اس منظر میں فضا غضب ‘ غیرت اور ردعمل کی ہے۔ اس فضا کو الفاظ کی گونج اور گرج اور عبارات اور فقروں کی ضربات مزید تیز کردیتی ہیں۔ کائنات کے ضمیر میں ایک اشتہعال ہے۔ نفس کائنات کی تمام نفرت کرنے والی قوتوں کے اندر بھونچال آیا ہوا ہے۔ تمام تکوینی قوتوں کے اندر ‘ ذات باری کی شان میں اس قدر سخت گستاخی کرنے کی وجہ سے ‘ سخت اشتعال ہے۔ جب کسی انسان کی ذات یا اس کے محبوب شخص کی توہین کردی جائے اور اس کی عزت خطرے میں ہو تو اس کے تمام اعضاء یکدم ردعمل میں ہوتے ہیں۔ اسی رطح یہ پوری کائنات اس منظر میں نہایت ہی رد عمل میں ہے کیونکہ اس کے مالک کی شان میں گستاخی ہو رہی ہے۔
اس کلمہ کفر اور شان باری کی توہین کے ردعمل میں پوری کائنات ‘ زمین ‘ آسمان ‘ درخت اور پہاڑ سب ردعمل میں ہیں۔ اور اس کے اظہار کے لئے جو الفاظ قرآن نے چنے ہیں وہ بذات خود زلزلہ انگیز ہیں۔ ذرا غور کیجئے کہ اس کلمہ کفر کا اظہار ہوتے ہی کہ وقالو اتخذالرحمن ولدا (91 : 88) ” وہ کہتے ہیں کہ رحمن نے کسی کو بیٹاب بنایا ہے “۔
فوراً ہی ردعمل سامنے آتا ہے اور اس کی سخت مذمت کی جاتی ہے اور فوراً تردید آجاتی ہے۔
آیت 87 لَا یَمْلِکُوْنَ الشَّفَاعَۃَ اِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمٰنِ عَہْدًا ”اس دن کوئی کسی کی شفاعت نہ کرسکے گا اور کوئی شفاعت کسی کے کام نہیں آئے گی ‘ سوائے اس شخص کے جس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنا عہد نبھایا ہو۔ جس نے اپنی زندگی اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری ‘ اطاعت اور بندگی میں بسر کی ہو سوائے ان کوتاہیوں اور لغزشوں کے جو بشری کمزوریوں کے تحت سرزد ہوئی ہوں۔ ایسے لوگوں کے لیے تو شفاعت مفید ہوسکتی ہے ‘ لیکن وہ لوگ جو اپنی زندگیوں میں مستقلاً اللہ کے عہد کی خلاف ورزیاں کرتے رہے ‘ جنہوں نے اپنی زندگیوں کا رخ متعین کرتے ہوئے اللہ کی مرضی اور اس کے احکام کو مسلسل نظر انداز کیے رکھا ‘ ایسے لوگوں کے لیے کسی کی کوئی شفاعت کار آمد نہیں ہوسکتی۔ شفاعت کے بارے میں یہّ مسلمہ اصول ہم آیت الکرسی کے ذیل میں ملاحظہ کرچکے ہیں کہ جس کو اللہ کی طرف سے اذن شفاعت حاصل ہوگا وہ اس کے حق میں شفاعت کرسکے گا جس کے لیے اذن ہوگا۔