جواب میں والد صاحب نے کہا کہ ابراہیم تو میرے معبودوں سے نفرت کرتے ہو ‘ اور اس نفرت کی وجہ سے تم ان کی عبادت سے پھرگئے ہو ‘ یا تمہیں اس قدر جرائت ہوگئی ہے ‘ میں تمہیں متنبہ کرتا ہوں کہ اگر تو نے اپنے اس مکروہ موقف پر نظر ثانی نہ کی تو میں تمہیں رجم کردوں گا۔
لئن لم تنتہ لا رجمنک (91 : 64) ” اگر تو باز نہ آیاتو میں تجھے سنگسار کردوں گا “۔ میرے سامنے سے ہٹو اور ہمیشہ کے لئے یہاں سے چلے جائو۔ اسی میں تمہاری خیر ہے ورنہ یہاں زندہ نہ بچو گے۔
واھجرنی ملیا (91 : 64) ” ہمیشہ کے لئے مجھ سے دور ہو جائو “۔
یہ شخص ہدایت کی دعوت کا جواب اس سختی سے دیتا ہے اور نہایت ہی باادب خطاب اور درخواست کو بھی سختی سے رد کردیتا ہے۔ یہ ہے ایمان اور کفر کے درمیان فرق۔ ملاحظہ کیجئے کہ جس دل کو اسلامنے مہذب بنا دیا وہ کیسا ہے اور جس دل کو کفر نے برباد کردیا وہ کیسا ہے ؟ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) طیس میں بھی نہ آئے ‘ انہوں نے بھلائی ‘ محبت اور ادب کو ہاتھ سے جانے نہ دیا اور یوں گویا ہوئے :
آیت 46 قَالَ اَرَاغِبٌ اَنْتَ عَنْ اٰلِہَتِیْ یٰٓاِبْرٰہِیْمُ ج ”ایک طرف حضرت ابراہیم علیہ السلام کا لجاجت بھرا طرز تخاطب تھا تو دوسری طرف جواب میں باپ کا یہ فرعونی انداز بھی ملاحظہ ہو !لَءِنْ لَّمْ تَنْتَہِ لَاَرْجُمَنَّکَ وَاہْجُرْنِیْ مَلِیًّا ”تمہاری یہ باتیں میری برداشت سے باہر ہیں ‘ لہٰذا تم فوری طور پر میری نگاہوں سے دور ہوجاؤ !
باپ کی ابراہیم ؑ کو دھمکی۔حضرت ابراہیم ؑ کے اس طرح سمجھانے پر ان کے باپ نے جو جہالت کا جواب دیا وہ بیان ہو رہا ہے کہ اس نے کہا ابراہیم تو میرے معبودوں سے بیزار ہے، ان کی عبادت سے تجھے انکار ہے اچھا سن رکھ اگر تو اپنی اس حرکت سے باز نہ آیا، انہیں برا کہتا رہا، ان کی عیب جوئی اور انہیں گالیاں دینے سے نہ رکا تو میں تجھے سنگسار کر دونگا۔ مجھے تو تکلیف نہ دے نہ مجھ سے کچھ کہہ۔ یہی بہتر ہے کہ تو سلامتی کے ساتھ مجھ سے الگ ہوجائے ورنہ میں تجھے سزا دوں گا۔ مجھ سے تو تو اب ہمیشہ کے لئے گیا گزرا۔ حضرت ابراہیم ؑ نے فرمایا اچھا خوش رہو میری طرف سے آپ کو کوئی تکلیف نہ پہنچے گی کیونکہ آپ میرے والد ہیں بلکہ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کروں گا کہ وہ آپ کو نیک توفیق دے اور آپ کے گناہ بخشے۔ مومنوں کا یہی شیویہ ہوتا ہے کہ وہ جاہلوں سے بھڑتے نہیں جیسے کہ قرآن میں ہے (وَّاِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا 63) 25۔ الفرقان :63) جاہلوں سے جب ان کا خطاب ہوتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ سلام۔ اور آیت میں ہے لغو باتوں سے وہ منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے اعمال ہمارے ساتھ تمہارے اعمال تمہارے ساتھ تم پر سلام ہو۔ ہم جاہلوں کے درپے نہیں ہوتے۔ پھر فرمایا کہ میرا رب میرے ساتھ بہت مہربان ہے اسی کی مہربانی ہے کہ مجھے ایمان و اخلاص کی ہدایت کی۔ مجھے اس سے اپنی دعا کی قبولیت کی امید ہے اسی وعدے کے مطابق آپ ان کے لئے بخشش طلب کرتے رہے۔ شام کی ہجرت کے بعد بھی مسجد حرام بنانے کے بعد بھی آپ کے ہاں اولاد ہوجانے کے بعد بھی آپ کہتے رہے کہ اے اللہ مجھے میرے ماں باپ کو اور تمام ایمان والوں کو حساب کے قائم ہونے کے دن بخش دے۔ آخر اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آئی کہ مشرکوں کے لئے استغفار نہ کرو۔ آپ ہی کی اقتدا میں پہلے پہل مسلمان بھی ابتداء اسلام کے زمانے میں اپنے قرابت دار مشرکوں کے لئے طلب بخشش کی دعائیں کرتے رہے۔ آخر آیت نازل ہوئی کہ بیشک ابراہیم ؑ قابل اتباع ہیں لیکن اس باب میں ان کا فعل اس قابل نہیں اور آیت میں فرمایا (مَا كَان للنَّبِيِّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ يَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِيْنَ وَلَوْ كَانُوْٓا اُولِيْ قُرْبٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَھُمْ اَنَّھُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ01103) 9۔ التوبہ :113) ، یعنی نبی کو اور ایمانداروں کو مشرکوں کے لئے استغفار نہ کرنا چاہئے الخ۔ اور فرمایا کہ ابراہیم کا یہ استغفار صرف اس بنا پر تھا کہ آپ اپنے والد سے اس کا وعدہ کرچکے تھے لیکن جب آپ پر واضح ہوگیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو آپ اس سے بری ہوگئے۔ ابراہیم تو بڑے ہی اللہ دوست اور علم والے تھے۔ پھر فرماتے ہیں کہ میں تم سب سے اور تمہارے ان تمام معبودوں سے الگ ہوں، میں صرف اللہ واحد کا عابد ہوں، اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہیں کرتا میں فقط اسی سے دعائیں اور التجائیں کرتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ میں اپنی دعاؤں میں محروم نہ رہوں گا۔ واقعہ بھی یہی ہے اور یہاں پر لفظ عسی یقین کے معنوں میں ہے اس لئے کہ آپ انحضرت ﷺ کے بعد سید الانبیاء ہیں ﷺ۔