سورہ ابراہیم: آیت 1 - الر ۚ كتاب أنزلناه إليك... - اردو

آیت 1 کی تفسیر, سورہ ابراہیم

الٓر ۚ كِتَٰبٌ أَنزَلْنَٰهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ ٱلنَّاسَ مِنَ ٱلظُّلُمَٰتِ إِلَى ٱلنُّورِ بِإِذْنِ رَبِّهِمْ إِلَىٰ صِرَٰطِ ٱلْعَزِيزِ ٱلْحَمِيدِ

اردو ترجمہ

ا ل ر اے محمدؐ، یہ ایک کتاب ہے جس کو ہم نے تمہاری طرف نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لاؤ، ان کے رب کی توفیق سے، اُس خدا کے راستے پر جو زبردست اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Aliflamra kitabun anzalnahu ilayka litukhrija alnnasa mina alththulumati ila alnnoori biithni rabbihim ila sirati alAAazeezi alhameedi

آیت 1 کی تفسیر

اب پہلے سورة کا حصہ اول۔

درس نمبر 114 تشریح آیات

1۔۔۔۔۔ تا ۔۔۔۔۔ 27

آیت نمبر 1 تا 4

الر کتب انزلنہ الیک (14 : 1) “ اے محمد یہ ایک کتاب ہے جس کو ہم نے تمہاری طرف نازل کیا ہے ”۔ یہ کتاب الف ، لام اور میم اور ان جیسے دوسرے حروف کی ترکیب سے بنائی گئی ہے۔ یہ تمہاری طرف ہم نے نازل کی ہے ، کسی اور نے تمہاری طرف اسے نہیں اتارا۔ نہ تم نے خود اس کی تخلیق کی ہے۔ اور اسے کیوں اتارا گیا ہے۔

لتخرج الناس من الظلمت الی النور (14 : 1) “ تا کہ تم لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لاؤ ”۔ تم پوری انسانیت کو ظلمات سے نکال کر روشنی کی طرف لاؤ۔ تم پوری انسانیت کو ظلمات سے نکال کر روشنی کی طرف لاؤ۔ اوہام و خرافات کی تاریکیاں ، رسوم تقالید کی تاریکیاں ، ارباب متفرقہ کی بندگی اور کشاکش اور حیرت کی تاریکیاں ، جاہلی اقدار اور پیمانوں اور جاہلی خیالات و تصورات کی تاریکیوں سے تم انسانیت نکالو اور قرآن کی روشنی میں داخل کر دو ۔ ایسی روشنی جو فی الحقیقت ان تمام تاریکیوں کو دور کر دے۔ وہ عالم ضمیر کو روشن کر دے اور میدان فکر و نظر میں اجالا برپا کردے۔ زندگی کی عملی راہوں میں اور زندگی کے اعلیٰ مقاصد اور اعلیٰ افکار میں اجالا برپا کر دے۔

اللہ پر ایمان لانا ایک نور ہے جس سے دل روشن ہوجاتا ہے اور جس کا دل روشن ہوجائے اس کی پوری شخصیت اور اس کا بشری ڈھانچہ بھی منور ہوجاتا ہے اور انسانی شخصیت کے دونوں پہلو ، مٹی اور روح اللہ دونوں روشن ہوجاتے ہیں۔ لیکن جب انسانی شخصیت اس روشنی سے خالی ہوجائے اور جس کے اندر سے یہ چراغ بجھ جائے تو پھر انسان تاریک مٹی کا ایک ڈھیر ہوتا ہے اور خون اور گوشت کی شکل میں ایک کیچڑ ہوتا ہے۔ کیونکہ گوشت اور خون پوری طرح زمین کے مادی عناصر پر مشتمل ہوتے ہیں۔ اگر یہ نور نہ ہو جو روح اللہ سے پھوٹتا ہے اور اس کے اندر ایمان اپنی شفاف صیقل شدہ صورت میں موجود ہوتا ہے تو اس کی وجہ سے یہ سیاہ مادہ شفاف اور چمکدار ہوجاتا ہے اور پھر یہ سیاہ کیچڑ ایک شفاف شیشہ ہوجاتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ایمان باللہ ایک ایسا نور ہے جس کے ساتھ نفس انسانی چمک اٹھتا ہے۔ اس کی روشنی میں انسان اپنی راہ متعین کرسکتا ہے۔ اسے اللہ کی طرف راہ بالکل واضح نظر آتی ہے۔ اس راہ میں نہ دھند ہوتی ہے اور نہ غبار۔ اوہام و خرافات کا غبار ، لالچ اور خواہشات کا غبار اور جب نفس انسانی راہ دیکھ لے اور صاف صاف نظر آنے لگے تو پھر ایسی راہ میں کوئی ٹھوکر اور کوئی اضطراب نہیں ہوتا اور نہ اس میں کوئی تردد ہوتا ہے اور نہ کوئی حیرانگی ہوتی ہے۔

پھر اللہ پر پختہ ایمان ایک ایسا نور ہے جس سے پوری زندگی چمک اٹھتی ہے۔ تمام لوگ اللہ کے مساوی بندے ہوتے ہیں۔ ان کے درمیان ربط اور رشتہ خدائی رشتہ ہوتا ہے۔ وہ صرف اللہ کی اطاعت اور بندگی کرتے ہیں۔ اب ان میں آقا اور غلام کی تقسیم نہیں ہوتی۔ ان کو اس پوری کائنات کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور وہ اس پوری کائنات سے بھی جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ وہ دیکھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ یہ پوری کائنات ایک ناموس الٰہی اور قانون قدرت کے ساتھ چلتی ہے اس لیے وہ اس پوری کائنات ، اس کے اندر موجود پوری مخلوقات کے ساتھ ہم آہنگ ہوجاتے ہیں اس لیے کہ سب کے سب اللہ کے مخلوق ہیں۔

پھر ایمان ایک نور ہے ، انصاف کی روشنی ہے ، آزادی کی روشنی ہے۔ علم و معرفت کی روشنی ہے ، اللہ کے لئے محبت کی روشنی ہے۔ اللہ کے عدل ، حکمت اور رحمت پر اعتماد کی روشنی ہے۔ خواہ مشکلات ہوں یا مسرتیں ہوں یہ ایمان مشکلات میں صبر پر آمادہ کرتا ہے اور مسرتوں میں شکر رب کی تعلیم دینا ہے اور آزمائش میں حکمت و تجربہ عطا کرتا ہے۔

صرف اللہ پر ایمان کہ وہی الٰہ اور رب ہے ، یہ ایمان ایک نظام زندگی بھی ہے۔ فقط عقیدہ اور تصور ہی نہیں ہے جو دل کو روشن کرتا ہے۔ یہ نظام زندگی صرف اللہ کی بندگی کے اصول پر قائم ہے۔ جس میں صرف اللہ کی ربوبیت کا عقیدہ ہوتا ہے۔ اور تمام دوسری ربوبیتوں کا افکار ہوتا ہے ، جس کے اندر برتری زیبا فقط اس ذات بےہمتا کو ہوتی ہے ۔ وہی حاکم ہوتا ہے اور سب اس کے بندے ہوتے ہیں۔

اس نظام زندگی میں انسانی فطرت کے ساتھ ہم آہنگی ہے ، اس میں انسان کی ضروری اور لابدی حاجات کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ ایسی حاجات جو انسان کو سعادت سے ہمکنار کرتی ہیں۔ اس کو نور اطمینان دیتی ہے اور اسے خوشی اور مسرت عطا کرتی ہیں۔ اس نظام میں قرار و ثبات بھی موجود ہے اور جو معاشرے اللہ کے سوا دوسرے انسانوں کی بندگی کرتے ہیں۔ ان میں جو تغیرات ، انقلابات اور حیرانیاں اور پریشانیاں ہوتی ہے ان سے اس میں انسان محفوظ ہوتا ہے۔ اس میں کوئی انسان کسی دوسرے انسان کا حاکم نہیں ہوتا۔ سیاست میں حکومت میں ، معاشیات میں اور سوسائٹی کے اجتماعی روابط اور رسم و رواج میں کوئی انسان کسی دوسرے انسان کا غلام نہیں ہوتا۔ اس نظام میں انسانوں کی قوتیں اس کام میں صرف نہیں ہوتیں کہ وہ دوسرے انسانوں کو غلام بتائیں اور نہ اس نظام میں کوئی شخص کسی طاغوتی قوت کا طبلچی ہوتا ہے۔

اس مختصر جملے لتخرج الناس من الظلمت الی النور (14 : 1) “ کہ تم لوگوں کو تاریکیوں سے روشنی کی طرف نکالو ” کے پیچھے معانی و مفہومات کے جہاں پوشیدہ ہیں بڑے بڑے حقائق یہاں ہیں اور قلب و نظر کی گہری سوچ کے نتیجے میں وہ نظر آسکتے ہیں۔ اسلامی نظام زندگی کے قیام کے بعد ہی وہ آفاق نظر آسکتے ہیں۔ صرف انسانی الفاظ ان وسیع معانی کے بیان کے لئے کافی نہیں ہے۔

لتخرج الناس من الظلمت الی النور باذن ربھم (14 : 1) “ تا کہ تم لوگوں کو تاریکیوں سے روشنی کی طرف نکال لاؤ ان کے رب کے حکم سے ”۔ اللہ کے حکم سے اور اذن ہی سے تم یہ کام کرسکتے ہو کیونکہ رسول کا کام تو صرف یہ ہے کہ وہ پیغام پہنچائے۔ اس کی ڈیوٹی صرف بیان ہے۔ رہا لوگوں کا تاریکیوں سے روشنی میں آنا تو یہ صرف اللہ کے فضل و کرم اور اس کے حکم اور اذن سے ہو سکتا ہے اور یہ کام اس سنت کے مطابق ہوتا ہے جو اللہ کی مشیت کے مطابق کام کرتی ہے۔ رسول تو فقط رسول ہوتا ہے۔

الی صراط العزیز الحمید (14 : 1) “ اس خدا کے راستے کی طرف جو زبردست اور اپنی ذات میں محمود ہے ”۔ نحو کے اعتبار سے صراط نور کا بدل ہے ، اور اللہ کی راہ اللہ کا طریقہ ہے۔ اللہ کی سنت ہے ، اس کا وہ ناموس ہے جو اس پوری کائنات پر حکمران ہے ، اس کی راہ اس کی وہ شریعت ہے جو زندگی پر حاوی کرنے کے لئے بھیجی گئی ہے اور ایمان کی روشنی اور نور اسی شریعت کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔ بلکہ یہ نور بذات خود یہ صراط اور شریعت ہے۔ انسانی نفس کے اندر جو ایمانی نور چمکتا ہے وہی نور اس پوری کائنات کے اندر بھی چمکتا ہے۔ یہ سنت الٰہیہ ہے ، ناموس فطرت ہے اور وہی شریعت ہے جو نفس اس نور سے منور ہو وہ ادراک اور تصور میں غلطی کا ارتکاب نہیں کرتا۔ طرز عمل اور طریقہ زندگی میں بھی وہ غلطی نہیں کرتا۔ یہی صراط مستقیم ہے۔ عزیز وحمید کی راہ یہی ہے اور یہ عزیز قوت قاہرہ کا مالک ہے ، اور اپنی ذات میں محمود اور پوری کائنات پر قابض ہے۔

یہاں اللہ کی قوت کا اظہار اس لیے کیا گیا ہے کہ کفار سن کر ذرا خائف ہوجائیں اور حمید اس لیے کہا گیا کہ اہل شکر اس کی حمد و ثنا کر کے اس کا شکر ادا کریں۔ اس کے بعد یہ کہا جاتا ہے کہ وہ زمین و آسمان کا مالک اور حاکم بھی ہے۔ وہ لوگوں کا محتاج نہیں ہے وہ تو اس پوری کائنات کو اپنے قبضہ قدرت میں رکھتا ہے۔

اللہ الذی لہ ما فی السموت وما فی الارض (14 : 2) “ اور زمین و آسمان کی ساری موجودات کا مالک ہے ”۔ جو شخص اندھیروں سے نکل کر نور میں آگیا اور اس نے راہ ہدایت پالی تو اس کے بارے میں یہاں خاموشی اختیار کرلی جاتی ہے۔ یہاں ان لوگوں کو دھمکی دی جاتی ہے جو روشنی میں آنے سے انکار کرتے ہیں۔ کافروں کو عذاب شدید سے ڈرایا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے اس نعمت سے استفادہ کرنے سے انکار کردیا۔ اس سے بڑی نعمت اور کیا ہو سکتی ہے کہ اللہ نے رسول بھیجا ، اسے ایک کتاب دی تا کہ وہ لوگوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی میں داخل کرے۔ یہ اس قدر عظیم نعمت ہے کہ کوئی انسان اس نعمت عظمیٰ کا شکر ہی ادا نہیں کرسکتا۔ لیکن اگر کوئی الٹا اس نعمت کی ناشکری کرے تو پھر کہا :

وویل للکفرین من عذاب شدید (14 : 2) “ اور سخت تباہ کن سزا ہے قبول حق سے انکار کرنے والوں کے لئے ” ۔ یہاں یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ صفت کیا ہے جس سے اس نعمت کی نا شکری اور کفر ہوتا ہے جو رسول کریم لے کر آئے ہیں۔ وہ صفت یہ ہے۔

الذین یستحبون ۔۔۔۔۔ فی ضلل بعید (14 : 3) “ جو دنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں ، جو اللہ کے راستے سے لوگوں کو روک رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ راستہ (ان کی خواہشات کے مطابق) ٹیڑھا ہوجائے ، یہ لوگ گمراہی میں بہت دور نکل گئے ہیں “۔ آخرت کے مقابلے میں دنیا کی محبت ایمان کے تقاضوں کے ساتھ متصادم ہے اور صراط مستقیم پر استقامت کے خلاف ہے اور جب کوئی دنیا کے مقابلے میں آخرت کو ترجیح دے تو صورت یہ نہیں رہتی۔ آخرت کو ترجیح دینے سے دنیا میں بھی اعتدال پیدا ہوتا ہے اور دنیا میں خدا کا خوف پیدا ہوتا ہے۔ لہٰذا آخرت کی محبت اور ترجیح سے ترک دنیا لازم نہیں آتا۔

واقعہ یہ ہے کہ جن لوگوں کے دل آخرت کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ وہ دنیا کے میدان میں بھی خسارے میں نہیں ہوتے۔ یہ بات ان لوگوں کے ذہن میں آتی ہے جن کی فکر جاوۂ اعتدال سے منحرف ہو۔ اسلام میں آخرت کو ترجیح دینے کا تصور بھی دراصل دنیا ہی کی اصلاح کے لئے ہے۔ ایمان باللہ کے تقاضوں میں سے ایک اہم تقاضا یہ بھی ہے کہ فریضہ خلافت ارضی کو بحسن و خوبی سر انجام دیا جائے۔ حق خلافت ارضی میں یہ بھی داخل ہے کہ زمین کی تعمیر و ترقی میں دلچسپی کی جائے اور اس کے اندر موجود خزانوں سے استفادہ کیا جائے۔ اسلام میں یہ تصور نہیں ہے کہ آخرت کے فائدے کے لئے دنیا کے نظام کو معطل کردیا جائے بلکہ سچائی ، انصاف ، راستی اور خدا کی رضا مندی کی خاطر زندگی کی تعمیر و ترقی ہی دراصل تمہید ہے ، آخرت کی ترقی کے لئے۔ یہ اسلام کی پالیسی ہے کہ دنیا میں بھی حسنہ ہو اور آخرت میں بھی حسنہ۔

پھر وہ لوگ کون ہیں جو دنیا کو آخرت کے مقابلے میں ترجیح دیتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نور ایمان کی روشنی میں اپنے مذموم مقاصد تک نہیں پہنچ سکتے ، وہ زمین کے قدرتی و مسائل پر تب ہی فیصلہ کرسکتے ہیں ، وہ حرام تب ہی کما سکتے ہیں ، وہ لوگوں کا استحصال تب ہی کرسکتے ہیں اور لوگوں کی اجتماع دولت کو تب ہی لوٹ سکتے ہیں جب وہ نور ایمان کے دائرے سے نکل جائیں اور اللہ کے دین کی طرف ہدایت اور اس پر استقامت سے محروم ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے دنیا پر ست لوگوں کو بھی اللہ کے راستے سے روکتے ہیں اور خود بھی اللہ کے راستے پر نہیں چلتے بلکہ وہ اللہ کے دین اور شریعت کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی سعی کرتے ہیں۔ دین سے استقامت اور عدالت کو معیشت سے عدل کو نکالنا چاہتے ہیں۔ جب یہ لوگ اپنے آپ کو اور دوسرے عوام الناس کو اللہ کی راہ سے روک لینے میں ، کامیاب ہوجاتے ہیں اور جب وہ اسلام کی عدالت اور استقامت سے دامن چھڑا لیتے ہیں ، تب جا کر ایسے لوگ ظلم کرسکتے ، سرکشی کرسکتے ، دھوکہ دے سکتے ، اور لوگوں کو فساد پر آمادہ کرسکتے ہیں۔ اس طرح وہ پھر زمین کے وسائل پر قابض ہوجاتے ہیں ، حرام کماتے ہیں ، ذلیل اور غیر اخلاقی ذرائع سے دولت جمع کرتے ہیں۔ پھر یہ زمین میں سرکشی اور علو فی الارض اختیار کرتے ہیں۔ لوگوں کو غلام بناتے ہیں اور لوگوں کو اس قدر کمزور کردیتے ہیں کہ ان میں مقابلے یا احتجاج کی سکت بھی نہیں رہتی۔

یہ واقعہ ہے کہ ایمانی نظام زندگی ہی دراصل زندگی ، حرمت اور معاشی انصاف کا ضامن ہے اور یہی اس بات کی بھی ضمانت ہے کہ اس میں ان لوگوں کا اثرو رسوخ ختم ہوگا جو وسائل ارضی پر قابض ہونا چاہتے ہیں یا وہ آخرت کے مقابلے میں دنیا پرستی کو رواج دینا چاہتے ہیں۔

وما ارسلنا من ۔۔۔۔۔۔ لھم (14 : 4) ” اور ہم نے اپنا پیغام دینے کے لئے جب کبھی کوئی رسول بھیجا ہے اس نے اپنی قوم ہی کی زبان میں پیغام دیا ہے تا کہ وہ اچھی طرح کھول کر بات سمجھائے “۔ یہ انسانوں کے لئے ہر نبی کی نبوت میں ایک بڑی نعمت رہی ہے کہ رسول ان کی زبان ہی کا بھیجا ہے تا کہ وہ لوگوں کو اندھیروں سے نور کی طرف بڑی سہولت سے نکال سکے اور اس بات کی ضرورت بھی تھی کہ وہ اہل لسان ہوتا کہ وہ بیان کرے اور یہ سمجھیں اور مقصد پورا ہو۔

رسول اللہ ﷺ کو بھی ان کی قوم کی زبان میں رسول بنا کر بھیجا گیا ۔ اگرچہ آپ پوری انسانیت کے لئے رسول تھے کیونکہ آپ کی قوم کے ذمہ یہ فریضہ عائد کردیا گیا تھا کہ اب پوری انسانیت تک عربوں کا فرض ہے کہ وہ اس پیغام کو پہچانیں۔ رسول اللہ ﷺ کی عمر تو محدود تھی۔ آپ کے ذمہ یہ فریضہ عائد کیا گیا کہ آپ سب سے پہلے جزیرۃ العرب کو جاہلیت سے پاک کردیں اور اسلام کو وہاں غالب کردیں تا کہ وہ مرکز اور سرچشمہ ہو اور آپ کی رسالت اور پیغام کو پھر امت کے لوگ دور دراز تک پہنچائیں اور عملاً ایسا ہی ہوا کہ جب رسول اللہ ﷺ نے جزیرۃ العرب میں اسلام کو غالب کردیا تو اللہ نے آپ ؐ کو اس جہاں سے اٹھا لیا لیکن خود آپ نے جیش اسامہ کو جزیرۃ العرب کے اطراف کے لئے تیار کر کے بھیج دیا تھا۔ یہ لشکر ابھی نکلا نہ تھا کہ حضور ﷺ وفات پاگئے۔ اس سے قبل رسول اللہ ﷺ نے جزیرۃ العرب سے باہر دوسرے ممالک تک اپنے دعوتی خطوط ارسال کر دئیے تھے۔ یہ خطوط آپ ؐ نے اس لیے بھیجے تھے کہ لوگ دیکھ لیں کہ آپ کی رسالت تمام انسانوں کے لئے ہے۔ لیکن اللہ نے رسول اللہ ﷺ کے لئے صرف یہی فریضہ مقرر کیا تھا اور مختصر عمر انسانی میں ایک انسان صرف یہی کرسکتا ہے کہ آپ جزیرۃ العرب میں عربی زبان میں تبلیغ کا کام کریں اور اس کے بعد پوری دنیا تک تبلیغ رسالت کا کام بعد میں دعوت اسلامی کے حاملیں کریں۔ چناچہ ایسا ہی ہوا لہٰذا اس بات میں کوئی تعارض نہیں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی رسالت پوری انسانیت کے لئے تھی اور خود آپ ؐ نے اپنی قومی زبان میں کام کرنا تھا اور اپنی زندگی میں عملاً عربوں ہی میں کام کرنا تھا۔

فیضل اللہ ۔۔۔۔۔ العزیز الحکیم (14 : 4) ” پھر اللہ جسے چاہتا ہے بھٹکا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ، ہدایت بخشتا ہے ، وہ بالادست اور حکیم ہے “۔ ہر رسول اور نبی آخر الزمان کی رسالت کا فریضہ صرف یہی ہے کہ وہ اپنا پیغام پہنچا دے۔ رہی یہ بات کہ کوئی ہدایت کی راہ لیتا ہے یا نہیں ، تو یہ کام تو کسی رسول کی قدرت میں نہیں ہے۔ یہ اللہ کا کام ہے کہ کسی کو ہدایت دے یا گمراہ کر دے۔ خود رسول کی خواہش بھی اس سلسلے میں ضروری نہیں ہے کہ پوری ہو۔ یہ شان الٰہی ہے ۔ اللہ نے اس کے لئے اس کائنات میں ایک سنت وضع کر رکھی ہے۔ یہ سنت اللہ کی مشیت کے مطابق چلتی ہے۔ جو شخص گمراہی کے مقدمات اختیار کرتا ہے اور گمراہی کی راہ لیتا ہے تو وہ گمراہ ہوجاتا ہے اور جو شخص ہدایت کے مقدمات اختیار کرتا ہے اور ہدایت کی راہیں اپناتا ہے تو وہ اہل ہدایت میں سے ہوجاتا ہے۔ یہ سب کام اللہ کی مشیت کے مطابق اور تابع ہوتے ہیں۔ اور انسان کے لئے یہی سنت اللہ نے وضع کی۔

وھو العزیز الحکیم (14 : 4) ” وہ بالادست اور حکیم ہے “۔ وہ اس بات کی قدرت رکھتا ہے کہ جس طرح اس کی مشیت ہو اس کے مطابق لوگوں کی زندگی پھرجائے اور وہ یہ تصرف اپنی حکمت اور اپنی تقدیر سے کرتا ہے ۔ اللہ نے تمام معاملات اپنے کنٹرول میں لے رکھے ہیں۔ اس کی مملکت میں واقعات اتفاقاً ، بغیر کسی سبب اور بغیر کسی تدبیر کے رونما نہیں ہوتے۔

الۗرٰ اس مقام پر حروف مقطعات کے بارے میں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ مکی سورتوں کے اس سلسلے کے پہلے ذیلی گروپ کی تینوں سورتوں یونس ، ہود اور یوسف کا آغاز الۗرٰ سے ہو رہا ہے ‘ جبکہ دوسرے ذیلی گروپ کی پہلی سورة الرعد ا آمآرٰ سے اور دوسری دونوں سورتیں ابراہیم اور الحجر پھر الۗرٰ سے ہی شروع ہورہی ہیں۔كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَي النُّوْرِ ڏ بِاِذْنِ رَبِّھِمْ قرآن کریم میں اندھیرے کے لیے لفظ ”ظُلُمات“ ہمیشہ جمع اور اس کے مقابلے میں ”نُور“ ہمیشہ واحد استعمال ہوا ہے۔ چونکہ کسی فرد کی ہدایت کے لیے فیصلہ اللہ کی طرف سے ہی ہوتا ہے اس لیے فرمایا کہ آپ کا انہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لانے کا یہ عمل اللہ کے حکم اور اس کی منظوری سے ہوگا۔

حوف مقطعہ جو سورتوں کے شروع میں آتے ہیں انکا بیان پہلے گزر چکا ہے اے نبی ﷺ یہ عظیم الشان کتاب ہم نے تیری طرف اتاری ہے۔ یہ کتاب تمام کتابوں سے اعلیٰ ، رسول تمام رسولوں سے افضل وبالا۔ جہاں اتری وہ جگہ دنیا کی تمام جگہوں سے بہترین اور عمدہ۔ اس کتاب کا پہلا وصف یہ ہے کہ اس کے ذریعہ سے تو لوگوں کو اندھیروں سے اجالے میں لاسکتا ہے۔ تیرا پہلا کام یہ ہے کہ گمراہیوں کو ہدایت سے برائیوں کو بھلائیوں سے بدل دے ایمانداروں کا حمایتی خود اللہ ہے وہ انہیں اندھیروں سے اجالے میں لاتا ہے اور کافروں کے کے ساتھی اللہ کے سوا اور ہیں جو انہیں نور سے ہٹا کر تاریکیوں میں پھانس دیتے ہیں اللہ اپنے غلام پر اپنی روشن اور واضح نشانیاں اتارتا ہے کہ وہ تمہیں تاریکیوں سے ہٹا کر نور کی طرف پہنچا دے۔ اصل ہادی اللہ ہی ہے رسولوں کے ہاتھوں جن کی ہدایت اسے منظور ہوتی ہے وہ راہ پالیتے ہیں اور غیر مغلوب پر غالب زبردست اور ہر چیز پر بادشاہ بن جاتے ہیں اور ہر حال میں تعریفوں والے اللہ کی راہ کی طرف ان کی رہبری ہوجاتی ہے۔ اللہ کی دوسری قرأت اللہ بھی ہے پہلی قرأت بطور صفت کے ہے اور دوسری بطور نئے جملے کے جیسے آیت (قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَۨا الَّذِيْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۚ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ يُـحْيٖ وَيُمِيْتُ ۠ فَاٰمِنُوْا باللّٰهِ وَرَسُوْلِهِ النَّبِيِّ الْاُمِّيِّ الَّذِيْ يُؤْمِنُ باللّٰهِ وَكَلِمٰتِهٖ وَاتَّبِعُوْهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ01508) 7۔ الاعراف :158) ، میں۔ جو کافر تیرے مخالف ہیں تجھے نہیں مانتے انہیں قیامت کے دن سخت عذاب ہوں گے۔ یہ لوگ دنیا کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں دنیا کے لئے پوری کوشش کرتے ہیں اور آخرت کو بھولے بیٹھے ہیں رسولوں کی تابعداری سے دوسروں کو بھی روکتے ہیں راہ حق جو سیدھی اور صاف ہے اسے ٹیڑھی ترچھی کرنا چاہتے ہیں یہ اسی جہالت ضلالت میں رہیں گے لیکن اللہ کی راہ نہ ٹیڑھی ہوئی نہ ہوگی۔ پھر ایسی حالت میں ان کی صلاحیت کی کیا امید ؟

آیت 1 - سورہ ابراہیم: (الر ۚ كتاب أنزلناه إليك لتخرج الناس من الظلمات إلى النور بإذن ربهم إلى صراط العزيز الحميد...) - اردو