سورہ نوح: آیت 3 - أن اعبدوا الله واتقوه وأطيعون... - اردو

آیت 3 کی تفسیر, سورہ نوح

أَنِ ٱعْبُدُوا۟ ٱللَّهَ وَٱتَّقُوهُ وَأَطِيعُونِ

اردو ترجمہ

(تم کو آگاہ کرتا ہوں) کہ اللہ کی بندگی کرو اور اس سے ڈرو اور میری اطاعت کرو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ani oAAbudoo Allaha waittaqoohu waateeAAooni

آیت 3 کی تفسیر

حضرت نوح (علیہ السلام) جو دعوت پیش کررہے تھے ، وہ بھی سادہ اور سیدھی ہے۔

ان اعبدو .................... واطیعون (17 : 3) ” کہ اللہ کی بندگی کرو اور اس سے ڈرو اور میری اطاعت کرو “۔ یعنی اللہ وحدہ کی بندگی کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ، اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرو ، تمہارے شعور و سلوک پر یہ بات چھائی ہوئی ہو ، اور رسول اللہ کی اطاعت وہ بات ہے جس سے نظام زندگی پھوٹتا ہے اور زندگی کے تفصیلی قواعد وضع ہوتے ہیں جس کی تعبیر سنت رسول سے کی جاتی ہے۔

بس تمام ادیان سماوی کے یہی خطوط ہیں۔ اللہ کا حکم اور رسول اللہ کی اطاعت۔ انہی خطوط پر دین استوار ہوتا ہے۔ تفصیلات ہر دور کے حالات کے مطابق ہوتی ہیں۔ انسانیت کے تفصیلی سوالات ، اس کا تصور وجود اور اس کائنات کے اندر پائے جانے والے مختلف سوالات جو مختلف ادوار میں ہوتے ہیں ان کے جوابات کے نتیجے میں ادیان کی تفصیلات اور فروعات میں اختلاف ہوتا ہے۔

اللہ کی پوری بندگی کرنا ہی دراصل ایک مکمل نظام ہوتا ہے۔ اللہ کی بندگی میں تصور الٰہ ، اس کی اطاعت کی تفصیلات خالق و مخلوق کے درمیان تعلق کی نوعیت ، اس کائنات میں حسن وقبح کے اصول ۔ لوگوں کی زندگیوں میں حسن وقبح کے اصول۔ اس طرح اللہ کی بندگی کے اصول سے ایک مکمل نظام زندگی قائم ہوجاتا ہے۔ زندگی گزارنے کا ایک منہاج سامنے آجاتا ہے۔ یہ ایک ربانی منہاج حیات ہوتا ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بندگی اور خدائی کا باہم تعلق کیا ہوتا ہے ؟ اور وہ کیا قدریں ہیں ، جو زندہ اور غیر زندہ اشیاء کے متعلق اللہ نے تجویز فرمائی ہیں۔ اور ” خدا کا خوف “ وہ ضامن ہے جو اس نظام زندگی اور منہاج حیات کو قائم رکھتا ہے۔ جس قوم کے دل میں خدا کا خوف ہو وہ اس منہاج سے ادھر ادھر نہیں جاتی۔ نہ اس میں حیلے اور بہانے تلاش کرتی ہے۔ نیز تقویٰ کے بدولت انسان کے اندر اخلاق فاضلہ بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔ انسان کا طرز عمل حقیقی ہوتا ہے ، بغیر کسی ظاہرداری اور دکھاوے کے۔

اطاعت رسول سے دراصل راستے کی حدود کا تعین ہوتا ہے اور انسان اس سیدھی راہ پر چلنے کے لئے تفصیلی ہدایات اخذ کرتا ہے اور براہ راست رب تعالیٰ اور عالم بالا سے مربوط رہتا ہے۔

یہ تھے وہ خطوط جن پر حضرت نوح (علیہ السلام) نے آغاز انسانیت سے لوگوں کے لئے راہ ہدایت اور منہاج حیات استوار کیا۔ اور از منہ مابعد کی تمام دعوتیں انہی خطوط پر استوار ہوتی رہیں اور حضرت نوح (علیہ السلام) نے قوم سے وعدہ کیا کہ اگر تم نے توبہ کرلی اور لوٹ آئے تو اللہ معاف کردے گا۔

آیت 3{ اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَاتَّـقُوْہُ وَاَطِیْعُوْنِ۔ } ”کہ تم لوگ اللہ کی بندگی کرو ‘ اس کا تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو۔“ یہاں نبی علیہ السلام اور رسول علیہ السلام میں فرق کے حوالے سے یہ نکتہ نوٹ کر لیجیے کہ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم سے اپنی اطاعت کا مطالبہ اللہ کے ”رسول“ کی حیثیت سے کیا تھا۔ کسی نبی علیہ السلام نے اپنی قوم سے کبھی یہ نہیں کہا کہ تم لوگ میری اطاعت کرو۔ سورة یوسف علیہ السلام میں ہم حضرت یوسف علیہ السلام کے تفصیلی حالات پڑھ چکے ہیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام نبی تھے۔ آپ علیہ السلام نے مصر کے بادشاہ کو یہ نہیں کہا کہ میں نبی ہوں ‘ تم میری اطاعت کرو ‘ اور نہ ہی آپ علیہ السلام نے مصر کے لوگوں سے مخاطب ہو کر یوں کہا کہ مجھ پر ایمان لائو ورنہ تم پر اللہ کی طرف سے عذاب آجائے گا۔ بلکہ حضرت یوسف علیہ السلام کے دور نبوت میں بادشاہ اپنی جگہ پر بادشاہ رہا۔ آپ علیہ السلام اس کی بادشاہی میں ایک بڑے عہدے پر کام بھی کرتے رہے اور دعوت و تبلیغ کا فریضہ بھی ادا کرتے رہے۔ گویا انبیاء کرام کی دعوت عمومی نوعیت کی تھی کہ تم لوگ اللہ کے نیک بندے بنو ‘ اللہ کا حق مانو ‘ وغیرہ۔ لیکن جب کسی نبی کو کسی قوم کی طرف کوئی خاص مشن دے کر بھیجا گیا تو وہ اللہ کے ”رسول علیہ السلام“ اور اللہ کے نمائندے بن کر اس قوم کی طرف گئے اور اسی حیثیت سے انہوں نے متعلقہ قوم سے اپنی اطاعت کا مطالبہ کیا۔ ازروئے الفاظِ قرآنی : { وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلاَّ لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِط } النساء : 64 ”ہم نے نہیں بھیجا کسی رسول کو مگر اس لیے کہ اس کی اطاعت کی جائے اللہ کے حکم سے“۔ اس لحاظ سے رسول کی اطاعت دراصل اللہ ہی کی اطاعت ہے : { مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَج } النساء : 80 ”جس نے اطاعت کی رسول کی اس نے اطاعت کی اللہ کی۔“

آیت 3 - سورہ نوح: (أن اعبدوا الله واتقوه وأطيعون...) - اردو