سورہ لقمان: آیت 10 - خلق السماوات بغير عمد ترونها... - اردو

آیت 10 کی تفسیر, سورہ لقمان

خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ۖ وَأَلْقَىٰ فِى ٱلْأَرْضِ رَوَٰسِىَ أَن تَمِيدَ بِكُمْ وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَآبَّةٍ ۚ وَأَنزَلْنَا مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءً فَأَنۢبَتْنَا فِيهَا مِن كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ

اردو ترجمہ

اس نے آسمانوں کو پیدا کیا بغیر ستونوں کے جو تم کو نظر آئیں اُس نے زمین میں پہاڑ جما دیے تاکہ وہ تمہیں لے کر ڈھلک نہ جائے اس نے ہر طرح کے جانور زمین میں پھیلا دیے اور آسمان سے پانی برسایا اور زمین میں قسم قسم کی عمدہ چیزیں اگا دیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Khalaqa alssamawati bighayri AAamadin tarawnaha waalqa fee alardi rawasiya an tameeda bikum wabaththa feeha min kulli dabbatin waanzalna mina alssamai maan faanbatna feeha min kulli zawjin kareemin

آیت 10 کی تفسیر

خلق السموت بغیر ۔۔۔۔۔۔۔ فی ضلل مبین (10 – 11)

یہ آسمان ، بغیر اس کے کہ ان کے بارے میں ہم جدید پیچیدہ سائنسی معلومات پیش کریں ، اپنی ظاہری حالت میں جب ہمارے حواس کے سامنے آتے ہیں تو یہ بہت ہی عظیم لگتے ہیں۔ یہ آسمان ستارے اور سیارے ہوں ، یا کہکشاں اور سدم ہوں۔ جو بلندیوں میں تیر رہے ہیں اور ان کے ھقیقی راز سے صرف اللہ ہی واقف ہے یا آسمان سے مراد یہ قبہ ہو جسے ہم دیکھتے ہیں اور جس کی حقیقت سے اللہ ہی خبردار ہے۔ غرض آسمان سے مراد جو بھی ہو ، بہرحال یہ عظیم کر ات بغیر سہارے اور ستونوں کے کھڑے ہیں۔ انسان رات اور دن ان سماوات کو دیکھتے ہیں اور جس چھوٹے سے ستارے پر انسان سوار ہیں ، اس تک ہم جس قدر دوریاں قریب کردیں اس عالم کا محض تصور ہی سر کو چکرا دیتا ہے کہ یہ عالم کس قدر عظیم اور ہولناک ہے جس کے حدود وقیود انسان کے ادراک سے ابھی تک باہر ہیں۔ پھر جب ایک انسان سوچتا ہے کہ اس عظیم کائنات کو ایک منظم نظام میں باندھ دیا گیا ہے کہ اس کی حرکت میں ایک سیکنڈ کا فرق بھی نہیں آتا۔ پھر اس عالم کو کس قدر خوبصورت بنایا گیا ہے کہ انسان دیکھتا ہی رہ جائے۔ دل سوچتا ہی رہے اور نہ تھکے۔ نظریں بھرتی ہی رہیں اور اس کے نظارے سے ملوک نہ ہوں اور جب اسنان یہ سوچے کہ اس گول آسمان میں جو چھوٹے چھوٹے نکتے نظر آتے ہیں ان میں سے ایک ایک ستارہ زمین سے ہزاروں گنا ہڑا ہے (مثلاً مشتری ایک ہزار گنا) لاکھوں گنا بڑا ہے تو کسی بھی عقلمند انسان کے لئے یہی کافی دلیل ہے۔ فضائے کائنات کے اس لا انتہا سفر سے واپس آئیے ، یہ تو قرآن نے ایک سرسری اشارہ ہی کیا ہے۔

خلق السموت بغیر عمد ترونھا (31: 10) ” اس نے آسمانوں کو بغیر ستونوں کے پیدا کیا جو تم کو نظر آئیں “۔ اب اسی زمین کی طرف ، اور ذرا جم کر دیر تک اس کے نظاروں کو غور سے دیکھئے۔ یہ چھوٹی سی زمین ، کائنات کا ایک ذرہ ، اس عظیم کائنات میں تو یہ ایک ذرہ ہی ہے جو فضا میں اڑ رہا ہے۔ ہم اس پر واپس آتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ زمین بہت وسیع اور طویل و عریض ہے۔ انسان اپنی مختصر زندگی میں اس کی سیر بھی نہیں کرسکتا۔ اگرچہ وہ پوری عمر اس چھوٹے سے ڈرے کے سیروسفر میں گزار دے۔ انسان کو کہا جاتا ہے کہ ذرا اسی کا مطالعہ کھلی آنکھوں سے کرو ، اور طویل الضت اور بار بار دیکھنے کی وجہ سے انسان سے اس کا انوکھا پن گم ہوگیا ہے۔ ذرا اس کے عجائبات کو دیکھو۔

والقی فی ۔۔۔۔ تمید بکم (31: 10) ” اور اس نے زمین میں پہاڑ جما دئیے کہ وہ تمہیں لے کر ڈھلک نہ جائے “۔ رواسی معنی پہاڑ۔ علمائے طبقات الارض یہ کہتے ہیں کہ پہاڑ دراصل زمین کے چھلکے کی شکئیں ہیں۔ جب زمین کا چھلکا سرد ہوگیا اور اس کے اندر کی گیس سکڑ گئیں تو زمین کا حجم کم ہوتا گیا جس کی وجہ سے زمین کے چھلکے کے اندر شکنیں پیدا ہوگئیں اور اس طرح زمین کے اوپر بلندیاں اور پستیاں اور نشیب و فراز پیدا ہوگئے۔ جس قدر جہاں زیادہ سکیڑ کا عمل ہوا اسی قدر پہاڑ بلند ہوگئے۔ اب چاہے علمائے طبقات الارض کا یہ نظریہ درست ہو یا غلط ہو ، لیکن اللہ کی کتاب یہ کہتی ہے۔ اللہ نے پہاڑ جما دئیے تاکہ زمین کی رفتار کے اندر توازن ہو اور انسان اس کی سطح پر رک سکے اور اس کے اندر ڈولنے کا عمل نہ ہو۔ علمائے طبقات الارض کا یہ نظریہ درست ہو سکتا ہے اور وہ اس بات کو تسلیم بھی کرتے ہیں کہ اگر پہاڑ نہ ہوتے تو زمین کی رفتار محوری کے اندر وہ توازن نہ ہوتا جو ہے اور اللہ کا حکم ہر حالت میں بلند ہے اور رہے گا کیونکہ اللہ تمام متکلمین میں سے سچا اور صادق ہے۔ صدق اللہ العظیم۔

وبث فیھا من کل دآبۃ (31: 10) ” اور اس نے ہر طرح کے جانور زمین میں پھیلا دئیے “۔ اس عظیم کائنات کے عجائبات میں سے یہ ایک حیرت انگیز عجوبہ ہے کہ اس زمین کے اوپر اللہ نے رنگا رنگ زندگی کو پھیلایا ہے۔ آج تک کوئی شخص راز حیات ہی کو نہیں پاسکا اس کی یہ بو قلمونی اور رنگا رنگی تو بڑی چیز ہے۔ انسان اس حیات کی سادہ ترین صورت کو بھی نہیں پاسکا چہ جائیکہ وہ زندگی کی اعلیٰ اقسام ، اس کی رنگارنگی اور مختلف ضخامتیں ، اور خوبصورت جانور اور پرندوں کو جان سکے جن کی تعداد کا بھی انسان کو علم نہیں ہے۔ بےحد افسوس ہے کہ بعض لوگ علم کے باوجود ان عجائبات پر آنکھیں بند کرکے گزر جاتے ہیں گویا وہ ایک بالکل معمولی چیز دیکھ رہے ہیں۔ یہی انسان جب انسان کی بنائی ہوئی ایک چھوٹی سی مشین کو دیکھتا ہے تو حیران رہ جاتا ہے اور بار بار الٹ پلٹ کر اسے دیکھتا چلا جاتا ہے حالانکہ یہ مشین اللہ کے پیدا کردہ ایک سادہ خلیے سے زیادہ پیچیدہ نہیں ہوسکتی اور ان خلیوں کے جو دقیق اور پیچیدہ تصرفات ہیں ، وہ سب اعجوبے ہیں۔ ہم صرف سادہ خلیے کے عجائبات کی بات کرتے ہیں۔ رہے وہ پیچیدہ تخلیق والے بڑے انسان جن کے جسم میں سینکڑوں کیمیاوی تجربہ گاہیں اور لیبارٹریاں کام کر رہی ہیں جن کے اندر سینکڑوں سٹورز ہیں جہاں مواد جمع ہوتے ہیں اور تقسیم ہوتے ہیں اور جن کے اندر ایک عجیب مواصلاتی نظام ہے جو لاسلکی کے طور پر پیغامات لیتا ہے اور ارسال کرتا ہے اور سینکڑوں دوسرے عوامل ہزار ہا فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔

وانزلنا من ۔۔۔۔۔ زوج کریم (31: 10) ” اور آسمانوں سے پانی برسایا اور زمین میں قسم قسم کی عمدہ چیزیں اگا دیں “۔ آسمانوں سے پانی برسایا عجائبات تکوینی میں سے ایک اعجوبہ ہے لیکن چونکہ یہ اکثر ہمارے سامنے دہرایا جاتا ہے اس لیے ہم اس پر سے غفلت کے ساتھ گزر جاتے ہیں۔ یہ پانی جس سے نہریں ہوکر بہتی ہیں جس سے بحیرے بھر جاتے ہیں جس کے ساتھ زمین میں چشمے پھوٹتے ہیں۔ یہ پانی ایک نہایت ہی پیچیدہ نظام کے تحت آسمانوں سے برستا ہے۔ یہ آسمانوں کے نظام کے ساتھ مربوط ہے۔ اس کا مزاج ، اس کی تشکیل اور کر ات کی دوریوں سے یہ مربوط ہے۔ پھر پانی کے نزول کے بعد زمین کے اندر مختلف النوع اور مختلف اور مختلف الشکل نباتات ، ذائقے مختلف ، رنگ مختلف ، حجم مختلف ، خواص مختلف۔ ان کے اندر ایسے ایسے عجائبات کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتے نباتات میں زندگی اور نمو ان کا تنوع ، ان کی وراثتی خصوصیات جو چھوٹے سے بیج کے اندر موجود ہوتے ہیں۔ یہ چھوٹا سا بیج اپنے آپ کو دہراتا ہے۔ پودا ، پھول اور درخت کی شکل اختیار کرت ا ہے۔ ایک ہی پھول کے اندر رنگوں کی تقسیم کا مطالعہ ہی انسان کو خالق کائنات کی عظیم قوتوں کی طرف کھینچ لیتا ہے اور انسان کا ایمان گہرا ہوتا چلا جاتا ہے۔

پھر قرآن تصریح کرتا ہے کہ اللہ نے نباتات میں بھی بوڑے پیدا کیے۔

من کل زوج کریم (31: 10) ” عمدہ قسم کے جوڑے “۔ یہ وہ عظیم حقیقت ہے کہ سائنس کو بہت ہی قریب زمانے میں اس کا علم اور تجربہ ہوسکا ہے۔ ہر پورے میں نر اور مادہ خلیے ہوتے ہیں۔ یہ خلیے ایک ہی پھول میں یا ایک ہی شاخ کے دو پھولوں میں ہوتے ہیں یا یہ خلیے دو درختوں میں علیحدہ علیحدہ ہوتے ہیں اور کوئی پودا اس وقت پھل نہیں دیتا جب تک نر اور مادی خلیے باہم ملتے نہیں ہیں۔ جیسا کہ انسانوں اور حیوانوں کے توالد کا نظام واضح ہے۔ اور زوج کے ساتھ کریم کی صفت ، یہاں اس لفظ کے استعمال کے ذریعے ایک خاص تاثر دینا مطلوب ہے کہ یہ اللہ کریم کی تخلیق ہے اور یہ بہت ہی اہم اعجوبہ ہے جسے دیدہ عبرت سے دیکھا جانا چاہئے اور اس کا احترام کرنا چاہئے۔ یہ اس لیے بھی لایا گیا ہے کہ اللہ نے تو یہ عمدہ کام کیے ہیں اور جن ہستیوں کو تم الٰہ سمجھے ہوئے ، ذرا بتاؤ انہوں نے کیا کام کیے ہیں ۔ یہ تو ہے

ھذا خلق ۔۔۔۔۔۔ من دونہ (31: 11) ” یہ تو ہے اللہ کی تخلیق اب ذرا مجھے دکھاؤ ان دوسروں نے کیا پیدا کیا ہے “۔ زوج کریم کے بعد یہ چیلنچ اور اب یہ نتیجہ

بل الظلمون فی ضلل مبین (31: 11) ” اصل بات یہ ہے کہ یہ ظالم لوگ صریح گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں “۔ اور شرک سے بڑا ظلم اور کیا ہو سکتا ہے جبکہ اس عظیم کائنات کا یہ معجزہ ہمارے ساتھ ہے۔ یہاں پہلا سفر ختم ہوتا ہے اور نہایت ہی روداد الفاظ پر۔

اس کے بعد اب دوسرا راؤنڈ شروع ہوتا ہے ۔ یہ بالکل جدید ترتیب سے ہے۔ یہ بالواسطہ ہدایت اور حکایتی انداز تلقین ہے۔ موضوع بحث اللہ وحدہ کا شکر ادا کرنا ہے۔ اور اللہ کو ہر قسم کے شرک سے پاک قرار دینا ہے۔ اس حکایت کے درمیان آخرت اور اعمال اور ان کی جزا کی بات کی گئی ہے۔

وَاَلْقٰی فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَ بِکُمْ ”یعنی زمین کا توازن isostasy برقرار رکھنے کے لیے اس میں پہاڑ گاڑ دیے۔م وَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَنْبَتْنَا فِیْہَا مِنْ کُلِّ زَوْجٍ کَرِیْمٍ ”آج کی سائنس ”نباتات کے جوڑوں“ کی بہتر طور پر تشریح کرسکتی ہے۔ بہر حال دوسرے جانداروں کی طرح پودوں اور نباتات میں بھی نر اور مادہ کا نظام کار فرما ہے اور ان کے ہاں باقاعدہ خاندانوں اور قبیلوں کی پہچان اور تقسیم بھی پائی جاتی ہے۔

پہاڑوں کی میخیں اللہ سبحان وتعالیٰ اپنی قدرت کاملہ کا بیان فرماتا ہے کہ زمین و آسمان اور ساری مخلوق کا خالق صرف وہی ہے۔ آسمان کو اس نے بےستوں اونچا رکھا ہے۔ واقع ہی میں کوئی ستوں نہیں۔ گو مجاہد کا یہ قول بھی ہے کہ ستوں ہمیں نظر نہیں آتے۔ اس مسئلہ کا پورا فیصلہ میں سورة رعد کی تفسیر میں لکھ چکا ہوں اس لئے یہاں دہرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ زمین کو مضبوط کرنے کے لئے اور ہلے جلنے سے بچانے کے لئے اس نے اس میں پہاڑوں کی میخیں گاڑ دیں تاکہ وہ تمہیں زلزلے اور جنبش سے بچالے۔ اس قدر قسم قسم کے بھانت بھانت کے جاندار اس خالق حقیقی نے پیدا کئے کہ آج تک ان کا کوئی حصر نہیں کرسکا۔ اپنا خالق اور اخلق ہونا بیان فرما کر اب رازق اور رزاق ہونا بیان فرما رہا ہے کہ آسمان سے بارش اتار کر زمین میں سے طرح طرح کی پیداوار اگادی جو دیکھنے میں خوش منظر کھانے میں بےضرر۔ نفع میں بہت بہتر۔ شعبی کا قول ہے کہ انسان بھی زمین کی پیداوار ہے جنتی کریم ہیں اور دوزخی لئیم ہیں۔ اللہ کی یہ ساری مخلوق تو تمہارے سامنے ہے اب جنہیں تم اس کے سوا پوجتے ہو ذرا بتاؤ تو ان کی مخلوق کہاں ہے ؟ جب نہیں تو وہ خالق نہیں اور جب خالق نہیں تو معبود نہیں پھر ان کی عبادت نرا ظلم اور سخت ناانصافی ہے فی الواقع اللہ کے ساتھ شرک کرنے والوں سے زیادہ اندھا بہرا بےعقل بےعلم بےسمجھ بیوقوف اور کون ہوگا ؟

آیت 10 - سورہ لقمان: (خلق السماوات بغير عمد ترونها ۖ وألقى في الأرض رواسي أن تميد بكم وبث فيها من كل دابة ۚ وأنزلنا...) - اردو