سورہ سعد: آیت 8 - أأنزل عليه الذكر من بيننا... - اردو

آیت 8 کی تفسیر, سورہ سعد

أَءُنزِلَ عَلَيْهِ ٱلذِّكْرُ مِنۢ بَيْنِنَا ۚ بَلْ هُمْ فِى شَكٍّ مِّن ذِكْرِى ۖ بَل لَّمَّا يَذُوقُوا۟ عَذَابِ

اردو ترجمہ

کیا ہمارے درمیان بس یہی ایک شخص رہ گیا تھا جس پر اللہ کا ذکر نازل کر دیا گیا؟" اصل بات یہ ہے کہ یہ میرے "ذکر"پر شک کر رہے ہیں، اور یہ ساری باتیں اس لیے کر رہے ہیں کہ انہوں نے میرے عذاب کا مزا چکھا نہیں ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Aonzila AAalayhi alththikru min baynina bal hum fee shakkin min thikree bal lamma yathooqoo AAathabi

آیت 8 کی تفسیر

آیت نمبر 8 (1)

یہ کوئی قابل تعجب بات تو نہ تھی مگر اکابرین قریش حسد میں مبتلا تھے۔ اس حسد کی وجہ سے وہ غرور ' دشمنی اور کنیہ پر اتر آتے تھے۔ ابن اسحاق نے محمد ابن شہاب زہری سے نقل کیا ہے کہ ایک بار ابوسفیان ابن حرب ، ابوجہل ابن ہشام اور اجس ابن شریق ابن عمرو ابن وہب ثقفی حلیف بنی زہرہ رات کے وقت نکلے کہ قرآن سنیں۔ حضور ﷺ رات کے وقت نماز میں قرآن کریم پڑھا کرتے تھے۔ ان تینوں میں سے ہر شخص دوسرے سے بیخبر اپنی اپنی جگہ بیٹھ گیا۔ رات دیر تک یہ سنتے رہے۔ جب سپیدہ صبح نمودار ہوئی تو یہ اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوئے ۔ راستے میں وہ اتفاقاً مل گئے اور انہوں نے ایک دوسرے کو خوب ملامت کی۔ انہوں نے ایک دوسرے سے کہا آئندہ یہ حرکت مت کرو ، اگر بعض نادانوں نے تمہیں دیکھ لیا تو ان کے دلوں میں بات بیٹھ کا ئے گی۔ یہ لوگ چلے جب دوسری رات ہوئی تو دوبارہ ہر شخص پھر آکر اپنی مقرر جگہ پر بیٹھ گیا۔ رات گئے تک سنتے رہے۔ جب فجر نمودار ہوئی تو یہ لوگ نکلے اور راستے میں پھر اکٹھے ہوگئے انہوں نے گزشتہ رات ایک دوسرے کو ملامت کی۔ اور چلے گئے۔ تیسری رات کو پھر ہر شخص آکر بیٹھ گیا۔ رات کو سنتے رہے۔ جب فجر ہوئی تو جانے لگے اور راستے میں پھر ایک دوسرے کو دیکھ لیا۔ اب انہوں نے کہا کہ جب تک ہم کوئی معاہدہ نہ کرلیں ، نہ جائیں گے۔ چناچہ انہوں نے باقاعدہ معاہدہ کیا اور پھر چلے گئے۔ صبح ہوئی تو انس ابن شریق نے اپنی عصا لی۔ یہ پہلے ابوسفیان کے پاس گیا۔ اس نے کہا ابوحظلہ تم نے محمد سے جو کچھ سنا بتاؤ۔ اس کے بارے میں کیا رائے ہے ۔ اس نے کہا میں نے بعض باتیں سنی جو میرے علم میں ہیں اور میں ان کا مطلب بھی سمجھتا ہوں اور بعض باتیں میں نے نہیں سنی اور نہ میں ان کا مطلب سمجھتا ہوں۔ تو اس نے کہا خدا کی قسم میرا بھی یہی حال ہے۔ اس کے بعد یہ شخص ابوجہل کے پاس آیا۔ اس کے گھر میں اس سے ملا۔ اس سے کہا ابوالحکم ، محمد سے تم نے جو کچھ سنا ، اس کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ اس نے کہا میں نے کیا سنا ؟ ہمارا اور بنو عبدمناف کے درمیان ہمیشہ مقابلہ رہا۔ انہوں نے کھانا کھلایا ، ہم نے بھی کھلایا۔ انہوں نے لوگوں کو سواریاں دیں ، ہم نے بھی سواریاں دیں۔ انہوں نے عطے دیئے ہم نے بھی عطے دیئے۔ جنگ میں بھی ہم نے مقابلہ کیا یہاں تک کہ ہم مقابلے کے گھوڑوں کی طرح ساتھ ساتھ رہے۔ اب وہ کہتے ہیں ہم میں نبی پیدا ہوگیا ہے۔ اس پر آسمانوں سے وحی آتی ہے ہم ان کے مقابلے میں نبی کہاں سے لائیں ؟ کبھی بھی ہم اس پر ایمان نہ لائیں گے ، خدا کی قسم اور کبھی بھی اس کی تصدیق نہ کریں گے۔ انس اٹھ کھڑا ہوا اور اسے اپنے حال پر چھوڑ دیا۔

دیکھئے یہ کھلا کینہ ہے جس کی وجہ سے ابوجہل حق کا اعتراف نہیں کررہا ہے۔ حالانکہ جب مسلسل تین راتوں کو وہ کلام الہٰی سب رہا تھا تو وہ جانتا تھا کہ یہ برحق ہے۔ یہ حسد اور کینہ تھا جو اس کے ایمان کی راہ میں رکاوٹ بنا رہا یہی ہے راز اس بات میں ہے۔

ء انزل علیہ الذکر من بیننا (38: 8) ” کیا ہمارے درمیان میں اس شخص پر کلام الہٰی نازل ہوا ، اور کوئی نہ تھا “۔ یہی لوگ تھے جو یہ کہتے تھے۔ لولآ۔۔۔ عظیم (43: 31) ” وہ قرآن ان دو بستیوں کے کسی بڑے آدمی پر کیوں نازل نہ ہوا “۔ ان دو بستیوں سے ان کی مراد مکہ اور طائف تھی۔ جہاں قریش کے اکابر حکمران تھے۔ جہاں ان لوگوں کی مذہبی سیادت و قیادت قائم تھی۔ نیز انہوں نے یہ بھی سن رکھا تھا کہ ایک نیا نبی آنے ہی والا ہے اور جب اللہ نے یہ منصب حضرت محمد ﷺ کو عطا کردیا تو یہ لوگ جل بھن گئے۔ اور انہوں نے یہ خیال کیا کہ اللہ کی اس عظیم رحمت اور اس اونچے منصب کے مستحق وہ نہیں ہیں۔ کیا سارے جہاں سے محمد ﷺ ہی اس کے مستحق ٹھہرے ؟ اللہ تعالیٰ بھی ان کو اسی انداز میں جواب دیتا ہے حقارت کے ساتھ ، جس کے اندر تہدید اور ڈراوے کے اشارات موجود ہیں۔ آیت نمبر 8 (2)

ان کا سوال یہ تھا کہ ” کیا ہمارے درمیان سے نزول قرآن کے لیے صرف اس شخص کا انتخاب کیا جانا تھا ؟ “ جبکہ وہ خود قرآن کی سچائی ہی کے بارے میں مشکوک ہیں۔ ان کے دلوں کے اندر یہ یقین ہی نہیں ہے کہ یہ قرآن اللہ کی جانب سے ہے۔ وہ تو حقیقت وحی کے بارے میں سخت خلجان میں تھے لیکن اس کے باوجود یہ بھی وہ تسلیم کرتے تھے کہ یہ قرآن ایک عام کلام کے مقابلے میں ایک بلند پایہ کلام ہے۔ اب قرآن کریم کے بارے میں ان کی بات سے روئے سخن پھرجاتا ہے۔ اور ان کے خلجان کو بھی ایک طرف چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اور ان کو سخت عذاب کی دھمکی دی جاتی ہے۔

بل لما یذوقوا عذاب (38:8) ” یہ ساری باتین اس لیے کر رہے ہیں کہ انہوں نے میرے عذاب کا مزہ نہیں چکھا۔ یعنی اللہ نے اپنی مہربانی سے نجات دی ہوئی ہے لیکن جب ان کو عذاب نے آلیا تو پھر وہ ایسی باتیں نہ کریں گے۔ اس وقت ان کو حقیقت حال کا اچھی طرح علم ہوجائے گا۔

اب آخری تبصرہ یہ آتا ہے کہ یہ لوگ حضرت محمد ﷺ پر ہونے والے فضل وکرم کو ان کے استحقاق سے زیادہ سمجھتے ہیں تو سوال یہ کیا جاتا ہے کہ کیا رحمت ربی کی تقسیم کے انچارج یہ ہیں اور ان کا اختیار ہے کہ کسی پر رحمت کریں کس پر نہ کریں۔

آیت 8 { ئَ اُنْزِلَ عَلَیْہِ الذِّکْرُ مِنْم بَیْنِنَا } ”کیا اسی پر نازل ہوا ہے یہ ذکر ہمارے درمیان ؟“ اگر یہ واقعی اللہ کا کلام ہے تو کیا یہ محمد ﷺ پر ہی نازل ہونا تھا ‘ کیا اس کے لیے اللہ کو ہمارے بڑے بڑے سرداروں اور سرمایہ داروں سے کوئی ”اعلیٰ شخصیت“ نظر نہیں آئی ؟ { بَلْ ہُمْ فِیْ شَکٍّ مِّنْ ذِکْرِیْ } ”بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ میرے ذکر کے معاملے میں شک میں پڑگئے ہیں۔“ { بَلْ لَّمَّا یَذُوْقُوْا عَذَابِ } ”بلکہ ابھی تک انہوں نے میرے عذاب کا مزہ نہیں چکھا۔“ اصل بات یہ ہے کہ ابھی تک انہوں نے میرے کسی عذاب کی مار نہیں چکھی ‘ اس لیے انہیں میرے اس کلام کے بارے میں شک ہے۔

آیت 8 - سورہ سعد: (أأنزل عليه الذكر من بيننا ۚ بل هم في شك من ذكري ۖ بل لما يذوقوا عذاب...) - اردو