سورہ لقمان: آیت 6 - ومن الناس من يشتري لهو... - اردو

آیت 6 کی تفسیر, سورہ لقمان

وَمِنَ ٱلنَّاسِ مَن يَشْتَرِى لَهْوَ ٱلْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ ٱللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا ۚ أُو۟لَٰٓئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ

اردو ترجمہ

اور انسانوں ہی میں سے کوئی ایسا بھی ہے جو کلام دلفریب خرید کر لاتا ہے تاکہ لوگوں کو اللہ کے راستہ سے علم کے بغیر بھٹکا دے اور اس راستے کی دعوت کو مذاق میں اڑا دے ایسے لوگوں کے لیے سخت ذلیل کرنے والا عذاب ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wamina alnnasi man yashtaree lahwa alhadeethi liyudilla AAan sabeeli Allahi bighayri AAilmin wayattakhithaha huzuwan olaika lahum AAathabun muheenun

آیت 6 کی تفسیر

ومن الناس من یشتری ۔۔۔۔۔ فبشرہ بعذاب الیم (6 – 7)

لہو حدیث سے مراد تفریحی اور دلچسپ کلام ہے جس کسی محض وقت گزارنا مطلوب ہو۔ اس کلام سے کوئی اچھا اور مفید نتیجہ نہ نکلتا ہے اور نہ اس میں کوئی ایسی تعمیری بات ہو ، جو انسان کے منصب خلافت سے متعلق ہو۔ جو انسان کی ذہنی ، اخلاقی اور معاشی اور دینی اور اخروی کسی غرض سے وابستہ نہ ہو۔ اسلام انسان کے لیے اس دنیا میں کچھ فرائض متعین کرتا ہے۔ ان فرائض کے حدود ، وسائل اور طریقہ کار بھی متعین کرتا ہے۔ یہ آیت عام ہے۔ یہ انسانوں کا ایک نمونہ پیش کرتی ہے جو ہر زمان و مکان میں بالعموم پایا جاتا ہے۔ بعض روایات یہ بتاتی ہیں کہ اسلام کی پہلی جماعت کے دور میں ایک متعین واقعہ بھی ہوا تھا ، اس آیت میں اسی کی طرف اشارہ ہے۔ مکہ کا ایک ادیب نضر ابن الحارث ایران سے ایسی کتابیں خرید کر لاتا تھا جن میں ایرانیوں اور ان کے بڑے لوگوں کے افسانے اور تاریخی واقعات ہوتے تھے اور ان کی جنگوں کے دلچسپ واقعات ہوتے تھے۔ یہ شخص مکہ کی گلیوں میں بیٹھ کر ان لوگوں کو روکتا جو قرآن سننے کے لیے جاتے تھے اور ان کو یہ افسانے سناتا۔ یہ شخص قصص القرآن کے مقابلے میں قصص ایران سناتا تھا۔ اگر یہ ثابت بھی ہوجائے کہ یہ آیت اس واقعہ میں وارد ہے تو بھی یہ آیت عام ہے۔ یہ لوگوں کی اس قسم کے خدوخال واضح طور پر بتاتی ہے۔ اس قسم کے لوگ ہر دور میں پائے جاتے ہیں۔ عہد رسول اللہ ﷺ میں بھی موجود تھے جس دور میں مکہ میں یہ آیت نازل ہوئی۔

ومن الناس من یشتری لھو الحدیث (31: 6) ” انسانوں میں سے کوئی ایسا بھی ہے جو کلام دلفریب خرید کر لاتا ہے “۔ یعنی اس کام میں اپنا مال اور اپنا وقت خرچ کرتا ہے اور اپنی زندگی اس میں کھپاتا ہے۔ اس قدر قیمتی چیزیں وہ اس قدر بےوقعت اور بےقیمت چیزوں میں خرچ کرتا ہے۔ اپنی محدود اور قیمتی عمر اس میں کھپاتا ہے۔ یہ عمر جو نہ واپس آتی ہے اور نہ واپس لائی جاسکتی ہے۔ وہ یہ کام کیوں کرتا ہے۔

لیضل عن ۔۔۔۔ ھزوا (31: 6) ” تاکہ لوگوں کو اللہ کے راستہ سے علم کے بغیر بھٹکا دے اور اس راستے کی دعوت کو مذاق میں اڑا دے “۔ ایسا شخص جاہل ہے اور اسکی نظروں سے حقیقت اوجھل ہے۔ وہ کوئی بات علم و یقین کی بنیاد پر نہیں کرتا۔ نہ وہ حکمت کی بنیاد پر کوئی کام کرتا ہے۔ اسکی نیت بھی خراب ہے اور اس کی غرض بھی فاسد ہے۔ وہ لوگوں کو بدراہ کرنا چاہتا ہے۔ خود اپنے آپ کو بھی گمراہ کرتا ہے اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتا ہے اور اپنی زندگی کو اس میں فضول ضائع کرتا ہے پھر وہ اس قدر گستاخ ہے کہ دعوت اسلامی کے ساتھ مذاق کرتا ہے اور اس اسلامی نظام کے ساتھ مذاق کرتا ہے جو اللہ نے وضع کیا ہے تاکہ وہ لوگوں کی زندگی کا دستور قانون ہو۔ چناچہ قرآن مجید ایسے لوگوں کی تصویر کشی سے بھی قبل ان کو اہانت آمیز عذاب کی دھمکی دیتا ہے۔

اولئک لھم عذاب مھین (31: 6) ” ایسے لوگوں کے لیے سخت ذلیل کرنے والا عذاب ہے۔ ان کیلئے توہین آمیز عذاب ہوگا ، اس لیے کہ انہوں نے یہاں دعوت اسلامی کی توہین کرنے کی کوشش کی تھی۔ یہ لوگ اسلامی نظام زندگی کے ساتھ مزاح کرتے تھے۔ اب اس دھمکی کے بعد اس گروہ کے خدوخال قلم بند کیے جاتے ہیں۔

واذا تتلی علیہ ۔۔۔۔۔ یسمعھا (31: 7) ” اسے جب ہماری آیات سنائی جاتی ہیں تو وہ بڑے گھمنڈ کے ساتھ اس طرح رخ پھیر لیتا ہے گویا اس نے انہیں سنا ہی نہیں “۔ یہ ایک ایسا منظر ہے جس کے اندر اس متکبر شخص کی ہیئت کذائی کو اچھی طرح قلم بند کردیا گیا ہے۔ وہ نہایت غرور سے منہ موڑ کر گزر جاتا ہے ، سنی ان سنی کردیتا ہے۔ چناچہ اگلا رنگ اس تصویر میں نہایت حقارت آمیزی سے بھرا جاتا ہے۔

کان فی اذنیہ وقرا (31: 7) ” گویا اس کے کان بہرے ہیں “۔ گویا اس کے کانوں کا یہ بھاری پن اللہ کی آیات کو اس کے کانوں تک پہنچنے ہی نہیں دیتا۔ ورنہ ان آیات کو کوئی انسان بھی اگر سنے تو وہ ان کے ساتھ یہ مذموم برتاؤ نہیں کرسکتا۔ یہ رنگ پھر مزید اہانت آمیز کردیا جایا ہے۔

فبشرہ بعذاب الیم (31: 7) ” مژدہ سنا دو اسے دردناک عذاب کا “۔ یہ موقع کسی بشارت کا موقع نہیں ہے لیکن یہاں ان کی توہین مطلوب ہے اور ایسے متکبرین مسخروں کے لئے یہی انداز مناسب ہے۔

اعراض کرنے والوں ، تکبر کرنے والوں اور کفر کرنے والوں کی اس اہانت آمیز سزا کی مناسب سے یہاں ضروری ہے کہ اچھے عمل کرنے والے اہل ایمان کے انعام اور جزا کا بھی ذکر دیا جائے۔ اس سورة کے آغاز میں ان کا ذکر ہوچکا ہے اور ان کی کامیابی کا ذکر کردیا گیا ہے۔ اگرچہ وہاں اجمالی تھا۔

آیت 6 وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْتَرِیْ لَہْوَ الْحَدِیْثِ لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِغَیْرِ عِلْمٍق وَّیَتَّخِذَہَا ہُزُوًا ط ”یہاں خصوصی طور پر نضر بن حارث کے کردار کی طرف اشارہ ہے جو روسائے قریش میں سے تھا۔ دراصل نزول قرآن کے وقت عرب کے معاشرہ میں شعر و شاعری کا بہت چرچا تھا۔ ان کے عوام تک میں شعر کا ذوق پایا جاتا تھا اور اچھی شاعری اور اچھے شاعروں کی ہر کوئی قدر کرتا تھا۔ ایسے ماحول میں قرآن کریم جیسے کلام نے گویا اچانک کھلبلی مچا دی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے لوگ اس کلام کے گرویدہ ہونے لگے تھے ‘ اس کی فصاحت و بلاغت انہیں مسحور کیے دے رہی تھی۔ یہاں تک کہ جو شخص قرآن کو ایک بار سن لیتا وہ اسے بار بار سننا چاہتا۔ یہ صورت حال مشرکین کے لیے بہت تشویش ناک تھی۔ وہ ہر قیمت پر لوگوں کو اس کلام سے دور رکھنا چاہتے تھے اور دن رات اس کی اس ”قوت تسخیر“ کا توڑ ڈھونڈنے کی فکر میں تھے۔ چناچہ نضر بن حارث نے اپنے فہم کے مطابق اس کا حل یہ ڈھونڈا کہ وہ شام سے ناچ گانے والی ایک خوبصورت لونڈی خرید لایا اور اس کی مدد سے مکہ میں اس نے راتوں کو ناچ گانے کی محفلیں منعقد کرانا شروع کردیں۔ بظاہر یہ ترکیب بہت کامیاب اور مؤثر تھی کہ لوگ ساری ساری رات ناچ گانے سے لطف اندوز ہوں ‘ اس کے بعد دن کے بیشتر اوقات میں وہ سوتے رہیں اور اس طرح انہیں قرآن سننے یا اپنے اور اپنی زندگی کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے کی کبھی فرصت ہی میسر نہ آئے۔یہاں ضمنی طور پر اس صورت حال کا تقابل آج کے اپنے معاشرے سے بھی کرلیں۔ مکہ میں تو ایک نضربن حارث تھا جس نے یہ کارنامہ سرانجام دیا تھا ‘ لیکن آج ہمارے ہاں سپورٹس میچز ‘ میوزیکل کنسرٹس concerts اور بےہودہ فلموں کی صورت میں لہو و لعب اور فحاشی و عریانی کا سیلاب بلا گھر گھر میں داخل ہوچکا ہے جو پورے معاشرے کو اپنی رو میں بہائے چلا جا رہا ہے۔ فحاشی و عریانی کے تعفنّ کا یہ زہر ہمارے نوجوانوں کی رگوں میں اس حد تک سرایت کرچکا ہے کہ بحیثیت مجموعی ان کے قلوب و اَذہان میں موت یا آخرت کی فکر سے متعلق کوئی ترجیح کہیں نظر ہی نہیں آتی۔ ان میں سے کسی کو الّا ما شاء اللہ اب یہ سوچنے کی فرصت ہی میسر نہیں کہ وہ کون ہے ؟ کہاں سے آیا ہے ؟ کس طرف جا رہا ہے ؟ اس کی زندگی کا مقصد و مآل کیا ہے ؟ اس کے ملک کے حالات کس رخ پر جا رہے ہیں اور اس ملک کا مستقبل کیا ہے ؟ اس سب کچھ کے مقابلے میں ذہن اقبالؔ کے ابلیس کی سوچ تو گویا بالکل ہی بےضرر تھی جس نے بقول اقبال ؔ مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لیے اپنے کارندوں کو یہ سبق پڑھایا تھا : ؂مست رکھو ذکر و فکر صبح گا ہی میں اسے پختہ تر کر دو مزاج خانقاہی میں اسے !گویا اس دور میں ابلیس کو معلوم تھا کہ مسلمان کسی قیمت پر بھی ”عریاں الحاد“ کے جال میں پھنسنے والا نہیں۔ اس لیے وہ کھل کر سامنے آنے کی بجائے ”مزاج خانقاہی“ کا سہارا لے کر مسلمانوں کو ”شرع پیغمبر“ سے برگشتہ کرنے کا سوچتا تھا۔ مگر آج صورت حال یکسر مختلف ہے۔ آج ابلیس کی ”جدوجہد“ کی کرامت سے ”نوجواں مسلم“ اس قدر ”جدت پسند“ ہوچکا ہے کہ فحاشی و عریانی کے مظاہر کو وہ جدید فیشن اور نئی ترقی کا حصہ سمجھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج میڈیا کے سٹیج پر ابلیسیت کوئی بہروپ بدلنے کا تکلفّ کیے بغیر اپنی اصل شکل میں برہنہ محو رقص ہے اور ہماری نئی نسل کے نوجوان بغیر کسی تردّد کے اپنی تمام ترجیحات کو بالائے طاق رکھ کر اس تماشہ کو دیکھنے میں رات دن مگن ہیں۔ گویا یہی ان کی زندگی ہے اور یہی زندگی کا مقصد و مآل !

لہو و لعب موسیقی اور لغو باتیں اوپر بیان ہوا تھا نیک بختوں کا جو کتاب اللہ سے ہدایت پاتے تھے اور اسے سن کر نفع اٹھاتے تھے۔ تو یہاں بیان ہو رہا ہے ان بدبختوں کا جو کلام الٰہی کو سن کر نفع حاصل کرنے سے باز رہتے ہیں اور بجائے اس کے گانے بجانے باجے گاجے ڈھول تاشے سنتے ہیں چناچہ اس آیت کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں قسم اللہ کی اس سے مراد گانا اور راگ ہے۔ ایک اور جگہ ہے کہ آپ سے اس آیت کا مطلب پوچھا گیا تو آپ نے تین دفعہ قسم کھاکر فرمایا کہ اس سے مقصد گانا اور راگ اور راگنیاں ہیں۔ یہی قول حضرت ابن عباس، جابر، عکرمہ، سعید بن جیبر، مجاہد مکحول، عمرو بن شعیب، علی بن بذیمہ کا ہے۔ امام حسن بصری فرماتے ہیں کہ یہ آیت گانے بجانے باجوں گاجوں کے بارے میں اتری ہے۔ حضرت قتادۃ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد صرف وہی نہیں جو اس لہو ولعب میں پیسے خرچے یہاں مراد خرید سے اسے محبوب رکھنا اور پسند کرنا ہے۔ انسان کو یہی گمراہی کافی ہے کہ لغو بات خریدنے سے مراد گانے والی لونڈیوں کی خریداری ہے چناچہ ابن ابی حاتم وغیرہ میں رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ گانے والیوں کی خریدو فروخت حلال نہیں اور ان کی قیمت کا کھانا حرام ہے انہی کے بارے میں یہ آیت اتری ہے۔ امام ترمذی بھی اس حدیث کو لائے ہیں اور اسے غریب کہا ہے اور اس کے ایک راوی علی بن زید کو ضعیف کہا ہے۔ میں کہتا ہوں خود علی ان کے استاد اور ان کے تمام شاگرد ضعیف ہیں۔ واللہ اعلم۔ ضحاک کا قول ہے کہ مراد اس سے شرک ہے امام ابن جریر کا فیصلہ یہ ہے کہ ہر وہ کلام جو اللہ سے اور اتباع شرع سے روکے وہ اس آیت کے حکم میں داخل ہے۔ اس سے غرض اس کی اسلام اور اہل اسلام کی مخالفت ہوتی ہے۔ ایک قرأت میں لیضل ہے تو لام لام عاقبت ہوگا یا لام عیل ہوگا۔ یعنی امرتقدیری ان کی اس کارگزاری سے ہو کر رہے گا۔ ایسے لوگ اللہ کی راہ کو ہنسی بنالیتے ہیں۔ آیات اللہ کو بھی مذاق میں اڑاتے ہیں۔ اب ان کا انجام بھی سن لو کہ جس طرح انہوں نے اللہ کی راہ کی کتاب اللہ کی اہانت کی قیامت کے دن ان کی اہانت ہوگی اور خطرناک عذاب میں ذلیل و رسوا ہونگے۔ پھر بیان ہو رہا ہے کہ یہ نانصیب جو کھیل تماشوں باجوں گاجوں پر راگ راگنیوں پر ریجھا ہوا ہے۔ یہ قرآن کی آیتوں سے بھاگتا ہے کان ان سے بہرے کرلیتا ہے یہ اسے اچھی نہیں معلوم ہوتیں۔ سن بھی لیتا ہے تو بےسنی کردیتا ہے۔ بلکہ انکا سننا اسے ناگوار گذرتا ہے کوئی مزہ نہیں آتا۔ وہ اسے فضول کام قرار دیتا ہے چونکہ اس کی کوئی اہمیت اور عزت اس کے دل میں نہیں اس لئے وہ ان سے کوئی نفع حاصل نہیں کرسکتا وہ تو ان سے محض بےپرواہ ہے۔ یہ یہاں اللہ کی آیتوں سے اکتاتا ہے تو قیامت کے دن عذاب بھی وہ ہونگے کہ اکتا اکتا اٹھے۔ یہاں آیات قرانی سن کر اسے دکھ ہوتا ہے وہاں دکھ دینے والے عذاب اسے بھگتنے پڑیں گے۔

آیت 6 - سورہ لقمان: (ومن الناس من يشتري لهو الحديث ليضل عن سبيل الله بغير علم ويتخذها هزوا ۚ أولئك لهم عذاب مهين...) - اردو