سورہ سعد: آیت 7 - ما سمعنا بهذا في الملة... - اردو

آیت 7 کی تفسیر, سورہ سعد

مَا سَمِعْنَا بِهَٰذَا فِى ٱلْمِلَّةِ ٱلْءَاخِرَةِ إِنْ هَٰذَآ إِلَّا ٱخْتِلَٰقٌ

اردو ترجمہ

یہ بات ہم نے زمانہ قریب کی ملت میں کسی سے نہیں سنی یہ کچھ نہیں ہے مگر ایک من گھڑت بات

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ma samiAAna bihatha fee almillati alakhirati in hatha illa ikhtilaqun

آیت 7 کی تفسیر

ماسمعنا۔۔۔۔ اختلاق (38: 7) ” یہ بات ہم نے زمانہ قریب کی ملت میں کسی سے نہیں سنی۔ یہ کچھ نہیں ہے مگر ایک من گھڑت بات “۔

نزول قرآن کے زمانے میں عیسائیوں کے درمیان عقیدۂ تثلیث عام ہوگیا تھا اور حضرت عزیر کی ابوہیت کا عقیدہ بھی یہودیوں کے درمیان پھیل گیا تھا۔ اکابرین قریش اس طرف اشارہ کررہے تھے اور کہتے تھے کہ ” یہ بات ہم نے زمانہ قریب کی ملت میں نہیں سنی۔ یہ خالص توحید تو نہ یہودیت میں ہے اور نہ عیسائیت میں۔ لہذا حضرت محمد ﷺ جو کچھ پیش کر رہے ہیں ' یہ ان کا من گھڑت دین ہے۔ اسلام نے خالص توحید کے قیام کے لئے بہت جدوجہد کی۔ اور عقیدۂ توحید سے ہر قسم کے انسانوں ' شرک خفی اور شرک جلی اور تمام دوسری بےراہ رویوں اور کج فکریوں کو دور کردیا ۔ یہ اس لیے کہ عقیدۂ توحید وہ حقیقت ہے جس پر یہ پوری کائنات قائم ہے۔ اور اس پر یہ پوری کائنات شہادت دے رہی ہے۔ نہایت ہی واضح انداز میں ۔ پھر انسان کی شخصیت کی اصلاح اس کی ذات میں ، ان کے اصول حیات میں اور زندگی کے فروعی مسائل میں اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک وہ عقیدۂ توحید پر قائم نہ ہو۔ یہاں مناسب ہے کہ اس بات کی تفصیل دے دی جائے کہ قریش عقیدۂ توحید کی کس قدر شدید مزاحمت کررہے تھے ۔ اس عقیدے کی وجہ سے وہ کس قدر زیادہ دہشت زدہ ہوگئے تھے اور وہ بیشمار الہوں واحد کے عقیدے کو کس قدر عجیب اور انوکھا سمجھتے تھے۔ اور یہ بھی بیان کردیں کہ قریش سے قبل انسانی تاریخ میں تمام مشرکین نے کس طرح ہمشہ اس عقیدے کی مخالفت کی اور آدم (علیہ السلام) سے ادھر تمام انبیائے کرام نے کس طرح ہمیشہ اس عقیدے پر اصرار کیا۔ اور اس بات کے لیے ان تھک مساعی کیں کہ لوگ اس عقیدے کو تسلیم کرلیں اور یہ کہ حقیقتاً ان کے ذہنوں میں یہ عقیدہ بیٹھ جائے۔ سب سے پہلے یہ مناسب ہے کہ قارئین عقیدہ توحید کی اہمیت کو سمجھ لیں۔

حقیقت یہ ہے کہ عقیدۂ توحید وہ بنیادی سچائی ہے جس کے اوپر یہ پوری کائنات قائم ہے اور یہ پوری کائنات نہایت وضاحت کے ساتھ وحدت الوہیت پر شہادت دیتی ہے۔ وہ قوانین قدرت جو اس زمین پر لاگو ہیں اپنی حقیقت اور ماہیت کے اعتبار سے بالکل ایک اکائی ہیں اور یہ بتاتے ہیں کہ جس ارادے کے تحت یہ قوانین وجود میں آئے ہیں ' وہ ایک ہی ارادہ ہے۔ اس کائنات پر مجموعی نظرڈالنے سے یا اس کائنات کے ایک ہی جزء کے مطالعے سے اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ اس کے اندر وحدت پائی جاتی ہے۔ اور یہ وحدت بتاتی ہے کہ اس کو وجود میں لانے والا ارادہ ایک ہی ہے۔

آیت 7 { مَا سَمِعْنَا بِہٰذَا فِی الْْمِلَّۃِ الْاٰخِرَۃِ } ”ہم نے ایسی کوئی بات پچھلے دین میں تو نہیں سنی ہے۔“ آخر ہمارا بھی اپنا ایک دین ہے جو ہم نے ورثے میں پایا ہے۔ پھر ہمارے باپ دادا کی روایات ہیں جو نسل در نسل ہم تک پہنچی ہیں۔ لیکن ہم نے ایسی باتیں اس سے پہلے نہ تو اپنے باپ دادا کے دین میں سنی ہیں اور نہ ہی پرانی روایات سے ان کی تصدیق ہوتی ہے۔ { اِنْ ہٰذَآ اِلَّا اخْتِلَاقٌ۔ ”یہ تو نہیں ہے مگر ایک گھڑی ہوئی چیز۔“ اختلاق ”خلق“ سے باب افتعال ہے۔ یعنی یہ کوئی خواہ مخواہ بنائی ہوئی چیز ہے۔

آیت 7 - سورہ سعد: (ما سمعنا بهذا في الملة الآخرة إن هذا إلا اختلاق...) - اردو