سورہ نوح: آیت 5 - قال رب إني دعوت قومي... - اردو

آیت 5 کی تفسیر, سورہ نوح

قَالَ رَبِّ إِنِّى دَعَوْتُ قَوْمِى لَيْلًا وَنَهَارًا

اردو ترجمہ

اُس نے عرض کیا "اے میرے رب، میں نے اپنی قوم کے لوگوں کو شب و روز پکارا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qala rabbi innee daAAawtu qawmee laylan wanaharan

آیت 5 کی تفسیر

قال رب انی ............................ سبلا فجاجا

یہ تھی حضرت نوح (علیہ السلام) کی کارکردگی اور یہ رہی ان کی رپورٹ۔ اس طویل عرصہ کارکردگی میں وہ اپنے رب کے سامنے اپنا حساب پیش فرماتے ہیں۔ آپ کی رپورٹ میں جو چیز نمایاں ہے ، وہ آپ کی جہد مسلسل ہے۔

انی دعوت .................... ونھارا (17 : 5) ” اے میرے رب ! میں نے اپنی قوم کے لوگوں کو شب وروز پکارا “۔ انہوں نے ہمت نہ ہاری ، وقفہ نہیں کیا ، اور وہ لوگوں کو مسلسل اعراض اور اصرار کے باوجود مایوس نہیں ہوئے لیکن

فلم یزدھم ................ فرار (17 : 6) ” لیکن میری پکار نے ان کے فرار ہی میں اضافہ کیا “۔ یعنی وہ داعی الی اللہ سے بھاگتے رہے اور شیطان کے پیچھے پڑے رہے۔ حالانکہ اللہ ان کا خالق تھا ، جن انعامات میں وہ مزے سے رہ رہے تھے ، وہ اللہ کی تخلیق کردہ تھیں۔ یہ ہدایت بھی اللہ ہی کی طرف سے آرہی تھی ، اور داعی نہ اجر کا طلبگار تھا اور نہ فیس عائد کررہا تھا۔ اور جس ذات سے وہ بھاگ رہے تھے وہ ان کو اس لئے بلارہی تھی کہ آﺅ تمہیں بخش دیا جائے ، آﺅ تمہیں ان گناہوں کے انجام سے بچایا جائے اور معصیت اور ضلال سے بچایا جائے۔

وہ تو بھاگتے رہے لیکن داعی حق ان کو گھیرتے رہے اور ہر طرح ان کے کانوں تک کلمہ حق پہنچاتے رہے لیکن انہوں نے نہ اس بات کو برداشت کیا کہ ان کے کانوں میں کلمہ حق پڑے اور نہ اس بات کو پسند کیا کہ پیغمبر پر ان کی نظریں پڑیں ، اس لئے انہوں نے گمراہی پر بےحد اصرار اور کلمہ حق کے قبول کرنے سے بڑا تکبر کیا۔

نو سو سال صدا بصحرا کے بعد بھی ایک پیغمبرانہ کوشش یہاں بیان ہو رہا ہے کہ ساڑھے نو سو سال تک کی لمبی مدت میں کس کس طرح حضرت نوح نبی نے اپنی قوم کو رشد و ہدایت کی طرف بلایا قوم نے کس کس طرح اعراض کیا کیسی کیسی تکلیفیں اللہ کے پیارے پیغمبر کو پہنچائیں اور کس طرح اپنی ضد پر اڑ گئے، تو حضرت نوح ؑ بطور شکایت کے جناب باری میں عرض کرتے ہیں کہ الٰہی میں نے تیرے حکم کی پوری طرح سرگرمی سے تعمیل کی، تیرے فرمان عالیشان کے مطابق نہ دن کو دن سمجھا، نہ رات کو رات، بلکہ مسلسل ہر وقت انہیں راہ راست کی دعوت دیتا رہا لیکن کیا کروں کہ جس دل سوزی سے میں انہیں نیکی کی طرف بلاتا رہا وہ اسی سختی سے مجھ سے بھاگتے رہے حق سے روگردانی کرتے رہے، یہاں تک ہوا کہ میں نے ان سے کہا آؤ رب کی سنو تاکہ رب تمہیں بخشے لیکن انہوں نے میرے ان الفاظ کا سننا بھی گوارا نہ کیا، کان بند کر لئے، یہی حال کفار قریش کا تھا کہ کلام اللہ کو سننا بھی پسند نہیں کرتے تھے جیسے ارشاد ہے آیت (وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَا تَسْمَعُوْا لِھٰذَا الْقُرْاٰنِ وَالْـغَوْا فِيْهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُوْنَ 26؀) 41۔ فصلت :26) یعنی کافرو نے کہا اس قرآن کو نہ سنو اور جب یہ پڑھا جاتا ہو تو شور غل کرو تاکہ تم غالب رہو، قوم نوح نے جہاں اپنے کانوں میں انگلیاں ڈالیں وہاں اپنے منہ میں کپڑوں سے چھپا لئے تاکہ وہ پہچانے بھی نہ جائیں اور نہ کچھ سنیں اپنے شرک و کفر پر ضد کے ساتھ اڑ گئے اور اتباع حق سے نہ صرف انکار کردیا بلکہ اس سے بےپرواہی کی اور اسے حقیر جان کر تکبر سے پیٹھ پھیرلی، حضرت نوح فرماتے ہیں عام لوگوں کے مجمع میں بھی میں نے انہیں کہا سنا با آواز بلند ان کے کان کھول دیئے اور بسا اوقات ایک ایک کو چپکے چپکے بھی سمجھایا غرض تمام جتن کر لئے کہ یوں نہیں یوں سمجھ جائیں اور اور یوں نہیں تو یوں راہ راست پر آجائیں، میں نے ان سے کہا کہ کم از کم تم اپنی بدکاریوں سے توبہ ہی کرلو وہ اللہ غفار ہے ہر جھکنے والے کی طرف توجہ فرماتا ہے اور خواہ اس سے کیسے ہی بد سے بدتر اعمال سر زد ہوئے ہوں ایک آن میں معاف فرما دیتا ہے، یہی نہیں بلکہ دنیا میں بھی وہ تمہیں تمہارے استغفار کی وجہ سے طرح طرح کی نعمتیں عطا فرمائے گا اور درد و دکھ سے بچا لے گا وہ تم پر خوب موسلادھار بارش برسائے گا۔ یہ یاد رہے کہ قحط سالی کے موقعہ پر جب نماز استسقاء کے لئے مسلمان نکلیں تو مستحب ہے کہ اس نماز میں اس سورت کو پڑھیں، اس کی ایک دلیل تو یہی آیت ہے دوسرے خلیفتہ المسلمین حضرت عمر فاروق ؓ کا فعل بھی یہی ہے۔ آپ سے مروی ہے کہ بارش مانگنے کے لئے جب آپ نکلے تو منبر پر چڑھ کر آپ نے خوب استغفار کیا اور استغفار والی آیتوں کی تلاوت کی، جن میں ایک آیت یہ بھی تھی۔ پھر فرمانے لگے کہ بارش کو میں نے بارش کی تمام راہوں سے جو آسمان میں ہیں طلب کرلیا ہے یعنی وہ احکام ادا کئے ہیں، جن سے اللہ بارش نازل فرمایا کرتا ہے۔ حضرت نوح فرماتے ہیں اے میری قوم کے لوگو تم اگر استغفار کرو گے تو بارش کے ساتھ ہی ساتھ رزق کی برکت بھی تمہیں ملے گی زمین و آسمان کی برکتوں سے تم مالا مال ہوجاؤ گے کھیتیاں خوب ہوں گی جانوروں کے تھن دودھ سے پر رہیں گے مال و اولاد میں ترقی ہوگی قسم قسم کے پھلوں سے لدے پھندے باغات تمہیں نصیب ہوں گے جن کے درمیان چاروں طرف اور بابرکت پانی کی ریل پیل ہوگی، ہر طرف نہریں اور دریا جاری ہوجائیں گے۔ اس طرح رغبت دلا کر پھر ذرا خوف زدہ بھی کرتے ہیں اور فرماتے ہیں تم اللہ کی عظمت کے قائل کیوں نہیں ہوتے ؟ اس کے عذاب سے بےباک کیوں ہوگئے ہو ؟ دیکھتے نہیں کہ اللہ نے تمہیں کن کن حالات میں کس کس طرح حالت بدل بدل کر ساتھ پیدا کیا ہے ؟ پہلے پانی کی بوند پھر جامد خون پھر گوشت کا لوتھڑا پھر اور صورت پھر اور حالت وغیرہ، اسی طرح دیکھو تو سہی کہ اس نے ایک پر ایک اس طرح آسمان پیدا کئے خواہ وہ صرف سننے سے ہی معلوم ہوئے ہوں یا ان وجوہ سے معلوم ہوئے ہوں جو محسوس ہیں جو ستاروں کی چال اور ان کے کسوف سے سمجھی جاسکتی ہیں جیسے کہ اس علم والوں کا بیان ہے گو اس میں بھی ان کا سخت تر اختلاف ہے کہ کواکب چلنے پھرنے والے بڑے بڑے سات ہیں۔ ایک ایک کو بےنور کردیتا ہے، سب سے قریب آسمان دنیا میں چاند ہے جو دوسروں کو ماند کئے ہوئے ہے اور دوسرے آسمان پر عطارد ہے، تیسرے میں زہرہ ہے، چوتھے میں سورج ہے، پانچویں میں مریخ ہے، چھٹے میں مشتری، ساتویں میں زحل اور باقی کواکب جو ثوابت ہیں وہ آٹھویں میں ہیں جس کا نام یہ لوگ فلک ثوابت رکھتے ہیں اور ان میں سے جو شرع والے ہیں وہ اسے کرسی کہتے ہیں اور نواں فلک ان کے نزدیک اطلس اور اثیر ہے جس کی حرکت ان کے خیال میں افلاک کی حرکت کے خلاف ہے اس لئے کہ دراصل اس کی حرکت اور حرکتوں کو مبداء ہے وہ مغرب سے مشرق کی طرف حرکت کرتا ہے اور باقی سب آسمان مشرق سے مغرب کی طرف اور انہی کے ساتھ کواکب بھی گھومتے پھرتے رہتے ہیں، لیکن سیاروں کی حرکت افلاک کی حرکت کے بالکل برعکس ہے وہ سب مغرب سے مشرق کی طرف حرکت کرتے ہیں اور ان میں کا ہر ایک اپنے آسمان کا پھیر اپنے مقدور کے مطابق کرتا ہے، چاند تو ہر ماہ میں ایک بار سورج ہر سال میں ایک بار زحل ہر تیس سال میں ایک مرتبہ۔ مدت کی یہ کمی بیشی با اعتبار آسمان کی لمبائی چوڑائی کے ہے ورنہ سب کی حرکت سرعت میں بالکل مناسبت رکھتی ہے، یہ خلاصہ ہے ان کی تمام تر باتوں کا جس میں ان میں آپس میں بھی بہت کچھ اختلاف ہے نہ ہم اسے یہاں وارد کرنا چاہتے ہیں نہ اس کی تحقیق و تفتیش سے اس وقت کوئی غرض ہے مقصود صرف اس قدر ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے سات آسمان بنائے ہیں اور وہ اوپر تلے ہیں، پھر ان میں سورج چاند پیدا کیا ہے، دونوں کی چمک دمک اور روشنی اور اجالا الگ الگ ہے جس سے دن رات کی تمیز ہوجاتی ہے، پھر چاند کی مقررہ منزلیں اور بروج ہیں پھر اس کی روشنی گھٹتی بڑھتی رہتی ہے اور ایسا وقت بھی آتا ہے کہ وہ بالکل چھپ جاتا ہے اور ایسا وقت بھی آتا ہے کہ وہ اپنی پوری روشنی کے ساتھ نمودار ہوتا ہے جس سے مہینے اور سال معلوم ہوتے ہیں، جیسے فرمان ہے آیت (ھُوَ الَّذِيْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَاۗءً وَّالْقَمَرَ نُوْرًا وَّقَدَّرَهٗ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّـنِيْنَ وَالْحِسَابَ ۭ مَا خَلَقَ اللّٰهُ ذٰلِكَ اِلَّا بالْحَقِّ ۚ يُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ) 10۔ یونس :5) اللہ وہ ہے جس نے سورج، چاند خوب روشن چمکدار بنائے اور چاند کی منزلیں مقرر کردیں تاکہ تمہیں سال اور حساب معلوم ہوجائیں ان کی پیدائش حق کے ساتھ ہے۔ عالموں کے سامنے اللہ کی قدرت کے یہ نمونے الگ الگ موجود ہیں، پھر فرمایا اللہ نے تمہیں زمین سے اگایا اس مصدر نے مضمون کو بیحد لطیف کردیا پھر تمہیں مار ڈالنے کے بعد اسی میں لوٹائے گا، پھر قیامت کے دن اسی سے تمہیں نکالے گا، جیسے اول دفعہ پیدا کیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے زمین کو تمہارا فرش بنادیا اور وہ ہلے جلے نہیں اس لئے اس پر مضبوط پہاڑ گاڑ دیئے، اسی زمین کے کشادہ راستوں پر تم چلتے پھرتے ہو اسی پر رہتے سہتے ہو ادھر سے ادھر جاتے آتے ہو، غرض حضرت نوح ؑ کی ہر ممکن کوشش یہ ہے کہ عظمت رب اور قدرت اللہ کے نمونے اپنی قوم کے سامنے رکھ کر انہیں سمجھا رہے ہیں کہ زمین و آسمان کی برکتوں کے دینے والے ہر چیز کے پیدا کرنے والے عالی شان قدرت کے رکھنے والے رازق خالق اللہ کا کیا تم پر اتنا بھی حق نہیں کہ تم اسے پوجو اس کا لحاظ رکھو اور اس کے کہنے سے اس کے سچے نبی کی راہ اختیار کرو، تمہیں ضرور چاہئے کہ صرف اسی کی عبادت کرو کسی اور کو نہ پوج، اس جیسا اس کا شریک، اس کا ساجھی، اس کا مثیل کسی کو نہ جانو، اسے بیوی اور ماں سے، بیٹوں پوتوں، وزیر و مشیر سے، عدیل و نظیر سے پاک مانو اسی کو بلند وبالا اسی کو عظیم و اعلیٰ جانو۔

آیت 5 - سورہ نوح: (قال رب إني دعوت قومي ليلا ونهارا...) - اردو