افعیینا بالخلق الاول (50 : 15) ” کیا پہلی بار کی تخلیق سے ہم عاجز تھے “۔ یعنی ان کے سامنے کیا یہ شہادت موجود نہ تھی ، تخلیق چونکہ موجود تھی اس لیے جواب نہ دیا۔
بل ھم فی لبس من خلق جدید (50 : 15) ” بلکہ ایک نئی تخلیق کی طرف سے یہ لوگ شک میں پڑے ہوئے تھے “ ۔ یہ دیکھتے نہ تھے کہ ان کے سامنے یہ عمل موجود ہے۔ شہادت موجود ہے لہٰذا ان کا علاج ہی یہی تھا جو ہوا۔
آیت 15{ اَفَعَیِیْنَا بِالْخَلْقِ الْاَوَّلِ ط } ”تو کیا ہم پہلی مرتبہ پیدا کر کے عاجز آگئے ہیں !“ کیا یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہماری تخلیقی صلاحیتیں creative potential اب ختم ہو کر رہ گئی ہیں اور اب ہم انہیں دوبارہ پیدا نہیں کرسکیں گے۔ یہی مضمون سورة الاحقاف میں اس طرح آیا ہے : { اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّ اللّٰہَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَلَمْ یَعْیَ بِخَلْقِہِنَّ بِقٰدِرٍ عَلٰٓی اَنْ یُّحْیِییَ الْمَوْتٰیط بَلٰٓی اِنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ۔ }”کیا انہوں نے غور نہیں کیا کہ وہ اللہ جس نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق فرمائی اور ان کی تخلیق سے تھکا نہیں ‘ وہ اس پر قادر ہے کہ مردوں کو زندہ کر دے ! کیوں نہیں ‘ یقینا وہ ہرچیز پر قادر ہے۔“ { بَلْ ہُمْ فِیْ لَـبْسٍ مِّنْ خَلْقٍ جَدِیْدٍ۔ } ”بلکہ یہ لوگ شک میں پڑے ہوئے ہیں نئی تخلیق سے متعلق۔“ ہماری خلاقی کی قدرت میں تو کوئی کمی نہیں آئی ‘ البتہ یہ لوگ اپنے ذہنوں کی تنگی کی وجہ سے پریشان ہیں اور مبتلائے شک ہیں کہ انہیں مرنے کے بعددوبارہ کیسے زندہ کرلیا جائے گا !