سورہ سعد: آیت 6 - وانطلق الملأ منهم أن امشوا... - اردو

آیت 6 کی تفسیر, سورہ سعد

وَٱنطَلَقَ ٱلْمَلَأُ مِنْهُمْ أَنِ ٱمْشُوا۟ وَٱصْبِرُوا۟ عَلَىٰٓ ءَالِهَتِكُمْ ۖ إِنَّ هَٰذَا لَشَىْءٌ يُرَادُ

اردو ترجمہ

اور سرداران قوم یہ کہتے ہوئے نکل گئے کہ "چلو اور ڈٹے رہو اپنے معبودوں کی عبادت پر یہ بات تو کسی اور ہی غرض سے کہی جا رہی ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waintalaqa almalao minhum ani imshoo waisbiroo AAala alihatikum inna hatha lashayon yuradu

آیت 6 کی تفسیر

وانطلق۔۔۔۔ یراد (38: 6) ” اور سرداران قریش یہ کہتے ہوئے چلے گئے کہ چلو اور اپنے معبودوں کی عبادت پر ڈٹے رہو ۔ یہ بات تو کسی اور ہی غرض سے کہی جارہی ہے “۔ یہ کوئی دین اور نظریہ کی بات نہیں ہے۔ یہ کوئی اور ہی گہری سازش ہے اور جمہور عوام کا یہ فرض ہے کہ یہ معاملہ اکابرپر چھوڑدیں۔ جو خفیہ باتوں کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ لوگوں کو چاہئے کہ وہ اپنے موروثی طرز عمل پر جمے رہیں اور اپنے آباؤ اجداد کے عقائد کو سختی سے پکڑے رکھیں۔ اور اس جدید تحریک کے پیچھے جو سازش ہے اس میں نہ پڑیں۔ یہ لیڈروں کا کام ہے کہ وہ ان سازشوں کا دفاع کریں۔ عوام کو مطمئن رہنا چاہئے۔ قیادت اپنے مفادات ' عوام کے مفادات اور اپنے الہوں کے مفادات کو اچھی طرح جانتی ہے۔

یہ ہے ایک عام اور ہر سوسائٹی میں دہرائے جانے والا طریقہ کار جس کے مطابق لوگ عوام الناس کو ملک و ملت کے مسائل سے ہٹانے کے لئے جسے ہر سوسائٹی کے سرکش ' باغی اور ڈکٹیٹر اور طاغوتی قوتیں استعمال کرتی ہیں۔ اس لیے کہ اگر عوام الناس قومی مسائل پر سوچنا شروع کردیں تو یہ طاغوتی قوتوں کے لئے ایک خطرناک علامت ہوتی ہے۔ طاغوت کے اقتدار کے لیے یہ خطرہ ہوتا ہے۔ کیونکہ اس طرح ان اندھیروں کے چھٹ جانے کا خطرہ ہوتا ہے جن میں عوام الناس غرق ہوتے ہیں۔ کیونکہ طاغوت کا اقتدار قائم ہی تب ہوتا ہے جب جمہورجہالت میں غرق ہوں۔

اس کے بعد وہ اہل کتاب کے ظاہری عقیدے سے عوام کو دھوکہ دیتے ہیں یعنی اہل کتاب کے حوالے سے جبکہ اہل کتاب کے عقائد میں بھی افسانے داخل ہوگئے تھے اور انہوں نے توحید کے خالص عقیدے میں تحریف کرکے اسے شرکیہ عقائد بنا دیا تھا ۔ چناچہ وہ کہتے ہیں :

اس کائنات میں قدراشیاء ہیں ' ان میں ہر شے متحرک ہے۔ یہ پوری کائنات چھوٹے چھوٹے ذرلت سے مرکب ہے۔ خواہ زندہ کائنات ہو یا مردہ ۔ یہ تمام ذارت الیکٹرون سے مرکب ہیں اور یہ الیکڑان ایک گٹھلی کے اردگرد حرکت کرتے ہیں جو پروٹونز سے مرکب ہے۔ یہ حرکت اسی طرح ہے جس طرح کواکب سورج کے اردگرد حرکت کرتے ہیں ۔ اور جس طرح بیشمار سورجوں کا مجموعہ کہکشاں اپنے اردگرد حرکت کرتا ہے۔ یہ تمام حرکات غرب سے شرق کی طرف حرکت کرتے ہیں۔ یہ وقت کی حرکت سے متضاد حرکت ہے۔

وہ عناصر جن سے زمین اور دوسرے ستارے اور سیارے مرکب ہوتے ہیں یہ ایک ہی ہیں۔ تمام ستارے بھی انہی عناصر سے مرکب ہیں جن سے زمین مرکب ہے۔ یہ تمام ذرات سے مرکب ہیں اور ذرات الیکٹرون ' پروٹون اور نیوٹرون سے مرکب ہیں ۔ تمام ذرات بلااستثناء ان تین اجزاء سے مرکب ہیں۔

” جس طرح پورا مادہ ان تین اجزاء سے مرکب ہے ' اسی طرح قوت بھی ایک ہی اصل کی طرف لوٹتی ہے ۔ روشنی اور حرارت ' بنفشی شعاعیں ' لاسلکی شعاعین ' ماورائے بنفشی شعاعیں اور تمام دوسری شعاعیں دراصل مقناطیسی کہربائی قوت کی مختلف اقسام ہیں۔ ان کی رفتار ایک ہے ، اختلاف صرف ان کی موجودگی میں ہے “۔” مادہ تین اجزاء سے مرکب ہے اور قوت موجوں سے مرکب ہے “۔

” آئن سٹائن کا مخصوص نظریہ اضافت یہ ثابت کرتا ہے کہ مادہ اور قوت ایک ہی چیز ہے۔ تجربات نے اس دعویٰ کی

تصدیق کردی ہے۔ ایک آخری تجربہ بھی سامنے آگیا ہے۔ جس نے جہاراً یہ اعلان کردیا ہے تمام دنیا نے اسے سن لیا ہے کہ ایک جدید بم میں ایٹم نے قوت کی شکل اختیار کرلی “۔

” یوں ثابت ہوتا ہے کہ مادہ اور قوت ایک چیز ہے “۔

یہ ہے اس کائنات کی طبعی تشکیل میں وحدت اور حال ہی میں انسان اس کی حقیقت کو معلوم کرسکا ہے۔ اس کائنات کی مسلسل حرکت میں بھی ایک طرح کی یگانگت اور وحدت ہے جیسا کہ ہم نے باربار اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ پھر اس کائنات کی تمام حرکات منظم اور مسلسل ہیں۔ اس قدر باقاعدہ کہ ان میں سے ایک سکینڈ کا خلل بھی نہیں پڑتا ۔ نہ اس میں کوئی اضطراب ہے۔ پھر پورے نظام میں اس قدر توازن ہے کہ نہ کسی جرم فلکی کی حرکت میں تعطل آتا ہے اور نہ ہی اجرام فلکی کے درمیان کوئی تصادم آتا ہے اور وہ ستارے اور سیارے جو ان کہکشانوں میں جو ہمارے قریب ہیں اور جو اس فضائے کائنات میں تیررہی ہیں ' ان کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے مدار ، ان کی حرکت اور ان کے فاصلے متعین ہیں۔ ان کی اندر کوئی تغیروتبدل نہیں ہوتا۔ ان کی ہر چیز مقدر ہے ۔ ایک منصوبے کے مطابق ، یعنی یہ ایک ناقابل تغیرو تبدل منصوبے اور نقشے کے مطابق چل رہے ہیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ نظام کائنات کے اندر پائی جانے والی وحدت اور عقیدۂ پر کائناتی شہادت کے مطالعہ کے لیے یہ سرسری وقفہ کافی ہے۔ عقیدۂ توحید وہ اہم حقیقت ہے کہ انسان کی اصلاح اور ترقی اس کے سوا کسی اور عقیدے پر ممکن نہیں ہے۔ لہٰذا عقیدۂ توحید کی وضاحت کے بغیر انسان کا تصور کائنات مکمل ہی نہیں ہوسکتا ۔ نہ اس کائنات میں انسان کی قدروقیمت متعین ہوسکتی ہے۔ اور نہ انسان اور اس کائنات کا باہم تعلق صحیح سمت لے سکتا ہے۔ نہ انسانوں کے ذہنوں میں اس کائنات کو وجود میں لانے والی ہستی کا تصور درست ہوسکتا ہے اور نہ انسان اور خدا کا تعلق درست ہوسکتا ہے ۔ لہذا انسان کے شعور کو صحیح سمت دینے کے لیے اور انسان کے طرز عمل کو درست حالت میں رکھنے کے لئے عقیدۂ توحید کی تشریح ضروری ہے۔

اب دیکھئے کہ جو شخص اللہ وحدہ پر ایمان لاتا ہے ، جو اس عقیدۂ توحید کے معنی کو سمجھتا ہے۔ اس کا تعلق اپنے رب کے ساتھ بھی درست ہوتا ہے۔ اور اس کا تعلق اللہ کے سوا پوری کائنات کے ساتھ بھی درست ہوجاتا ہے۔ اور یہ تعلقات حقیقت پسندانہ ہوتے ہیں اور ان میں افراط وتفریط نہیں ہوتی۔ یوں اس کے شعور میں انتشارنہین ہوتا۔ اور اس کی سوچ مختلف الہوں میں نہیں بٹتی ۔ اور نہ اس پر اللہ کے سوا کوئی اور مسلط ہوتا ہے۔

اور جو شخص اللہ پر ایمان لے آتا ہے اور جو اللہ کو اس کائنات کا مصدر ومنبع سمجھتا ہے وہ اس کائنات کے ساتھ ' اس کے اندر موجود اشیاء کے ساتھ باہم تعارف ، محبت اور الفت کے ساتھ معاملہ کرتا ہے اور اس کی زندگی پر امید ہوتی ہے اور اس کی زندگی کی ایک ایسی صورت گری ہوتی ہے جو اس شخص سے بہت مختلف ہوتی ہے۔ جو اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں رکھتا ۔ اور وہ اپنے آپ کو اپنے ماحول اور اپنے معاشرے کے ساتھ ہم آہنگ نہیں پاتا۔

وہ شخص جو اللہ پر ایمان لاتا ہے وہ اللہ کیجانب سے مخصوص ہدایات پاتا ہے تاکہ وہ اپنی زندگی کو اس کا ئنات کے اندر پائے

جانے والے ناموس اور اللہ کیطرف سے نازل شدہ شریعت کے مطابق تشکیل دے۔ کائنات پر بھی اللہ کا قانون جاری وساری ہے اور انسانی زندگی پر اللہ کی مقرر کردہ شریعت جاری ہوتی ہے اور یوں انسان کی عملی زندگی اس کائنات کیساتھ ہم آہنگ ہوجاتی ہے۔

غرض اس حقیقت کا ادراک اس لیے ضروری ہے کہ انسان کا شعور درست ہو۔ وہ روشن ہو ' وہ صحیح سمت رکھتا ہو۔ اور وہ اپنے گرد پھیلی ہوئی کائنات کے ساتھ ہم آہنگ متناسق اور متوازن ہو۔ اور انسان کے باہمی تعلقات ' اس کائنات کے ساتھ تعلقات اور اپنے معاشرے کے ساتھ تعلقات واضح اور متعین ہوں۔ یہ تعلقات اخلاقی ہوں یا طرز عمل سے متعلق ہوں ، اجتماعی معاملات سے متعلق ہوں ، شخصی ہوں یا انسانی ہوں۔

یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم توحید کو اس قدر اہمیت دیتا ہے اور عقیدۂ توحید کے لیے یہ جدوجہد آدم (علیہ السلام) سے ادھر آنے والے تمام انبیاء نے کی ہے۔ اور تمام رسولوں نے عقیدۂ توحید پر سخت اصرار کیا ہے۔ کلمہ توحید کے الفاظ بھی ایک رہے ہیں اور مفہوم بھی ایک رہا ہے۔

قرآن میں تو عقیدۂ توحیدپر اس قدر زور دیا گیا ہے کہ اسے باربار دہرایا گیا ہے۔ اس پر اصرار کیا گیا ہے۔ مسئلہ توحید اور اس کے تقاضوں کی باربار مختلف اسالیب سے تشریح کی گئی ہے۔ خصوصاً مکی سورتوں میں تو اس پر بہت زور دیا گیا ہے جبکہ مدنی سورتوں میں بھی عقیدۂ توحید پر مدنی موضوعات کے اعتبار سے زور دیا گیا ہے۔ جہاں حاکمیت اور قانون سازی کے حق کا پہلو زیادہ نمایاں ہے۔ یہ وجوہات تھیں جن کی وجہ سے مشرکین مکہ تعجب کررہے تھے کہ حضور اکرم ﷺ تمام الہوں کو ردکرکے صرف ایک ہی الہہ کے قائل ہیں۔ چناچہ اس پر وہ حضور اکرم ﷺ سے الجھتے تھے۔ تعجب کرتے تھے ، لوگوں کو اس نظریہ سے پھیرتے تھے اور اس نظریہ حیات کے خلاف اپنے تمام وسائل انہوں نے مجتمع کرلیے تھے۔

اب ان کے تعجب کا دوسرا پہلو ، یہ کہ وہ حضرت محمد ﷺ کو دولت اور شخصی وجاہت کے زاویہ سے منصب نبوت کے قابل نہ سمجھتے تھے ۔ وہ سمجھتے تھے کہ قائد کوئی خان اور نواب ہوتا چاہئے۔

آیت 6 { وَانْطَلَقَ الْمَلَاُ مِنْہُمْ اَنِ امْشُوْا وَاصْبِرُوْا عَلٰٓی اٰلِہَتِکُمْج اِنَّ ہٰذَا لَشَیْئٌ یُّرَادُ } ”اور چل پڑے ان کے سردار یہ کہتے ہوئے کہ چلو جائو اور جمے رہو اپنے معبودوں پر ‘ یقینا اس بات میں تو کوئی غرض پوشیدہ ہے۔“ یہ آیت لفظی تصویر کشی word picture کا خوبصورت نمونہ پیش کرتی ہے۔ ان الفاظ کو پڑھنے کے بعد مکہ کے مخصوص ماحول میں ایک مجمع کا نقشہ نگاہوں کے سامنے پھرنے لگتا ہے ‘ جس سے رسول اللہ ﷺ خطاب فرما رہے ہیں۔ مجمع میں عام لوگوں کے ساتھ قریش کے چند سردار بھی موجود ہیں۔ سب لوگ حضور ﷺ کی باتیں بڑے دھیان سے سن رہے ہیں ‘ مگر تھوڑی دیر کے بعد ان کے سردار یہ کہتے ہوئے وہاں سے چل پڑتے ہیں کہ چلو چلو یہاں سے ! تم لوگ کہاں کھڑے ہو ؟ کس کی باتیں سن رہے ہو ؟ کیا ان کے کہنے پر ہم اپنے معبودوں کو چھوڑ دیں گے ؟ چھوڑو ان باتوں کو اور جائو اپنا اپنا کام کرو ! اور سنو ‘ ان باتوں پر سنجیدگی سے غور کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ان سب باتوں کے پیچھے ضرور ان کا کوئی مفاد پوشیدہ ہے۔ یہ دعوت تو اس غرض سے دی جارہی ہے کہ محمد ﷺ یہاں اپنا اقتدار قائم کر کے ہم پر حکم چلانا چاہتے ہیں۔ اس لیے تم اپنے عقائد اور اپنے معبودوں کی پرستش پر مضبوطی سے جمے رہو اور ان باتوں پر دھیان مت دو !

آیت 6 - سورہ سعد: (وانطلق الملأ منهم أن امشوا واصبروا على آلهتكم ۖ إن هذا لشيء يراد...) - اردو