍلا اِنَّکُمْ لَفِیْ خَلْقٍ جَدِیْدٍ } ”اور یہ کافر کہتے ہیں : کیا ہم تمہیں ایک ایسے شخص کے بارے میں بتائیں جو تمہیں یہ خبر دیتا ہے کہ جب تم مٹی میں مل کر بالکل ریزہ ریزہ ہو جائو گے تو پھر تمہیں از سر ِنو پیدا کردیا جائے گا۔“ یہ اور اس کے بعد والی آیت اس لحاظ سے اہم ہیں کہ ان دونوں کے مضامین کا حوالہ آیت 46 کے ضمن میں بھی آئے گا۔ اگرچہ حضور ﷺ کی مخالفت نبوت کے ابتدائی زمانے سے ہی شروع ہوگئی تھی اور مشرکین اپنی محفلوں میں حضور ﷺ کے بارے میں استہزائیہ جملے بھی دہراتے رہتے تھے ‘ لیکن سات آٹھ سال تک وہ لوگ آپ ﷺ کے بارے میں مسلسل الجھن اور شش و پنج کا شکار رہے کہ یکایک آپ ﷺ میں یہ کیسی تبدیلی آگئی ہے ! اگلی آیت ان کی اس کیفیت کا واضح اظہار کر رہی ہے :

کافروں کی جہالت۔کافر اور ملحد جو قیامت کے آنے کو محال جانتے تھے اور اس پر اللہ کے نبی ﷺ کا مذاق اڑاتے تھے ان کے کفریہ کلمات کا ذکر ہو رہا ہے کہ وہ آپس میں کہتے تھے " لو اور سنو ہم میں ایک صاحب ہیں جو فرماتے ہیں کہ جب مر کر مٹی میں مل جائیں گے اور چورا چورا اور ریزہ ریزہ ہوجائیں گے اس کے بعد بھی ہم زندہ کئے جائیں گے، اس شخص کی نسبت دو ہی خیال ہوسکتے ہیں یا تو یہ کہ ہوش و حواس کی درستی میں وہ عمداً اللہ کے ذمے ایک جھوٹ بول رہا ہے اور جو اس نے نہیں فرمایا وہ اس کی طرف نسبت کرکے یہ کہہ رہا ہے اور اگر یہ نہیں تو اس کا دماغ خراب ہے، مجنوں ہے، بےسوچے سمجھے جو جی میں آئے کہہ دیتا ہے۔ " اللہ تعالیٰ انہیں جواب دیتا ہے کہ یہ دونوں باتیں نہیں۔ آنحضرت ﷺ سچے ہیں، نیک ہیں، راہ یافتہ ہیں، دانا ہیں، باطنی اور ظاہری بصیرت والے ہیں۔ لیکن اسے کیا کہا جائے کہ منکر لوگ جہالت اور نادانی سے کام لے رہے ہیں اور غور و فکر سے بات کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ جس کی وجہ سے حق بات اور سیدھی راہ ان سے چھوٹ جاتی ہے اور وہ بہت دور نکل جاتے ہیں، کیا اس کی قدرت میں تم کوئی کمی دیکھ رہے ہو۔ جس نے محیط آسمان اور بسیط زمین پیدا کردی۔ جہاں جاؤ نہ آسمان کا سایہ ختم ہو نہ زمین کا فرش۔ جیسے فرمان ہے (وَالسَّمَاۗءَ بَنَيْنٰهَا بِاَيْىدٍ وَّاِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ 47؀) 51۔ الذاریات :47) ہم نے آسمان کو اپنے ہاتھوں بنایا اور ہم کشادگی والے ہیں۔ زمین کو ہم نے ہی بچھایا اور ہم بہت اچھے بچھانے والے ہیں۔ یہاں بھی فرمایا کہ آگے دیکھو پیچھے دیکھو، اسی طرح دائیں نظر ڈالو، بائیں طرف التفات کرو تو وسیع آسمان اور بسیط زمین ہی نظر آئے گی۔ اتنی بڑی مخلوق کا خالق، اتنی زبردست قدرتوں پر قادر کیا تم جیسی چھوٹی سی مخلوق کو فنا کرکے پھر پیدا کرنے پر قدرت کھو بیٹھے ؟ وہ تو قادر ہے کہ اگر چاہے تمہیں زمین میں دھنسا دے۔ یا آسمان تم پر توڑ دے یقینا تمہارے ظلم اور گناہ اسی قابل ہیں لیکن اللہ کا حکم اور عفو ہے کہ وہ تمہیں مہلت دیئے ہوئے ہے۔ جس میں عقل ہو جس میں دور بینی کا مادہ ہو جس میں غور و فکر کی عادت ہو، جس کی اللہ کی طرف جھکنے والی طبیعت ہو، جس کے سینے میں دل دل میں حکمت اور حکمت میں نور ہو وہ تو ان زبردست نشانات کو دیکھنے کے بعد اس قادر و خالق اللہ کی اس قدرت میں شک کر ہی نہیں سکتا کہ مرنے کے بعد پھر جینا ہے۔ آسمانوں جیسے شامیانے اور زمینوں جیسے فرش جس نے پیدا کردیے اس پر انسان کی پیدائش کیا مشکل ہے ؟ جس نے ہڈیوں، گوشت، کھال کو ابتداً پیدا کیا۔ اسے ان کے سڑ گل جانے اور ریزہ ریزہ ہو کر جھڑ جانے کے بعد اکٹھا کرکے اٹھا بٹھانا کیا بھاری ہے ؟ اسی کو اور آیت میں فرمایا (اَوَلَيْسَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِقٰدِرٍ عَلٰٓي اَنْ يَّخْلُقَ مِثْلَهُمْ 81؀) 36۔ يس :81) یعنی جس نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کردیا کیا وہ ان کے مثل پیدا کرنے پر قادر نہیں ؟ بیشک قادر ہے۔ اور آیت میں ہے (لَخَــلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ 57؀) 40۔ غافر :57) یعنی انسانوں کی پیدائش سے بہت زیادہ مشکل تو آسمان و زمین کی پیدائش ہے۔ لیکن اکثر لوگ بےعلمی برتتے ہیں۔

آیت 7 - سورہ سبا: (وقال الذين كفروا هل ندلكم على رجل ينبئكم إذا مزقتم كل ممزق إنكم لفي خلق جديد...) - اردو