سورہ کہف: آیت 2 - بل عجبوا أن جاءهم منذر... - اردو

آیت 2 کی تفسیر, سورہ کہف

بَلْ عَجِبُوٓا۟ أَن جَآءَهُم مُّنذِرٌ مِّنْهُمْ فَقَالَ ٱلْكَٰفِرُونَ هَٰذَا شَىْءٌ عَجِيبٌ

اردو ترجمہ

بلکہ اِن لوگوں کو تعجب اس بات پر ہوا کہ ایک خبردار کرنے والا خود اِنہی میں سے اِن کے پاس آگیا پھر منکرین کہنے لگے "یہ تو عجیب بات ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Bal AAajiboo an jaahum munthirun minhum faqala alkafiroona hatha shayon AAajeebun

آیت 2 کی تفسیر

بل عجبوا ان ۔۔۔۔۔ شییء عجیب (2) ء اذا متنا ۔۔۔۔۔۔ رجع بعید (50 : 2 تا 3) “ بلکہ ان لوگوں کو تعجب اس بات پر ہوا کہ ایک خبردار کرنے والا خود انہی میں سے ان کے پاس آگیا۔ پھر منکرین کہنے لگے : “ یہ تو عجیب بات ہے ، کیا جب ہم مر جائیں گے اور خاک ہوجائیں گے (تو دوبارہ اٹھائے جائیں گے) ؟ یہ واپسی تو عقل سے بعید ہے ”۔

کیا یہ بات قابل تعجب ہو سکتی ہے کہ ایک ڈرانے والا ان میں سے آگیا ۔ اس میں تو کوئی تعجب نہیں بلکہ یہ تو بالکل ایک قدرتی بات ہے اور فطرت سلیمہ اسے بڑی سادگی اور خوشی خوشی قبول کرتی ہے۔ یہ نہایت ہی معقول بات ہے کہ لوگوں کا مصلح اپنی قوم میں سے ہو ، لوگون کے احساسات میں ، ان کے ساتھ شریک ہو ، انہی جیسا شعور رکھتا ہو ، ان کی زبان بولتا ہو ، ان کی زندگی اور ان کی دوڑ دھوپ اور غم درد میں شریک ہو ، ان کے میلانات اور جذبات کو جانتا ہو ، ان کی طاقت اور حد برداشت سے واقف ہوتا کہ وہ انہیں بتلائے کہ جس شرک ، ظلم اور بد عملی میں وہ مبتلا ہیں ، اس کے نتیجے میں بہت ہی برا انجام ان کے انتظار میں ہے اور تا کہ ان کو سکھائے کہ انہوں نے کس طرح سیدھا راستہ اختیار کرنا ہے۔ اور جدید دعوت کو اگر وہ قبول کرلیں تو انہیں اپنے اندر کیا کیا تبدیلیاں لانی ہوں گی۔ اور ان تبدیلیوں اور فرائض اور ذمہ داریوں میں وہ پہلا شخص ہوگا اور ان کے ساتھ شامل ہوگا۔

ان کو خود رسالت پر تعجب تھا۔ پھر جو رسول آیا اس نے اپنی دعوت میں سے عقیدہ بعث بعد الموت پر زیادہ زور دینا شروع کردیا۔ کیونکہ اسلامی نظام کا دارومدار ہی آخرت کی جواب دہی کے عقیدے پر ہے۔ آخرت کی جوابدہی کے عقیدے ہی کے تمام مطلوبہ اعمال تقاضے ہیں۔ مسلم کا پہلا فریضہ ہی یہ ہے کہ وہ حق پر قائم ہو اور باطل کو نیچا دکھائے۔ وہ خیر کو لے کر اٹھے اور شرکا خاتمہ کر دے۔ اس کی پوری سرگرمی اللہ کی بندگی ہو۔ وہ ہر حرکت میں اللہ کی طرف متوجہ ہو ، اور تمام اعمال پر اس کے لئے جزاء ضروری ہے۔ کبھی تو یہ جزاء دنیا ہی میں ملتی ہے لیکن پوری جزاء صرف آخرت ہی میں مل سکتی ہے۔ ہر انسان کا آخری حساب و کتاب آخرت میں ہوگا۔ لہٰذا عالم آخرت نہایت منطقی اور ضروری ہے۔ لوگوں کو اٹھایا جانا ضروری ہے کہ وہ زندگی کا حساب دیں۔ جب کسی کے ذہن سے آخرت کی جوابدہی کا احساس ہی ختم ہوجائے تو اس شخص کی زندگی سے وہ تمام اعمال و اخلاق ناپید ہوجاتے ہیں جو اس عقیدے پر مبنی ہوں۔ ایسا شخص کم از کم ایک مسلمان ہرگز نہیں ہو سکتا۔

لیکن ان لوگوں نے اس مسئلے کو اس زاویہ سے نہیں دیکھا ۔ انہوں نے بالکل ایک دوسرے زاویہ سے اور بالکل ایک سادہ نقطہ نظر سے دیکھا ۔ اس سلسلہ میں انہوں نے موت وحیات کی حقیقت پر بالکل غور نہیں کیا اور نہ انہوں نے اللہ کے نظام قضا وقدر کے کسی پہلو پر غور کیا۔ اس لئے وہ اس کے قائل ہوئے ۔

آیت 2 { بَلْ عَجِبُوْٓا اَنْ جَآئَ ہُمْ مُّنْذِرٌ مِّنْہُمْ } ”بلکہ انہیں بہت عجیب محسوس ہوا ہے کہ ان کے پاس آیا ہے ایک خبردار کرنے والا ان ہی میں سے“ مُنْذِر کے معنی ہیں انذار کرنے والا ‘ خبردار warn کرنے والا۔ { فَقَالَ الْکٰفِرُوْنَ ہٰذَا شَیْئٌ عَجِیْبٌ۔ } ”تو کافروں نے کہا یہ تو بڑی عجیب سی بات ہے۔“

آیت 2 - سورہ کہف: (بل عجبوا أن جاءهم منذر منهم فقال الكافرون هذا شيء عجيب...) - اردو