درس نمبر 631 ایک نظر میں
پہلے سبق کے آخر میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت کی حقیقت بیان کی گئی ‘ اور بتایا گیا کہ جو لوگ ان کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں ‘ وہ محض وہم و گمان اور قصے ‘ کہانیوں پر یقین رکھتے ہیں۔ بڑی گمراہی میں مبتلا ہیں اور ان کہانیوں سے بعض گمراہ اہل کتاب استدلال کرتے ہیں۔ اس کے بعد یہاں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے قصے کا ایک حصہ دیا جاتا ہے جس میں عقائد شرکیہ کی گمراہی اور بطلان کو واضح کیا گیا ہے۔ عرب اور مشرکین مکہ اپنے آپ کو حضرت ابراہیم کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ مشرکین مکہ کا دعویٰ یہ تھا کہ وہ اس گھر کے متولی ہیں جس کی تعمیر حضرض ابراہیم و اسماعیل علیھا السلام نے فرمائی تھی۔
حضرت ابراہیم اپنے اس قصے کی اس کڑی میں نہایت ہی حلیم الطبع کردار والے نظر آتے ہیں اور اللہ کی مشیت پر راضی ہونے والے شخص ہیں۔ ان کی شخصیت کے یہ خدوخال ان کے الفاظ ‘ ان کے انداز کلام سے بھی اچھی طرح معلوم ہوتے ہیں جن کی حکایت قرآن کریم نے عربی میں بیان کی ہے۔ نیز ان کے اقدامات سے اور والد کی جہالت کے مقابلہ کے سلسلے میں ان کے رویہ سے بھی ان کی شخصیت واضح ہو رہی ہے۔ لیکن اللہ کی طرف سے ان کے اس کردار اور ان کے ان اوصاف کا صلہ بھی ان کو خوب ملا۔ ان کے مشرک باپ اور مشرک فیملی کی جگہ اللہ نے ان کو ایسی صالح اولاد دی جن سے ایک بڑی امت پیدا ہوئی۔ اس امت میں بڑے بڑے انبیاء و صالحین پیدا ہوئے لیکن ان کے بعد ایسے ناخلف لوگ بھی پیدا ہوئے جنہوں نے نمازوں کو ضائع کردیا۔ اور خواہشات نفسانیہ کی پیروی کرنے لگے اور اس راہ سے وہ منحرف ہوگئے ‘ جو ان کے لیے ان کے باپ ابراہیم نے تجویز کیا تھا۔ اور انہوں نے حضرت ابراہیم کا دین تک ترک کردیا اور مشرکین مکہ انہی لوگوں کے سر خیل تھے ۔
اللہ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو صدیق اور نبی کہا۔ صدیق سے یہ بھی مفہوم کہ وہ بہت ہی سچے تھے اور یہ بھی نکلتا ہے کہ وہ بہت تصدیق کرنے والے تھے۔ دونوں معنی حضرت ابراہیم کی شخصیت کے ساتھ مناسب ہیں۔
آیت 41 وَاذْکُرْ فِی الْْکِتٰبِ اِبْرٰہِیْمَط اِنَّہٗ کَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا۔ ”صِدِّیقًا نَبِیًّا ایک نئی ترکیب ہے ‘ جو قرآن حکیم میں یہاں پہلی مرتبہ آئی ہے۔ یہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اور آیت 56 میں حضرت ادریس علیہ السلام کو صِدِّیقاً نَبِیًّا فرمایا گیا ہے ‘ جبکہ آیات 51 اور 54 میں بالترتیب حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو رَسُولاً نَّبِیًّا کے لقب سے نوازا گیا ہے۔ گویا یہ دو الگ الگ تراکیب ہیں اور ظاہر ہے کہ ہر ایک کا اپنا الگ مفہوم ہے۔ اگرچہ میرے علم کی حد تک ان الفاظ یا تراکیب کی طرف کسی نے توجہ نہیں کی ‘ بلکہ مجھے اس وقت سخت حیرت ہوئی جب میں نے ایک معروف عالم دین اور مفسر قرآن سے اس کا تذکرہ کیا تو انہوں نے حیرت سے پوچھا کہ کیا واقعی ایسا ہے ؟ یعنی کیا واقعی قرآن میں دو انبیاء کے بارے میں صِدِّیقًا نَبِیًّا اور دو کے بارے میں رَسُوْلًا نَّبِیًّا کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ؟ وہ خود قرآن کی مکمل تفسیر لکھ چکے تھے مگر اس طرف ان کا دھیان ہی نہیں گیا تھا۔ بہر حال میں چاہتا ہوں کہ یہ نکتہ جس حد تک اللہ تعالیٰ نے مجھ پر منکشف فرمایا ہے اس حد تک میں دوسروں تک پہنچا دوں۔ ان دو تراکیب کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے تو سورة الفاتحہ کی یہ آیات مدنظر رکھیں جن میں ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں : اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ ”اے اللہ ! ہمیں سیدھا راستہ دکھا ‘ ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا“۔ اور پھر سورة النساء کی اس آیت پر غور کریں جس میں ان لوگوں کے بارے میں وضاحت کی گئی ہے جن پر اللہ تعالیٰ کا انعام ہوا ہے : وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓءِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْنَیْ وَالشُّہَدَآءِ وَالصّٰلِحِیْنَج وَحَسُنَ اُولٰٓءِکَ رَفِیْقًا ۔ اس آیت میں ان لوگوں کے چار درجات بیان ہوئے ہیں جو مُنْعَمْ عَلَیْھِمْ کے زمرے میں آتے ہیں۔ ان میں سب سے اوپر انبیاء کا درجہ ہے ‘ پھر صدیقین کا ‘ پھر شہداء کا اور نیچے base line پر صالحین ہیں ‘ یعنی نیک دل ‘ مخلص مسلمان جو صادق القول اور صادق الایمان ہیں۔ اگر نیچے سے اوپر کی طرف ارتقاء کے حوالے سے دیکھاجائے تو base line پر پہلا درجہ مؤمنین صالحین کا ہے۔ اگر کوئی اس درجہ سے ترقی کرے گا تو اس کے لیے درجہ شہادت ہے اور پھر اس سے اوپر درجہ صدیقیت۔ اس لحاظ سے درجہ صدیقیت گویا کسی بھی انسان کے لیے روحانی ترقی کے مدارج میں بلند ترین درجہ ہے ‘ کیونکہ اس کے اوپر نبوت کا درجہ ہے ‘ جو اکتسابی نہیں ‘ سراسر وہبی ہے اور اب وہ دروازہ نوع انسانی کے لیے مستقل طور پر بند ہوچکا ہے۔rِصدیقینّ اور شہداء کے فرق کو سائیکالوجی کی دو جدید اصطلاحات کے ذریعے اس طرح سمجھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو مختلف مزاج پر پیدا فرمایا ہے۔ مزاج اور رویے کے اعتبار سے جدید سائیکالوجی انسانوں کو بنیادی طور پر دو گروہوں میں تقسیم کرتی ہے۔ جو لوگ مجلس پسند ہوں ‘ تنہائی سے گھبراتے ہوں ‘ ہر وقت سیر سپاٹے کرنے ‘ لوگوں سے ملنے جلنے اور خوش گپیوں میں خوش رہتے ہوں ‘ انہیں بیروں بیں exroverts کہا جاتا ہے۔ ان کے برعکس تنہائی پسند ‘ غور وفکر کرنے والے ‘ اپنے خیالوں میں مگن رہنے اور محفلوں سے حتی المقدور اجتناب کرنے والے لوگ دروں بین introverts کہلاتے ہیں۔ ان کے علاوہ ایک تیسری کیفیت ان دو رویوں کے خوبصورت توازن سے پیدا ہوتی ہے۔ چناچہ ایسے لوگ جن کی شخصیات میں مذکورہ دونوں رویے توازن کے ساتھ موجود ہوں وہ ambiverts کہلاتے ہیں ‘ لیکن ایسا شاذو نادر ہی ہوتا ہے کہ ایک شخص میں دونوں رویے توازن کے ساتھ موجود ہوں۔ اس لیے ambiverts قسم کے لوگ عملاً بہت ہی کم ہوتے ہیں اور عمومی طور پر دنیا میں مزاج کے اعتبار سے مندرجہ بالا دو اقسام کے لوگ ہی پائے جاتے ہیں۔ دروں بین introverts قسم کے لوگ غور و فکر کی عادت کے باعث فطرت کے حقائق کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔ کائنات کے بارے میں سوچ بچار کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی آفاقی آیات ان سے ہم کلام ہوتی ہیں اور اس سلسلے میں اہم حقائق ان پر منکشف ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنی فطرت سلیمہ اور عقل سلیم کی راہنمائی میں اللہ کو بھی پہچان لیتے ہیں ‘ آخرت کی ضرورت اور حقیقت کو بھی سمجھ لیتے ہیں اور یہ بھی جان جاتے ہیں کہ بندگی صرف اللہ ہی کی کرنی چاہیے۔ لیکن بندگی کا طریقہ کیا ہو ؟ اس کا انہیں علم نہیں ہوتا۔ اس کے لیے وہ اللہ سے راہنمائی کی التجا کرتے ہیں : اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ الفاتحہ۔ یہ لوگ دراصل صدیقین ہوتے ہیں اور ان کی شان یہ ہے کہ جونہی کوئی الہامی دعوت ان تک پہنچتی ہے وہ اسے اس انداز میں لپک کر قبول کرتے ہیں گویا مدت سے اسی کے منتظر بیٹھے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق رض کے قبول اسلام کا واقعہ اس حقیقت پر شاہد ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ میں نے جس کے سامنے بھی ایمان کی دعوت پیش کی اس نے کچھ نہ کچھ تو قف ضرور کیا ‘ سوائے ابوبکر رض کے۔ یعنی آپ رض نے ایک لمحے کے لیے بھی توقف نہیں کیا اور دعوت پر ایسے لبیک کہا جیسے وہ اس کے انتظار میں بیٹھے تھے۔البتہ بیروں بین extroverts قسم کے لوگ چونکہ خود کو کھیل کود ‘ سیرو شکار ‘ میل ملاقات وغیرہ میں مصروف رکھتے ہیں ‘ اس لیے ان کا طبعی میلان غور و فکر کی طرف نہیں ہوتا۔ ایسے لوگ کسی الہامی دعوت کو سمجھنے میں ہمیشہ دیر کردیتے ہیں ‘ اور جب وہ کسی ایسے معاملے کی طرف متوجہ بھی ہوتے ہیں تو اکثر جذباتی انداز میں ہوتے ہیں۔ لیکن جب وہ کسی نظریے یا دعوت کو قبول کرلیتے ہیں تو عام طور پر زیادہ متحرک اور فعال ثابت ہوتے ہیں اور یوں مسابقت میں بظاہر introverts سے آگے نکل جاتے ہیں۔ چناچہ حضور ﷺ کی دعوت کو حضرت ابو بکرصدیق رض نے جہاں ایک لمحے کے توقف کے بغیر قبول کرلیا وہاں حضرت عمر اور حضرت حمزہ رض کو اس طرف متوجہ ہونے میں چھ سال لگ گئے۔ حضرت عمر رض تو بنو عدی میں سے تھے اور آپ رض کی حضور ﷺ کے ساتھ بظاہر زیادہ قربت نہیں تھی ‘ مگر حضرت حمزہ رض تو آپ ﷺ کے سگے چچا اور دودھ شریک تھے۔ وہ بچپن میں آپ ﷺ کے ساتھ کھیلے تھے اور آپ ﷺ سے بہت محبت بھی کرتے تھے ‘ لیکن اس سب کچھ کے باوجود چھ سال تک آپ رض نے حضور ﷺ کی دعوت کی طرف کبھی سنجیدگی سے غور ہی نہیں کیا اور جب ایمان لائے تو حادثاتی اور جذباتی انداز میں لائے۔ایک روز شکار سے واپس آئے تو ابھی گھر میں داخل بھی نہیں ہوئے تھے کہ لونڈی نے حضور ﷺ سے ابوجہل کی گستاخی کے بارے میں خبر دی۔ بس یہ سنتے ہی آگ بگولا ہوگئے۔ گھر جانے کے بجائے سیدھے ابوجہل کے پاس پہنچے۔ جاتے ہی اس کے سر پر کمان دے ماری اور اسے للکارا کہ آج سے میں بھی ایمان لے آیا ہوں ‘ تم میرا مقابلہ کرسکتے ہو تو آؤ میدان میں ! ایسے ہی حضرت عمر رض بھی جذباتی انداز میں ایمان لائے۔ گھر سے محمد رسول اللہ ﷺ کو معاذ اللہ ! قتل کرنے کے ارادے سے نکلے۔ جذبات کی رو میں ہی بہن اور بہنوئی سے جا الجھے۔ بہن کی غیر معمولی استقامت دیکھی تو سوچنے پر مجبور ہوئے اور جب سنجیدگی سے غور کیا تو یکدم دل کی دنیا ہی بدل گئی۔ پھر کیا تھا ؟ وہی شمشیر برہنہ جو قتل کے ارادے سے لے کر نکلے تھے ‘ گردن میں لٹکائے غلاموں کی طرح در نبوت پر حاضر ہوئے اور اسلام قبول کرلیا۔ بہر حال اس تفصیل کا خلاصہ یہ ہے کہ دروں بین introverts قسم کے لوگ صدیقین اور بیروں بین extroverts مزاج کے افراد شہداء ہوتے ہیں۔ انسانی مزاج کا یہ فرق انبیاء کی شخصیات میں بھی پایا جاتا ہے۔ کچھ انبیاء کا مزاج صدیقین سے مناسبت رکھتا ہے اور کچھ کا شہداء سے۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بارے میں روایات ہیں کہ آپ ﷺ شکار کے بہت شوقین تھے اور اسی شوق میں کئی کئی دن گھر سے باہر رہتے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام دو مرتبہ آپ علیہ السلام سے ملنے کے لیے گئے ‘ مگر آپ علیہ السلام کے گھر سے باہر ہونے کی وجہ سے دونوں مرتبہ باپ بیٹے کی ملاقات نہ ہوسکی۔ اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مزاج بھی جلالی تھا۔ آپ علیہ السلام نے مصر میں ایک آدمی کو مکاّ رسید کیا تو اس کی جان ہی نکل گئی۔ انسانی مزاج کی اس تشریح کے اعتبار سے میرا خیال ہے کہ حضرت ابراہیم اور حضرت ادریس علیہ السلام کی شخصیات صدیقیت کے ساتھ مناسبت رکھتی تھیں ‘ اس لیے وہ صدیق نبی قرار پائے ‘ جبکہ حضرت اسماعیل اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شخصیات شہداء جیسی تھیں ‘ چناچہ وہ رسول نبی کہلائے۔ اس سلسلے میں یہ نکتہ بھی مد نظر رہنا چاہیے کہ رسالت اور شہادت کے الفاظ کی آپس میں خصوصی مناسبت ہے۔ ہر رسول کو اپنی قوم کی طرف شاہد بنا کر بھیجا گیا۔ کار رسالت یعنی دعوت و تبلیغ اور اتمام حجت میں عمل کا پہلو غالب ہے۔ حضور ﷺ کے بارے میں بھی سورة الاحزاب میں فرمایا گیا : یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ شَاہِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا ”اے نبی ! بلاشبہ ہم نے آپ کو بھیجا ہے گواہی دینے والا اور خوشخبری سنانے والا اور خبردار کرنے والا“۔ اسی طرح سورة النساء میں بھی ہم پڑھ چکے ہیں : فَکَیْفَ اِذَا جِءْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍم بِشَہِیْدٍ وَّجِءْنَا بِکَ عَلٰی ہٰٓؤُلَآءِ شَہِیْدًا۔ ”پھر کیا حال ہوگا جب ہم لائیں گے ہر امت میں سے ایک گواہ اور اے نبی ﷺ ! آپ کو ہم لائیں گے ان پر گواہ“۔ اس ساری وضاحت کاُ لبّ لباب یہ ہے کہ مذکورہ آیات میں شہداء کا مزاج رکھنے والے انبیاء کو رَسُولاً نَّبِیًّا اور صدیقیت کے مزاج کے حامل انبیاء کو صِدِّیقاً نَبِیًّا کے لقب سے یاد فرمایا گیا ہے۔ سورة الحدید کے مطالعے کے دوران اس کی آیت 19 : اُولٰٓءِکَ ہُمُ الصِّدِّیْقُوْنَق وَالشُّہَدَآءُ عِنْدَ رَبِّہِمْ ط کے حوالے سے اس موضوع پر ان شاء اللہ مزید گفتگو ہوگی۔
بتوں کی پوجا۔مشرکین مکہ جو بت پرست ہیں اور اپنے آپ کو خلیل اللہ کا متبع خیال کرتے ہیں ان کے سامنے اے نبی ﷺ خود حضرت ابراہیم ؑ کا واقعہ بیان کیجئے۔ اس سچے نبی نے اپنے باپ کی بھی پرواہ نہ کی اور اس کے سامنے بھی حق کو واضح کردیا اور اسے بت پرستی سے روکا۔ صاف کہا کہ کیوں ان بتوں کی پوجا پاٹ کر رہے ہوں جو نہ نفع پہنچا سکیں نہ ضرر۔ فرمایا کہ میں بیشک آپ کا بچہ ہوں لیکن اللہ کا علم جو میرے پاس ہے آپ کے پاس نہیں آپ میری اتباع کیجئے میں آپ کو راہ راست دکھاؤں گا برائیوں سے بچادوں گا۔ ابا جی یہ بت پرستی تو شیطان کی تابعداری ہے وہی اس کی راہ سمجھاتا ہے اور وہی اس سے خوش ہوتا ہے۔ جیسے سورة یاسین میں ہے (اَلَمْ اَعْهَدْ اِلَيْكُمْ يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ اَنْ لَّا تَعْبُدُوا الشَّيْطٰنَ ۚ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ 60ۙ) 36۔ يس :60) ، اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے انسانوں کیا میں نے تم سے عہد نہیں لیا تھا کہ شیطان کی عبادت نہ کرنا وہ تمہارا کھلا دشمن ہے اور آیت میں ہے (اِنْ يَّدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖٓ اِلَّآ اِنَاثًا ۚ وَاِنْ يَّدْعُوْنَ اِلَّا شَيْطٰنًا مَّرِيْدًا01107ۙ) 4۔ النسآء :117) ، یہ لوگ تو عورتوں کو پکارتے ہیں اور اللہ کو چھوڑتے ہیں دراصل یہ سرکش شیطان کے پکارنے والے ہیں آپ نے فرمایا شیطان اللہ کا نافرمان ہے، مخالف ہے، اس کی فرمابرداری سے تکبر کرنے والا ہے، اسی وجہ سے راندہ درگاہ ہوا ہے اگر تو نے بھی اس کی اطاعت کی تو وہ اپنی حالت پر تجھے بھی پہنچادے گا۔ ابا جان آپ کے اس شرک وعصیان کی وجہ سے مجھے تو خوف ہے کہ کہیں آپ پر اللہ کا کوئی عذاب نہ آجائے اور آپ شیطان کے دوست اور اس کے ساتھی نہ بن جائیں اور اللہ کی مدد اور اس کا ساتھ آپ سے چھوٹ نہ جائے۔ دیکھو شیطان خود بیکس بےبس ہے اس کی تابعداری آپ کو بری جگہ پہنچا دے گی۔ جیسے فرمان باری ہے۔ (تَاللّٰهِ لَقَدْ اَرْسَلْنَآ اِلٰٓى اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطٰنُ اَعْمَالَهُمْ فَهُوَ وَلِيُّهُمُ الْيَوْمَ وَلَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ 63) 16۔ النحل :63) یعنی یہ یقینی اور قسمیہ بات ہے کہ تجھ سے پہلے کی امتوں کی طرف بھی ہم نے رسول بھیجے لیکن شیطان نے ان کی بداعمالیاں انہیں مزین کر کے دکھلائیں اور وہی ان کا ساتھی بن گیا لیکن کام کچھ نہ آیا اور قیامت کے دن عذاب الیم میں پھنس گئے۔