سورہ سعد: آیت 12 - كذبت قبلهم قوم نوح وعاد... - اردو

آیت 12 کی تفسیر, سورہ سعد

كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَعَادٌ وَفِرْعَوْنُ ذُو ٱلْأَوْتَادِ

اردو ترجمہ

اِن سے پہلے نوحؑ کی قوم، اور عاد، اور میخوں والا فرعون

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Kaththabat qablahum qawmu noohin waAAadun wafirAAawnu thoo alawtadi

آیت 12 کی تفسیر

آیت نمبر 12 تا 14

یہ مثالیں تو ان لوگوں کی ہیں جو قریش سے قبل تاریخ میں گزرے ہیں ۔ قوم نوح ، قوم عاد ، فرعون جو بڑے بڑے اہراموں والا تھا۔ یہ اہرام زمین پر ایسے ہیں جیسی میخیں ، قوم ثمود ، قوم لوط ، قوم شعیب جنہیں اصحاب الایکہ بھی کہا جاتا ہے یعنی گھنے جنگلوں والے ، یہ ہیں وہ جتھے جنہوں نے رسولوں کی تکذیب کی ۔ تو انجام کیا ہوا ان کا ۔ حالانکہ وہ بڑے جبار اور پکڑوالے تھے۔ یہ ہوا فحق عقاب (38: 14) ” میرے عذاب کا فیصلہ ان پر چسپاں ہوا “۔ جو ہونا تھا وہ ہوا۔ وہ اس طرح نیست ونابود کردیئے گئے

کہ ان کا کوئی نشان باقی نہیں رہا ہے۔

یہ تھی پوزیشن ان لوگوں کی جو زمانہ ماضی میں گزرے۔ رہے یہ لوگ تو ان کے لیے ایک عذاب آنے والا ہے۔ یہ دن یوم الحساب سے قبل آئے گا اور ایک چیخ ہوگی اور پوری دنیا میں کچھ نہ رہے گا۔

آیت 12 { کَذَّبَتْ قَبْلَہُمْ قَوْمُ نُوْحٍ وَّعَادٌ وَّفِرْعَوْنُ ذُو الْاَوْتَادِ } ”ان سے پہلے جھٹلایا تھا قوم نوح علیہ السلام ‘ قوم عاد اور میخوں والے فرعون نے۔“ کہا جاتا ہے کہ فرعون جب اپنے لشکروں کے ساتھ سفر کرتا تھا تو گھوڑوں اور خچروں کی ایک کثیر تعداد کو صرف خیموں کے کھونٹے اٹھانے کے لیے مختص کیا جاتا تھا ‘ اس لیے اسے فِرْعَوْنُ ذُو الْاَوْتَادِ کہا گیا ہے۔ اس میں کثرت افواج کی طرف اشارہ ہے۔

ان سب کے واقعات کئی مرتبہ بیان ہوچکے ہیں کہ کس طرح ان پر ان کے گناہوں کی وجہ سے اللہ کے عذاب ٹوٹ پڑے۔ یہی وہ جماعتیں ہیں جو مال اولاد میں قوۃ و طاقت میں زور زور میں تمہارے زمانہ کے ان کٹر کافروں سے بہت بڑھی ہوئی تھیں لیکن امر الٰہی کے آچکنے کے بعد انہیں کوئی چیز کام نہ آئی۔ پھر ان کی تباہی کی وجہ بھی بیان ہوئی کہ یہ رسولوں کے دشمن تھے انہیں جھوٹا کہتے تھے۔ انہیں صرف صور کا انتظار ہے اور اس میں بھی کوئی دیر نہیں بس وہ ایک آواز ہوگی کہ جس کے کان میں پڑی بیہوش و بےجان ہوگیا۔ سوائے ان کے جنہیں رب نے مستثنیٰ کردیا ہے۔ قط کے معنی کتاب اور حصے کے ہیں۔ مشرکین کی بیوقوفی اور ان کا عذابوں کو محال سمجھ کر نڈر ہو کر عذابوں کے طلب کرنے کا ذکر ہو رہا ہے۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ انہوں نے کہا اللہ اگر یہ صحیح ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا یا اور کوئی درد ناک عذاب آسمانی ہمیں پہنچا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ انہوں نے اپنا جنت کا حصہ یہاں طلب کیا اور یہ جو کچھ کہا یہ بہ وجہ اسے جھوٹا سمجھنے اور محال جاننے کے تھا۔ ابن جریر کا فرمان ہے کہ جس خیر و شر کے وہ دنیا میں مستحق تھے اسے انہوں نے جلد طلب کیا۔ یہی بات ٹھیک ہے ضحاک اور اسماعیل کی تفسیر کا ماحصل بھی یہی ہے۔ واللہ اعلم۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کی اس تکذیب اور ہنسی کے مقابلے میں اپنے نبی ﷺ کو صبر کی تعلیم دی اور برداشت کی تلقین کی۔ حضرت داؤد ؑ کی فراست۔ ذالاید سے مراد علمی اور عملی قوت والا ہے اور صرف قوۃ والے کے معنی بھی ہوتے ہیں جیسے فرمان ہے (وَالسَّمَاۗءَ بَنَيْنٰهَا بِاَيْىدٍ وَّاِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ 47؀) 51۔ الذاریات :47) ، مجاہد فرماتے ہیں مراد اطاعت کی طاقت ہے۔ حضرت داؤد ؑ کو عبادت کی قدرت اور اسلام کی فقہ عطا فرمائی گی تھی۔ یہ مذکور ہے کہ آپ ہر رات تہائی رات تک تہجد میں کھڑے رہتے تھے اور ایک دن بعد ایک دن ہمیشہ روزے سے رہتے تھے۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ اللہ کو سب سے زیادہ پسند حضرت داؤد کی رات کی نماز اور انہی کے روزے تھے۔ آپ آدھی رات سوتے اور تہائی رات قیام کرتے اور چھٹا حصہ رات کا پھر سو جاتے، اور ایک دن روزہ رکھتے ایک دن نہ رکھتے اور دشمنان دین سے جہاد کرنے میں پیٹھ نہ دکھاتے اور اپنے ہر حال میں اللہ کی طرف رغبت و رجوع رکھتے۔ پہاڑوں کو ان کے ساتھ مسخر کردیا تھا۔ وہ آپ کے ساتھ سورج کے ڈھلنے کے وقت اور دن کے آخری وقت تسبیح بیان کرتے۔ جیسے فرمان ہے (يٰجِبَالُ اَوِّبِيْ مَعَهٗ وَالطَّيْرَ ۚ وَاَلَنَّا لَهُ الْحَدِيْدَ 10 ۙ) 34۔ سبأ :10) یعنی اللہ نے پہاڑوں کو ان کے ساتھ رجوع کرنے کا حکم دیا تھا۔ اسی طرح پرندے بھی آپ کی آواز سن کر آپ کے ساتھ اللہ کی پاکی بیان کرنے لگ جاتے اڑتے ہوئے پرند پاس سے گذرتے اور آپ توراۃ پڑھتے ہوتے تو آپ کے ساتھ وہ بھی تلاوت میں مشغول ہوجاتے اور اڑنا بھول جاتے بلکہ ٹھہر جاتے۔ حضور ﷺ نے فتح مکہ والے دن ضحیٰ کے وقت حضرت ام ہانی کے گھر میں آٹھ رکعت نماز ادا کی۔ ابن عباس فرماتے ہیں میرا خیال ہے کہ یہ بھی وقت نماز ہے جیسے فرمان ہے (اِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَهٗ يُسَبِّحْنَ بالْعَشِيِّ وَالْاِشْرَاقِ 18؀ۙ) 38۔ ص :18)۔ عبداللہ بن حارث بنی نوفل کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ ضحیٰ کی نماز نہیں پڑھتے تھے ایک دن میں انہیں حضرت ام ہانی ؓ کے ہاں لے گیا اور کہا کہ آپ ان سے وہ حدیث بیان کیجئے جو آپ نے مجھ سے بیان فرمائی تھی۔ تو مائی صاحبہ نے فرمایا فتح مکہ والے دن میرے گھر میں میرے پاس اللہ کے رسول ﷺ آئے۔ پھر ایک برتن میں پانی بھروایا اور ایک کپڑا تان کر نہانے بیٹھ گئے پھر گھر کے ایک کونے میں پانی چھڑک کر آٹھ رکعت صلوۃ ضحیٰ کی ادا کیں، ان کا قیام رکوع سجدہ اور جلوس سب قریب قریب برابر تھے حضرت ابن عباس جب یہ سن کر وہاں سے نکلے تو فرمانے لگے پورے قرآن کو میں نے پڑھ لیا میں نہیں جانتا کہ ضحیٰ کی نماز کیا ہے آج مجھے معلوم ہوا کہ (يُسَبِّحْنَ بالْعَشِيِّ وَالْاِشْرَاقِ 18؀ۙ) 38۔ ص :18) والی آیت میں بھی اشراق سے مراد یہی ضحیٰ ہے۔ چناچہ اس کے بعد انہوں نے اپنے اگلے قول سے رجوع کرلیا۔ جب حضرت داؤد اللہ کی پاکیزگی اور بزرگی بیان فرماتے تو پرندے بھی ہواؤں میں رک جاتے تھے اور حضرت داؤد کی ماتحتی میں ان کی تسبیح کا ساتھ دیتے تھے۔ اور اس کی سلطنت ہم نے مضبوط کردی اور بادشاہوں کو جن جن چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے ہم نے اسے سب دے دیں۔ چار ہزار تو ان کی محافظ سپاہ تھی۔ اس قدر فوج تھی کہ ہر رات تینتیس ہزار فوجی پہرے پر چڑھتے تھے لیکن جو آج کی رات آتے پھر سال بھر تک ان کی باری نہ آتی۔ چالیس ہزار آدمی ہر وقت ان کی خدمت میں مسلح تیار رہتے۔ ایک روایت میں ہے کہ ان کے زمانے میں بنی اسرائیل کے دو آدمیوں میں ایک مقدمہ ہوا۔ ایک نے دوسرے پر دعویٰ کیا کہ اس نے میری گائے غصب کرلی ہے۔ دوسرے نے اس جرم سے انکار کیا حضرت داؤد ؑ نے مدعی سے دلیل طلب کی وہ کوئی گواہ پیش نہ کرسکا آپ نے فرمایا اچھا تمہیں کل فیصلہ سنایا جائے گا۔ رات کو حضرت داؤد کو خواب میں حکم ہوا کہ دعویدار کو قتل کردو۔ صبح آپ نے دونوں بلوایا اور حکم دیا کہ اس مدعی کو قتل کردیا جائے اس نے کہا اے اللہ کے نبی آپ میرے ہی قتل کا حکم دے رہے ہیں حالانکہ اس نے میری گائے چرالی ہے۔ آپ نے فرمایا یہ میرا حکم نہیں یہ اللہ کا فیصلہ ہے اور ناممکن ہے کہ یہ ٹل جائے تو تیار ہوجا۔ تب اس نے کہا اے اللہ کے رسول میں اپنے دعوے میں تو سچا ہوں اس نے میری گائے غصب کرلی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو میرے قتل کا حکم میرے اس مقدمے کی وجہ سے نہیں کیا۔ اس کی وجہ اور ہی ہے اور اسے صرف میں ہی جانتا ہوں۔ بات یہ ہے کہ آج میں نے اسے فریب سے قتل کردیا ہے جس کا کسی کو علم نہیں۔ پس اس کے بدلے میں اللہ نے آپ کو قصاص کا حکم دیا ہے۔ چناچہ وہ قتل کردیا گیا۔ اب تو حضرت داؤد کی ہیبت ہر شخص کے دل میں بیٹھ گئی ہم نے اسے حکمت دی تھی یعنی فہم و عقل، زیرکی اور دانائی، عدل و فراست کتاب اللہ اور اس کی اتباع نبوت و رسالت وغیرہ اور جھگڑوں کا فیصلہ کرنے کا صحیح طریقہ۔ یعنی گواہ لینا قسم کھلوانا، مدعی کے ذمہ بار ثبوت ڈالنا مدعی علیہ سے قسم لینا۔ یہی طریقہ فیصلوں کا انبیاء کا اور نیک لوگوں کا رہا اور یہی طریقہ اس امت میں رائج ہے۔ غرض حضرت داؤد معاملے کی تہ کو پہنچ جاتے تھے اور حق و باطل سچ جھوٹ میں صحیح اور کھرے کا امتیاز کرلیتے تھے۔ کلام بھی آپ کا صاف ہوتا تھا اور حکم بھی عدل پر مبنی ہوتا تھا۔ آپ ہی نے اما بعد کا کہنا ایجاد کیا ہے اور فصل الخطاب سے اس کی طرف بھی اشارہ ہے۔

آیت 12 - سورہ سعد: (كذبت قبلهم قوم نوح وعاد وفرعون ذو الأوتاد...) - اردو