سورہ قریش: آیت 1 - لإيلاف قريش... - اردو

آیت 1 کی تفسیر, سورہ قریش

لِإِيلَٰفِ قُرَيْشٍ

اردو ترجمہ

چونکہ قریش مانوس ہوئے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Lieelafi qurayshin

آیت 1 کی تفسیر

رب اجعل .................................... الثمرت (126:2) ” اے میرے رب ، اس شہر کو امن کا شہر بنادے اور اس کے باشندوں کو پھلوں کی روزی دے “۔ تو اللہ نے اس گھر کو امن کا گھر بنادیا اور ڈکٹیٹروں اور جباروں کے تسلط سے آزاد رکھا۔ جو شخص بھی اس گھر میں پناہ لیتا وہ امن پاتا اور اس کے اردگرد جو اقوام وافراد رہتے تھے ، وہ ہر وقت خائف رہتے تھے اور اس گھر کو یہ اعزاز اس وقت بھی حاصل رہا جب اس کے باسیوں نے بت پرستی شروع کردی۔ شرک کا ارتکاب شروع کیا اور اپنے رب کے ساتھ ساتھ انہوں نے خانہ کعبہ میں بت بھی رکھ دیئے اور یہ اعزاز اللہ نے اس لئے بحال رکھا کہ اس گھر سے اللہ نے کچھ کام لینا تھا۔

پھر جب اصحاب الفیل نے اس گھر کو منہدم کرنے کا ارادہ کرلیا جس کی تفصیلات سورت الفیل میں گزر گئی ہیں ، اللہ نے اس گھر کے امن کی حفاظت فرمائی اور اس کے احترام کو بحال رکھا جبکہ اس کے ماحول میں لوگوں کی حالت یہ تھی۔

اولم یروا ............................ من حولھم (67:29) ” کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے ایک ایسا حرم بنایا ہے جو امن کی جگہ ہے ، جبکہ لوگوں کو اس کے گردوپیش سے اچک لیا جاتا ہے “۔ جب فیل کا واقعہ ہوا تو عربوں کے دلوں میں بیت اللہ کا احترام بڑھ گیا۔ اور اس بات کا پورے جزیرة العرب میں غلغلہ ہوگیا۔ اسی طرح اس واقعہ کی وجہ سے اہل مکہ اور بیت اللہ کے مجاوروں کا احترام بڑھ گیا اور اس وجہ سے وہ نہایت امن وامان کے ساتھ پورے عرب میں چلتے پھرتے۔ اور یہ جہاں بھی ٹھہرتے لوگ ان کی رعایت اور احترام کرتے۔ اس کے نتیجے میں انہوں نے قافلوں کے لئے دو عموی راستے بنالیے۔ یہ راستے مکہ سے شمال کی طرف شام تک جاتے اور مکہ سے جنوب کی طرف یمن تک جاتے ، اہل مکہ نے دو تجارتی سفر بھی منظم کرلیے۔ سردیوں کے موسم میں وہ یمن کے سفر پر جاتے اور گرمیوں کے موسم میں یہ شام کی طرف نکل جاتے۔

باوجود اس امر کے جزیرة العرب کے اطراف واکناف میں امن وامان کی حالت کچھ اچھی نہ تھی ، ڈاکے اور لوٹ مار ہر طرف عام تھے ، لیکن بیت اللہ کے احترام کی وجہ سے قریش کے یہ تجارتی سفر پر امن رہتے اور یہ قریش کی ایک ممتاز خصوصیت ہوگئی تھی۔ اور اس وجہ سے ان کے سامنے رزق کے وسیع ذرائع کھل گئے تھے۔ اور وہ نہایت اطمینان سے اور امن وسلامتی سے یہ تجارتی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھے۔ چناچہ قریش ان مفید اور نفع بخش سفروں کے عادی ہوگئے تھے۔ اور وہ ان کے بغیر چین سے نہ بیٹھتے تھے۔

جس طرح بعثت نبوی کے بعد واقعہ فیل کو بطور احسان ان کے سامنے پیش کیا گیا ، اس طرح اس سورت میں بتایا گیا کہ یہ بھی اللہ کا احسان ہے کہ تم سردیوں اور گرمیوں کے سفر کے عادی ہوگئے ہو ، اور ان سفروں سے تمہیں بہت تجارتی نفع ہوتا ہے۔ ان کا علاقہ بنجر اور خشک ہے اور وہ اس کے اندر نہایت ہی خوشگوار اور خوشحال زندگی بسر کررہے ہیں۔ یہ اللہ کا فضل ہے اور اس فضل وکرم ہی کی وجہ سے وہ خوف سے مامون ہیں۔ چاہے وہ بیت اللہ کے جوار میں اپنے گھروں میں ہوں یا وہ اپنے سفر میں ہوں ، اس گھر کے احترام کی وجہ سے وہ ہر قسم کی زیادتی اور ظلم سے محفوظ ہیں۔

اللہ اپنا یہ احسان کو یاددلاتا ہے کہ وہ حیا کریں اور اس گھر میں اللہ کے سوا ، اس کے اور شریکوں اور بتوں کی بندگی نہ کریں کیونکہ یہ گھر اس کا ہے ، وہی رب ہے اور اسی نے اس گھر کو امن دیا ہے جس کے اندر وہ مزے سے رہتے ہیں ، اس گھر کے نام سے ان کے سفر محفوظ ہیں اور سفروں سے یہ صحیح سالم گھروں کو لوٹتے ہیں۔

چناچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : قریش چونکہ گرمیوں اور سردیوں کے عادی ہوگئے ہیں تو انہیں چاہئے کہ صرف اس گھر کے رب کی بندگی کریں جس نے ان سفروں کے دوران ان کے امن وامان کا بندوبست کیا اور انہیں اس سفر کا عادی بنایا جس کی وجہ سے انہیں مالی مفادات ملتے ہیں۔

فلیعبدو ........................ من جوع (4:106) ” لہٰذا ان کو چاہئے کہ اس گھر کے رب کی عبادت کریں جس نے انہیں بھوک سے بچا کر کھانے کو دیا “۔ ان کی زمین کی پیداوار کی جو حیثیت ہے ، اس کے مطابق ان کی حالت تو یہ ہونی چاہئے تھی کہ وہ بھوک سے مرتے ، لیکن اللہ نے ان کے لئے کھانے پینے کا بندوبست فراوانی سے کیا اور وہ پیٹ بھر کر کھانے لگے۔

وامنھم من خوف (4:106) ” اور خوف سے بچا کر امن دیا “۔ ان کی جو جنگی قوت تھی ، ان کے ارد گرد جو سوسائٹی تھی ، اس کا تقاضا تو یہ تھا کہ وہ ہر وقت خائف رہتے لیکن اللہ نے ان کا یہ خوف امن سے بدل دیا۔

یہ ایک ایسی یاد دہانی ہے جس کی وجہ سے انسان کے اندر حیا پیدا ہوتی ہے ، وہ شرمندہ ہوتا ہے اور اپنے رویے پر نظرثانی کے لئے آمادہ ہوجاتا ہے۔ قریش یہ بات جانتے تھے کہ اس گھر کی اہمیت کیا ہے اور اس گھر کے احترام کی وجہ سے ان کی زندگی پر جو اثرات تھے وہ ان سے بھی بیخبر نہ تھے۔ اور یہ بات بھی اپنی جگہ تھی کہ انتہائی شدید اور کربناک حالات میں وہ صرف اس گھر کے رب ہی کو پکارتے تھے۔ مثلاً دیکھئے کہ عبدالمطلب ابرہہ کا مقابلہ فوج سے نہیں کرتے اور نہ اس کی قوت کے مقابلے میں مادی قوت فراہم کرتے ہیں۔ وہ اس گھر کے رب سے خطاف کرتے ہیں ، جو اس کا حقیقی متولی اور حامی تھا۔ اس موقعہ پر عبدالمطلب نے نہ کسی بت کی طرف توجہ کی اور نہ کسی معبود کی طرف اور نہ انہوں نے ابرہہ سے کہا کہ اس گھرکے بہت سے الٰہ ہیں وہ اس کی حمایت کریں گے ۔ بلکہ انہوں نے یہ کہا ” میں تو اونٹوں کا مالک ہوں اور اس گھر کا ایک مالک ہے ، وہ خود اس کی حفاظت کرے گا “۔ لیکن جاہلیت پر کبھی منطق اور حقیقت کا اثر نہیں ہوا کرتا اور نہ جاہلیت حق کو تسلیم کرتی ہے اور نہ وہ معقول بات کی طرف لوٹتی ہے۔

یہ سورت ، اپنے موضوع اور فضا کے اعتبار سے سورت فیل کا تسلسل ہے۔ اگرچہ یہ مستقل سورت ہے اور دونوں کے درمیان مصاحف میں بسم اللہ الرحمان الرحیم درج ہے۔ قرآن کی ترتیب نزولی سے معلوم ہوتا ہے کہ سورة الفیل اور سورة القریش کے درمیان 9 سورتیں نازل ہوئیں ، لیکن مصحف میں ان کو ایک دوسرے کے ساتھ اس لئے پیوست کیا گیا ہے کہ اس میں موضوع ومضمون کی ترتیب کا لحاظ رکھا گیا ہے۔

امن وامان کی ضمانت :موجودہ عثمانی قرآن کی ترتیب میں یہ سورت سورة فیل سے علیحدہ ہے اور دونوں کے درمیان بسم اللہ کی آیت کا فاصلہ ہے مضمون کے اعتبار سے یہ سورت پہلی سے ہی متعلق ہے جیسے کہ محمد بن اسحاق عبد الرحمٰن بن زید بن اسلم وغیرہ سے تصریح کی ہے اس بنا پر معنی یہ ہوں گے کہ ہم نے مکہ سے ہاتھیوں کو روکا اور ہاتھی والوں کو ہلاک کیا یہ قریشیوں کو الفت دلانے اور انہیں اجتماع میں ساتھ باامن اس شہر میں رہنے سہنے کے لیے تھا اور یہ مراد بھی کی گئی ہے کہ یہ قریشی جاڑوں میں کیا اور گرمیوں میں کیا دور دراز کے سفر امن وامان سے طے کرسکتے تھے کیونکہ مکہ جیسے محترم شہر میں رہنے کی وجہ سے ہر جگہ ان کی عزت ہوتی تھی بلکہ ان کے ساتھ بھی جو ہوتا تھا امن وامان سے سفر طے کرلیتا تھا اسی طرح وطن سے ہر طرح کا امن انہیں حاصل ہوتا تھا جیسے کہ اور جگہ قرآن کریم میں موجود ہے کہ کیا یہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے حرم کو امن والی جگہ بنادیا ہے اس کے آس پاس تو لوگ اچک لئے جاتے ہیں لیکن یہاں کے رہنے والے نڈر ہیں۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں لا یلف، میں پہلا لام تعجب کا لام ہے اور دونوں سورتیں بالکل جداگانہ ہیں جیسا کہ مسلمانوں کا اجماع ہے۔ تو گویا یوں فرمایا جارہا ہے کہ تم قریشیوں کے اس اجتماع اور الفت پر تعجب کرو کہ میں نے انہیں کیسی بھاری نعمت عطا فرما رکھی ہے انہیں چاہیے کہ میری اس نعمت کا شکر اس طرح ادا کریں کہ صرف میری ہی عبادت کرتے رہیں جیسے اور جگہ ہے (قُلْ اِنَّمَآ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللّٰهَ وَلَآ اُشْرِكَ بِهٖ ۭ اِلَيْهِ اَدْعُوْا وَاِلَيْهِ مَاٰبِ 36؀) 13۔ الرعد :36) ، یعنی اے نبی تم کہہ دو کہ مجھے تو صرف یہی حکم دیا گیا ہے کہ میں اس شہر کے رب کی ہی عبادت کروں جس نے اسے حرم بنایا جو ہر چیز کا مالک ہے مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اس کا مطیع اور فرمانبردار ہوں پھر فرمایا ہے وہ رب بیت جس نے انہیں بھوک میں کھلایا اور خوف میں نڈر رکھا نا ہیں چاہیے کہ اس کی عبادت میں کسی چھوٹے بڑے کو شریک نہ ٹھہرائیں جو اللہ کے اس حکم کی بجا آوری کرے گا وہ تو دنیا کے اس امن کے ساتھ آخرت کے دن بھی امن وامان سے رہے گا، اور اس کی نافرمانی کرنے سے یہ امن بھی بےامنی سے اور آخرت کا امن بھی ڈر خف اور انتہائی مایوسی سے بدل جائے گا جیسے اور جگہ فرمایا (وَضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ اٰمِنَةً مُّطْمَىِٕنَّةً يَّاْتِيْهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّنْ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللّٰهِ فَاَذَاقَهَا اللّٰهُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوْا يَصْنَعُوْنَ01102) 16۔ النحل :112) ، اللہ تعالیٰ ان بستی والوں کی مثال بیان فرماتا ہے جو امن واطمینان کے ساتھ تھے ہر جگہ سے بافراغت روزیاں کھچی چلی آتی تھیں لیکن انہیں اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کرنے کی سوجھی چناچہ اللہ تعالیٰ نے بھی انہیں بھوک اور خوف کا لباس چکھا دیا یہی ان کے کرتوت کا بدلہ تھا ان کے پاس ان ہی میں سے اللہ کے بھیجے ہوئے آئے لیکن انہوں نے انہیں جھٹلایا اس ظلم پر اللہ کے عذابوں نے انہیں گرفتار کرلیا ایک حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قریشیو ! تمہیں تو اللہ یوں راحت و آرام پہنچائے گھر بیٹھے کھلائے پلائے چاروں طرف بد امنی کی آگ کے شعلے بھڑک رہے ہوں اور تمہیں امن وامان سے میٹھی نیند سلائے پھر تم پر کیا مصیبت ہے جو تم اپنے اس پروردگار کی توحید سے جی چراؤ اور اس کی عبادت میں دل نہ لگاؤ بلکہ اس کے سوا دو سروں کے آگے سر جھکاؤ۔ الحمد اللہ سورة قریش کی تفسیر ختم ہوئی۔

آیت 1 - سورہ قریش: (لإيلاف قريش...) - اردو