وانی کلما ........................ استکبار (17 : 7) ” اور جب بھی میں ان نے ان کو بلایا تاکہ تو انہیں معاف کردے ، انہوں نے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں اور اپنے کپڑوں سے منہ ڈھانک لئے اور اپنی روش پر اڑ گئے اور بڑا تکبر کیا “۔ یہ ہے انداز داعی حق کا کہ وہ اپنی دعوت پر اصرار کرتا ہے او جونہی اور جب بھی اسے موقعہ ملے وہ کلمہ حق کہہ دیتا ہے جبکہ اہل کفر کے اصرار کی بھی یہ ایک مثال ہے کہ جب وہ ہٹ دھرمی پر اترآئیں تو منہ بھی چھپالیتے ہیں۔ اس دعوت اور اس انکار سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائی ایام میں جبکہ بشریت عہد طفولیت میں تھی۔ دعوت کے شب وروز کیا تھے کہ لوگ کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے تھے اور سروں کو چادروں میں چھپا لیتے تھے۔ انداز تعبیر سے لوگوں کا کافرانہ طرز عمل ظاہر ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ یہ انگلیوں کو کانوں میں ٹھونس لیتے ہیں۔ پوری انگلیاں تو کانوں میں نہیں ٹھونسی جاتیں مگر یہ مبالغہ کے لئے کہا گیا کہ وہ کانوں کو یوں بند کررہے ہیں کہ آواز کسی طرح بھی ان کے کانوں تک نہ پہنچ سکے۔ گویا یہ کوشش کررہے تھے کہ پوری انگلی کو کانوں میں ٹھونس لیں۔ یہ سخت اصرار اور ہٹ دھرمی کی شکل ہے اور ابتدائی ادوار میں یہی صورت حالات تھی۔
آیت 7{ وَاِنِّیْ کُلَّمَا دَعَوْتُہُمْ لِتَغْفِرَلَہُمْ جَعَلُوْٓا اَصَابِعَہُمْ فِیْٓ اٰذَانِہِمْ } ”اور میں نے جب بھی انہیں پکارا تاکہ تو ان کی مغفرت فرما دے تو انہوں نے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ٹھونس لیں“ { وَاسْتَغْشَوْا ثِیَابَہُمْ } ”اور اپنے کپڑے بھی اپنے اوپر لپیٹ لیے“ { وَاَصَرُّوْا وَاسْتَکْبَرُوا اسْتِکْبَارًا۔ } ”اور وہ ضد پر اَڑ گئے ‘ اور انہوں نے استکبار کیا بہت بڑا استکبار۔“ اَصَرَّ یُصِرُّ اِصْرَارًاکے معنی اپنی روش پر اَڑ جانے کے ہیں۔ کفر کی روش پر اَڑ جانے اور جم جانے کے علاوہ ان کا رویہ اپنے رسول علیہ السلام کے ساتھ از حد متکبرانہ تھا۔ وہ کہتے تھے کہ ہم کیسے آپ کو اپنا پیشوا تسلیم کرلیں جبکہ نچلے درجے کے رذیل قسم کے لوگ آپ کے متبعین ہیں !۔۔۔۔ - اردو میں لفظ اصرار اسی معنی میں مستعمل ہے۔