سورہ ہود: آیت 5 - ألا إنهم يثنون صدورهم ليستخفوا... - اردو

آیت 5 کی تفسیر, سورہ ہود

أَلَآ إِنَّهُمْ يَثْنُونَ صُدُورَهُمْ لِيَسْتَخْفُوا۟ مِنْهُ ۚ أَلَا حِينَ يَسْتَغْشُونَ ثِيَابَهُمْ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ ۚ إِنَّهُۥ عَلِيمٌۢ بِذَاتِ ٱلصُّدُورِ

اردو ترجمہ

دیکھو! یہ لوگ اپنے سینوں کو موڑتے ہیں تاکہ اس سے چھپ جائیں خبردار! جب یہ کپڑوں سے اپنے آپ کو ڈھانپتے ہیں، اللہ ان کے چھپے کو بھی جانتا ہے اور کھلے کو بھی، وہ تو اُن بھیدوں سے بھی واقف ہے جو سینوں میں ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ala innahum yathnoona sudoorahum liyastakhfoo minhu ala heena yastaghshoona thiyabahum yaAAlamu ma yusirroona wama yuAAlinoona innahu AAaleemun bithati alssudoori

آیت 5 کی تفسیر

اس اعلان کے بعد کہ یہ کتاب ایک فرمان الہی ہے جس کی آیتیں پختہ اور مفصل ہیں۔ اور ایک دانا اور باخبر خدا کی طرف سے ہیں۔ یہ بتایا جتا ہے کہ اس حقیقت کے باوجود جب ڈرانے والے اور بشارت دینے والے نبی ان کو سناتے ہیں تو ان آیات کے حوالے سے بعض لوگوں کا رد عمل کس قدر غلط ہے۔ قرآن کریم ان کے رد عمل اور ان کی جسمانی حرکت کو یکجا کرکے پیش کرتا ہے کہ یہ لوگ سر جھکا لیتے ہیں اور اپنے سینوں کو ایک طرف موڑ لیتے ہیں تاکہ چھپ جائیں اور پہلو تہی کر جائیں۔ کیا خدا سے یہ چھپ سکتے ہیں۔ ان کی یہ کوشش کس قدر عبث ہے۔ خدا تو اس وقت بھی سب کچھ جانتا ہے جب یہ بزعم خود کپڑے اوڑھ کر چھپے ہوتے ہیں بلکہ اللہ تو اس کرہ ارض پر ہر چلنے اور ینگنے والی چیز کو بھی جانتا ہے۔ وہ تو لطیف وخبیر ہے۔

یہ دو آیتیں (آیت 5 تا 6) وہ منظر پیش کرتی ہیں کہ اگر اسے اچھی طرح ذہن میں لایا جائے اور اس پر غور کیا جائے تو انسان مارے خوف کے کانپ اٹھے۔ یہ منظر کس قدر خوفناک ہے اور لرزا دینے والا ہے ، ذرا سوچو تو سہی کہ بندہ ضعیف اللہ سے چھپنا چاہتا ہے جبکہ اللہ کا علم اسے گھیرے ہوئے ہے۔ جب ان کو اللہ کی آیات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ چھپتے ہیں لیکن کب چھپ سکتے ہیں ؟

اَلَآ اِنَّھُمْ يَثْنُوْنَ صُدُوْرَھُمْ لِيَسْتَخْفُوْا مِنْهُ ۭ اَلَا حِيْنَ يَسْتَغْشُوْنَ ثِيَابَھُمْ ۙ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّوْنَ وَمَا يُعْلِنُوْنَ ۚ اِنَّهٗ عَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ

دیکھو ، یہ لوگ اپنے سینوں کو موڑتے ہیں تاکہ اس سے چھپ جائیں۔ خبردار ، جب یہ کپڑوں سے اپنے آپ کو ڈھانپتے ہیں ، اللہ ان کے چھپے کو بھی جانتا ہے اور کھلے کو بھی ، وہ تو ان بھیدوں سے بھی واقف ہے جو سینوں میں ہیں۔

شاید اس آیت میں بعض واقعات کی تصویر کشی کی گئی ہے کہ نبی ﷺ ان لوگوں کو کلام الہی سنان چاہ رہے ہیں اور یہ لوگ روگردانی کرکے اس سے چھپنا چاہتے ہیں اور اپنے سر لٹکائے گزرنا چاہتے ہیں اور اپنی طرف سے یہ کوشش کر رہے ہیں کہ گویا وہ چھپ گئے ہیں اور انہوں نے نظر بچا کر اپنے آپ کو گزار لیا۔ ہوسکتا ہے کہ بعض اوقات انہوں نے ایسی حرکت کی ہو۔

ایک مختصر فقرے میں بتا دیا جاتا ہے کہ ان کی یہ حرکت کس قدر بھونڈی ہے۔ اللہ جس نے یہ آیات نازل کی ہیں ہر حال میں ان کے ساتھ ہے ، یہ ظاہر ہوں یا چھپے ہوں۔ قرآن کریم ایسے مخصوص انداز میں یہاں ان کی اس حرکت کو ان کی خفیہ ترین حسی صورت کو سامنے لا کر غلط بتاتا ہے کہ جب وہ رات کے وقت اپنے گھروں کے اندر ، رات کی تاریکی میں اپنے بستروں پر لیٹے ہوتے ہیں اس وقت بھی اللہ ان کے ساتھ ہوتا ہے اور وہ نہیں چھپ سکتے۔ وہ تو حاضر و ناظر اور قاہر ہے۔ ہر ظاہر اور چھپی بات کو جانتا ہے۔

اَلَا حِيْنَ يَسْتَغْشُوْنَ ثِيَابَھُمْ ۙ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّوْنَ وَمَا يُعْلِنُوْنَ ( خبردار ، جب یہ کپڑوں سے اپنے آپ کو ڈھانپتے ہیں ، اللہ ان کے چھپے کو بھی جانتا ہے اور کھلے کو بھی ، ) ۔ بلکہ اللہ اس سے بھی زیادہ خفی باتوں سے واقف ہے۔ ان کے پردے علم الہی کے سامنے کیا رکاوٹ بنیں گے ؟ البتہ ایسے حالات میں صرف انسان خود یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ اکیلا ہے اور اسے کوئی نہیں دیکھ رہا ہوتا۔ یہ انداز تعبیر انسان کے وجدان کو چھوتا ہے ، اسے جگاتا ہے اور اسے جھنجھوڑتا ہے کہ وہ ذات باری کے بارے میں ذرا غور کرے اور سمجھے کہ ایک آنکھ ہر وقت اسے دیکھتی رہتی ہے۔

اِنَّهٗ عَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ (وہ تو ان بھیدوں سے بھی واقف ہے جو سینوں میں ہیں) جو راز دلوں میں چھپے ہیں ان کا بھی اسے علم ہے۔ حالانکہ یہ راز ابھی دل میں ہوتے اور دل کے ساتھ اس طرح جڑے ہوتے ہیں۔ جس طرح مالک اپنی ملک سے جڑا ہوتا ہے یا دوست ، دوست کے ساتھ ، یعنی انتہائی رازداری کی وجہ سے ان کو ذات الصدور کہا گیا۔ جب اللہ ایسے دلی بھیدوں سے بھی واقف ہے ، تو پھر اور کیا ہے جو اس سے مخفی رہ سکتا ہے۔ غرض انسان کی کوئی حرکت اور اس کا کوئی سکون اس سے مخفی نہیں رہ سکتا۔

آیت 5 اَلاآ اِنَّہُمْ یَثْنُوْنَ صُدُوْرَہُمْ لِیَسْتَخْفُوْا مِنْہُ یہ مقام مشکلات القرآن میں سے ہے اور اس کے بارے میں بہت سے اقوال ہیں۔ ثَنٰی یَثْنِیْ کے معنی پھیرنے ‘ موڑنے اور لپیٹنے کے ہیں۔ مکہ میں رسول اللہ کی دعوت کے مخالفین میں سے کچھ لوگوں کا رویہ ایسا تھا کہ آپ کو آتے دیکھتے تو رخ بدل لیتے یا کپڑے کی اوٹ میں منہ چھپالیتے ‘ تاکہ کہیں آمنا سامنا نہ ہوجائے اور آپ انہیں مخاطب کر کے کچھ اپنی باتیں نہ کہنے لگیں۔ یہاں ایسے لوگوں کی طرف اشارہ ہے کہ یہ لوگ حق کا سامنا اور حقیقت کا مواجہہ کرنے سے گھبراتے ہیں ‘ حالانکہ کسی کے گریز کرنے سے حقیقت غائب نہیں ہوجاتی۔ شتر مرغ طوفان کے دوران اگر ریت میں سر چھپالے تو اس سے طوفان کا رخ تبدیل نہیں ہوجاتا۔ اس کے علاوہ ایک رائے وہ ہے جو بخاری شریف میں حضرت ابن عباس رض کے حوالے سے نقل ہوئی ہے کہ کچھ اہل ایمان پر حیا کا بہت زیادہ غلبہ تھا مثلاً حضرت عثمان ان اصحاب میں بہت نمایاں تھے ایسے لوگ کبھی غسل کے وقت بھی عریاں ہونا پسند نہیں کرتے تھے اور ایسے مواقع پر اس انداز سے جھک جاتے تھے کہ جہاں تک ممکن ہو ستر چھپا رہے۔ اسی طرح قضائے حاجت کے وقت بھی پورے ستر کا اہتمام کرتے تھے۔ اس حوالے سے اس حکم کا منشا یہ ہے کہ تم اس سلسلے میں جو کچھ بھی کرلو ‘ اللہ تعالیٰ کی نگاہوں سے تو نہیں چھپ سکتے ہو۔ لہٰذا ستر چھپانے کے بارے میں جو بھی احکامات ہیں ان کی معروف طریقے سے پیروی کرو۔ اس طرح کے کسی بھی معاملہ میں غلو کی ضرورت نہیں ہے۔

اندھیروں کی چادروں میں موجود ہر چیز کو دیکھتا ہے آسمان کی طرف اپنی شرم گاہ کا رخ کرنا وہ مکروہ جانتے تھے۔ ابن عباس ؓ کی قرآت میں تثنونی ہے۔ مجامعت کے وقت اور تنہائی میں وہ عریانی سے حجاب کرتے تھے کہ پاخانہ کے وقت آسمان تلے ننگے ہوں یا مجامعت اس حالت میں کریں۔ وہ اپنے سروں کو ڈھاپ لیتے اور یہ بھی مراد ہے کہ وہ اللہ کے بارے میں شک کرتے تھے اور کام برائی کے کرتے تھے۔ کہتے ہیں کہ برے کام یا برے عمل کے وقت وہ جھک جھک کر اپنے سینے دوہرے کر ڈالتے گویا کہ وہ اللہ سے شرما رہے ہیں۔ اور اس سے چھپ رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ راتوں کو کپڑے اوڑھے ہوئے بھی جو تم کرتے ہو اس سے بھی اللہ تو خبردار ہے۔ جو چھپاؤ جو کھولو، جو دلوں اور سینوں میں رکھو، وہ سب کو جانتا ہے، دل کے بھید سینے کے راز اور ہر ایک پوشیدگی اس پر ظاہر ہے۔ زہیر بن ابو سلمہ اپنے مشہور معلقہ میں کہتا ہے کہ تمہارے دلوں کی کوئی بات اللہ تعالیٰ پر چھپی ہوئی نہیں، تم گو کسی خیال میں ہو لیکن یاد رکھو کہ اللہ سب کچھ جانتا ہے۔ ممکن ہے کہ تمہارے بد خیالات پر وہ تمہیں یہیں سزا کرے اور ہوسکتا ہے کہ وہ نامہ اعمال میں لکھ لیے جائیں اور قیامت کے دن پیش کئے جائیں یہ جاہلیت کا شاعر ہے۔ اسے اللہ کا، اس کے کامل علم کا، قیامت کا اور اس دن کی جزا سزا کا، اعمال نامے کا اور قیامت کے دن اس کے پیش ہونے کا اقرار ہے۔ اس آیت کا ایک مطلب یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ یہ لوگ جب رسول مقبول ﷺ کے پاس سے گزرتے تو سینہ موڑ لیتے اور سر ڈھانپ لیتے۔ (اَلَآ اِنَّھُمْ يَثْنُوْنَ صُدُوْرَھُمْ لِيَسْتَخْفُوْا مِنْهُ ۭ اَلَا حِيْنَ يَسْتَغْشُوْنَ ثِيَابَھُمْ ۙ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّوْنَ وَمَا يُعْلِنُوْنَ ۚ اِنَّهٗ عَلِيْمٌۢ بِذَات الصُّدُوْرِ) 11۔ ھود :5) ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ سے چھپنا چاہتے ہیں یہی اولیٰ ہے کیونکہ اسی کے بعد ہے کہ جب یہ لوگ سوتے وقت کپڑے اوڑھ لیتے ہیں اس وقت بھی اللہ تعالیٰ کو ان کے تمام افعال کا جو وہ چھپ کر کریں اور جو ظاہر کریں علم ہوتا ہے۔ حضرت ابن عباس کی قرأت میں (آیت الا انھم تثنونی صدورھم) ہے۔ اس قرأت پر بھی معنی تقریبا یکساں ہیں۔

آیت 5 - سورہ ہود: (ألا إنهم يثنون صدورهم ليستخفوا منه ۚ ألا حين يستغشون ثيابهم يعلم ما يسرون وما يعلنون ۚ إنه عليم بذات...) - اردو