سورہ سعد: آیت 4 - وعجبوا أن جاءهم منذر منهم... - اردو

آیت 4 کی تفسیر, سورہ سعد

وَعَجِبُوٓا۟ أَن جَآءَهُم مُّنذِرٌ مِّنْهُمْ ۖ وَقَالَ ٱلْكَٰفِرُونَ هَٰذَا سَٰحِرٌ كَذَّابٌ

اردو ترجمہ

اِن لوگوں کو اس بات پر بڑا تعجب ہوا کہ ایک ڈرانے والا خود اِنہی میں سے آگیا منکرین کہنے لگے کہ "یہ ساحرہے، سخت جھوٹا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

WaAAajiboo an jaahum munthirun minhum waqala alkafiroona hatha sahirun kaththabun

آیت 4 کی تفسیر

وعجبوآ۔۔۔ منھم (38: 4) ” اور ان لوگوں کو اس بات پر بڑا تعجب ہوا کہ ایک ڈرانے والا خود انہی میں سے آگیا “۔ حالانکہ مناسب ترین بات تو یہی ہے کہ ڈرانے والا انہی میں سے ہو ، وہ بشر ہو اور یہ بات جانتا ہو کہ انسان کیا سوچتے ہیں اور ان کے احساسات کیا ہوتے ہیں ۔ ان کے خلجانات کیا ہوتے ہیں اور ان کے وجود میں کیا کشمکش ہے۔ اور ان کے اندر کیا کیا کمزوریاں ہوتی ہیں اور کیا کیا کو تاہیاں ان کے وجود میں ہوتی ہیں۔ ایک انسان ہی یہ جان سکتا ہے کہ انسان میں کہاں کہاں کیا کمزوری ہے۔ کہاں کہاں وہ جذبات اور میلانات کا دباؤ محسوس کرتا ہے۔ اس کی وسعت اور قدرت کی حدود کیا ہیں۔ وہ کس قدر مشقت برداشت کرسکتے ہیں۔ کن کن رکاوٹوں اور مشکلات کے سامنے وہ بےبس ہوجاتے ہیں اور کیا کیا چیزیں ان پر اثر انداز ہوتی ہیں۔

رسول ایک انسان ہوتا ہے ' انسانوں سے ہوتا ہے ، انسانوں میں رہتا ہے تو اس کی زندگی ان کے لیے نمونہ ہوتی ہے۔ اور وہ اس کے اسوہ کو اپناتے ہیں ، وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہمارا ہی بھائی ہے اور ہم ہی میں سے ہے ۔ اور یہ کہ قوم اور رسول کے ردمیان انسانی اور سماجی روابط پہلے سے موجود ہوتے ہیں۔ لہذا وہ اس منہاج کو اپنا سکتے ہیں جس پر وہ ہوتا ہے۔ اور لوگوں سے بھی یہ مطالبہ کیا جاسکتا ہے کہ اسے اپناؤ۔ کیونکہ رسول جیسے طرز عمل کو وہ بھی اپنا سکتے ہیں ۔ اس لئے کہ اس نظام پر ایک شخص نے عمل کرکے دکھا دیا ہے ۔ جو خود ان میں سے ہے اور ان جیسا انسان ہے۔

لیکن یہ بات تعجب انگیز ہے کہ معقول ترین اور لازمی امر بھی ہمشہ لوگوں کے لیے باعث تعجب بنارہا ہے۔ وہ اسے انوکھا سمجھتے رہے ہیں اور تکذیب کرتے رہے ہیں۔ کیونکہ یہ لوگ انسانوں میں سے رسول بھیجنے کی حکمت کو نہ سمجھتے تھے۔ وہ رسالت کے منصب کو بھی نہ سمجھتے تھے۔ بجائے اس کے کہ وہ رسول کو ایک بشر قائد اور راہنما سمجھتے جو ان کو اللہ کی راہ دکھاتا ہے ' وہ رسول کو ایک عجوبہ ناقابل فہم اور خیالی شخصیت سمجھتے تھے۔ وہ یوں سیدھے سادے انسانوں کو رسول نہ مانتے تھے۔ وہ رسول کو بھی ایسی شخصیت سمجھتے تھے جو خیالی ہو ' جسے چھوانہ جاسکتا ہو۔ جسے دیکھا نہ جاسکتا ہو۔ وہ ظاہر و باہر نہ ہو ، جو اس کرۂ ارض پر ایک عملی زندگی نہ رکھتا ہو۔ غرض وہ رسولوں کو ایک افسانوی شخصیت کی شکل میں دیکھنا چاہتے تھے۔ اور جس طرح ان کے عقائد تھے وہ رسولوں کو بھی ایسا ہی دیکھنا چاہتے تھے۔

لیکن اللہ کی مرضی یہ تھی کہ انسانوں کے لیے اس کی یہ آخری رسولت نہایت عملی اور واقعیت پسندانہ ہو۔ اس میں لوگوں کے لیے پاکیزہ ' طیب اور اعلیٰ درجے کی زندگی کا انتظام ہو۔ اور یہ آخری رسالت زمین کے اوپر ایک حقیقت ہو۔ اوہام تخیلات اور محض ہوائی مثالوں پر مبنی نہ ہو۔ حقائق پر مبنی ہو ' محض اوہام واساطیرنہ ہو۔

وقال۔۔۔ کذاب (38: 4) ” منکرین کہنے لگے یہ تو ساحر ہے ' سخت جھوٹا ہے “۔ اور کافروں نے یہ بات محض اس لیے کہی کہ وہ اپنے جیسے ایک شخص کی رسالت کا تصور ہی نہ کرسکتے تھے۔ اور پھر انہوں نے یہ بات اس لیے بھی کہی کہ لوگ حضرت محمد ﷺ سے متنفر ہوجائیں اور ہو سچائی جو حضرت محمد ﷺ لے کر آئے تھے جو واضح تھی اور پھر حضرت محمد ﷺ چونکہ صدق وصفا میں مشہور تھے ، وہ اس کو لوگوں کی نظروں میں مشتبہ بنانے کے لیے ایسا کرتے تھے۔

اصل حقیقت یہ ہے اور اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ مشرکین مکہ نے کسی بھی مرحلے میں خود اپنی اس بات کو کبھی بھی سچا نہیں سمجھا کہ حضرت محمد ﷺ جادوگر ہیں یا بہت بڑے جھوٹے ہیں کیونکہ وہ حضرت محمد ﷺ کو بہت اچھی طرح جانتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت محمد ﷺ کے خلاف پروپیگنڈے اور گمراہ کن نشرواشاعت کی جو مہم چلا رہے تھے۔ یہ اس کے ہتھیاروں میں سے ایک اوچھا ہتھیار تھا۔ اس طرح وہ اپنے آپ کو اپنے مقام و مرتبہ کو اور اپنے غلط عقائد کو بچانا چاہتے تھے ۔ کیونکہ تحریک اسلامی کی صورت میں ان کو خطرہ درپیش تھا ' اس کی وجہ سے ان کی کھوٹی اور جھوٹی اقدار کو خطرہ لاحق ہوگیا تھا اور ان کی بناوٹی طریقوں کے وجود تک کو خطرہ لاحق تھا اور کبرائے قریش اسے اچھی طرح سمجھتے تھے۔

ہم نے یہ بات اس سے پہلے بھی نقل کی ہے اور یہاں بھی نقل کررہے ہیں کہ کبرائے قریش نے پروپیگنڈے کی یہ جھوٹی مہم نہایت ہی سنجیدگی اور سوچ سمجھ کر شروع کی تھی ۔ اس طرح وہ اپنے وجود اپنے طور طریقوں اور اپنے نظریات کو بچانا چاہتے تھے ۔ نیز اسطرح موسم حج میں عرب قبائل میں تحریک اسلامی کے اثرات کے پھیلنے کا جو خطرہ کا جو درپیش تھا اسکا وہ سدباب چاہتے تھے

محمد ابن اسحاق نے نقل کیا ہے کہ ولید ابن مغیرہ کے پاس کے کچھ معمر لوگ جمع ہوئے ' موسم حج آنے والا تھا۔ ولید نے ان سے کہا کہ اکابرین قریش آپ کو معلوم ہے کہ موسم حج آرہا ہے اور عرب کے وفود آنے شروع ہوں گے۔ نیز انہوں نے اس شخص کے بارے میں بھی سن رکھا ہوگا ۔ لہذا اس موضوع پر اپنی بات کو ایک کرلو۔ یوں نہ ہو کہ ہر شخص ایک علیحدہ بات کرے اور تم سب ایک دوسرے کی تکذیب کرتے پھرو۔ تو انہوں نے کہا عبدشمس تم ہی کچھ کہو اور ہمیں ایک مضبوط موقف دے دو تاکہ ہم سب ایک ہی بات کریں تو ولید نے کہا تم کہو میں سن کر قیاس کروں گا۔ کسی نے کہا اسے کاہن کہو ، ولید نے کہا یہ تو بات نہیں ہے۔ خدا کی قسم یہ کاہن نہیں ہے۔ ہم نے کاہنوں کو خوب دیکھا ہوا ہے۔ نہ قرآن کاہنوں کا زمزمہ ہے اور نہ ان کا مسجع کلام ہے تو کسی نے کہا اسے پاگل کہو۔ تو انہوں نے کہا کہ یہ مجنون بھی نہیں ہے۔ لوگ مجنونوں اور پاگلوں کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ نہ وہ مجنونوں کی طرح گلوگیر ہے۔ نہ ذہنی خلجان میں مبتلا ہے اور نہ اسے کوئی وسوسہ ہے۔ تو پھر اسے شاعر کہنا چاہئے۔ تو اس نے کہا کہ اس کا کلام شعر بھی نہیں ہے۔ ہم اشعار کو جانتے ہیں۔ نہ رجز ہے نہ ہزج ہے ' نہ قریض ہے ' نہ مقبوض ہے ' نہ مبسوط ہے۔ لہذا یہ کلام شعر نہیں ہے تو انہوں نے کہا پھر اسے جادوگر ہی کہا جاسکتا ہے۔ تو ولید نے کہا وہ تو جادوگر بھی نہیں ہے ۔ ہم نے جادوگر بھی دیکھے ہوئے ہیں۔ ان کے جادو کے کرشمے بھی دیکھے ہوئے ہیں۔ نہ یہ ان کی پھونک ہے اور نہ ان کی بندش ہے تو ان اکابرین نے کہا عبدشمس پھر تم ہی بتاؤ کہ کیا کہیں اسے ۔ تو اس نے کہا خدا کی قسم اس کی بات میں مٹھاس ہے۔ اس کی جڑیں بہت ہی گہری ہیں۔ اور اس کی شاخوں پر پھل ہیں اور تم ان باتوں میں سے جس کا بھی پروپیگنڈہ کرو معلوم ہوگا کہ تمہاری بات غلط ہے۔ ہاں ممکن حد تک کہا جاسکتا ہے وہ یہ ہے کہ تم اسے ساحر کہو کہ وہ جو کلام لایا ہے وہ جادو کی طرح ایک شخص اور اس کے بھائی ' ایک شخص اور اس کی بیوی ایک شخص اور اس کے خاندان کے درمیان تفریق کرتا ہے۔ لہذا سب یہی ایک بات کرو ' چناچہ موسم حج میں یہ لوگ راستوں پر بیٹھ گئے ۔ اور جو بھی گزرتا اسے وہ کہتے تھے کہ لوگو ڈرو اس شہر میں ایک جادوگر پیدا ہوگیا ہے۔ اور یہ ازخود حضرت محمد ﷺ کے بارے میں تفصیلات بتاتے۔ یہ تھی حقیقت اس بات کی جو وہ کہتے تھے۔

سحر کذاب (38: 4) جبکہ وہ خود جانتے تھے کہ حضرت محمد ﷺ سچ کہتے تھے ' نہ ساحر تھے اور نہ کذاب تھے۔

نیز وہ اس بات پر بھی تعجب کرتے تھے کہ وہ تمام الہوں کی جگہ ایک ذات کو الہہ ماننے کی دعوت دے رہا ہے۔ حالانکہ سب سے بڑی سچائی یہ ہے کہ اس کائنات کا الہہ ایک ہی ہے۔

آیت 4 { وَعَجِبُوْٓا اَنْ جَآئَ ہُمْ مُّنْذِرٌ مِّنْہُمْ } ”اور انہیں بڑا تعجب ہوا ہے کہ ان کے پاس آیا ہے ایک خبردار کرنے والا ان ہی میں سے“ { وَقَالَ الْکٰفِرُوْنَ ہٰذَا سٰحِرٌ کَذَّابٌ } ”اور کافر کہتے ہیں کہ یہ ساحر ہے ‘ کذاب ّہے۔“ یہ بہت سخت الفاظ ہیں ‘ لیکن قرآن نے مشرکین ِمکہ ّکے قول کے طور پر انہیں جوں کا توں نقل کیا ہے۔ ان الفاظ سے دراصل حضور ﷺ کی مخالفت کی اس کیفیت کا اندازہ ہوتا ہے جو اس سورت کے نزول کے وقت مکہ کے ماحول میں پائی جاتی تھی۔ اس کیفیت کو سمجھنے کے لیے یہ معلومات اپنے حافظے میں پھر سے تازہ کرلیں کہ مکی سورتوں کے پچھلے گروپ کی آٹھ سورتیں الفرقان تا السجدۃ اور زیر مطالعہ گروپ کی تیرہ سورتیں سبا تا الاحقاف 4 نبوی ﷺ سے 8 نبوی ﷺ کے زمانے میں نازل ہوئیں۔ ان میں سے سورة الصّٰفّٰت البتہ اس دور کی سورت نہیں ہے۔ اس کی چھوٹی چھوٹی آیات پانچ رکوعوں میں 182 آیات ہیں اور ایک رکوع میں 53 آیات بھی ہیں اور تیز ردھم سے صاف پتا چلتا ہے کہ یہ ابتدائی دور کی سورت ہے۔ بہر حال ان سورتوں کا نزول جس دور 4 تا 8 نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہوا ‘ اس دور میں حضور ﷺ کی مخالفت بہت شدت اختیار کرچکی تھی اور اسی نسبت سے آپ ﷺ پر ہونے والے حملوں کی نوعیت میں بھی تبدیلی آچکی تھی۔ ابتدا میں تو اکثر لوگوں نے آپ ﷺ کی باتوں پر سنجیدگی سے غور ہی نہیں کیا تھا۔ اس لیے اس زمانے میں اگر کوئی شخص آپ ﷺ کی شان میں گستاخی کرتا تو وہ آپ ﷺ کو مجنون وغیرہ کہہ دیتا ‘ بلکہ ابتدا میں تو بعض لوگوں کے ہاں اس حوالے سے آپ ﷺ کے ساتھ ہمدردی کا انداز بھی پایا جاتا تھا۔ اس وقت بعض لوگ تو واقعی سمجھتے تھے کہ غار حرا میں راتیں گزارنے کی وجہ سے آپ ﷺ پر کوئی آسیب وغیرہ آگیا ہے۔ چناچہ ایک دفعہ عتبہ بن ربیعہ نے آپ ﷺ سے بہت ہمدردی کے انداز میں کہا تھا کہ اے میرے بھتیجے ! عرب کے بہت سے کاہنوں اور عاملوں کے ساتھ میرے تعلقات ہیں ‘ اگر تم کہو تو میں ان میں سے کسی کو بلا کر تمہارا علاج کرا دوں۔ البتہ جب مشرکین مکہ نے دیکھا کہ وہ آواز جس کو وہ محض ایک شخص کی پکار سمجھتے تھے اب گھر گھر میں گونجنے لگی ہے اور جس تحریک کو انہوں نے ایک مشت ِغبار سمجھ کر نظر انداز کردیا تھا اب وہ ایک طوفان کا روپ دھار کر ان کے پورے معاشرے کو زیر و زبر کرنے والی ہے تو ان کی مخالفت میں بتدریج شدت آتی گئی۔ چناچہ آیت زیر مطالعہ کے الفاظ سٰحِرٌ کَذَّابٌ ایسے ہی شدید مخالفانہ جذبات کی ترجمانی کرتے نظر آتے ہیں۔

مشرکین کا نبی اکرم ﷺ پر تعجب۔حضور ﷺ کی رسالت پر کفار کے حماقت آمیز تعجب کا اظہار ہو رہا ہے جیسے اور آیت میں ہے (اَكَان للنَّاسِ عَجَبًا اَنْ اَوْحَيْنَآ اِلٰى رَجُلٍ مِّنْھُمْ اَنْ اَنْذِرِ النَّاسَ وَبَشِّرِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنَّ لَھُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ ڼ قَالَ الْكٰفِرُوْنَ اِنَّ ھٰذَا لَسٰحِرٌ مُّبِيْنٌ) 10۔ یونس :2) ، کیا لوگوں کو اس بات سے تعجب ہوا کہ ان میں سے ایک انسان کی طرف ہم نے وحی کی تاکہ وہ لوگوں کو ہوشیار کر دے اور ایمانداروں کو اس بات کی خوش خبری سنا دے کہ اس کے پاس ان کے لئے بہترین لائحہ عمل ہے۔ کافر تو ہمارے رسول کو کھلا جادوگر کہنے لگے۔ یہیں پر یہ ذکر ہے کہ انہی میں سے انہی جیسے ایک انسان کے رسول بن کر آنے پر انہیں تعجب ہوا اور کہنے لگے کہ یہ تو جادوگر اور کذاب ہے۔ رسول ﷺ کی رسالت پر تعجب کے ساتھ ہی اللہ کی وحدانیت پر بھی انہیں تعجب معلوم ہوا اور کہنے لگے کہ اور سنو اتنے سارے معبودوں کے بدلے یہ تو کہتا ہے کہ اللہ ایک ہی ہے اور اس کا کوئی کسی طرح کا شریک ہی نہیں ان بیوقوفوں کو اپنے بڑوں کی دیکھا دیکھی جس شرک و کفر کی عادت تھی اس کے خلاف آواز سن کر ان کے دل دکھنے اور رکنے لگے اور وہ توحید کو ایک انوکھی اور انجان چیز سمجھنے لگے۔ ان کے بڑوں اور سرداروں نے تکبر کے ساتھ منہ موڑتے ہوئے اعلان کیا کہ اپنے قدیمی مذہب پر جمے رہو۔ اس کی بات نہ مانو اور اپنے معبودوں کی عبادت کرتے رہو۔ یہ تو صرف اپنے مطلب کی باتیں کہتا ہے۔ یہ اس بہانے اپنی جما رہا ہے کہ یہ تمہارا سب کا بڑا بن جائے اور تم اس کے تابع فرمان ہوجاؤ۔ ان آیتوں کا شان نزول یہ ہے کہ ایک بار قریشیوں کے شریف اور سردار رؤسا ایک مرتبہ جمع ہوئے ان میں ابو جہل بن ہشام عاص بن وائل اسود بن المطلب اسود بن عبد یغوث وغیرہ بھی تھے اور سب نے اس بات پر اتفاق کیا کہ چل کر آج ابو طالب سے آخری فیصلہ کرلیں وہ انصاف کے ساتھ ایک بات ہمارے ذمہ ڈال دے اور ایک اپنے بھتیجے کے ذمے۔ کیونکہ یہ اب انتہائی عمر کو پہنچ چکے ہیں چراغ سحری ہو رہے ہیں اگر مرگئے اور ان کے بعد ہم نے محمد ﷺ کو کوئی مصیبت پہنچائی تو عرب میں طعنہ دیں گے کہ بڈھے کی موجودگی تک تو کچھ نہ چلی اور ان کی موت کے بعد بہادری آگئی۔ چناچہ ایک آدمی بھیج کر ابو طالب سے اجازت مانگی ان کی اجازت پر سب گھر میں گئے اور کہا سنئے جناب ! آپ ہمارے سردار ہیں بزرگ ہیں بڑے ہیں۔ ہم آپ کے بھتیجے سے اب بہت تنگ آگئے ہیں آپ انصاف کے ساتھ ہم میں اور اس میں فیصلہ کر دیجئے۔ دیکھئے ہم آپ سے انصاف چاہتے ہیں وہ ہمارے معبودوں کو برا نہ کہیں اور نہ ہم انہیں ستائیں وہ مختار ہیں جس کی چاہیں عبادت کریں لیکن ہمارے معبودوں کو برا نہ کہیں۔ ابو طالب نے آدمی بھیج کر اللہ کے رسول ﷺ کو بلوایا اور کہا جان پدر دیکھتے ہو آپ کی قوم کے سردار اور بزرگ سب جمع ہوئے ہیں اور آپ سے صرف یہ چاہتے ہیں کہ آپ ان کے معبودوں کی توہین اور برائی کرنے سے باز آجائیں اور یہ آپ کو آپ کے دین پر چلنے میں آزادی دے رہے ہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا چچا جان کیا میں انہیں بہترین اور بڑی بھلائی کی طرف نہ بلاؤں ؟ ابو طالب نے کہا وہ کیا ہے ؟ فرمایا یہ ایک کلمہ کہہ دیں صرف اس کے کہنے کی وجہ سے سارا عرب ان کے ماتحت ہوجائے گا اور سارے عجم پر ان کی حکومت ہوجائے گی۔ ابو جہل ملعون نے سوال کیا کہ اچھا بتاؤ وہ ایسا کونسا کلمہ ہے ؟ ایک نہیں ہم دس کہنے کو تیار ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہو لا الہ الا اللہ بس یہ سننا تھا کہ شور و غل کردیا اور کہنے لگے اس کے سوا جو تو مانگے ہم دینے کو تیار ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا اگر تم سورج کو بھی لاکر میرے ہاتھ پر رکھ دو تو بھی تو تم سے اس کلمے کے سوا اور کچھ نہیں مانگوں گا۔ سارے کے سارے مارے غصے اور غضب کے بھنا کر کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے واللہ ہم تجھے اور تیرے اللہ کو گالیاں دیں گے جس نے تجھے یہ حکم دیا ہے۔ اب یہ چلے اور ان کے سردار یہ کہتے رہے کہ جاؤ اپنے دین پر اور اپنے معبودوں کی عبادت پر جمے رہو۔ معلوم ہوگیا کہ اس شخص کا تو ارادہ ہی اور ہے یہ تو بڑا بننا چاہتا ہے (ابن ابی حاتم وغیرہ) ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ ان کے بھاگ جانے کے بعد حضور نے اپنے چچا سے کہا کہ آپ ہی اس کلمے کو پڑھ لیجئے اس نے کہا نہیں میں تو اپنے باپ دادوں اور قوم کے بڑوں کے دین پر ہی رہوں گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو فرمایا کہ جسے تو چاہے ہدایت نہیں کرسکتا اور روایت میں ہے کہ اس وقت ابو طالب بیمار تھے اور اسی وجہ سے وہ مرا بھی۔ جس وقت حضور ﷺ تشریف لائے اس وقت ابو طالب کے پاس ایک آدمی کے بیٹھنے کی جگہ خالی تھی باقی تمام گھر آدمیوں سے بھرا ہوا تھا تو ابو جہل خبیث نے خیال کیا کہ اگر آپ ﷺ آ کر اپنے چچا کے پاس بیٹھ گئے تو زیادہ اثر ڈال سکیں گے اس لئے یہ ملعون کود کر وہاں جا بیٹھا اور حضور ﷺ کو دروازہ کے پاس ہی بیٹھنا پڑا۔ حضور ﷺ نے جب ایک کلمہ کہنے کو کہا تو سب نے جواب دیا کہ ایک نہیں دس ہم سب منتظر ہیں فرمایئے وہ کیا کلمہ ہے ؟ اور جب کلمہ توحید آپ کی زبانی سنا تو کپڑے جھاڑتے ہوئے بھاگ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے لو اور سنو یہ تو سارے معبودوں کا ایک معبود بنا رہا ہے۔ اس پر یہ آیتیں، عذاب تک، اتریں۔ امام ترمذی اس روایت کو حسن کہتے ہیں۔ ہم نے تو یہ بات نہ اپنے دین میں دیکھی نہ نصرانیوں کے دین میں۔ یہ بالکل غلط اور جھوٹ اور بےسند بات ہے۔ یہ کیسے کچھ تعجب کی بات ہے کہ اللہ میاں کو کوئی اور نظر ہی نہ آیا اور اس پر قرآن اتار دیا۔ جیسے ایک اور آیت میں ان کا قول ہے (وَقَالُوْا لَوْلَا نُزِّلَ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰي رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَـتَيْنِ عَظِيْمٍ 31؀) 43۔ الزخرف :31) یعنی ان دونوں شہروں میں کے کسی بڑے آدمی پر یہ قرآن کیوں نہ اتارا گیا ؟ جس کے جواب میں جناب باری کا ارشاد ہوا کہ کیا یہی لوگ رب کی رحمت کی تقسیم کرنے والے ہیں ؟ یہ تو اس قدر محتاج ہیں کہ ان کی اپنی روزیاں اور درجے بھی ہم تقسیم کرتے ہیں۔ الغرض یہ اعتراض بھی ان کی حماقت کا غرہ تھا۔ اللہ فرماتا ہے، یہ ہے ان کے شک کا نتیجہ اور وجہ یہ ہے کہ اب تک یہ چکنی چپڑی کھاتے رہے ہیں ہمارے عذابوں سے سابقہ نہیں پڑا۔ کل قیامت کے دن جبکہ دھکے دے کر جہنم میں گرائے جائیں گے۔ اس وقت اپنی اس سرکشی کا مزہ پائیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنا قبضہ اور اپنی قدرت ظاہر فرماتا ہے کہ جو وہ چاہے کرے، جسے چاہے جو چاہے دے، عزت ذلت اس کے ہاتھ ہے، ہدایت ضلالت اس کی طرف سے ہے۔ وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے وحی نازل فرمائے اور جس کے دل پر چاہے اپنی مہر لگا دے بندوں کے اختیار میں کچھ نہیں وہ محض بےبس بالکل لاچار اور سراسر مجبور ہیں۔ اسی لئے فرمایا کیا ان کے پاس اس بلند جناب غالب، وہاب اللہ کی رحمت کے خزانے ہیں ؟ یعنی نہیں ہیں جیسے فرمایا (اَمْ لَھُمْ نَصِيْبٌ مِّنَ الْمُلْكِ فَاِذًا لَّا يُؤْتُوْنَ النَّاسَ نَقِيْرًا 53؀ۙ) 4۔ النسآء :53) ، اگر اللہ کی حکمرانی کا کوئی حصہ ان کے ہاتھ میں ہوتا تو یہ بخیل تو کسی کو ٹکڑا بھی نہ کھانے دیتے۔ اور انہیں لوگوں کے ہاتھوں میں اللہ کا فضل دیکھ کر حسد آ رہا ہے ؟ ہم نے آل ابراہیم کو کتاب و حکمت اور بہت بڑی سلطنت دی تھی۔ ان میں سے بعض تو ایمان لائے اور بعض ایمان سے رکے رہے جو بھڑکتی جہنم کے لقمے بنیں گے وہ آگ ہی انہیں کافی ہے اور آیت میں ہے (قُلْ لَّوْ اَنْتُمْ تَمْلِكُوْنَ خَزَاۗىِٕنَ رَحْمَةِ رَبِّيْٓ اِذًا لَّاَمْسَكْتُمْ خَشْيَةَ الْاِنْفَاقِ ۭ وَكَانَ الْاِنْسَانُ قَتُوْرًا01000ۧ) 17۔ الإسراء :100)۔ یعنی اگر میرے رب کی رحمتوں کے خزانے تمہاری ملکیت میں ہوتے تو تم تو کمی سے ڈر کر خرچ کرنے سے رک جاتے انسان ہے ہی ناشکرا۔ قوم صالح نے بھی اپنے نبی ﷺ سے یہی کہا تھا کہ الخ، کیا ہم سب کو چھوڑ کر اسی پر ذکر اتارا گیا ؟ نہیں بلکہ یہ کذاب اور شریر ہے۔ اللہ فرماتا ہے کل معلوم کرلیں گے کہ ایسا کون ہے ؟ پھر فرمایا کیا زمین آسمان اور اس کے درمیان کی چیزوں پر ان کا اختیار ہے ؟ اگر ایسا ہے تو پھر آسمانوں کی راہوں پر چڑھ جائیں ساتویں آسمان پر پہنچ جائیں۔ یہ یہاں کا لشکر بھی عنقریب ہزیمت و شکست اٹھائے گا اور مغلوب و ذلیل ہوگا۔ جیسے اور بڑے بڑے گروہ حق سے ٹکرائے اور پاش پاش ہوگئے، جیسے اور آیت میں ہے (اَمْ يَقُوْلُوْنَ نَحْنُ جَمِيْعٌ مُّنْتَــصِرٌ 44؀) 54۔ القمر :44) ، یعنی کیا ان کا قول ہے کہ ہم بڑی جماعت ہیں اور ہم ہی فتح یاب رہیں گے ؟ سنو انہیں ابھی ابھی شکست فاش ہوگی اور پیٹھ دکھاتے ہوئے بزدلی کے ساتھ بدحواس ہو کر بھاگ کھڑے ہوں گے چناچہ بدر والے دن اللہ کی فرماں روائی نے اللہ کی باتوں کی سچائی انہیں اپنی آنکھوں سے دکھائی اور ابھی ان کے عذابوں کے وعدے کا دن تو آخرت کا دن ہے جو سخت کڑوا اور نہایت دہشت ناک اور وحشت والا ہے۔

آیت 4 - سورہ سعد: (وعجبوا أن جاءهم منذر منهم ۖ وقال الكافرون هذا ساحر كذاب...) - اردو