سورہ ہود: آیت 68 - كأن لم يغنوا فيها ۗ... - اردو

آیت 68 کی تفسیر, سورہ ہود

كَأَن لَّمْ يَغْنَوْا۟ فِيهَآ ۗ أَلَآ إِنَّ ثَمُودَا۟ كَفَرُوا۟ رَبَّهُمْ ۗ أَلَا بُعْدًا لِّثَمُودَ

اردو ترجمہ

کہ گویا وہ وہاں کبھی بسے ہی نہ تھے سنو! ثمود نے اپنے رب سے کفر کیا سنو! دور پھینک دیے گئے ثمود!

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Kaan lam yaghnaw feeha ala inna thamooda kafaroo rabbahum ala buAAdan lithamooda

آیت 68 کی تفسیر

کَاَنْ لَّمْ یَغْنَوْا فِیْھَا۔

“ گویا ان بستیوں میں کبھی انہوں نے قیام ہی نہ کیا تھا اور نہ عیش و عشرت کی تھی۔ یہ نہایت موثر نظر ہے ، پرتاثیر احساس ہے ، یہ منظر زندگی اور موت کے درمیان ایک کھلا منظر ہے ، لیکن چشم زدن میں یہ نظر کے سامانے سے گزر جاتا ہے اور نظروں سے اوجھل ہونے کے بعد گویا زندگی ایک ٹیپ ہے۔ جو تزی سے گزر رہی ہے اور نظر یوں آتا ہے کہ شاید خواب و خیال تھا۔

اب اس قصے پر حسب سابق آخری تبصرہ یہ ہے کہ ملامت اور لعنت کے ساتھ اس صفحے کو لپیٹ دیا جاتا ہے ، اور یہ منظر جس طرح نظروں سے اوجھل ہوتا ہے ، اسی طرح لوح حافظہ سے بھی مٹ جاتا ہے۔

اَلَآ اِنَّ ثَمُوْدَاْ کَفَرُوْا رَبَّھُمْ اَلَابُعْداً لِّثَمُوْدَ (68)

“۔ ”

ایک بار پھر ہمارے سامنے ، اس قصے کی صورت میں دعوت اسلامی کی تاریخ کی ایک لڑی موجود ہے۔ وہی دعوت ہے جو حضور ﷺ دے رہے ہیں۔ اسلامی نظام کے وہی خدو خال ہیں جو حضور ﷺ پیش کر رہے ہیں۔ دعوت یہ دی جا رہی ہے کہ صرف اللہ وحدہ کی بندگی کرو ، صرف اللہ کے وضع کردہ نظام زندگی کو اپناؤ۔ ہمیں نظر آتا ہے کہ جاہلیت اور اسلام کی وہی کشمکش ہے جو مکہ میں برپا ہے۔ شرک اور توحید کی ٹکر ہے۔ اہل ثمود بھی ان لوگوں میں سے تھے جو عاد کی طرح کشتی نوح میں بچ گئے تھے۔ کشتی نوح کے سواروں کی اولاد تھے لیکن وہ اپنے حقیقی دین ، دین نوح سے منحرف ہو کر جاہلیت میں ڈوب گئے تھے اور تاریخ کے اس مرحلے میں حضرت صالح (علیہ السلام) اب ان کی اصلاح کے لیے مامور ہوئے تھے تا کہ ان کو از سر نو اسلام میں داخل کردیں۔

اس قصے میں ہمیں نظر آتا ہے کہ انہوں نے خود ایک خارق عادت معجزے کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ معجزہ انہیں دکھا دیا گیا لیکن انہوں نے اس کا جواب ایمان اور قبول حق کے ساتھ نہ دیا بلکہ انہوں نے صاف صاف انکار کردیا اور ناقہ کی ٹانگیں کاٹ کر اسے ہلاک کردیا۔

مشرکین عرب بھی حضور ﷺ سے ایسے ہی خارق عادت معجزات کے طلب گار تھے تا کہ وہ امیان لائیں تو ان کو سمجھایا جاتا ہے کہ قوم صالح (علیہ السلام) نے بھی معجزات طلب کیے۔ وہ آگئے انہوں نے نہ مانا اور ان کو کوئی فائدہ نہ ہوا۔ جو لوگ ایمان لاتے ہیں وہ معجزات طلب نہیں کیا کرتے۔ اسلام تو ایک سادہ اور فطری دعوت ہے ، اس کے قبول کرنے کے لیے کسی معجزے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس لیے محض غور وفکر اور تعقل و تدبر کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن جاہلیت کی وجہ سے لوگوں کی عقل پر پردے پڑجاتے ہیں اور ان کی عقل مسخ ہوجاتی ہے۔

اس قصے میں بھی ہمارے سامنے حقیقت باری اپنے اس رنگ میں آتی ہے جس طرح اللہ کے مختار بندوں کے ذہنوں میں وہ موجود ہوتی ہے۔ یعنی اللہ کے رسولوں کے ذہن میں۔ حضرت صالح (علیہ السلام) کے قول پر ذرا غور فرمائیں :

قَالَ يَا قَوْمِ أَرَأَيْتُمْ إِنْ كُنْتُ عَلَى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّي وَآتَانِي مِنْهُ رَحْمَةً فَمَنْ يَنْصُرُنِي مِنَ اللَّهِ إِنْ عَصَيْتُهُ فَمَا تَزِيدُونَنِي غَيْرَ تَخْسِيرٍ (11 : 63) “ صالح نے کہا ، اے برادران قوم ، تم نے کچھ اس بات پر غور کیا کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے ایک صاف شہادت رکھتا تھا اور پھر اس نے اپنی رحمت سے بھی مجھ کو نواز دیا تو اس کے بعد اللہ کی پکڑ سے مجھے کون بچائے گا ، اگر میں اس کی نافرمانی کروں ؟ تم میرے کس کام آسکتے ہو سوائے اس کے کہ مجھے اور خسارے میں ڈال دو ۔ ” اور یہ اظہار حضرت صالح (علیہ السلام) نے اس کے بعد کیا۔

إِنَّ رَبِّي قَرِيبٌ مُجِيبٌ (11 : 61) “ میرا رب قریب ہے اور وہ دعاؤں کا جواب دینے والا ہے۔ ” ذات باری کی حقیقت حضرات انبیاء کے اذہان وقلوب میں اس طرح منعکس ہوتی ہے اور اس طرح جمال و کمال کے ساتھ موجود ہوتی ہے کہ اس شان سے وہ کسی اور کے دل میں نہیں ہوتی۔ کیونکہ انبیاء کے دل آئینہ کی طرح صاف ہوتے ہیں اور ان میں ذات باری کا انعکاس نہایت ہی صفائی کے ساتھ ہوتا ہے۔ اور نہایت ہی منفرد شان کے ساتھ۔

اس قصے کا ایک دوسرا پہلو یہ ہے کہ ہمیں اس میں نظر آتا ہے کہ جاہلیت اپنے آپ کو ہدایت کی شکل میں پیش کرتی ہے اور ہدایت کو ضلالت کے جامے ہیں۔ اور وہ نہایت ہی عیاری سے سچائی پر تعجب کرنے لگتی ہے۔ وہ سچائی کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔ صالح علہی السلام سے ان کی قوم نے بہت امیدیں وابستہ کی ہوئی تھیں ، کیونکہ وہ ایک صالح ، عقلمند ، باخلاق اور پسندیدہ نوجوان تھے ، لیکن اب قوم ان کے بارے میں سخت مایوسی کا اظہار کرتی ہے ، یہ کیوں ؟ یہ محض اس لیے کہ وہ ان کو اسلامی نظام زندگی کی طرف بلاتے ہیں ، صرف اسلامی نظام کی اطاعت کا حکم دیتے ہیں اور ان کی دعوت آبا ؤاجداد کی مورثی ڈگر سے مختلف ہے۔

یاد رہے کہ انسانی فکر و نظر اگر جادہ مستقیم سے بال برابر بیھ ادھر ادھر ہوجائے تو ضلالت و گمراہی کی کسی حد پر وہ رکتی نہیں ہے۔ آخر کار انسانی سوچ کی حالت یہ ہوجاتی ہے کہ اسے نہایت ہی واضع اور سادہ سچائی بھی گمراہی نظر آتی ہے اور وہ سچائی کو سن کر تعجب کرنے لگتا ہے اور انسانی سوچ اور تصور اس قدر محدود ہوجاتا ہے کہ اس کے اندر سادہ سے سادہ حقیقت بھی نہیں سماتی اور کوئی فطری اور سیدھی منطق بھی سمجھ میں نہیں آتی۔

دیکھئے ، حضرت صالح (علیہ السلام) ان سے کہتے ہیں کہ اے قوم صرف اللہ کی بندگی کرو ، اللہ کے سوا تمہارا اور کوئی الٰہ نہیں ہے۔ وہی ہے جس نے زمین سے تمہیں پیدا کیا اور یہاں تمہیں ترقی دی۔ وہ پکارتے ہیں کہ دیکھو تم اس کرہ ارض پر موجود ہو ، یہ وجود تمہیں اللہ نے بخشا ہے ، یہ ایک حقیقت ہے جس سے تم دیکھتے اور جس کا تم انکار نہیں کرسکتے۔ کیونکہ انہوں نے اپنے آپ کو خود نہیں پیدا کیا اور نہ خود اپنے لیے حیات اور رزق کا انتظام کیا ہے۔

یہ بات بالکل واضح بھی تھی ، کیونکہ وہ اس حقیقت کا انکار بھی نہ کرتے تھے کہ انہیں اللہ نے پیدا کیا ہے۔ وہی ہے جس نے انسانی کو وہ عقل دی ہے جس کے ذریعے وہ اس کرہ ارض کو ترقی دے رہا ہے لیکن وہ اس صغریٰ کبریٰ کو تسلیم کرنے کے بعد اس کا منطقی نتیجہ تسلیم کرنے سے انکار کرتے تھے کہ اللہ ہی الٰہ ہے اور اس نے انسان کو یہاں خلیفہ و مختار بنایا ہے۔ لیکن اس پر لازم کیا ہے اور اس کے لیے مناسب بھی یہی ہے کہ وہ صرف اللہ کی ربوبیت کو تسلیم کرے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے اور نہ اس کے سوا کسی اور کی اطاعت کرے۔ یہی سادی حقیقت تھی جس کی طرف حضرت صالح (علیہ السلام) دعوت دیتے تھے۔

(یٰقَوْمِ اعْبُدُوْا اللّٰہ َ مَالَکُمْ مِّنْ اِلٰہ غَیْرُہُ ) مسئلہ کیا تھا ؟ مسئلہ الوہیت و ربوبیت کا تھا۔ کہ کون حاکم اور مطاع ہوگا۔ یہی وہ مسئلہ ہے جس کے گرد تمام انبیاء کے مشن گھومتے ہیں اور اس کے گرد انبیاء کے بعد تمام دعوتی تحریکیں گھومتی ہیں اور یہی ہے آج بھی اسلام اور جاہلیت کی کشمکش کا محور۔

آیت 68 - سورہ ہود: (كأن لم يغنوا فيها ۗ ألا إن ثمود كفروا ربهم ۗ ألا بعدا لثمود...) - اردو