سورہ سبا: آیت 3 - وقال الذين كفروا لا تأتينا... - اردو

آیت 3 کی تفسیر, سورہ سبا

وَقَالَ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ لَا تَأْتِينَا ٱلسَّاعَةُ ۖ قُلْ بَلَىٰ وَرَبِّى لَتَأْتِيَنَّكُمْ عَٰلِمِ ٱلْغَيْبِ ۖ لَا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَلَا فِى ٱلْأَرْضِ وَلَآ أَصْغَرُ مِن ذَٰلِكَ وَلَآ أَكْبَرُ إِلَّا فِى كِتَٰبٍ مُّبِينٍ

اردو ترجمہ

منکرین کہتے ہیں کہ کیا بات ہے کہ قیامت ہم پر نہیں آ رہی ہے! کہو، قسم ہے میرے عالم الغیب پروردگار کی، وہ تم پر آ کر رہے گی اُس سے ذرہ برابر کوئی چیز نہ آسمانوں میں چھپی ہوئی ہے نہ زمین میں نہ ذرے سے بڑی اور نہ اُس سے چھوٹی، سب کچھ ایک نمایاں دفتر میں درج ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waqala allatheena kafaroo la tateena alssaAAatu qul bala warabbee latatiyannakum AAalimi alghaybi la yaAAzubu AAanhu mithqalu tharratin fee alssamawati wala fee alardi wala asgharu min thalika wala akbaru illa fee kitabin mubeenin

آیت 3 کی تفسیر

وقال الذین کفروا ۔۔۔۔۔۔ من رجز الیم (3 – 5)

کافروں کی جانب سے آخرت کا انکار اس وجہ سے تھا کہ وہ تخلیق انسانیت میں پنہاں حکمت الہیہ اور تقدیر الٰہی کا ادراک نہ کرسکے۔ اللہ کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ لوگوں کو شتر بےمہار کی طرح نہ چھوڑ دیا جائے کہ جو اچھائی کرے اس کی بھی مرضی ہے اور جو برائی کرے اس کی بھی مرضی ہے۔ نہ محسن کو جزاء ملے اور نہ بدکار کو سزا ملے۔ اللہ نے اپنے رسولوں کی زبانی لوگوں کو متنبہ کردیا تھا کہ جزاء کا ایک حصہ آخرت کے لیے باقی رہتا ہے اور سزا کا ایک حصہ بھی آخرت کے لیے چھوڑا جاتا ہے۔ لہٰذا جن لوگوں کو حکمت تخلیق کا ادراک ہوجائے وہ جان لیتے ہیں کہ اللہ کی اسکیم کی تکمیل کے لیے ضروری ہے کہ آخرت برپا ہو ، تاکہ اللہ کا وعدہ پورا ہو اور اللہ کی اطلاع سچی ہو۔ کفار کی نظروں سے بس یہی حکمت اوجھل ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کہتے تھے۔

لا تاتینا الساعۃ (34: 3) ” قیامت ہم پر نہیں آئے گی “۔ اور اللہ ان کی اس بات کی پرزور تردید فرماتے ہیں۔

قل بلی وربی لتاتینکم (34: 3) ” کہہ دیجئے ، ہاں میرے رب کی قسم قیامت تم پر ضرور آئے گی “۔ اللہ بھی سچا ہے اور اس کے رسول بھی سچے ہیں۔ وہ غیب تو نہیں جانتے لیکن وہ اللہ پر اعتماد کرتے ہیں اور یقین کرتے ہیں۔ جس چیز کا خود انہیں علم نہیں ہوتا اس کے معاملے میں وہ اللہ پر بھروسہ کرتے ہیں۔ اللہ جو تاکیداً کہتا ہے کہ قیامت آئے گی وہ عالم الغیب ہے اس لیے اس کی بات سچ ہے کیونکہ وہ علم پر مبنی ہے۔

اب علم الٰہی کو ایک کائناتی حقیقت کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے جس طرح سورة کے آغاز ہی میں اس کی ایک جامع مثال دی گئی تھی۔ اس شہادت سے معلوم ہوا تھا کہ یہ قرآن انسانی کلام نہیں ہے کیونکہ اس قسم کی جامع تمثیلات انسانی فکر کا نتیجہ نہیں ہوسکتیں۔ اسی بات کو اب یہاں دوسرے الفاظ میں پڑھئے۔

لا یعزب عنہ مثقال۔۔۔۔ فی کتب مبین (34: 3) ” اس سے زرہ برابر کوئی چیز نہ آسمان میں چھپی ہے نہ زمین میں ۔ نہ ذرے سے بڑی نہ اس سے چھوٹی ! سب کچھ ایک نمایاں دفتر میں درج ہے “۔ میں اس بات کو یہاں دوبارہ دہراتا ہوں کہ یہ تصور ایک انسانی تصور نہیں ہے اور نہ انسان اس طرح کی جامع سوچ سوچتا ہے۔ آج تک انسانی کلام کے جو نمونے ہیں نظم کے ہیں یا نثر کے ، ان میں ایسی جامع بات نہیں ملتی۔ جب بھی انسان علم کی جامعیت اور اس کے احاطے کے بارے میں کوئی سوچ پیش کرتا ہے وہ اس قدر کائناتی رنگ میں نہیں ہوتی۔

لا یعزب عنہ ۔۔۔۔۔ من ذلک ولا اکبر (34: 3) ” اس سے ذرہ برابر کوئی چیز نہ آسمان میں چھپی ہے نہ زمین میں ، نہ ذرے سے بڑی نہ اس سے چھوٹی “۔ کم از کم انسانی نمونہ ہائے کلام میں علم کی شمولیت ، گہرائی اور جامعیت کے لیے ایسا انداز نہیں ملتا جو قرآن نے اختیار کیا ہے۔ یہ اللہ ہی ہے جو اس طرح اپنے علم کی جامعیت کو بیان کرسکتا ہے اپنے علم کی گہرائی کو بیان کرسکتا ہے۔ یہ باتیں انسانی تخیل کے احاطے میں ہی نہیں آسکتیں۔ اسی طرح مسلمانوں کا تصور الٰہ اس طرح بلند ہوجاتا ہے جس کی مثال ان کے خیال میں نہیں آتی۔ وہ اپنے تصور اور خیال کو سمجھتے ہوئے اور اسے فوق التصور اور فوق الحیال سمجھتے ہوئے اس کی بندگی کرتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کتاب مبین کیا ہے ؟ کتاب مبین اللہ کا علم ہی ہے جس نے ہر چیز کو اپنے احاطے میں لیا ہوا ہے۔ جس سے کائنات کے اندر تیرنے والا ذرہ بھی چھوٹ کر رہ نہیں گیا ، نہ ڈرنے سے کم اور نہ اس سے بڑی کوئی چیز۔

ذرا اس تعبیر پر کھڑے ہوکر غور کیجئے ” نہ ذرے سے کم “ نزول قرآن کے زمانے تک معروف اور مشہور بات یہ تھی کہ ذرہ صغیر ترین جسم ہے۔ اس سے کم کا تصور موجود ہی نہ تھا۔ آج ذرے کے توڑنے سے انسان کو معلوم ہوا کہ ذرے سے زیادہ چھوٹی چیز بھی موجود ہے۔ اس وقت انسان کے تصور اور حساب میں اس کا کوئی وجود نہ تھا۔ اللہ بہت ہی برکت والا ہے کہ اسکے بندے اسکی صفت کے وہ اسرار و رموز بھی جانتے ہیں۔ دوسرے لوگ صدیوں بعد مانتے ہیں اور یہ اللہ ہئ ہے جو کسی بھی وقت ان اسرار و رموز سے پردہ اٹھا دیتا ہے ، جب چاہتا ہے۔ یہ قیامت کیوں برپا ہوگی ؟ جس کا حتمی اور جزی علم اللہ کو ہے جو صغیر و کبیر کا جاننے والا ہے ؟

لیجزی الذین امنوا ۔۔۔۔۔۔ من رجز الیم (34: 4 – 5) ” اور یہ قیامت اس لیے آئے گی کہ اللہ جزاء دے ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے۔ ان کیلئے مغفرت ہے اور رزق کریم ہے۔ اور جن لوگوں نے ہماری آیات کو نیچا دکھانے کے لیے زور لگایا ہے ان کے لئے بدترین قسم کا دردناک عذاب ہے “۔

یہ ہے اللہ کی حکمت ، اس کا ارادہ اور اس کی تدبیر۔ اللہ نے اس بات کو مقدر بنا دیا ہے کہ جن لوگوں نے ایمان لانے کے بعد نیک کام کیے ان کو پوری جزاء دے اور ان لوگوں کو بھی سزا دے جنہوں نے اللہ کی آیات کی نیچا دکھانے کیلئے مقدر بھر کوشش کی۔ وہ لوگ جو ایمان لائے اور ان کا ایمان اعمال صالحہ کے روپ میں نمودار ہوا۔ ان کے لیے مغفرت ہے ، ان معاملات کے لئے جو ان سے غلط ہوگئے اور تقصیرات ہوگئیں اور پھر مغفرت کے بعد ان کے لئے رزق کریم ہے۔ اس سورة میں رزق کا ذکر بہت آتا ہے ، مراد جنتیں ہیں کیونکہ اللہ کی نعمتیں رزق کریم ہیں۔

رہے وہ لوگ جنہوں نے اللہ کی آیات کو نیچا دکھانے کی مساعی کیں اور تحریک اسلامی کے خلاف پوری قوت لگا دی ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ رجز نہایت ہی برے عذاب کو کہا جاتا ہے۔ یہ اس لئے کہ انہوں نے تحریک اسلامی کی خلاف سرگرمیاں دکھائیں ، تحریک کو ناکام کرنے کی سعی کی اور بری راہ پر جدوجہد کرتے رہے۔ یوں اللہ کی حکمت اور اس کا منصوبہ مکمل ہوتا ہے اور ان لوگوں نے جو نظریہ اپنا رکھا ہے کہ آخرت برپا نہ ہوگی اسکی وجہ ان کی لاعلمی ہے۔ حالانکہ اہل علم جانتے ہیں کہ یہ ضرور آئے گی

ان لوگوں نے یقین کرلیا تھا کہ قیامت نہ آئے گی جبکہ وہ اللہ کے مخصوص غیوب میں سے ایک غیب ہے اور اللہ نے فیصلہ دے دیا کہ وہ ضرور آئے گی۔ اللہ ہی عالم الغیب ہے۔ رسول اللہ ﷺ کو حکم دے دیا کہ آپ ﷺ اس پیغام کو نشر کردیں اور یہ کہ ان کا یہ عقیدہ جہالت پر مبنی ہے۔ اہل علم بھی اس نتیجے تک پہنچے ہیں جس تک اہل ایمان پہنچے ہیں۔ یہی راستہ ہے اللہ عزیز وحمید کا۔

آیت 3 { وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَا تَاْتِیْنَا السَّاعَۃُ } ”اور یہ کافر کہتے ہیں کہ ہم پر قیامت کبھی نہیں آئے گی۔“ عام طور پر ”السَّاعۃ“ کا ترجمہ قیامت ہی کردیا جاتا ہے ‘ مگر جیسا کہ سورة لقمان کی آیت 34 کے ضمن میں بھی بتایا جا چکا ہے السَّاعۃ اور قیامت دو مختلف الفاظ ہیں اور دونوں کے معانی بھی الگ الگ ہیں۔ السَّاعۃ سے مراد وہ خاص گھڑی ہے جب زمین میں ایک عظیم زلزلہ برپا ہوگا ‘ ستاروں اور سیاروں کا پورا نظام درہم برہم ہوجائے گا اور دنیا مکمل طور پر تباہ ہوجائے گی۔ جبکہ القیامۃ اس کے بعد کی کیفیت کا نام ہے جب دنیا دوبارہ نئی شکل میں پیدا ہوگی اور تمام انسانوں کو زندہ کر کے ایک جگہ اکٹھے کرلیا جائے گا۔ کچھ عرصہ پہلے تک تو سائنسدانوں کا خیال تھا کہ یہ کائنات ابدی ہے اور اس کا اختتام ممکن نہیں ‘ لیکن اب فزکس کے میدان میں نئی نئی تحقیقات کی روشنی میں سائنسدانوں کا جو نیا موقف سامنے آیا ہے وہ بھی یہی ہے کہ یہ کائنات ابدی نہیں ہے ‘ اس کا اختتام ایک ّمسلمہ حقیقت ہے اور یہ کہ جس طرح اپنے آغاز کے بعد یہ ایک پھلجھڑی کی طرح پھیلتی رہی ہے ‘ اسی طریقے سے اختتام پذیر ہوجائے گی۔ { قُلْ بَلٰی وَرَبِّیْ لَتَاْتِیَنَّکُمْ عٰلِمِ الْغَیْبِ } ”اے نبی ﷺ ! آپ کہیے ‘ کیوں نہیں ! میرے رب کی قسم ‘ جو تمام پوشیدہ چیزوں کو جاننے والا ہے ‘ وہ تم پر ضرور آکر رہے گی۔“ { لَا یَعْزُبُ عَنْہُ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَلَا فِی الْاَرْضِ } ”اس سے پوشیدہ نہیں رہ سکتی ذرّہ برابر بھی کوئی چیز نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں“ { وَلَآ اَصْغَرُ مِنْ ذٰلِکَ وَلَآ اَکْبَرُ اِلَّا فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ } ”اور نہ کوئی اس سے چھوٹی چیز اور نہ بڑی ‘ مگر وہ ایک روشن کتاب میں لکھی ہوئی موجود ہے۔“ یہ قیامت کیوں آئے گی ؟ اس کا منطقی جواز کیا ہے ؟ اس کا جواب اگلی آیات میں دیا گیا ہے۔

قیامت آکر رہے گی۔پورے قرآن میں تین آیتیں ہیں جہاں قیامت کے آنے پر قسم کھاکر بیان فرمایا گیا ہے۔ ایک تو سورة یونس میں (وَيَسْتَنْۢبِـــُٔـوْنَكَ اَحَقٌّ ھُوَ ڼ قُلْ اِيْ وَرَبِّيْٓ اِنَّهٗ لَحَقٌّ ې وَمَآ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِيْنَ 53؀) 10۔ یونس :53) لوگ تجھ سے دریافت کرتے ہیں کہ کیا قیامت کا آنا حق ہی ہے ؟ تو کہہ دے کہ ہاں ہاں میرے رب کی قسم وہ یقینا حق ہی ہے اور تم اللہ کو مغلوب نہیں کرسکتے۔ دوسری آیت یہی۔ تیسری آیت سورة تغابن میں (زَعَمَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنْ لَّنْ يُّبْعَثُوْا ۭ قُلْ بَلٰى وَرَبِّيْ لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُـنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ ۭ وَذٰلِكَ عَلَي اللّٰهِ يَسِيْرٌ) 64۔ التغابن :7) یعنی کفار کا خیال ہے کہ وہ قیامت کے دن اٹھائے نہ جائیں گے۔ تو کہہ دے کہ ہاں میرے رب کی قسم تم ضرور اٹھائے جاؤ گے پھر اپنے اعمال کی خبر دیئے جاؤ گے اور یہ تو اللہ پر بالکل ہی آسان ہے۔ پس یہاں بھی کافروں کے انکار قیامت کا ذکر کرکے اپنے نبی کو ان کے بارے قسمیہ بتا کر پھر اس کی مزید تاکید کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ وہ اللہ جو عالم الغیب ہے جس سے کوئی ذرہ پوشیدہ نہیں۔ سب اس کے علم میں ہے۔ گو ہڈیاں سڑ گل جائیں ان کے ریزے متفرق ہوجائیں لیکن وہ کہاں ہیں ؟ کتنے ہیں ؟ سب وہ جانتا ہے۔ وہ ان سب کے جمع کرنے پر بھی قادر ہے۔ جیسے کہ پہلے انہیں پیدا کیا۔ وہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔ اور تمام چیزیں اس کے پاس اس کی کتاب میں بھی لکھی ہوئی ہیں، پھر قیامت کے آنے کی حکمت بیان فرمائی کہ ایمان والوں کو ان کی نیکیوں کا بدلہ ملے۔ وہ مغفرت اور رزق کریم سے نوازے جائیں، اور جنہوں نے اللہ کی باتوں سے ضد کی رسولوں کی نہ مانی انہیں بدترین اور سخت سزائیں ہوں۔ نیک کار مومن جزا اور بدکار کفار سزا پائیں گے۔ جیسے فرمایا جہنمی اور جنتی برابر نہیں۔ جنتی کامیاب اور مقصد ور ہیں۔ اور آیت میں ہے (اَمْ نَجْعَلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَالْمُفْسِدِيْنَ فِي الْاَرْضِ ۡ اَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِيْنَ كَالْفُجَّارِ 28؀) 38۔ ص :28) ، یعنی مومن اور مفسد متقی اور فاجر برابر نہیں، پھر قیامت کی ایک اور حکمت بیان فرمائی کہ ایماندار بھی قیامت کے دن جب نیکوں کو جزا اور بدوں کو سزا ہوتے ہوئے دیکھیں گے تو وہ علم الیقین سے عین الیقین حاصل کرلیں گے اور اس وقت کہہ اٹھیں گے کہ ہمارے رب کے رسول ہمارے پاس حق لائے تھے۔ اور اس وقت کہا جائے گا کہ یہ ہے جس کا وعدہ رحمان نے دیا تھا اور رسولوں نے سچ سچ کہہ دیا تھا۔ اللہ نے تو لکھ دیا تھا کہ تم قیامت تک رہو گے تو اب قیامت کا دن آچکا۔ وہ اللہ عزیز ہے یعنی بلند جناب والا بڑی سرکار والا ہے۔ بہت عزت والا ہے پورے غلبے والا ہے۔ نہ اس پر کسی کا بس نہ کسی کا زور۔ ہر چیز اس کے سامنے پست اور عاجز۔ وہ قابل تعریف ہے اپنے اقوال و افعال شرع و فعل میں۔ ان تمام میں اس کی ساری مخلوق اس کی ثناء خواں ہے۔ جل و علا۔

آیت 3 - سورہ سبا: (وقال الذين كفروا لا تأتينا الساعة ۖ قل بلى وربي لتأتينكم عالم الغيب ۖ لا يعزب عنه مثقال ذرة في...) - اردو