سورہ محمد: آیت 1 - الذين كفروا وصدوا عن سبيل... - اردو

آیت 1 کی تفسیر, سورہ محمد

ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ وَصَدُّوا۟ عَن سَبِيلِ ٱللَّهِ أَضَلَّ أَعْمَٰلَهُمْ

اردو ترجمہ

جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کے راستے سے روکا، اللہ نے ان کے اعمال کو رائیگاں کر دیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Allatheena kafaroo wasaddoo AAan sabeeli Allahi adalla aAAmalahum

آیت 1 کی تفسیر

سورت کا افتتاح یوں ہے جس طرح کوئی فوج حملہ آور ہوجاتی ہے ، کوئی مقدمہ نہیں ، کوئی تمہیں نہیں۔ اعلان ہوجاتا ہے کہ کافر بظاہر جو اچھے کام کر رہے ہیں وہ کالعدم ہیں جنہوں نے کفر کیا ہے ، اللہ کی راہ پر چلنے سے رکے ہیں اور دوسروں کو روکا ہے۔ اعلان ہوتا ہے کہ ان کے یہ اعمال کالعدم (void) ہیں ۔ لیکن یہ اعلان نہایت ہی موثر ، عام فہم اور مشخص انداز میں ہے۔ ان کے اعمال راستہ گم کر گئے ہیں اور اس وجہ سے ہلاک اور ضائع ہوگئے ، یوں کہ گویا یہ زندہ انسان یا حیوان ہیں اور انہوں نے راستہ گم کردیا ہے ، بہت دور نکل گئے ہیں اور ہلاک ہوگئے ہیں ، یہ مفہوم اور یہ نقشہ بتاتا ہے کہ گویا یہ اعمال لوگوں سے یا مویشیوں کے گلے سے الگ ہوگئے اور لوگ ان اعمال سے الگ ہوگئے اور دونوں کا انجام ہلاکت پر ہوا۔

یہ جن اعمال کے گم ہونے کا اعلان ایک فوجی فرمان کی شکل میں ہوا ہے۔ ان سے مراد وہ اعمال خیر یہ ہیں جو ایمان ، جہاد کے رنگ سے محروم ہیں اور کرنے والوں کی غرض نیکی ہے لہٰذا اعمال صالحہ کی قدروقیمت ایمان اور نظریہ جہاد کے سوا کچھ نہیں ، کیونکہ اس قسم کے اعمال جو بظاہر نیکی کے اعمال ہوتے ہیں لیکن ان کی تہہ میں داعیہ نیکی کا نہیں ہوتا۔ بعض اوقات داعیہ بھی نیکی کا ہوتا ہے لیکن ایمان پر مبنی نہیں ہوتا۔ اس طرح بغیر ایمان کے ایک عارضی ، سر سری جذبہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے کچھ اعمال صادر تو ہوجاتے ہیں لیکن ثبات و دوام سے محروم ہوتے ہیں ، وہ کسی مضبوط اور واضح منہاج اور نظریہ پر مبنی نہیں ہوتے ۔ اور زندگی کے طویل منصوبے سے باہر ہوتے ہیں۔ اس کائنات کے اندر پوشیدہ و ناموس الٰہی سے مربوط نہیں ہوتے ۔ اس لیے باطل ہوتے ہیں۔ لہٰذا اعمال کے لئے ایمان ضروری ہے تا کہ یہ اعمال اس سے بندھے ہوئے ایک صحیح رخ پر جا رہے ہوں اور عمل کرنے والا اس ایمانی داعیہ سے عمل کر رہا ہو اور یہ عمل اس کائناتی نظام سے بھی مربوط ہو ، جو انسان کو اس کائنات سے جوڑتا ہے۔ اور اس طرح اس کائنات میں ہر عمل کا ایک مقصد اور ایک اثر ہوتا ہے۔ اور وہ ایک منزل تک جاتا ہے۔

آیت 1 { اَلَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَضَلَّ اَعْمَالَہُمْ } ”جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کے راستے سے روکا اور خود بھی رکے اللہ نے ان کی ساری جدوجہد کو رائیگاں کردیا۔“ صَدَّ یَـصُدُّ کے بارے میں قبل ازیں بھی وضاحت کی جا چکی ہے کہ یہ فعل لازم بھی ہے اور متعدی بھی۔ یعنی اس کے معنی خود رکنے اور باز رہنے کے بھی ہیں اور دوسرے کو روکنے کے بھی۔ یہ آیت اپنے مفہوم میں اہل ِایمان کے لیے ایک بہت بڑی خوش خبری ہے کہ دعوت حق کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے اب تک مخالفین حق نے جو جدوجہد بھی کی ہے وہ سب اکارت ہوچکی ہے اور تمام تر مخالفتوں کے باوجود انقلابِ نبوی ﷺ کا قافلہ عنقریب اپنی منزل مقصود پر خیمہ زن ہونے والا ہے۔

ارشاد ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے خود بھی اللہ کی آیتوں کا انکار کیا اور دوسروں کو بھی راہ اللہ سے روکا اللہ تعالیٰ نے ان کے اعمال ضائع کر دئیے ان کی نیکیاں بیکار ہوگئیں، جیسے فرمان ہے ہم نے ان کے اعمال پہلے ہی غارت و برباد کر دئیے ہیں اور جو لوگ ایمان لائے دل سے اور شرع کے مطابق اعمال کئے بدن سے یعنی ظاہر و باطن دونوں اللہ کی طرف جھکا دئیے۔ اور اس وحی الہٰی کو بھی مان لیا جو موجودہ آخر الزمان پیغمبر ﷺ پر اتاری گئی ہے۔ اور جو فی الواقع رب کی طرف سے ہی ہے اور جو سراسر حق و صداقت ہی ہے۔ ان کی برائیاں برباد ہیں اور ان کے حال کی اصلاح کا ذمہ دار خود اللہ ہے اس سے معلوم ہوا کہ حضور ﷺ کے نبی ہو چکنے کے بعد ایمان کی شرط آپ ﷺ پر اور قرآن پر ایمان لانا بھی ہے۔ حدیث کا حکم ہے کہ جس کی چھینک پر حمد کرنے کا جواب دیا گیا ہو اسے چاہیے کہ دعا (یھدیکم اللہ ویصلح بالکم) کہے یعنی اللہ تمہیں ہدایت دے اور تمہاری حالت سنوار دے پھر فرماتا ہے کفار کے اعمال غارت کردینے کی مومنوں کی برائیاں معاف فرما دینے اور ان کی شان سنوار دینے کی وجہ یہ ہے کہ کفار تو ناحق کو اختیار کرتے ہیں حق کو چھوڑ کر اور مومن ناحق کو پرے پھینک کر حق کی پابندی کرتے ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ لوگوں کے انجام کو بیان فرماتا ہے اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ خوب جاننے والا ہے۔

آیت 1 - سورہ محمد: (الذين كفروا وصدوا عن سبيل الله أضل أعمالهم...) - اردو