سورہ سبا: آیت 1 - الحمد لله الذي له ما... - اردو

آیت 1 کی تفسیر, سورہ سبا

ٱلْحَمْدُ لِلَّهِ ٱلَّذِى لَهُۥ مَا فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَمَا فِى ٱلْأَرْضِ وَلَهُ ٱلْحَمْدُ فِى ٱلْءَاخِرَةِ ۚ وَهُوَ ٱلْحَكِيمُ ٱلْخَبِيرُ

اردو ترجمہ

حمد اُس خدا کے لیے ہے جو آسمانوں اور زمین کی ہر چیز کا مالک ہے اور آخرت میں بھی اسی کے لیے حمد ہے وہ دانا اور باخبر ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Alhamdu lillahi allathee lahu ma fee alssamawati wama fee alardi walahu alhamdu fee alakhirati wahuwa alhakeemu alkhabeeru

آیت 1 کی تفسیر

الحمدللہ الذی لہ ۔۔۔۔۔ وھو الرحیم الغفور (1 – 2) ” ۔ “۔

یہ اس سورة کا آغاز ہے جس میں مشرکین کے شرک ، ان کی جانب سے رسول اللہ کی تکذیب ، آخرت میں تشکیک ، اور ان کی طرف سے بعث بعد الموت کو مستبد سمجھنے کے موضوعات پر کلام کیا گیا ہے۔ آغاز ان کلمات کے ساتھ ہے کہ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہے۔ جو بذات خود محمود ہے اگرچہ مخلوقات میں سے کوئی بھی اس کی تعریف نہ کرے۔ وہ اس پوری کائنات میں محمود ہے اور اس کائنات کی پوری قوتیں اور مخلوقات اللہ کی حمد کرتی ہیں اگرچہ یہ انسان اس کی حمد نہ کرے۔

حمد کے ساتھ اللہ کی اس صفت کا ذکر ہے کہ اللہ آسمانوں اور زمین کا مالک ہے۔ اللہ کے ساتھ کسی کا کوئی حق نہیں ہے۔ نہ زمین اور آسمانوں میں اللہ کے ساتھ کوئی شریک ہے۔ زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے وہ اللہ کا ہے اور یہ اسلامی نطریہ حیات کا پہلا اور اساسی نکتہ ہے۔ اس طویل و عریض کائنات کا مالک اللہ ہے اور اس کے سوا کوئی شریک نہیں ہے۔

ولہ الحمد فی الاخرۃ (34: 1) ” اور آخرت میں بھی اسی کے لیے حمد ہے “۔ یعنی اللہ اپنی ذات میں محمود ہے اور بندوں کی طرف سے کی جانے والی حمد بھی اسی کے لئے ہے۔ غرض وہ لوگ جو اللہ کا انکار کرتے ہیں یا اس کے ساتھ کسی کو شریک کرتے ہیں ان کی طرف سے بھی حمد اللہ ہی کے لیے ہے اور وہی اس کا مستحق ہے اور ان پر یہ بات آخرت میں منکشف ہوگی۔

وھو الحکیم الخبیر (34: 1) ” وہ دانا اور باخبر ہے “۔ وہ ایسا حکیم ہے کہ اسکا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہے۔ وہ

زمین اور آسمان کو بھی حکمت سے چلاتا ہے ۔ اس کائنات کی تدبیر نہایت حکمت سے کرتا ہے۔ وہ ہر چیز سے خبردار ہے ، ہر معاملے کا اسے علم ہے اور اس کا علم بہت گہرا ، شامل اور محیط ہے۔ اللہ کے علم کو اگر دیکھنا ہے تو اس کی مثال کیلئے اس کی کتاب علم کا ایک صفحہ ملاحظہ ہو۔

یعلم ما یلج ۔۔۔۔۔ یعرج فیھا (34: 2) ” جو کچھ زمین میں جاتا ہے اور جو کچھ اس سے نکلتا ہے اور جو کچھ آسمان سے اترتا ہے اور جو کچھ اس میں چڑھتا ہے ، ہر چیز کو وہ جانتا ہے “۔ یہ چند الفاظ ہیں ذرا ان پر غور کرو ، کس قدر تعداد زمین کے اندر جاتی ہے ، کس قدر اس سے نکلتی ہے ، کس قدر تعداد کا آسمانوں سے نزول ہوتا ہے اور کسی قدر اشیاء کا عروج ہوتا ہے مختلف حرکات ، مختلف شکلوں ، مختلف صورتوں ، مختلف تصورات اور مختلف بینات میں۔ اس قدر کثیر کہ خیال ان کو اپنے دائرے میں نہیں لے سکتا۔ اگر تمام اہل زمین ایک سیکنڈ میں ہونے والے مذکورہ اعمال کا احاطہ کرنا چاہیں تو شمار نہ کرسکیں۔ اگرچہ پوری زندگی اس کام میں لگا دیں۔ یقیناً وہ ایسا نہیں کرسکتے۔ کیونکہ لاتعداد اشیا اس ایک لحظہ میں زمین میں داخل ہوتی اور نکلتی ہیں اور آسمان سے لاتعداد اشیاء کا نزول و عروج ہوتا ہے ۔ کس قدر بیج زمین میں گرتے ہیں اور کس قدر کونپلیں نکلتی ہیں ، کتنے ہی حشرات داخل ہوتے اور نکلتے ہیں۔ کس قدر اجرام اور حیوانات ، کس قدر پانی کے قطرے اور کس قدر گیس کے ذرات اور کس قدر کہرابائی ذرات زمین کے اطراف میں داخل ہوتے ہیں اور کس قدر دوسری اشیاء داخل و خارج ہوتی ہیں۔ اللہ کی آنکھ ان کو دیکھ رہی ہے اور شمار کر رہی ہے۔

ذرا نباتات ہی کو دیکھئے ! ذرا چشموں کو دیکھئے ، ذرا آتش فشاں پہاڑوں کو دیکھئے ، ذرا دوسری گیسوں کو دیکھئے اور یہ دیکھئے کہ کس قدر مستور خزانے ہیں اور ذرا حشرات الارض کو دیکھئے جو نظر آتے ہیں اور جو خوردبینوں سے بھی نظر نہیں آتے۔ بعض کے بارے میں انسان نے علم حاصل کرلیا ہے اور لاتعداد ابھی تک نامعلوم ہیں۔

آسمانوں سے نازل ہونے والے بارش کے قطروں کا شمار کرسکتے ہو ! شہاب ثاقب تو قطرے نہیں ان کی تعداد معلوم ہے۔ سورج سے کسی بھی لمحے شعارعیں نکلتی ہیں۔ کس قدر جلانے والی ، کس قدر روشنی کرنے والی ، کس قدر فیصلے نافذ ہو رہے ہیں اور کس قدر ابھی تک چھپے ہوئے ہیں۔ کس قدر رحمتیں ہیں جو عوام الناس پر ہیں اور کس قدر ہیں جو بعض بندوں پر نافذ ہونے والی ہیں۔ کس قدر رزق ہے جو تقسیم ہوتا ہے اور کس قدر رزق ہے جو روک لیا جاتا ہے اور کیا کچھ ہے جو صرف اللہ کے علم میں ہے۔

کتنے نفوس اور کتنے سانس ہیں جو آسمانوں کی طرف بلند ہوتے ہیں ، نباتات کے ، حیوانات کے جراثیم کے اور دوسری مخلوقات کے اور کتنی ہی دعوتیں ہیں جو اللہ کی طرف سے دی جا رہی ہیں ، اعلانیہ ہیں یا چھپی ہوئی ہیں اور کوئی ان کو نہیں سنتا مگر اللہ ! کس قدر روحین ہیں جن کو ہم جانتے ہیں یا نہیں جانتے۔ یہ اللہ کی طرف اٹھتی ہیں اور کتنے ہی فرشتے ہیں جو ہر روز اللہ کے ہاں واپس ہوتے ہیں اور کتنی روحیں اس کائنات میں ہیں جنہیں صرف اللہ ہی جانتا ہے۔

سمندر سے بخارات کے کس قدر ذرے اور گیس کے دوسرے ذرات اٹھتے ہیں ، جن کا علم صرف اللہ کو ہے۔ یہ تمام اشیاء صرف ایک ہی لمحہ میں یہ عمل کرتی ہیں۔ یہ ایک لمحے کی بات ہے جس کا شمار سب انسان پوری زندگی لگا کر بھی نہیں کرسکتے۔ اگرچہ وہ عمریں صرف کردیں جبکہ اللہ کا علم شامل اور محیط ہے۔ ہر لمحے اور ہر زمانے اور ہر جگہ کے ان واقعات کا اس کے ہاں حساب و کتاب ہے بلکہ وہ انسان کی حرکات و سکنات اور خیالات و وساوس کا بھی حساب کرتا ہے لیکن وہ ستار ہے اور انسان کی کمزرویوں کا چھپاتا ہے۔

وھو الرحیم الغفور (34: 2) وہ رحیم و غفور ہے “۔

قرآن کریم کی آیات میں سے ایسی ایک ایک آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ یہ قرآن انسانی کلام نہیں ہے۔ انسانی عقل کا مزاج یہ ہے کہ وہ اس قدر گہرا تصور پیش ہی نہیں کرسکتی جس کی انتہاؤں تک وہ کود نہ جاسکے۔ انسانی تخیل میں ایسے عمومی اور جامع خیالات آہی نہیں سکتے۔ اور اس قسم کے جوامع العلم جس کے اندر اس قدر مفہومات و مداولات آجائیں جن کا احاط ممکن نہ ہو۔ انسانی کلام میں نہیں ہوتے کیونکہ انسانی کلام انسانی عقل کا نتیجہ ہوتا ہے اور انسانی عقل کے مزاج کے یہ بات خلاف ہے۔ اس قسم کی آیات بندوں کے کلام سے مختلف ہیں۔

اللہ کے علم کی اس جامعیت اور اللہ کے شامریات کے محیط ہونے کے ثبوت اور معجزانہ بیان کے بعد بتایا جاتا ہے کہ اہل کفر قیامت کا انکار کرتے ہیں جبکہ خود ان کا علم اس قدر محدود ہے کہ وہ کل کے بارے میں نہیں جانتے کہ کیا ہوگا۔ جبکہ اللہ علیم وبصیر ہے۔ زمین اور آسمانوں میں کوئی شے بھی اس کے علم سے باہر نہیں ہے اور قیامت اس لیے ضروری ہے کہ نیک اور بد دونوں کو اپنے کیے کا انجام ملے۔

آیت 1 { اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ لَہٗ مَا فِی السَّمٰٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ } ”کل حمد اور کل شکر اس اللہ کے لیے ہے جس کی ملکیت ہے ہر وہ شے جو آسمانوں اور زمین میں ہے“ { وَلَہُ الْحَمْدُ فِی الْاٰخِرَۃِط وَہُوَ الْحَکِیْمُ الْخَبِیْرُ } ”اور آخرت میں بھی اسی کے لیے حمد ہوگی ‘ اور وہ کمال حکمت والا ‘ ہرچیز سے باخبر ہے۔“ آخرت کی حمد کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے : لِوَائُ الحَمْدِ یَوْمَئِذٍ بِیَدِیْ 1 ”اس دن یعنی میدانِ حشر میں حمد کا جھنڈا میرے ہاتھ میں ہوگا“۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس روز میں جو حمد کروں گا وہ آج نہیں کرسکتا۔ -۔ - آخرت کی اس حمد کا اس آخری امت کے ساتھ خاص تعلق ہے۔ حضور اکرم ﷺ کے اسمائے مبارک محمد ‘ احمد اور حامد کا تعلق بھی لغوی طور پر لفظ ”حمد“ کے ساتھ ہے اور اسی لیے اس امت کو بھی ”حَمَّادُون“ بہت زیادہ حمد کرنے والے کہا گیا ہے۔

اوصاف الٰہی۔چونکہ دنیا اور آخرت کی سب نعمتیں رحمتیں اللہ ہی کی طرف سے ہیں۔ ساری حکومتوں کا حاکم وہی ایک ہے۔ اس لئے ہر قسم کی تعریف وثناء کا مستحق بھی وہی ہے۔ وہی معبود ہے جس کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں۔ اسی کیلئے دنیا اور آخرت کی حمد وثناء سزاوار ہے۔ اسی کی حکومت ہے اور اسی کی طرف سب کے سب لوٹائے جاتے ہیں۔ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے سب اس کے ماتحت ہے۔ جتنے بھی ہیں سب اس کے غلام ہیں۔ اس کے قبضے میں ہیں سب پر تصرف اسی کا ہے۔ آخرت میں اسی کی تعریفیں ہوں گی۔ وہ اپنے اقوال، افعال، تقدیر، شریعت سب میں حکومت والا ہے اور ایسا خبردار ہے جس پر کوئی چیز مخفی نہیں، جس سے کوئی ذرہ پوشیدہ نہیں، جو اپنے احکام میں حکیم، جو اپنی مخلوق سے باخبر، جتنے قطرے بارش کے زمین میں جاتے ہیں، جتنے دانے اس میں بوئے جاتے ہیں، اس کے علم سے باہر نہیں۔ جو زمین سے نکلتا ہے، اگتا ہے، اسے بھی وہ جانتا ہے۔ اس کے محیط، وسیع اور بےپایاں علم سے کوئی چیز دور نہیں۔ ہر چیز کی گنتی، کیفیت اور صفت اسے معلوم ہے۔ آسمان سے جو بارش برستی ہے، اس کے قطروں کی گنتی بھی اس کے علم میں محفوظ ہے جو رزق وہاں سے اترتا ہے وہ بھی اس کے علم میں ہے اس کے علم سے نیک اعمال وغیرہ جو آسمان پر چڑھتے ہیں وہ بھی اس کے علم میں ہیں۔ وہ اپنے بندوں پر خود ان سے بھی زیادہ مہربان ہے۔ اسی وجہ سے انکے گناہوں پر اطلاع رکھتے ہوئے انہیں جلدی سے سزا نہیں دیتا بلکہ مہلت دیتا ہے کہ وہ توبہ کرلیں۔ برائیاں چھوڑ دیں رب کی طرف رجوع کریں۔ پھر غفور ہے۔ ادھر بندہ جھکا رویا پیٹا ادھر اس نے بخش دیا یا معاف فرما دیا درگزر کرلیا۔ توبہ کرنے والا دھتکارا نہیں جاتا توکل کرنے والا نقصان نہیں اٹھاتا۔

آیت 1 - سورہ سبا: (الحمد لله الذي له ما في السماوات وما في الأرض وله الحمد في الآخرة ۚ وهو الحكيم الخبير...) - اردو