سورہ نوح: آیت 4 - يغفر لكم من ذنوبكم ويؤخركم... - اردو

آیت 4 کی تفسیر, سورہ نوح

يَغْفِرْ لَكُم مِّن ذُنُوبِكُمْ وَيُؤَخِّرْكُمْ إِلَىٰٓ أَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ إِنَّ أَجَلَ ٱللَّهِ إِذَا جَآءَ لَا يُؤَخَّرُ ۖ لَوْ كُنتُمْ تَعْلَمُونَ

اردو ترجمہ

اللہ تمہارے گناہوں سے درگزر فرمائے گا اور تمہیں ایک وقت مقرر تک باقی رکھے گا حقیقت یہ ہے کہ اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت جب آ جاتا ہے تو پھر ٹالا نہیں جاتا کاش تمہیں اِس کا علم ہو"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Yaghfir lakum min thunoobikum wayuakhkhirkum ila ajalin musamman inna ajala Allahi itha jaa la yuakhkharu law kuntum taAAlamoona

آیت 4 کی تفسیر

یغفرلکم ........................ اجل مسمی (17 : 4) ” اور تمہارے گناہوں سے درگزر فرمائے گا اور تمہیں ایک وقت مقرر تک باقی رکھے گا “۔ اور یہ باقی رکھنا ، اس بات کے عوض میں ہوگا کہ تم اللہ کی بندگی کرو گے ، اللہ سے ڈرو گے اور رسول خدا کی اطاعت کرو گے ، اور اس کے بدلے اللہ مزید یہ کرے گا کہ تمہارے سابقہ گناہ بھی معاف کردے گا اور تمہارا حساب و کتاب اس وقت تک موخر ہوجائے گا جو اللہ نے مقرر کررکھا ہے یعنی یوم الاخرت تک۔ اور اس طرح دنیا میں تم پر جو تباہ کن عذاب آنے والا ہے ، وہ موخر ہوجائے گا۔ (عنقریب حضرت نوح (علیہ السلام) پیش کریں گے کہ اللہ نے ان لوگوں کے ساتھ اور بھی وعدے فرمائے تھے) ۔

اس کے بعد یہ فرمایا گیا کہ قیام قیامت حتمی ہے اور وہ اپنے وقت پر ضرور آئے گی۔ اس میں کوئی تاخیر نہیں ہوسکتی۔ جس طرح دنیا کے عذاب میں تاخیر ہوسکتی ہے۔ چناچہ قیامت کے بارے میں عقیدے کو یوں درست کردیا جاتا ہے۔

ان اجل ........................ تعلمون (17 : 4) ” حقیقت یہ ہے کہ اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت جب آجاتا ہے تو پھر ٹالا نہیں جاتا ، کاش تمہیں اس کا علم ہو “۔ اس سے مراد قیامت بھی ہوسکتی ہے اور ہر وہ دوسرا وقت بھی ہوسکتا ہے جو اللہ کسی واقعہ کے وقوع کے لئے مقرر کردے۔ بہرحال یہاں یہ عام عقیدہ ذہنوں میں بٹھانا مقصود ہے کہ اللہ کا مقرر کردہ وقت ٹالا نہیں جاسکتا۔ ہاں اگ ریہ لوگ اطاعت کرلیں اور توبہ کرلیں تو اللہ دنیا میں تباہ کردینے کی بجائے قیام قیامت تک کے لئے ان کا عذاب ٹال دے گا۔

حضرت نوح (علیہ السلام) اپنی مساعی جاری رکھے ہوئے ہیں ، اور اپنی قوم کو ہدایت کے لئے جدوجہد کررہے ہیں۔ وہ کسی مصلحت کی پرواہ نہیں کرتے ، کسی مفاد کا لحاظ نہیں کررہے۔ وہ اس عظیم مقصد کے لئے وہ سب کچھ برداشت کررہے ہیں۔ لوگ اعتراض کررہے ہیں ، منہ موڑ رہے ہیں اور مذاق کررہے ہیں۔ لیکن آپ ہیں کہ کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ساڑھے نو سو سال اس جدوجہد میں گزرجاتے ہیں۔ چند لوگ ہی دعوت قبول کرتے ہیں جبکہ قوم کی طرف سے منہ موڑنے ، گمراہی پر اصرار کرنے اور مذاق کرنے میں اضافہ ہی ہورہا ہے۔ ٹھیک ساڑھے نو سو سال کے بعد حضرت نوح (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے دربار میں اپنی کارکردگی کی رپورٹ پیش کرتے ہیں۔ اس طویل عرصے میں جو کچھ پیش آیا ، وہ عرض کردیتے ہیں ، جبکہ رب تعالیٰ کو تو پہلے سے معلوم ہے۔ اور حضرت نوح (علیہ السلام) بھی جانتے ہیں کہ رب کو معلوم ہے ، لیکن شکوہ شکایت یونہی دہرائی جاتی ہے اور انبیائے کرام کا شکوہ تو اللہ ہی سے ہوسکتا ہے۔ وہ اللہ کے ہاں ہی اپنی فریاد پیش کرسکتے ہیں۔ اور وہ مومنین جن کو حقیقت ایمان تک رسائی حاصل ہوتی ہے وہ بھی صرف اللہ ہی سے شکایت کرتے ہیں۔

آیت 4{ یَغْفِرْ لَــکُمْ مِّنْ ذُنُوْبِکُمْ } ”اللہ تمہارے کچھ گناہ معاف کر دے گا“ یہاں پر حرف مِنْ تبعیضیہ بہت معنی خیز ہے۔ یعنی سب کے سب گناہ معاف ہونے کی ضمانت نہیں ‘ البتہ کچھ گناہ ضرور معاف ہوجائیں گے۔ اس کی تاویل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے حقوق تو جسے چاہے گا اور جب چاہے گا معاف کر دے گا ‘ لیکن حقوق العباد کے تنازعات کے حوالے سے وہ انصاف کے تقاضے پورے کرے گا۔ اس کے لیے روز محشر متعلقہ فریقوں کے درمیان باقاعدہ لین دین کا اہتمام کرایا جائے گا۔ مثلاً کسی شخص نے اگر کسی کا حق غصب کیا ہوگا ‘ کسی کی عزت پر حملہ کیا ہوگا یا کسی بھی طریقے سے کسی پر ظلم کیا ہوگا تو ایسے ظالم کی نیکیوں کے ذریعے سے متعلقہ مظلوم کی تلافی کی جائے گی۔ اس لین دین میں اگر کسی ظالم کی نیکیاں کم پڑجائیں گی تو حساب برابر کرنے کے لیے اس کے ظلم کا شکار ہونے والے مظلوموں کے گناہ اس کے کھاتے میں ڈال دیے جائیں گے۔ { وَیُؤَخِّرْکُمْ اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی } ”اور تمہیں مہلت دے دے گا ایک وقت معین تک۔“ یعنی اگر تم لوگ اللہ کو معبود مانتے ہوئے اس کا تقویٰ اختیار کرو گے اور میرے احکام کی تعمیل کرتے رہو گے تو اللہ تعالیٰ کچھ مدت کے لیے تمہیں بحیثیت قوم دنیا میں زندہ رہنے کی مزید مہلت عطا فرما دے گا۔ لیکن تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ مہلت بھی ایک وقت معین تک ہی ہوگی۔ اس معاملے میں اللہ تعالیٰ کے قوانین بہت سخت اور اٹل ہیں۔ { اِنَّ اَجَلَ اللّٰہِ اِذَا جَآئَ لَا یُؤَخَّرُ 7 لَـوْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۔ } ”اللہ کا مقرر کردہ وقت جب آجائے گا تو اسے موخر نہیں کیا جاسکے گا۔ کاش کہ تمہیں معلوم ہوتا !“ جب کوئی قوم اپنے رسول کی دعوت کو ٹھکرا دیتی ہے اور اسے غور و فکر کرنے کے لیے جو مہلت دی گئی ہو وہ ختم ہوجاتی ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی مشیت کے مطابق اس قوم کو نیست و نابود کرنے کا قطعی فیصلہ کرلیتا ہے تو پھر کوئی طاقت اس فیصلے کو موخر نہیں کرسکتی۔ آئندہ آیات میں حضرت نوح علیہ السلام کے اندازِ دعوت کا پورا نقشہ نظر آتا ہے کہ آپ علیہ السلام نے اپنی قوم کو راہ راست پر لانے کے لیے خود کو کس کس طرح سے ہلکان کیا۔ قوم کو دعوت و تبلیغ کرتے اور پیغامِ حق سناتے ہوئے نوصدیاں بیت گئیں لیکن قوم اس دعوت حق پر کان دھرنے پر آمادہ نہیں ہوئی۔ جب آپ علیہ السلام کو ان کے ایمان لانے کی امید نہ رہی تو آپ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حضور یہ عرض داشت پیش کی۔

آیت 4 - سورہ نوح: (يغفر لكم من ذنوبكم ويؤخركم إلى أجل مسمى ۚ إن أجل الله إذا جاء لا يؤخر ۖ لو كنتم تعلمون...) - اردو