سورہ محمد: آیت 4 - فإذا لقيتم الذين كفروا فضرب... - اردو

آیت 4 کی تفسیر, سورہ محمد

فَإِذَا لَقِيتُمُ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ فَضَرْبَ ٱلرِّقَابِ حَتَّىٰٓ إِذَآ أَثْخَنتُمُوهُمْ فَشُدُّوا۟ ٱلْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّۢا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَآءً حَتَّىٰ تَضَعَ ٱلْحَرْبُ أَوْزَارَهَا ۚ ذَٰلِكَ وَلَوْ يَشَآءُ ٱللَّهُ لَٱنتَصَرَ مِنْهُمْ وَلَٰكِن لِّيَبْلُوَا۟ بَعْضَكُم بِبَعْضٍ ۗ وَٱلَّذِينَ قُتِلُوا۟ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ فَلَن يُضِلَّ أَعْمَٰلَهُمْ

اردو ترجمہ

پس جب اِن کافروں سے تمہاری مڈ بھیڑ ہو تو پہلا کام گردنیں مارنا ہے، یہاں تک کہ جب تم ان کو اچھی طرح کچل دو تب قیدیوں کو مضبوط باندھو، اس کے بعد (تمہیں اختیار ہے) احسان کرو یا فدیے کا معاملہ کر لو، تا آنکہ لڑائی اپنے ہتھیار ڈال دے یہ ہے تمہارے کرنے کا کام اللہ چاہتا تو خود ہی اُن سے نمٹ لیتا، مگر (یہ طریقہ اُس نے اس لیے اختیار کیا ہے) تاکہ تم لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعہ سے آزمائے اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں گے اللہ ان کے اعمال کو ہرگز ضائع نہ کرے گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faitha laqeetumu allatheena kafaroo fadarba alrriqabi hatta itha athkhantumoohum fashuddoo alwathaqa faimma mannan baAAdu waimma fidaan hatta tadaAAa alharbu awzaraha thalika walaw yashao Allahu laintasara minhum walakin liyabluwa baAAdakum bibaAAdin waallatheena qutiloo fee sabeeli Allahi falan yudilla aAAmalahum

آیت 4 کی تفسیر

اس آیت میں کافروں کے ساتھ ملاقات سے مراد جنگ کا آمنا سامنا ہے۔ محض ملاقات نہیں ہے۔ اس سورت کے نزول تک جزیرۃ العرب میں بعض لوگ مسلمانوں کے ساتھ برسر جنگ تھے اور بعض کے ساتھ صلح کا معاہدہ تھا ۔ سورة برات ابھی نازل نہ ہوئی تھی جس کے نیتجے میں مشرکین کے ساتھ معاہدے ختم کر دئیے گئے تھے۔ اس طرح کہ جو معاہدے متعین وقت کے لئے تھے ان کے بارے میں فیصلہ ہوا کہ وہ اپنے وقت تک رہیں گے اور جن کے اندر کوئی وقت متعین نہ تھا ، ان کے معاہدین کو چار ماہ کا عرصہ دے دیا گیا۔ اور یہ حکم دے دیا گیا تھا کہ اس کے بعد جزیرۃ العرب میں جہاں بھی کوئی مشرک پایا جائے گا اسے قتل کردیا جائے گا۔ کیونکہ جزیرۃ العرب اسلام کا مرکز تھا اور اسے صرف مسلمانوں کے لئے مخصوص کرنا ضروری تھا۔ جزیرۃ العرب کے اندر مشرکین ۔۔۔۔ تو اسلام قبول کرنا تھا یا ملک بدر ہونا تھا۔ اور یہ اصول دوسرے علاقوں کے لئے نہیں ہے ، دوسرے اسلامی علاقوں میں مشرکین بطور اقلیت جزیہ دے کر رہ سکتے ہیں۔ نیز گردنیں مارنے کا حکم بھی اس وقت ہے جب وہ اسلام قبول نہ کریں۔ گردنیں اڑانیں کا حکم قتل کی عملی صورت ہے اور یہ اس سورت کی فضا کے ساتھ مناسب لفظ ہے۔

حتی اذا اثخنتموھم فشدوا الوثاق (47 : 4) “ یہاں تک کہ جب تم ان کو اچھی طرح کچل دو تب قیدیوں کو مضبوط باندھو ”۔ اثخان کے معنی ہیں شدید قتل یعنی کچل دینا۔ یعنی دشمن کی قوت کو ختم کر کے رکھ دینا۔ قوت کو ٹکڑے ٹکڑے کردینا کہ آئندہ اس میں حملے کی طاقت نہ رہے۔ جب وہ اس پوزیشن میں چلا جائے تب قیدیوں کو گرفتار کرنا شروع کیا جائے ۔ لیکن اگر دشمن کا سر کچلا نہ گیا ہو تو دشمن کو قید کرنا شروع نہ کیا جائے۔

اس تفسیر کے مطابق اس آیت اور انفال کی اس آیت کے درمیان کوئی اختلاف نہ ہوگا جس میں حضور اکرم ﷺ اور مسلمانوں کو سرزنش کی گئی تھی کہ انہوں نے غزوۂ بدر میں بہت سے لوگوں کو قیدی بنا لیا حالانکہ مناسب تھا کہ انہیں قتل کردیا جاتا ، جیسا کہ بعض مفسرین نے سمجھا ہے۔ سورة انفال میں کہا گیا۔

ما کان لنبی ۔۔۔۔ واللہ عزیز حکیم (67) لو لا کتب ۔۔۔۔۔ عذاب عظیم (68) (8 : 67 تا 68) “ کسی نبی کو یہ زیب نہیں دیتا کہ اس کے پاس قیدی ہوں جب تک وہ زمین میں دشمنوں کو اچھی طرح کچل نہ دے۔ تم لوگ دنیا کا فائدہ چاہتے ہو ، حالانکہ اللہ کے پیش نظر آخرت ہے اور اللہ غالب اور حکیم ہے۔ اگر اللہ کا نوشتہ پہلے لکھا نہ جا چکا ہوتا تو جو کچھ تم لوگوں نے لیا ہے اس کی پاداش میں تم کو بڑی سزا دی جاتی ”۔

لہٰذا دشمن کی قوت کو کچلنا تو سب سے پہلے ہے تا کہ دشمن آئندہ اسلامی مملکت پر حملہ نہ کرسکے اور اس کے بعد قید کا معاملہ ہوگا۔ کیونکہ جنگ کا مقصد ہی یہ ہے کہ اسلامی ریاست پر حملہ آور ہونے والی قوت کو ختم کردیا جائے۔ خصوصاً ایسے حالات میں جبکہ مسلمانوں کی قوت افرادی اعتبار سے کم ہو اور مشرکین تعداد میں زیادہ ہوں۔ اس دور کے جنگی حالات میں دشمن کے سپاہی کو ختم کردینا جنگ کی حکمت عملی میں بہت ہی اہم تھا۔ اور یہی حکم اب بھی رہے گا اگر یہ مقصد اس پر موقوف ہو کہ دشمن کی قوت کو کچلنا قتل شدید کے بغیر ممکن نہ ہو اور اس کے بغیر اسے دوبارہ حملے سے روکا نہ جاسکتا ہو۔ اس کے بعد لوگوں کو قید کرنے کا حکم پھر یہ ہے اور یہ واحد نص ہے جو قیدیوں کے ضابطے کا تعین کرتی ہے۔

فاما منا بعد واما فداء (47 : 4) “ اس کے بعد تمہیں اختیار ہے احسان کرو یا فدیے کا معاملہ کرو ”۔ یعنی بعد میں جنگی قیدیوں کا مصرف یہ ہے کہ یا تو ان قیدیوں کو بطور احسان چھوڑ دو ، یا فدیے کا معاملہ کرو یعنی مسلمان قیدیوں کے بدلے میں چھوڑ دو یا کوئی مالی تاوان جنگ لے کر چھوڑ دو ، یا کوئی اور اجرت عمل لے لو۔ جیسا کہ بدر کے قیدیوں سے کچھ کام لیے گئے۔

اس آیت میں قیدیوں کے مصرف کے لئے کوئی تیسری صورت نہیں۔ یعنی قیدیوں کو قتل کرنا یا غلام بنانا یعنی مشرکین کے قیدیوں کے معاملے میں ۔ لیکن اس کے بعد عملاً یوں ہوا کہ رسول اللہ ﷺ اور خلفاء نے بعض قیدیوں کو غلام بنا یا اور بعض کو متعین حالات میں قتل کیا۔

میں اس آیت کی تشریح کے بارے میں امام جصاص حنفی کی تشریح نقل کرتا ہوں ، درمیان میں جہاں مجھے کچھ کہنا ہے ، کہوں گا اور اس کے بعد وہ مطلب بیان کروں گا جو میرے خیال میں درست ہے۔ جصاص کہتے ہیں :

“ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

فاذا لقیتم الذین کفروا فضرب الرقاب (48 : 4) “ پس جب کافروں سے تمہاری مڈ بھیڑ ہو تو گردنیں مارتا ہے ”۔ آیت کا ظاہری مفہوم متقاضی ہے کہ کفار کے ساتھ کوئی دوسرا معاملہ تب جائز ہے جب ان کی قوت کو اچھی طرح کچل دیا جائے اور اس کے مما ثل حکم دوسری جگہ ہے۔

ما کان لنبی ان یکون لہ اسری حتی یثخن فی الارض (8 : 67) “ نبی کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ اس کے پاس قیدی ہوں حتیٰ کہ وہ زمین میں دشمن کی قوت کو کچل دے ”۔ (اور یہ بات درست ہے کیونکہ دونوں آیات کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے (قطب) ۔

روایت بیان کی محمد ابن جعفر محمد ابن حکم نے جعفر ابن محمد ابن یمان سے انہوں نے ابو عبید سے انہوں نے عبد اللہ ابن صالح سے انہوں نے معاویہ ابن صالح سے انہوں نے علی ابن طلحہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے کہ آیت۔

ما کان لنبی ۔۔۔۔۔ فی الارض (8 : 67) یوم بدر کے بارے میں ہے۔ اس وقت مسلمان قلیل تھے۔ جب وہ زیادہ ہوگئے اور ان کی قوت زیادہ ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے دوسری آیت نازل کی۔

فاما منا بعد واما فداء (48 : 4) “ اللہ نے نبی اور مسلمانوں کو اختیار دے دیا کہ اگر چاہیں تو قتل کردیں ، چاہیں تو غلام بنا لیں ، چاہیں تو فدیہ لے لیں۔ ابو عبید نے ان الفاظ میں شک کیا ہے (اگر چاہیں تو غلام بنا لیں) (غلام بنانا چونکہ خود حضرت ابن عباس سے نقل ہونے میں بھی مشکوک ہے۔ اس لیے ہم اسے تو ترک کرتے ہیں۔ رہا قتل کرنا تو اس آیت سے جواز معلوم نہیں ہوتا کیونکہ آیت احسان کرنے یا فدیہ لے کر چھوڑ دینے کے بارے میں منصوص ہے۔

روایت کی ہے جعفر ابن محمد نے ابو عبید نے انہوں نے ابو مہدی اور حجاج سے ، دونوں نے سفیان سے وہ کہتے ہیں کہ میں نے سدی سے سنا کہ وہ اس آیت کی تفسیر یہ بیان کرتے تھے :

فاء ۔۔۔۔ فداء (48 : 4) “ اس کے بعد احسان کرو یا فدیہ کا معاملہ کرو ”۔ کہ یہ آیت منسوخ ہوگئی ہے اور اس کو سورة توبہ کی آیت۔

فاقتلوا المشرکین حیث وجدتموھم (9 : 5) “ مشرکین کو قتل کرو جہاں ان کو پاؤ ” نے منسوخ کردیا ہے ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ یہ آیت ۔

فاذا لقیتم الذین کفروا فضرب الرقاب (48 : 4) اور آیت۔

ما کان لنبی ۔۔۔۔ فی الارض (8 : 67) اور آیت۔

فاما تثقفنھم فی الحرب فشرد بھم من خلفھم (8 : 57) یہ سب احکام ثابت اور موجود ہو سکتے ہیں اور منسوخ نہ ہوں گے۔ یہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کو حکم دیا کہ مشرکین کو خوب قتل کرو اور قیدی نہ بناؤ۔ الا یہ کہ وہ خوب ذلیل ہوجائیں اور ان کی قوت ٹوٹ جائے۔ یہ اس وقت تھا جب مسلمانوں کی تعداد کم تھی۔ لہٰذا مناسب یہ ہے کہ یہ حکم قائم رہے اور ایسے حالات میں اس پر عمل کیا جائے جس طرح آغاز اسلام میں مسلمانوں کی حالت تھی۔ (میرا خیال یہ ہے کہ مشرکین جہاں ملیں ان کو قتل کرو۔ یہ حکم صرف جزیرۃ العرب کے مشرکین کے لئے تھا ، جبکہ یہ آیت عام ہے ، یعنی آیت زیر بحث ۔ جب دشمن کی قوت کو کچل دیا جائے تو پھر قیدی بنانا جائز ہوگا۔ اس پر خلفاء نے رسول اللہ ﷺ کے بعد عمل کیا اور سورة برات کے نزول کے بعد بھی عمل ہوا۔ انہوں نے بعض مخصوص حالات کے سوا کسی قیدی کو قتل نہیں کیا۔ رہی یہ آیت :

فاما منا بعد واما فداء (48 : 4) “ اس کے بعد احسان کرو یا فدیہ لو ”۔ بظاہر عبارت کا مفہوم یہی ہے کہ دو میں سے ایک چیز کرسکتے ہو یعنی یا احسان کرو اور قیدیوں کو رہا کردو اور یا پھر فدیہ لے کر چھوڑ دو ۔ اس سے قیدیوں کے قتل کے جواز کی نفی ہوتی ہے اور ملف صالحین کے درمیان اختلاف ہوا ہے ۔ روایت ہے حجاج ابن مبارک ابن فضالہ سے انہوں نے حسن سے روایت کی کہ انہوں نے قیدی کے قتل کر مکروہ سمجھا اور ۔۔۔۔ اس پر احسان کردیا فدیہ کا معاملہ کرو۔ حدیث بیان کی جعفر نے ابو عبید سے انہوں نے ہیشم سے انہوں نے اشعث سے ، کہ میں نے عطا سے پوچھا قیدی کے قتل کا کیا مسئلہ ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ یا احسان کر کے چھوڑ دو یا فدیہ کا معاملہ کرو۔ یہی بات میں نے حسن سے پوچھی تو انہوں نے کہا اس کے ساتھ وہی معاملہ ہوگا جو حضور ﷺ نے بدر کے قیدیوں سے فرمایا کہ یا تو احسان کر کے چھوڑ دیا یا فدیہ لیا۔ حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ عظمائے اصطخر کا ایک رئیس قیدی ان کے حوالے کیا گیا کہ اسے قتل کردیں ، تو انہوں نے اسے قتل کرنے سے انکار کردیا۔ اور یہ آیت پڑھی۔

فاما منا بعد واما فداء (48 : 4) اسی طرح مجاہد اور محمد ابن سیرین سے بھی یہی روایت ہے کہ انہوں نے قیدیوں کے قتل کو ناپسند کیا۔ سدی سے یہ روایت آئی ہے کہ یہ آیت۔

فاما منا بعد واما فداء (48 : 4) منسوخ ہے فاقتلوا المشرکین حیث وجدتموھم (9 : 5) نے اسے منسوخ کردیا ہے۔ اسی قسم کی روایت ابن جریج سے بھی منقول ہے ۔ روایت کی جعفر نے ، ابو عبید سے انہوں نے حجاج سے اور انہوں نے ابن جریج سے ، انہوں نے کہا کہ یہ آیت منسوخ ہے۔ حضور ﷺ نے عقبہ ابن ابو معیط کو بدر کے دن باندھ کر قتل کیا۔ نضر ابن حارث کو بھی بدر کے دن قتل کیا گیا۔ اور احد کے دن ابو عزہ شاعر۔ قید کئے جانے کے بعد قتل ہوا اور بنو قریظہ کو قتل کیا گیا جب وہ سعد ابن معاد کے فیصلے پر ہتھیار ڈال کر سیر ہوگئے تو سعد ابن معاذ نے فیصلہ دیا کہ ان کو قتل کردیا جائے اور ان کی اولاد کو غلام بنا لیا جائے۔ ان میں سے صرف زبیر ابن باطا پر احسان کیا گیا اور خیبر کا بعض علاقہ تو مصالحت سے فتح ہوا اور بعض علاقہ بزور شمشیر فتح ہوا اور ابو الحقیق کے ساتھ یہ شرط طے ہوئی کہ کچھ چھپائے گا نہیں۔ جب اس کی خیانت ظاہر ہوگئی کہ اس نے چھپایا ہے تو اسے قتل کردیا گیا۔

حضور ﷺ نے مکہ کو فتح کیا اور حکم دیا کہ بلال ابن فطل ، متیس ابن حبابہ اور عبد اللہ ابن ابو السرح اور دوسروں کو قتل کردیا جائے۔ آپ نے فرمایا : “ یہ اگر کعبہ کے پردوں کے ساتھ بھی لٹک رہے ہوں تو انہوں قتل کرو ”۔ اہل مکہ پر احسان کیا۔ ان کے اموال کو مال غنیمت نہ بنایا۔ صالح ابن کیسان سے روایت ہے انہوں نے محمد ابن عبد الرحمٰن سے ، انہوں نے اپنے والد عبد الرحمٰن ابن عوف سے کہ انہوں نے حضرت ابوبکر الصدیق کو یہ کہتے سنا : “ کاش فجاء ۃ جب میرے پاس لایا گیا تو میں اسے نہ جلاتا تو اسے آزادانہ قتل کردیتا یا اسے کامیابی سے رہا کرتا ” ابو موسیٰ نے السوس کے ایک زمیندار کو پناہ دینے کے بعد قتل کردیا۔ ہوا یوں کہ اسے امان دے دی گئی کہ فلاں فلاں لوگوں کو قتل نہ کیا جائے گا لیکن اس معاہدے میں وہ اپنا نام لکھنا بھول گیا۔ یوں وہ قتل ہوگیا۔ یہ احادیث و آثار ہیں جو حضور اکرم ﷺ سے اور صحابہ سے تواتر کے ساتھ آئے ہیں کہ قیدیوں کو رکھا بھی جاسکتا ہے اور قتل بھی کیا جاسکتا ہے اور اس پر بڑے شہروں کے فقہاء کا اتفاق ہے۔ (اس قتل کا جواز آیت سے نہیں لیا جاتا ، صرف رسول اللہ ﷺ کے عمل اور بعض صحابہ کے عمل سے لیا جاتا ہے۔ لیکن جن حالات میں قیدیوں کو قتل کیا گیا ہے ، ان کا مفصل مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ قتل ہوئے ، ان کے قتل کی مخصوص وجوہات تھیں۔ یہ وجوہات جنگ اور قیدی بن جانے کے علاوہ تھیں۔ نضر ابن حارث اور عقبہ ابن ابو معیط مکہ میں حضور اکرم ﷺ کی ہجو کرتے تھے۔ اور آپ کو اور دعوت اسلامی کے حاملین کو اذیت دیتے تھے۔ یہی مسئلہ ابو عزہ شاعر کا تھا۔ بنو قریظہ نے تو حضرت سعد ابن معاذ کا فیصلہ پیشگی قبول کرلیا تھا۔ غرض تمام حالات میں متعین اسباب نظر آتے ہیں۔ اس لیے ان حالات میں اس آیت سے ہٹ کر عمل کیا گیا۔ یعنی آیت من اور فداء سے)

اور قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑنے میں بھی اختلاف ہوا۔ ہمارے ساتھیوں (احناف) سب کی رائے یہ ہے کہ قیدیوں کو مال کے بدلے نہ چھوڑ اجائے گا اور نہ ہی قیدی غلاموں کو دارالحرب میں کسی کے ہاتھ فروخت کیا جائے گا کہ وہ دوبارہ اسلام کے خلاف جنگ کریں۔ امام ابوحنیفہ کی رائے تو یہ ہے کہ ایسے قیدیوں کو مسلمان قیدیوں کے بدلے بھی رہا نہ کیا جائے تا کہ وہ اسلام کے خلاف کبھی جنگ نہ کرسکیں۔ امام یوسف اور محمد فرماتے ہیں کہ مسلمان قیدیوں سے مشرکین قیدیوں کا تبادلہ ہو سکتا ہے۔ امام ثوری ، امام اوزاعی کا بھی یہی قول ہے ۔ امام اوزاعی نے کہا ہے کہ عورتوں اور بچوں کو بھی اہل دارالحرب کے ہاتھوں فروخت کیا جاسکتا ہے۔ ہاں غلام مردوں کو فروخت نہ کیا جائے گا۔ امام مزنی نے امام شافعی سے یہ روایت نقل کی ہے کہ امام کو اختیار ہے کہ بطور احسان چھوڑ دے یا فدیہ کے بدلے چھوڑ دے۔ جو لوگ مال یا مسلمان قیدیوں کے بدلے کافر قیدیوں کی رہائی کے جواز کے قائل نہیں ان کی دلیل یہ ہے۔

فاما منا بعد واما فداء (48 : 4) آیت کے ظاہری الفاظ یہی مفہوم دیتے ہیں کہ مال کے بدلے یا مسلم قیدیوں کے بدلے رہائی جائز ہے۔ حضور ﷺ نے بدریوں کو مال کے بدلے رہا فرمایا۔ اور مال کے بدلے رہائی پر دلیل اس حدیث سے دی جاتی ہے جو ابن مبارک نے معمر سے روایت کی ہے ، انہوں نے ایوب سے ، انہوں نے ابو قلابہ سے ، انہوں نے ابو المہذب سے ، اور انہوں نے حضرت عمران ابن حصین سے کہ قبیلہ ثقیف نے نبی ﷺ کے دو ساتھیوں کو قید کرلیا تھا۔ اور مسلمانوں نے۔۔۔ بنی عامر ابن ضعصہ قبیلے سے ایک شخص کو قید کرلیا تھا۔ اس قیدی کے پاس سے حضور ﷺ گزرے ۔ یہ بندھا ہوا تھا۔ اس نے حضور ﷺ کو پکارا کہ میرا قصور کیا ہے ، حضور ﷺ نے فرمایا تمہارے ساتھیوں کے جرم کی وجہ سے تم پکڑے گئے ہو۔ قیدی نے کہا کہ میں تو مسلم ہوں یہ سن کر آپ ﷺ نے فرمایا اگر یہ بات تم اس وقت کہتے جب آزاد تھے تو تم پوری طرح کامیاب ہوتے۔ اس کے بعد حضور ﷺ چلے گئے۔ اس نے دوبارہ پکارا۔ حضور ﷺ متوجہ ہوئے۔ اس نے کہا میں بھوکا ہوں۔ تو حضور ﷺ نے فرمایا ہاں یہ تمہاری ضرورت ہے۔ اس کے بعد حضور ﷺ نے اس کو ان دو مسلمانوں کے بدلے رہا کردیا ۔ جن کو ثقیف نے قید کرلیا تھا۔ (ہمارے خیال میں جو لوگ فدیہ کے طور پر قیدیوں کو رہا کرنے کے قائل ہیں ان کے دلائل مضبوط ہیں ، بمقابلہ ان دلائل کے جو امام جصاص نے فدیہ بالمال یا مسلمان قیدیوں کے تبادلہ کے خلاف دئیے ہیں۔

امام جصاص نے حنفیہ کی رائے کو ترجیح دیتے ہوئے بات ختم کی ہے۔ یہ کہ آیت زیر بحث میں احسان اور فدیے کا ذکر ہے تو یہ آیت درج ذیل آیت سے منسوخ ہے۔

فاقتلوا المشرکین حیث۔۔۔۔۔۔ فخلوا سبیلھم (9 : 5) “ مشرکین کو قتل کرو جہاں پاؤ، اور انہیں پکڑو ، اور گھیرو ، اور ہر گھات میں ان کی خبر لینے کے لئے بیٹھو ، پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں تو انہیں چھوڑ دو ”۔ اور یہی روایت ہم نے سدی ، ابن جریج سے نقل کی ہیں۔ اور اللہ کا قول۔

قاتلوا الذین لا یومنون ۔۔۔۔۔ ھم صغرون (9 : 29) “ جنگ کرو اہل کتاب میں سے ان لوگوں کے خلاف جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان نہیں لاتے اور جو کچھ اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے حرام قرار دیا۔ اسے حرام نہیں کرتے اور دین حق کو اپنا دین نہیں بناتے۔ یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں ”۔

دونوں آیات کا حکم یہ ہے کہ کفار سے جنگ کرو ، یہاں تک کہ وہ جزیہ دیں اور مالی اور غیر مالی فدیہ اس کے منافی ہے۔ اہل تفسیر اور تابعین آثار اس بات پر متفق ہیں کہ سورة توبہ سورة محمد کے بعد نازل ہوئی ہے۔ لہٰذا سورة توبہ کا حکم اس حکم کا ناسخ ہوگا جو سورة محمد میں ہے۔ (اس سے قبل ہم کہہ چکے ہیں کہ مشرکین قتل ہوں گے یا اسلام لائیں گے یہ حکم صرف مشرکین مکہ کا ہے ۔ یہ ان کے ساتھ مخصوص حکم ہے۔ رہے غیر مشرکین عرب تو ان سے جزیہ قبول کرنا بھی جائز ہے۔ جس طرح اہل کتاب سے ، اور جزیہ قبول کرنے سے پہلے یہ لوگ مسلمانوں کے ہاتھ میں قید ہو سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب جزیہ قبول کرنے سے پہلے قید ہو سکتے ہیں تو ان قیدیوں کے احکام کیا ہوں گے ؟ ہم کہتے ہیں ان پر امام احسان بھی کرسکتا ہے ، فدیہ مال بھی لے سکتا ہے اور قیدیوں کے ساتھ تبادلہ بھی ہو سکتا ہے ، اگر ان کی قوم بدستور قوی ہو اور وہ جزیہ تسلیم نہ کرے ، اگر جزیہ قبول کرلیں تو پھر وہ رہا ہوں گے۔ یہ تو دوسری حالت ہے۔ لہٰذا جب تک کفار جزیہ تسلیم نہیں کرتے ، اس وقت تک آیت زیر بحث کا حکم جاری رہے گا) ۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ واحد قرآن آیت ہے جو قیدیوں کا حکم بتاتی ہے ۔ اور دوسری آیت کا تعلق اس موضوع سے نہیں ہے۔ لہٰذا قیدیوں کے مسئلے میں اصل ماخذ قانون یہی آیت تصور ہوگی اور اس کے خلاف جو واقعات ہوئے ہیں وہ مخصوص حالات میں ہوئے ، جو وقتی حالات تھے۔ بعض قیدیوں کو ان کے دیگر انفرادی جرائم کی وجہ سے قتل کیا گیا۔ اور اس قسم کی صورت پیش آنے کے آئندہ بھی امکانات ہو سکتے ہیں۔ ان کو ان اعمال اور جرائم کی وجہ سے پکڑا گیا تھا جو قید سے بھی پہلے کے تھے۔ محض برسر پیکار ہونے اور قیدی ہونے کی وجہ سے ہیں۔ مثلاً کوئی شخص جاسوسی میں پکڑا جاتا ہے تو وہ جنگی قیدی تصور نہ ہوگا ، جاسوس تصور ہوگا۔ یہ قید تو مجرم کو قبضے میں رکھنے کے لئے ہے۔

رہا قیدی کو غلام بنانے کا مسئلہ تو وہ اس وقت ایک عالمی مسئلہ تھا۔ اس کے بارے میں ہم نے ظلال القرآن میں بارہا بحث کی ہے۔ یہ اس وقت کی ایک عام جنگی حکمت عملی تھی۔ اس لیے اسلام اس وقت ہر حالت میں یک طرفہ طور پر اس پر عمل کرسکتا تھا۔ یعنی فاما منا بعد واما فداء (48 : 4) پر۔ جبکہ اسلام کے دشمن مسلمانوں کو قید کر کے غلام بنا رہے تھے۔ اس لیے حضور ﷺ نے بعض حالات میں جنگی قیدیوں کو غلام بنایا ، بعض حالات میں احسان کر کے قیدیوں کو چھوڑ دیا ، بعض کو فدیہ میں تبادلہ کردیا۔ بعض سے مالی تاوان وصول کیا اور بعض حالات میں جنگی قیدیوں کو غلام بھی بنایا گیا کیونکہ یہ فیصلے اور اقدامات اس وقت کے بین الاقوامی قانون کے مطابق ہوتے تھے اور ضروری تھے۔

اگر کہیں ایسا ہوگیا (اور ہمارے دور میں ہوگیا ہے) کہ تمام بین الاقوامی نے قیدیوں کو غلام نہ بنانے کا فیصلہ کرلیا تو اس وقت اسلام بھی اس مثبت قاعدے کی طرف رجوع کرے گا اور وہ یہ ہے۔

فاما منا بعد واما فداء (48 : 4) کہ یا بطور احسان قیدیوں کو چھوڑ دیا جائے یا بطور فدیہ تا کہ وہ حالات ختم کردیئے جائیں جن میں قیدیوں کو غلام بنایا جاتا تھا کیونکہ اسلام میں غلامی کا ادارہ ضروری نہیں ہے اور نہ کوئی بنیادی اصول ہے۔

یہ وہ رائے ہے جو نص قرآنی سے قطعی طور پر معلوم ہوتا ہے اور ان تمام حالات اور واقعات سے بھی یہی معلوم ہوتی ہے جو اسلام کے ابتدائی دور میں نمودار ہوئے۔ اور صحیح رائے وہی ہوتی ہے جس کی طرف اللہ کسی کو توفیق دے۔ لیکن یہ بات ذہن میں اچھی طرح رکھنا چاہئے کہ نصوص قرآنی سے یہ رائے بادی النظر میں ثابت ہوتی ہے اور قرون اولیٰ میں جو واقعات پیش آئے اور جو حالات تھے ان سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے ، یہ بات نہیں ہے کہ اسلام پر ادارۂ غلامی کو جائز رکھنے کا کسی نے الزام لگایا ہے اور میں اس کی نفی کرتا ہوں اور اسلام کا دفاع کرتا ہوں۔ میں اس قسم کے دفاع کا قائل نہیں ہوں۔ اگر میرا خیال یہ ہوتا کہ اسلام غلامی کو جائز سمجھتا ہے تو میں اعلان کردیتا کہ یہ درست ہے اور انسانیت کی بھلائی اسی میں ہے کہ غلامی کے ادارے کو جائز رکھا جائے اور کوئی انسان جو انسان ہو اور اس کے اندر اسلام آداب کا ذرا سا شعور بھی ہو وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ قرآن تو یہ کہتا ہے لیکن میری رائے یہ ہے۔ اور میری رائے قرآن سے زیادہ معقول ہے۔

یہ قوانین وہدایات یعنی قتال ، گردنیں اڑانا ، سختی سے قیدیوں کو باندھنا ، اور قیدیوں کے لئے یہ اصول ، اس وقت تک ہیں۔

حتی تضع الحرب اوزارھا (48 : 4) “ تا آنکہ لڑائی اپنے ہتھیار ڈال دے ”۔ اور اسلام اور اس کے دشمنوں کے درمیان جنگ ختم ہوجائے۔ یہ کلی قاعدہ ہے اور جہاد قیامت تک کے لئے چلنے والا ادارہ ہے۔ جس طرح رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

حتی تکون کلمۃ اللہ ھی العلیا جب تک اللہ کا کلمہ بلند نہیں ہوجاتا۔

٭٭٭

اللہ نے یہ جہاد اس لیے نہیں فرض کیا کہ وہ لوگوں سے کافروں کے مقابلے میں کوئی مدد لینا چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کفار کو تو براہ راست ہی ختم کرسکتا ہے۔ یہ نظام تو اس لیے تجویز ہوا ہے کہ اللہ اپنے بعض بندوں کو دوسروں کے مقابلے میں آزمانا چاہتا ہے۔ اس آزمائش ہی پر ان کے درجات کا آخرت میں فیصلہ ہوگا ۔

ذلک ولو یشاء اللہ ۔۔۔۔۔۔ یضل اعمالھم (4) سیھدیھم ویصلح بالھم (5) ویدخلھم الجنۃ عرفھا لھم (48 : 6) “ یہ ہے تمہارے کرنے کا کام۔ اللہ چاہتا تو خود ہی ان سے نمت لیتا ، مگر (یہ طریقہ اس نے اس لیے اختیار کیا ہے) تا کہ تم لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعہ سے آزمائے۔ اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں گے۔ اللہ ان کے اعمال کو ہرگز ضائع نہ کرے گا۔ وہ ان کی رہنمائی فرمائے گا ، ان کا حال درست کر دے گا اور ان کو اس جنت میں داخل کرے گا جس سے وہ ان کو واقف کرا چکا ہے ”۔

یہ لوگ جنہوں نے کفر کیا اور اللہ کے راستے سے لوگوں کو روکا ، اس قسم کے لوگ ہر زمان و مکان میں پائے جاتے ہیں ، خدا کے دین کے باغی ، سرکش اور مفسدین جو ظلم اور تکبر کے جامہ میں سامنے آتے ہیں اور اپنے آپ کو اور اپنے متبعین کو بہت قوت والے دکھاتے ہیں۔ یہ مٹھی بھر لوگ ہیں اور یہ لوگ اس چھوٹے سے ذرے کے اوپر رہتے ہیں جسے عرف عام میں زمین کہا جاتا ہے۔ جو اس کائنات کے عظیم کروں ، دیو ہیکل اجسام ، ستاروں اور سیاروں کے درمیان فی الواقع ایک ذرہ ہی ہے۔ ان کے علاوہ دوسرے جہاں بیشمار کہکشاں اور بلیک ہول ہیں جن کی تعداد صرف اللہ ہی جانتا ہے اور جو اس وسیع اور ہولناک کائنات میں تیرتے پھرتے ہیں اور بکھرتے چلے جاتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں یہ زمین ایک ذرہ ایک چھوٹا سا رائی کا دانہ ہی تو ہے۔ ان تمام جہانوں کے اندر یہ ہولناک نظم و نسق اور جمع و تفریق صرف اللہ نے قائم کر رکھی ہے۔ اس لئے قوتوں کا مالک تو اللہ ہی ہے۔

دنیا کے یہ ڈکٹیٹر اور ان کے متبعین بلکہ یہ پوری زمین اور اس کی پوری آبادی ، اس کائنات کی نسبت میں اس طرح ہیں جس طرح اہل زمین کی نسبت نہایت ہی چھوٹے قسم کی چیونٹیوں کا دس بارہ ارب کا چھتا بلکہ یہ نسبت اگر تناسب کے حسابی قاعدے سے ظاہر کی جائے تو (زمین : کائنات = زمین : ذرہ) بھی نہیں ہے۔ پوری زمین اور اس کی آبادی کائنات کے مقابلے میں ذرے سے بھی کم ہے۔ اور اللہ کی قوتیں تو کائنات سے بھی وسیع ہیں۔ لا حول ولا قوۃ الا باللہ !

اللہ تعالیٰ مومنین کو حکم دیتا ہے کہ ان دشمنان اسلام کی گردنیں اڑاؤ اور اچھی طرح کچل کر ان کو خوب باندھو۔ یہ احکام اس لیے دئیے گئے ہیں کہ مومنین دست قدرت کے لئے آلہ بن جائیں۔ اگر اللہ چاہتا تو براہ راست اور علانیہ کافروں سے انتقام لے لیتا ہے۔ جس طرح اللہ نے بعض اقوام کو طوفان ، کڑک دار آواز اور نیست و نابود کردینے والی ہواؤں وغیرہ کے ذریعہ تباہ کیا ، بلکہ اللہ تو کن فیکون کے ذریعہ بغیر ان اسباب کے بھی انتقام لے سکتا ہے۔ لیکن اللہ اپنے مومن بندوں کے لئے بہتری چاہتا ہے۔ ان کو آزماتا ہے۔ ان کو تربیت دیتا ہے۔ ان کی اصلاح کرتا ہے۔ اور ان کے لئے نیکیوں کے اسباب فراہم کرتا ہے۔

اللہ مومنین کو آزماتا ہے اور اس آزمائش میں مومنوں کے قلوب میں بہترین جذبات کو ابھارتا ہے اور اس سے اچھا جذبہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ کسی انسان کے لئے وہ عقیدہ اس کی جان سے عزیز ہوجائے جس پہ وہ ایمان لایا ہے۔ اور انسان اپنے اس عزیز عقیدے کے لئے جہاد کرے ، مارے اور مارا جائے۔ اور اس کی حالت یہ ہو کہ وہ دین کے معاملے میں کوئی مسالمت اور رواداری نہ کرے۔ دین کے بغیر زندہ نہ رہ سکے اور اس دین کے سوا کسی اور طریقے کے مطابق زندگی نہ گزار سکے۔

اور اللہ تعالیٰ مومنین کی تربیت یوں فرماتا ہے کہ ان کے دلوں سے اس فانی دنیا کی تمام خواہشات اور تمام رغبتیں نکال دیتا ہے ، حالانکہ انسان کے لئے ایسی خواہشات کو دل سے نکال دینا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ اس طرح ان کے دلوں سے کمزوری دور ہوجاتی ہے ، نقص کمال میں بدل جاتا ہے۔ ہر قسم کا کھوٹ نکل جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر ان کی تمام خواہشات ترازو کے ایک پلڑے میں ہوں اور دوسرے پلڑے میں صرف دعوت جہاد ہو اور اللہ کی رضا مندی کی طلب ہو تو اللہ کی رضا مندی اور جہاد کا پلڑا بھاری نکلتا ہے۔ اللہ اس بات کو ظاہر کردیتا ہے کہ ان نفوس کو اختیار دیا گیا تو انہوں نے دین کو اختیار کیا ، ان کو تربیت دی گئی تو انہوں نے حق کو جان لیا ، وہ بغیر سوچے سمجھے کوئی قدم نہیں اٹھاتے بلکہ خوب سوچ سمجھ کر قدم اٹھاتے ہیں۔

اور اللہ مومنین کی اصلاح کرنا چاہتا ہے ، جہاد فی سبیل اللہ اللہ کی تکالیف اور موت سے بار بار آنکھیں ملانے کی وجہ سے ان کے ذہن سے موت کا خوف ہی دور ہوجاتا ہے۔ حالانکہ موت کا ڈر لوگ اپنے نفوس سے اور اپنے اخلاق اور اپنی اقدار سے بڑے تکلفات کے بعد نکالتے ہیں اور بڑی مشقتیں اٹھا کر وہ اپنے دل سے موت کا ڈر نکالتے ہیں لیکن جو شخص ، مجاہد فی سبیل اللہ ہو وہ ہر وقت موت آنکھیں ملاتا رہتا ہے اور وہ اس کا عادی ہوجاتا ہے۔ وہ موت سے دو چار ہوگیا یا بچ گیا۔ اور اللہ کی راہ میں مرنے کی ہر بار فکر کرنا ، ارادہ کرنا ، خصوصاً شدید خطرات کے لمحات میں انسانی جسم کے اندر بجلی کی ایک لہر دوڑا دیتا ہے اور جو شخص ایسے مراحل سے بچ کر نکل آئے تو وہ بالکل ایک جدید روح اور پاک و صاف شخصیت لے کر آتا ہے۔ جہاد میں شریک ہونے والے شخص یعنی غازی کی شخصیت ہی نرالی ہوتی ہے۔

پھر یہ جہاد پوری انسانی جماعت کی اصلاح کا ذریعہ ہے۔ جب انسانوں کی قیادت ان مجاہدین کے ہاتھ آجاتی ہے جن کے نفوس تمام دنیاوی آلائشوں اور آلودگیوں سے پاک ہوتے ہیں۔ اور جن کی نظروں میں دنیا کی سب چمک دار چیزیں ہیچ ہوتی ہیں بلکہ خود دنیا کی اس پوری زندگی کو بھی وہ حقیر سمجھتے ہیں جبکہ وہ موت کے کنوؤں میں کود جاتے ہیں۔ اور دنیا کی کوئی چیز بھی ، کوئی دل فریبی بھی ان کی نظروں کو اپنی طرف نہیں کھینچ سکتی اور وہ صرف رضائے الٰہی کے طالب ہوتے ہیں۔ جب دنیا کی قیادت ایسے لوگوں کے ہاتھ میں ہو ، تو لوگوں کی اصلاح بھی ہوجاتی ہے اور دنیا کی بھی۔ اور شر و فساد ختم ہو کر دنیا امن وامان کے دامن میں پناہ لیتی ہے ، اس لیے کہ انہوں نے یہ بلند مقاصد اپنے خون کی قیمت پر حاصل کئے ہیں اور یہ ذاتی مفادات کے لئے نہیں بلکہ رضائے الٰہی کے لئے حاصل کئے ہیں۔

پھر یہ اللہ کی توفیق اور سہولت ہوتی ہے ، جسے وہ جس خوش قسمت کو چاہے ، مہیا کردیتا ہے تا کہ وہ اللہ کی رحمتوں کو بغیر حساب کے لپیٹے۔ اور جو ازلی بدبخت ہوتے ہیں ان کو بھی اللہ کی طرف سے ایک راہ میسر ہوجاتی ہے جس کے نتیجے میں انہیں اللہ کا غضب اور عذاب ملتا ہے ، ہر کسے رابہر کارے ما ۔۔ ، اور جس نیک بخت کو یہ حصہ مل گیا اور اللہ اسی کو دیتا ہے جس کا اندرون اس کے لئے تیار ہو۔ بتایا جاتا ہے کہ اللہ کے راستے میں مرنے مارنے والوں کا انجام کیا ہے۔

والذین قتلوا فی سبیل اللہ فلن یضل اعمالھم (48 : 4) “ جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں گے ، اللہ ان کے اعمال ہرگز ضائع نہ کرے گا ”۔

آیت 4 { فَاِذَا لَقِیْتُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا } ”تو اے مسلمانو ! جب تمہاری مڈ بھیڑ ہو کافروں سے“ اب جبکہ تمہاری جدوجہد مسلح تصادم کے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے اور تم لوگ تلوار کا جواب تلوار سے دینے کے لیے میدان میں اتر پڑے ہو تو جب ان کافروں سے تمہارے مقابلہ کی نوبت آئے : { فَضَرْبَ الرِّقَابِ } ”تو ان کی گردنیں مارنا ہے !“ اب میدان کارزار میں تمہاری پہلی ترجیح یہی ہونی چاہیے کہ جو دشمن حق تمہارے سامنے آئے وہ بچ کر نہ جائے۔ لہٰذا ان کی گردنیں اُڑائو ‘ انہیں قتل کرو ! { حَتّٰٓی اِذَآ اَثْخَنْتُمُوْہُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ } ”یہاں تک کہ جب تم انہیں اچھی طرح سے ُ کچل دو تب انہیں مضبوطی کے ساتھ باندھو“ یعنی اس مرحلے پر تم بچے کھچے لوگوں کو قیدی بنا سکتے ہو۔ { فَاِمَّا مَنًّابَعْدُ وَاِمَّا فِدَآئً حَتّٰی تَضَعَ الْحَرْبُ اَوْزَارَہَا } ”پھر اس کے بعد تم انہیں چھوڑ سکتے ہو احسان کر کے یا فدیہ لے کر ‘ یہاں تک کہ جنگ اپنے ہتھیار ڈال دے۔“ اس آیت کے الفاظ میں تقدیم و تاخیر کے اسلوب پر غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ الفاظ کی اصل ترتیب یوں ہے : ”فَضَرْبَ الرِّقَابِ ، حَتّٰٓی اِذَا اَثْخَنْتُمُوْہُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ ، حَتّٰی تَضَعَ الْحَرْبُ اَوْزَارَہَا فَاِمَّا مَنًّابَعْدُ وَاِمَّا فِدَآئً“۔ گویا اس جملے کے مطابق مقابلے کے مختلف مراحل کی ترتیب یہ ہوگی : پہلے ان کی گردنیں مارو ‘ جب ان کی طاقت اچھی طرح کچل ڈالی جائے تب انہیں قید میں مضبوط باندھو۔ پھر جب جنگ اپنے ہتھیار ڈال دے تو اس کے بعد انہیں چھوڑا جاسکتا ہے ‘ چاہے احسان کر کے چھوڑو یا فدیہ لے کر۔ آیت کے درست مفہوم تک پہنچنے کے لیے اس اہم فلسفے کو بھی سمجھنا ضروری ہے جو یہاں ”حَتّٰی تَضَعَ الْحَرْبُ اَوْزَارَہَا“ کے الفاظ میں بیان ہوا ہے۔ اس کے لیے انگریزی کے دو الفاظ war اور battle کو ذہن میں رکھئے۔ war سے مراد دو فریقوں کی باہمی محاذ آرائی اور کشمکش ہے جو ایک فریق کے فتح یاب اور دوسرے کے سرنگوں ہونے تک جاری رہتی ہے ‘ جبکہ battle سے مراد اس محاذ آرائی کے دوران متعلقہ فریقوں کے درمیان ہونے والا کوئی خاص معرکہ ہے۔ گویا ایک جنگ war کے دوران میں کئی لڑائیاں battles ہوسکتی ہیں۔ اب رسول اللہ ﷺ کی جدوجہد کے حوالے سے اس نکتے کو یوں سمجھئے کہ مدنی دور میں غلبہ دین کی جنگ war چھ سال تک مسلسل جاری رہی۔ -۔ - اس میں صرف صلح حدیبیہ کی وجہ سے کچھ مدت کے لیے ایک وقفہ آیا تھا۔ -۔ - اس جنگ کے دوران غزوئہ بدر Battle of Badar ‘ غزوئہ اُحد Battle of Uhad ‘ غزوہ احزاب Battle of Ahzaab ‘ غزوہ بنی مصطلق Battle of Bani Mustalaq اور بہت سی دوسری لڑائیاں لڑی گئیں۔ لیکن جنگ war نے مکمل طور پر ہتھیار اس وقت ڈالے جب پورے جزیرہ نمائے عرب میں اللہ کا دین اس حد تک غالب ہوگیا کہ اس کے مقابلے میں باطل کی طرف سے کسی قسم کی کوئی مزاحمت باقی نہ رہی۔ چناچہ زیر مطالعہ آیت میں جو حکمت بیان ہوئی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اقامت دین کی جدوجہد کے آخری مرحلے یعنی مسلح تصادم میں جب باطل قوتوں کو علی الاعلان للکارا جا چکاہو اور مردانِ حق اپنے سروں پر کفن باندھ کر میدانِ کارزار میں اتر پڑے ہوں تو یہ پنجہ آزمائی اس وقت تک جاری رہے گی جب تک باطل پوری طرح سرنگوں نہ ہوجائے۔ اس دوران کسی مہم یا کسی لڑائی میں پکڑے جانے والے قیدیوں کو کسی بھی شرط پر آزاد کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ انہیں اگلے معرکے میں دوبارہ اپنے مقابلے میں آنے کا موقع دے رہے ہیں۔ جیسے غزوہ بدر میں کفار کے ّستر 70 جنگجوئوں کے مارے جانے سے ان کی طاقت کو ایک حد تک تو نقصان پہنچا تھا ‘ مگر ان کی جنگی صلاحیت پوری طرح ختم نہیں ہوئی تھی۔ چناچہ ان کے 70 قیدیوں کی آزادی ان کے لیے پھر سے تقویت کا باعث بن گئی اور فدیہ دے کر آزاد ہونے والے قیدیوں میں سے اکثر افراد اگلے سال مسلمانوں کے مقابلے کے لیے پھر سے میدان میں تھے۔ دوسری طرف اس حوالے سے ایک نکتہ یہ بھی ذہن نشین کرلیجئے کہ غزوہ بدر کے قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑنے سے متعلق حضور ﷺ کا فیصلہ ایک اجتہاد تھا ‘ جس کا تعلق جانچ judgement سے تھا۔ یعنی اس معاملے میں حضور ﷺ کا اندازہ تھا کہ کفار کی طاقت کچلی جا چکی ہے ‘ لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک ابھی ایسا نہیں ہوا تھا۔ بہر حال اجتہاد کی دونوں صورتیں خطا اور صواب ہی اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول ہیں اور دونوں پر ہی اجر بھی ملتا ہے۔ البتہ اجتہاد میں تصویب کی صورت میں دہرے اجر کا وعدہ ہے۔ آیت زیر مطالعہ میں چونکہ قیدیوں کو فدیے کے عوض رہا کرنے کا اختیار دیا گیا تھا اس لیے حضور ﷺ نے اس اختیار کی رو سے مذکورہ فیصلہ فرمایا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو بہتر طور پر معلوم تھا کہ کفر کی جنگی صلاحیت ابھی ختم نہیں ہوئی۔ اسی لیے سورة الانفال جو اس سورت کے بعد نازل ہوئی میں حضور ﷺ کے اس فیصلے سے متعلق یہ تبصرہ نازل ہوا تھا : { مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّکُوْنَ لَہٗٓ اَسْرٰی حَتّٰی یُثْخِنَ فِی الْاَرْضِ تُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْیَاق وَاللّٰہُ یُرِیْدُ الْاٰخِرَۃَ وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ } ”کسی نبی کے لیے یہ روا نہیں کہ اس کے قبضے میں قیدی ہوں جب تک کہ وہ کافروں کو قتل کرکے زمین میں خوب خوں ریزی نہ کر دے۔ تم دنیا کا سازو سامان چاہتے ہو ‘ اور اللہ کے پیش نظر آخرت ہے ‘ اور اللہ عزیز اور حکیم ہے“۔ { لَوْلاَ کِتٰبٌ مِّنَ اللّٰہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیْمَآ اَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ } ”اگر اللہ کی طرف سے ایک بات پہلے سے طے نہ ہوچکی ہوتی تو جو کچھ فدیہ وغیرہ تم نے لیا ہے اس کے باعث تم پر بڑا سخت عذاب آتا“۔ یہاں ”کتاب“ سے مراد آیت زیر مطالعہ کا یہ حکم ہے جس میں فدیہ کے عوض قیدیوں کو چھوڑنے کی اجازت دی گئی ہے۔ مطلب یہ کہ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے سورة محمد ﷺ کی آیت 4 کا حکم پہلے سے نازل نہ ہوچکا ہوتا تو فدیہ لینے کی وجہ سے تم پر سخت گرفت ہوتی۔ { فَکُلُوْا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلٰلاً طَیِّبًاز وَّاتَّقُوا اللّٰہَط اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔ ”تو اب کھائو جو تمہیں ملا ہے غنیمت میں سے کہ وہ تمہارے لیے حلال اور طیب ہے ‘ اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ یقینا اللہ بخشنے والا ‘ رحم فرمانے والا ہے۔“ سورة الانفال کی یہ آیت بھی مشکلات القرآن میں سے ہے اور اس کو سمجھنے کے لیے بھی آیت زیر مطالعہ کی درست تفہیم ضروری ہے۔ بہر حال آیت زیر مطالعہ کے حکم کا خلاصہ یہ ہے کہ جب دشمن سے تمہارا مقابلہ ہو تو انہیں خوب قتل کرو ‘ پھر جب کفر کی کمر پوری طرح ٹوٹ جائے تو ان کے بچے کھچے زندہ افراد کو قیدی بھی بنا یا جاسکتا ہے۔ پھر جب دشمن کی طرف سے مزاحمت بالکل ختم ہوجائے اور اس کے خلاف تمہاری جنگ اپنے منطقی انجام کو پہنچ جائے تو قیدیوں کو آزاد کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ‘ چاہے ان کے عوض فدیہ لے لو یا احسان کرتے ہوئے بلامعاوضہ انہیں رہا کر دو۔ { ذٰلِکَ وَلَوْ یَشَآئُ اللّٰہُ لَانْتَصَرَ مِنْہُمْ } ”یہ ہے اس بارے میں حکم ‘ اور اگر اللہ چاہتا تو خود ہی ان سے بدلہ لے لیتا“ { وَلٰکِنْ لِّیَبْلُوَا بَعْضَکُمْ بِبَعْضٍ } ”لیکن اللہ آزماتا ہے تمہارے بعض لوگوں کو بعض دوسروں کے ذریعے سے۔“ اللہ تعالیٰ ان کفار سے خود بھی انتقام لے سکتا تھا۔ وہ چاہتا تو میدانِ بدر میں کفار کے ایک ہزار نفوس پر مشتمل لشکر کو آنِ واحد میں بھسم کر کے رکھ دیتا۔ لیکن اس نے تمہارے تین سو تیرہ افراد کو ایک ہزار کے طاقت ور لشکر کے مقابلے میں لا کر تمہارے صبر و ایمان اور جذبہ استقامت کا امتحان لینا پسند کیا۔ { وَالَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَلَنْ یُّضِلَّ اَعْمَالَہُمْ } ”اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوگئے تو اللہ ان کے اعمال کو ہرگز ضائع نہیں کرے گا۔“ اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کا انہیں بھر پور صلہ دے گا۔

جب کفار سے میدان جہاد میں آمنا سامنا ہوجائے یہاں ایمان داروں کو جنگی احکام دئیے جاتے ہیں کہ جب کافروں سے مڈبھیڑ ہوجائے دستی لڑائی شروع ہوجائے تو ان کی گردنیں اڑاؤ، تلواریں چلا کر گردن دھڑ سے اڑا دو۔ پھر جب دیکھو کہ دشمن ہارا اس کے آدمی کافی کٹ چکے تو باقی ماندہ کو مضبوط قیدوبند کے ساتھ مقید کرلو جب لڑائی ختم ہوچکے معرکہ پورا ہوجائے تو پھر تمہیں اختیار ہے کہ قیدیوں کو بطور احسان بغیر کچھ لئے ہی چھوڑ دو اور یہ بھی اختیار ہے کہ ان سے تاوان جنگ وصول کرو پھر چھوڑو۔ بہ ظاہر معلوم ہوتا ہے کہ بدر کے غزوے کے بعد یہ آیت اتری ہے کیونکہ بدر کے معرکہ میں زیادہ تر مخالفین کو قید کرنے اور قید کرنے کی کمی کرنے میں مسلمانوں پر عتاب کیا گیا تھا اور فرمایا تھا آیت (مَا كَانَ لِنَبِيٍّ اَنْ يَّكُوْنَ لَهٗٓ اَسْرٰي حَتّٰي يُثْخِنَ فِي الْاَرْضِ ۭتُرِيْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْيَا ڰ وَاللّٰهُ يُرِيْدُ الْاٰخِرَةَ ۭوَاللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ 67؀) 8۔ الانفال :67) ، نبی کو لائق نہ تھا کہ اس کے پاس قیدی ہوں جب تک کہ ایک مرتبہ جی کھول کر مخالفین میں موت کی گرم بازاری نہ ہو لے کیا تم دنیوی اسباب کی چاہت میں ہو ؟ اللہ کا ارادہ تو آخرت کا ہے اور اللہ عزیز و حکیم ہے۔ اگر پہلے ہی سے اللہ کا لکھا ہوا نہ ہوتا تو جو تم نے لیا اس کی بابت تمہیں بڑا عذاب ہوتا۔ بعض علماء کا قول ہے کہ یہ اختیار منسوخ ہے اور یہ آیت ناسخ ہے آیت (فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُّمُــوْهُمْ وَخُذُوْهُمْ وَاحْصُرُوْهُمْ وَاقْعُدُوْا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ ۚ فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَخَــلُّوْا سَـبِيْلَهُمْ ۭاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ) 9۔ التوبہ :5) ، یعنی حرمت والے مہینے جب گذر جائیں تو مشرکوں کو جہاں پاؤ وہیں قتل کرو۔ لیکن اکثر علماء کا فرمان ہے کہ منسوخ نہیں۔ اب بعض تو کہتے ہیں قتل کر ڈالنے کا بھی اختیار ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ بدر کے قیدیوں میں سے نضر بن حارث اور عقبہ بن ابو معیط کو رسول اللہ ﷺ نے قتل کرا دیا تھا اور یہ بھی اس کی دلیل ہے کہ ثمامہ بن اثال نے جب کہ وہ اسیری حالت میں تھے اور رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا تھا کہ کہو ثمامہ کیا خیال ہے ؟ تو انہوں نے کہا اگر آپ ﷺ قتل کریں گے تو ایک خون والے کو قتل کریں گے اور اگر آپ احسان رکھیں گے تو ایک شکر گذار پر احسان رکھیں گے اور اگر مال طلب کرتے ہیں تو جو آپ مانگیں گے مل جائے گا۔ حضرت امام شافعی ایک چوتھی بات کا بھی اختیار بتاتے ہیں یعنی قتل، احسان، بدلے کا اور غلام بنا کر رکھ لینے کا۔ اس مسئلے کی تفصیل کی جگہ فروعی مسائل کی کتابیں ہیں۔ اور ہم نے بھی اللہ کے فضل و کرم سے کتاب الاحکام میں اس کے دلائل بیان کر دئیے ہیں۔ پھر فرماتا ہے یہاں تک کہ لڑائی اپنے ہتھیار رکھ دے یعنی بقول مجاہد حضرت عیسیٰ نازل ہوجائیں۔ ممکن ہے حضرت مجاہد کی نظریں اس حدیث پر ہوں جس میں ہے میری امت ہمیشہ حق کے ساتھ ظاہر رہے گی یہاں تک کہ ان کا آخری شخص دجال سے لڑے گا۔ مسند احمد اور نسائی میں ہے کہ حضرت سلمہ بن نفیل خدمت نبوی ﷺ میں حاضر ہوئے اور عرض کرنے لگے میں نے گھوڑوں کو چھوڑ دیا اور ہتھیار الگ کر دئیے اور لڑائی نے اپنے ہتھیار رکھ دئیے اور میں نے کہہ دیا کہ اب لڑائی ہے ہی نہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا اب لڑائی آگئی، میری امت میں سے ایک جماعت ہمیشہ لوگوں پر ظاہر رہے گی جن لوگوں کے دل ٹیڑھے ہوجائیں گے یہ ان سے لڑیں گے اور اللہ تعالیٰ انہیں ان سے روزیاں دے گا یہاں تک کہ اللہ کا امر آجائے اور وہ اسی حالت پر ہوں گے مومنوں کی زمین شام میں ہے۔ گھوڑوں کی ایال میں قیامت تک کے لئے اللہ نے خیر رکھ دی ہے یہ حدیث امام بغوی نے بھی وارد کی ہے اور حافظ ابو یعلی موصلی نے بھی، اس سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ جو لوگ اس آیت کو منسوخ نہیں بتاتے گویا کہ یہ حکم مشروع ہے جب تک لڑائی باقی رہے اور اس حدیث نے بتایا کہ لڑائی قیامت تک باقی رہے گی یہ آیت مثل اس آیت کے ہے آیت (وَقَاتِلُوْهُمْ حَتّٰي لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ كُلُّهٗ لِلّٰهِ ۚ فَاِنِ انْتَهَـوْا فَاِنَّ اللّٰهَ بِمَا يَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ 39؀) 8۔ الانفال :39) ، یعنی ان سے لڑتے رہو جب تک کہ فتنہ باقی ہے اور جب تک کہ دین اللہ ہی کیلئے نہ ہوجائے۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں لڑائی کے ہتھیار رکھ دینے سے مراد شرک کا باقی نہ رہنا ہے اور بعض سے مروی ہے کہ مراد یہ ہے کہ مشرکین اپنے شرک سے توبہ کرلیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ اپنی کوششیں اللہ کی اطاعت میں صرف کرنے لگ جائیں پھر فرماتا ہے کہ اگر اللہ چاہتا تو آپ ہی کفار کو برباد کردیتا اپنے پاس سے ان پر عذاب بھیج دیتا لیکن وہ تو یہ چاہتا ہے کہ تمہیں آزما لے اسی لئے جہاد کے احکام جاری فرمائے ہیں سورة آل عمران اور برات میں بھی اسی مضمون کو بیان کیا ہے۔ آل عمران میں ہے آیت (اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَعْلَمِ اللّٰهُ الَّذِيْنَ جٰهَدُوْا مِنْكُمْ وَيَعْلَمَ الصّٰبِرِيْنَ01402) 3۔ آل عمران :142) ، کیا تمہارا یہ گمان ہے کہ بغیر اس بات کے کہ اللہ جان لے کہ تم میں سے مجاہد کون ہیں اور تم میں سے صبر کرنے والے کون ہیں تم جنت میں چلے جاؤ گے ؟ سورة براۃ میں ہے آیت (قَاتِلُوْهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِاَيْدِيْكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِيْنَ 14 ۙ) 9۔ التوبہ :14) ان سے جہاد کرو اللہ تمہارے ہاتھوں انہیں عذاب کرے گا اور تمہیں ان پر نصرت عطا فرمائے گا اور ایمان والوں کے سینے شفا والے کر دے گا اور اپنے دلوں کے ولولے نکالنے کا انہیں موقعہ دے گا اور جس کی چاہے گا توبہ قبول فرمائے گا اللہ بڑا علیم و حکیم ہے اب چونکہ یہ بھی تھا کہ جہاد میں مومن بھی شہید ہوں اس لئے فرماتا ہے کہ شہیدوں کے اعمال اکارت نہیں جائیں گے بلکہ بہت بڑھا چڑھا کر ثواب انہیں دئیے جائیں گے۔ بعض کو تو قیامت تک کے ثواب ملیں گے۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ شہید کو چھ انعامات حاصل ہوتے ہیں اس کے خون کا پہلا قطرہ زمین پر گرتے ہی اس کے کل گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ اسے اس کا جنت کا مکان دکھا دیا جاتا ہے اور نہایت خوبصورت بڑی بڑی آنکھوں والی حوروں سے اس کا نکاح کرا دیا جاتا ہے وہ بڑی گھبراہٹ سے امن میں رہتا ہے وہ عذاب قبر سے بچا لیا جاتا ہے اسے ایمان کے زیور سے آراستہ کردیا جاتا ہے۔ ایک اور حدیث میں یہ بھی ہے کہ اس کے سر پر وقار کا تاج رکھا جاتا ہے۔ جو در و یاقوت کا جڑاؤ ہوتا ہے جس میں کا ایک یاقوت تمام دنیا اور اس کی تمام چیزوں سے گراں بہا ہے۔ اسے بہتر حور عین ملتی ہیں اور اپنے خاندان کے ستر شخصوں کے بارے میں اس کی شفاعت قبول کی جاتی ہے۔ یہ حدیث ترمذی اور ابن ماجہ میں بھی ہے صحیح مسلم شریف میں ہے سوائے قرض کے شہیدوں کے سب گناہ بخش دئیے جاتے ہیں شہیدوں کے فضائل کی اور بھی بہت حدیثیں ہیں پھر فرماتا ہے انہیں اللہ جنت کی راہ سمجھا دے گا۔ جیسے یہ آیت (اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ يَهْدِيْهِمْ رَبُّھُمْ بِاِيْمَانِهِمْ ۚ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهِمُ الْاَنْهٰرُ فِيْ جَنّٰتِ النَّعِيْمِ) 10۔ یونس :9) ، یعنی جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک کام کئے ان کے ایمان کے باعث ان کا رب انہیں ان جنتوں کی طرف رہبری کرے گا جو نعمتوں سے پر ہیں اور جن کے چپے چپے میں چشمے بہہ رہے ہیں اللہ ان کے حال اور ان کے کام سنوار دے گا اور جن جنتوں سے انہیں پہلے ہی آگاہ کرچکا ہے اور جن کی طرف ان کی رہبری کرچکا ہے آخر انہی میں انہیں پہنچائے گا۔ یعنی ہر شخص اپنے مکان اور پانی جگہ کو جنت میں اس طرح پہچان لے گا جیسے دنیا میں پہچان لیا کرتا تھا۔ انہیں کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہ پڑے گی یہ معلوم ہوگا گویا شروع پیدائش سے یہیں مقیم ہیں۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ جس انسان کے ساتھ اس کے اعمال کا محافظ جو فرشتہ تھا وہی اس کے آگے آگے چلے گا جب یہ اپنی جگہ پہنچے گا تو ازخود پہچان لے گا کہ میری جگہ یہی ہے۔ یونہی پھر اپنی زمین میں سیر کرتا ہوا جب سب دیکھ چکے گا تب فرشتہ ہٹ جائے گا اور یہ اپنی لذتوں میں مشغول ہوجائے گا۔ صحیح بخاری کی مرفوع حدیث میں ہے جب مومن آگ سے چھوٹ جائیں گے تو جنت، دوزخ کے درمیان ایک پل پر روک لئے جائیں گے اور آپس میں ایک دوسرے پر جو مظالم تھے ان کے بدلے اتار لئے جائیں گے جب بالکل پاک صاف ہوجائیں گے تو جنت میں جانے کی اجازت مل جائے گی قسم اللہ کی جس طرح تم میں سے ہر ایک شخص اپنے دنیوی گھر کی راہ جانتا ہے اور گھر کو پہچانتا ہے اس سے بہت زیادہ وہ لوگ اپنی منزل اور اپنی جگہ سے واقف ہوں گے پھر فرماتا ہے ایمان والو اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم مضبوط کر دے گا، جیسے اور جگہ ہے آیت (وَلَيَنْصُرَنَّ اللّٰهُ مَنْ يَّنْصُرُهٗ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَقَوِيٌّ عَزِيْزٌ 40؀) 22۔ الحج :40) اللہ ضرور اس کی مدد کرے گا جو اللہ کی مدد کرے گا اس لئے کہ جیسا عمل ہوتا ہے اسی جنس کی جزا ہوتی ہے اور وہ تمہارے قدم بھی مضبوط کر دے گا حدیث میں ہے جو شخص کسی اختیار والے کے سامنے ایک ایسے حاجت مند کی حاجت پہنچائے جو خود وہاں نہ پہنچ سکتا ہو تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ پل صراط پر اس کے قدم مضبوطی سے جما دے گا پھر فرماتا ہے کافروں کا حال بالکل برعکس ہے یہ قدم قدم پر ٹھوکریں کھائیں گے حدیث میں ہے دینار درہم اور کپڑے لتے کا بندہ ٹھوکر کھا گیا وہ برباد ہوا اور ہلاک ہوا وہ اگر بیمار پڑجائے تو اللہ کرے اسے شفا بھی نہ ہو ایسے لوگوں کے نیک اعمال بھی اکارت ہیں اس لئے کہ یہ قرآن و حدیث سے ناخوش ہیں نہ اس کی عزت و عظمت ان کے دل میں نہ ان کا قصد و تسلیم کا ارادہ۔ پس انکے جو کچھ اچھے کام تھے اللہ نے انہیں بھی غارت کردیا۔

آیت 4 - سورہ محمد: (فإذا لقيتم الذين كفروا فضرب الرقاب حتى إذا أثخنتموهم فشدوا الوثاق فإما منا بعد وإما فداء حتى تضع الحرب أوزارها...) - اردو