سورہ ہود: آیت 1 - الر ۚ كتاب أحكمت آياته... - اردو

آیت 1 کی تفسیر, سورہ ہود

الٓر ۚ كِتَٰبٌ أُحْكِمَتْ ءَايَٰتُهُۥ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِن لَّدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ

اردو ترجمہ

ا ل ر فرمان ہے، جس کی آیتیں پختہ اور مفصل ارشاد ہوئی ہیں، ایک دانا اور باخبر ہستی کی طرف سے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Aliflamra kitabun ohkimat ayatuhu thumma fussilat min ladun hakeemin khabeerin

آیت 1 کی تفسیر

درس نمبر 99 ایک نظر میں

یہ پہلا سبق ایک مقدمے کی شکل میں ہے اس کے بعد قصص کا حصہ اور آخر میں نتائج اور تبصرے تبصرے ہیں۔ اس تمہیدی حصے میں وہ تمام اساسی باتیں کہی گئیں ہیں جو اسلامی نظریہ حیات کی اساسی باتیں ہیں اور بنیادی حقائق ہیں۔ یعنی اطاعت اور بندگی صرف اللہ وحدلہ لا شریک کی ہوگی اور دین صرف اللہ کا ہوگا۔ اور یہ اعتقاد رکھنا لازم ہوگا کہ ایک دن ہم نے جزاء و سزا اور حساب و کتاب کے لیے اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہے۔ اور یہ حساب و کتاب دنیا میں اچھے اور برے اعمال کی اساس پر ہوگا۔ کیونکہ دنیا دار الامتحان ہے۔ اس ابتدائیہ میں اللہ کی معرفت اور اللہ کی صفات کو اس زاویہ سے بیان کیا گیا ہے کہ اللہ کی ذات وصفات اس کائنات میں کس قدر موثر ہیں۔ نیز اس سبق میں ذات باری کی حقیقت اور اس کی حکمرانی ، انسان کی جانب سے اس کی بندگی اور اطاعت اور اس کے تقاضوں سے مومنین کو آگاہ کیا گیا ہے۔ اور انسان کی بندگی کے تقاضے یہ ہیں کہ جس طرح دنیا میں انسان اس کا بندہ ہوگا۔ اسی طرح آخرت میں بھی انسان اس کا بندہ ہوگا۔

اس مقدمے میں قیام رسالت اور حقیقت رسول پر بھی بحث ہے۔ اور رسول کو مخاطب کرکے انہیں تسلی دی گئی ہے کہ آپ کی دعوت کے مقابلے میں منکرین جس طرح اٹھ کھڑے ہوئے ہیں ، چیلنج دے رہے ہیں اور بلا وجہ عناد کر رہے ہیں تو یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ اور جیسا کہ ہم نے کہا مکہ میں پوری دعوتی تاریخ میں نبی اکرم کے لیے یہ مشکل ترین دور تھا اور مشرکین قرآن کو کلام الہی تسلیم نہ کرتے تھے۔ اس کے جواب میں مشرکین سے کہا گیا کہ اگر وہ اس قرآن کو کلام الہی تسلیم نہیں کرتے تو وہ اس جیسی دس سورتیں تو پیش کردیں ، جیسا کہ ان کا زعم تھا۔ اس طرح حضور کو تسلی دی گئی کہ وہ ہرگز اس قرآن جیسا کلام نہیں پیش کرسکتے۔ اس طرح ان لوگوں کے لیے یہ چیلنج باعث تسلی تھا ، جو ایمان لا چکے تھے۔

اس تسلی کے ساتھ منکرین حق کو دو ٹوک دھمکی بھی دی گئی ہے کہ وہ جس عذاب کے آجانے کی خواہش کا اظہار کررہے ہیں وہ بہت ہی دردناک ہے اور ان کا انتظار کر رہا ہے۔ ان کی حالت یہ ہے کہ جب دنیا میں ان پر کوئی معمولی تکلیف آجاتی ہے تو وہ اسے برداشت نہیں کرسکتے۔ حالانکہ آخرت کے عذاب کے مقابلے میں دنیا کی ہر تکلیف معمولی ہے۔

اس دھمکی کو مناظر قیامت کے ایک منظر کی صورت میں بھی پیش کیا جاتا ہے۔ اس منظر میں یہ دکھایا جاتا ہے کہ مشرکین اور مکذبین اور ان کے شرکاء اور سفارشی قیامت کے دن ان کو کسی طرح بھی عذاب سے نہ بچا سکیں گے۔ جبکہ اہل ایمان جنتوں میں ہوں گے اور انعامات و اکرامات ان کا حصہ ہوگا۔ یہ منطر قرآن کے مخصوص انداز کے مطابق نہایت ہی مجسم اور مصور ہے اور چلتا پھرتا نظر آتا ہے اور قرآن کہتا ہے :

) مَثَلُ الْفَرِيقَيْنِ كَالأعْمَى وَالأصَمِّ وَالْبَصِيرِ وَالسَّمِيعِ هَلْ يَسْتَوِيَانِ مَثَلا أَفَلا تَذَكَّرُونَ (24): (اور ان دو فریقوں کی مثال اس طرح ہے کہ ایک آدمی اندھا اور بہرا ہوا۔ دوسرا دیکھنے والا اور سننے والا ہو ، کیا دونوں برابر ہوسکتے ہیں ؟ کیا تم اس بات سے نصیحت نہیں پکڑتے ؟ "

درس نمبر 99 تشریح آیات 1 تا 24:

تفسیر آیات 1 تا 4:

ان آیات میں درج ذیل حقائق بیان ہوئے جو دین اسلام کے بنیادی حقائق ہیں :

٭۔ وحی اور رسالت کا ثبوت

٭۔ صرف اللہ وحدہ کی بندگی کا اثبات

٭۔ جو لوگ اس وحی اور ہدایت کی اتباع کریں گے دنیا اور آخرت میں ان کے لیے انعام ہوگا بشرطیکہ وہ اس ہدایت کو بطور نظام زندگی اپنائی۔

٭۔ وہ لوگ جو اسے جھٹلائیں گے وہ مستوجب سزا ہوں گے۔ چاہے کوئی مطیع فرمان ہو یا منکر ہو ، اسے ایک دن اللہ کے سامن کھڑا ہونا ہوگا۔

٭۔ اللہ کی قدرت اور سلطنت غیر محدود ہے وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

ال ر ، یہ مبتداء ہے اور اس کی خبر آگے پورا جملہ كِتٰبٌ اُحْكِمَتْ اٰيٰتُهٗ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ کتاب ایسے ہی حروف سے بنی ہے جو لوگوں کی دسترس میں ہیں اور یہ لوگ اس کی تکذیب کرتے ہیں ، اگر ان سے کہا جائے کہ ان حروف سے تم ایسی ہی کتاب بناؤ تو یہ عاجز رہ جاتے ہیں۔

كِتٰبٌ اُحْكِمَتْ اٰيٰتُهٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَكِيْمٍ خَبِيْرٍ : " فرمان ہے جس کی آیتیں پختہ اور مفصل ارشاد ہوتی ہیں ایک دانا اور باخبر ہستی کی طرف سے "

اس کی آیات محکم ہیں یعنی وہ مضبوط ترکیب رکھتی ہیں ، گہرا مفہوم رکھتی ہیں ، ان کا ہر حرف اور ہر حکم با مقصد ہے ، ہر مفہوم اور ہر ہدایت مطلوب اور بامقصد ہے۔ اس کا ہر اشارہ ایک ٹارگٹ کی طرف ہے اور یہ نہایت ہی ہم آہنگ اور مربوط ہیں ، تمام آیات کا نظر اور تصور ایک ہے۔ ان آیات کی پھر تفصیلات ہیں اور موضوع اور مطلب کے مطابق وہ منقسم ہیں اور ان کی تبویب کی گئی ہے اور ہر آیت کو اس کے لیے موزوں جگہ پر رکھا گیا ہے۔

سوال یہ ہے کہ ان آیات کو اس طرح مستحکم ترکیب اور نہایت ہی بلیغ مفہوم میں کس نے مرتب فرمایا ہے۔ تو یاد رہے کہ اللہ جل شانہ نے یہ کام خود کیا ہے ، آن آایت کی تشکیل و تسوید میں رسول اللہ کا کوئی دخل نہیں ہے۔ یہ من لدن حکیم خبیر ہیں یہ کتاب اللہ کے احکام بتاتی ہے اور ان کی ضروری تفصیلات بھی دیتی ہے۔ اور یہ اسی طرح اللہ کی طرف سے نازل ہوئی ہے اور جس طرح ہمارے سامنے ہے۔ اس میں کوئی تغیر و تبدل کسی جگہ نہیں ہوا ہے۔

اور ان آیات میں کیا بنیادی نظریہ پیش کیا گیا ہے۔ ان کی تعلیمات کی اساس یہ کلمہ ہے۔ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّا اللّٰهَ کہ تم نہ بندگی کرو مگر صرف اللہ کی۔ یعنی نظام زندگی اللہ کا ہو ، عبادت اللہ کی ہو اور اطاعت و حکمرانی اللہ کی ہو صرف اور صرف اللہ کی۔

اِنَّنِيْ لَكُمْ مِّنْهُ نَذِيْرٌ وَّبَشِيْرٌ ۔ (میں اس کی طرف سے تم کو خبردار کرنے والا بھی ہوں اور بشارت دینے والا بھی) یہ تصور رسالت ہے ہے اور رسالت کا بڑا مقصد یہ ہے کہ اللہ کے انعام کی خوشخبری دے اور برے انجام سے ڈرائے۔

وَّاَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَيْهِ (اور یہ کہ تم اپنے رب سے معافی چاہو اور اس کی طرف پلٹ آؤ) یعنی شرک و کفر اور نافرمانی کو چھوڑ کر اللہ کی طرف پلٹ آؤ اور توحید اور اسلامی نظام زندگی کو قبول کرلو۔

يُمَتِّعْكُمْ مَّتَاعًا حَسَنًا اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى وَّيُؤْتِ كُلَّ ذِيْ فَضْلٍ فَضْلَهٗ (تو وہ ایک مدت خاص تک تم کو اچھا سامان زندگی دے گا اور ہر صاحب فضل کو اس کا فضل عطا کرے گا) یہ توبہ و استغفار کرنے والوں کے لیے جزا ہے۔

وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنِّىْٓ اَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ كَبِيْرٍ (لیکن اگر تم منہ پھیرتے ہو تو میں تمہارے حق میں ایک بڑے ہولناک دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں) ۔ یہ ان لوگوں کے لیے ڈراوا ہے جو دعوت سے منہ موڑتے ہیں۔

الی اللہ مرجعکم (تم سب کو اللہ کی طرف پلٹنا ہے) اس میں اس عقیدے کا اظہار ہے کہ آخر کار سب کو اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہے۔

وَھُوَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ (اور وہ سب کچھ کرسکتا ہے) اور اس میں اللہ کی قدرت مطلقہ کا ذکر ہے۔ اور یہ کہ وہ ہر کام پر قادر ہے۔

یہ ہیں کتاب اللہ کے مقاصد اور اس کی آیات انہی کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ یہ ہیں وہ بنیادی عقائد اور تصورات جن کے اوپر اسلامی نظام حیات کی عمارت کو اٹھایا گیا ہے۔

یہ بات ہر شخص کو اچھی طرح ذہن میں رکھنا چاہئے کہ اس کرہ ارض پر کوئی دین اور کوئی نظام اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتا اور کوئی تہذیب اور کلچر دنیا میں اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتا جب تک وہ ان اساسی سوالات کا جواب نہ دے۔ دنیا میں ہر فلسفے اور نظام فکر کو ان سوالات کا جواب دینا لازمی ہے۔

یہ عقیدہ کہ دنیا میں ہر قسم کی بندگی صرف اللہ وحدہ کی ہوگی ، ان تمام راستوں کو بند کردیتا ہے جن پر انسان جا کر انتشار کا شکار ہوتا ہے اور وہ نظریاتی اور فکری بےراہ روی میں مبتلا ہوتا ہے۔ انسانیت کو خام خیالی ، وہم پرستی اور کھوٹے نظریات اور جھوٹے خداؤں کی بندگی اور غلامی سے صرف اس صورت میں نجات دلائی جاسکتی ہے کہ اسے اللہ وحدہ کا غلام بنا دیا جائے۔ دنیا میں کچھ ایسے لوگ اور چیزیں ہم نے تجویز کر رکھی ہیں۔ جن کو ہم اللہ اور بندے کے درمیان رابطے کا مقام دیتے ہیں ، اور یہ لوگ روحانی طور پر لوگوں کو بد راہ کرتے ہیں ، کوئی لوگ اور ادارے ایسے ہیں جن کو ہم نے حاکم اور مقتدر اعلی تصور کرلیا ہے اور یہ لوگ انسانوں کی دنیاوی زندگی کو اپنی منشاء کے مطابق چلاتے ہیں۔ اور اللہ کی مختص ترین خصوصیات یعنی حاکمیت اور اقتدار اعلی کے اختیارات وہ خود اپنے لیے حاصل کرلیتے ہیں۔ اس طرح وہ لوگوں کو ان کھوٹے اور جھوٹے خداؤں کا غلام بناتے ہیں جو شرک جلی ہے۔

دنیا میں جب تک عقیدہ توحید کو اس وسیع مفہوم میں نکھار کر قائم نہ کیا جائے گا اس وقت تک کوئی ایسا اجتماعی ، سیاسی ، اقتصادی ، اخلاقی ، قومی اور بین الاقوامی نظام قائم نہیں ہوسکتا جس میں انسان بعض دوسرے انسانوں کی خواہشات ، ان کی تاویلات اور ذاتی مقاصد کا آلہ کار بننے سے نجات پا سکے۔

ماسوائے قیام عقیدہ توحید کے ، انسان وہ آزادی اور شرف حاصل نہیں کرسکتا جو اللہ نے انسان کے لیے تجویز کیا ہے اور نہ انسان ذلت ، خوف اور بےچینی سے نجات پا سکتا ہے جس سے وہ ہمیشہ دوچار رہتا ہے عقیدہ توحید بھی صرف ان معنوں میں کہ اللہ کو رب ، معبود ، تکوینی حاکم و مدبر اور تشریعی حاکم و قانون ساز تسلیم کیا جائے اور اس دائرہ اختیار سے انسان کو بالکل بےدخل کردیا جائے اور انسان کا کوئی عمل و دخل ان امور میں نہ رہے ، صرف اس صورت میں مکمل عقیدہ توحید قائم ہوسکتا ہے۔

پوری انسانی تاریخ میں اسلام اور جاہلیت کے درمیان جو کمشک رہی ہے اور حق اور طاغوت کے درمیان تاریخی معرکہ آرائی اور مقابلہ اس موضوع پر نہیں رہا ہے کہ اللہ اس کائنات کا الہ اور رب ہے ، اور اس کائنات کو وہی اپنی تدبیر اور اپنے تکوینی قوانین کے ساتھ چلا رہا ہے بلکہ یہ معرکہ اور یہ اختلاف اس بات پر تھا کہ رب الناس کون ہو ؟ لوگوں پر نظام اور شریعت کس کی نافذ ہو ؟ اور لوگ کس کی اطاعت کریں اور کس کے احکام خصوصا سیاسی احکام قبول کریں ؟

اس دنیا کی طاغوتی قوتیں اللہ کے اس حق کو غصب کرکے لوگوں کی زندگیوں میں اپنے قوانین و فرامین نافذ کرتی رہیں اور اس طرح لوگوں کو اللہ کی حاکمیت سے نکال کر اپنی حاکمیت کے دائرے میں داخل کرتی رہی ہیں۔ تمام انبیاء تمام رسالتوں اور تمام اسلامی تحریکات کا اہدف ہمیشہ یہی رہا ہے کہ لوگوں کو ان طاغوتی قوتوں کے غصب کردہ اختیارات کے دائرے سے نکال کر اللہ کی حکومت ، اللہ کی بادشاہت اور اللہ کی حاکمیت میں داخل کیا جائے۔

اللہ تو تمام جہانوں سے بےنیاز بادشاہ ہے۔ لوگوں کی نافرمانی اور سرکشی اس کی حکومت میں پرکاہ کی کمی بھی نہیں کرسکتی اور اگر تمام مخلوقت اس کی بندگی پر متفق ہوجائے اور اس کی حکومت کو تسلیم کرلے تب بھی اللہ کی مملکت میں پرکاہ کا اضافہ نہیں ہوسکتا لیکن جب لوگ اللہ کے سوا کسی اور ذات یا ادارے کی حاکمیت کو قبول کرلیں تو خود وہ ذلیل و خوار اور غلام ہوجاتے ہیں۔ اور اگر وہ اللہ وحدہ کی سیاسی اور نظریاتی حاکمیت کو قبول کرلیں تو خود ان کے لے یہ بات باعث عز و شرف ہے۔ وہ غلامی کی جگہ آزادی اور پستیوں کی جگہ سربلندی حاصل کرلیتے ہیں کوئی انسان کسی انسان یا غیر انسان کا غلام نہیں رہتا۔ اللہ چونکہ اپنے بندوں کو معزز شرف اور سربلند دیکھنا چاہتا ہے۔ اس لیے اس نے رسولوں کو بھیجا تاکہ وہ ان کو یہ عزت اور شرف عطا کریں۔ اور ان کو اپنے جیسے بندوں کی غلامی سے نجات دیں۔ غرض اسلامی نظریہ حیات اور اسلامی نظام میں اگر کوئی بھلائی ہے تو وہ خود انسانوں کے لیے ہے اللہ تو تمام جہانوں سے غنی اور مستغنی ہے۔

اللہ تعالیٰ انسانی زندگی کو جس قدر معزز دیکھنا چاہتا ہے ، اور اسے جس سطح تک بلند کرنا چاہتا ہے۔ وہ اس وقت تک بلند نہیں ہوسکتی جب تک تمام انسان اس بات کا عزم نہ کرلیں کہ وہ اپنے گلوں سے غیر اللہ کی غلامی کا جوا اتار کر پھینکیں گے کیونکہ غیر اللہ کی غلامی کا یہ پٹا انسان کے لیے باعث ذلت ہے ، چاہے اس کی صورت جو بھی ہو۔

دین صرف اللہ کے لیے تب ہوگا جب لوگ صرف اللہ وحدہ کو رب تسلیم کرلیں اور اللہ کی ربوبیت کا مفہوم یہ ہے کہ لوگ اللہ کا نظام ، اللہ کا دستور اور اللہ کے قوانین و فرامین کو اپنا لیں۔ یہ ہے وہ حقیقت جو اس سورت کے آغاز ہی میں منضبط کی گئی ہے : كِتٰبٌ اُحْكِمَتْ اٰيٰتُهٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَكِيْمٍ خَبِيْرٍ ۔ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّا اللّٰهَ : فرمان ہے جس کی آیتیں پختہ اور مفصل ارشاد ہوتی ہیں ایک دانا اور باخبر ہستی کی طرف سے کہ تم نہ بندگی کرو مگر صرف اللہ کی۔

یہ ہے عبادت کا مفہوم جس طرح اسے عرب اچھی طرح سمجھتے تھے جن کی زبان میں قرآن کریم نازل ہوا تھا۔ اب دوسرا اہم سوال سامنے آتا ہے کہ اللہ کی اس حاکمیت کو قائم کس طرح کیا جائے تو اس کی واحد صورت یہ ہے کہ انسان رسالت کا اقرار کریں ، کیونکہ حاکمیت الہیہ کا یہ نظریہ اور نظام صرف اللہ نے پیش کیا ہے اور رسالت کو تسلیم کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ رسول جو کچھ دیتا ہے وہ من عنداللہ دیتا ہے۔ اگر کسی رسول کی تعلیمات کو من عنداللہ تسلیم نہ کیا جائے تو انسانی ضمیر میں ان تعلیمات کا جو تقدس اور احترام ہوتا ہے وہ ختم ہوجاتا ہتے کیونکہ اگر یہ تعلیمات کسی رسول اللہ کی جانب سے تصور ہوں تو رسول کا کوئی چاہے جس قدر بھی احترام کرے ، ان تعلیمات کی وہ قدر و قیمت انسان کے دل و دماغ میں جگہ نہیں پکڑتی اور نہ انسان چھوٹے بڑے معاملات میں ان تعلیمات کا احترام کرتا ہے جب انسان کے قلب و نظر میں یہ شعور جاگزیں ہوتا ہے کہ یہ تعلیمات اللہ کی طرف سے ہیں تو پھر یہ شعور ہر وقت انسان کا پیچھا کرتا ہے۔ اور انسان اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے۔ یہ شعور ہی ہے جو متقیوں اور اطاعت شعاروں کو صراط مستقیم سے ادھر ادھر بھٹکنے نہیں دیتا۔

نیز اقرار بالرسالت کے ذریعے ہی وہ سرچشمہ اور ضابطہ متعین ہوتا ہے جس سے انسان وہ تمام ہدایات اکخذ کرسکتا ہے جن کا تعلق اسلامی نظام اور دین سے ہے۔ صرف یہی ایک راستہ ہے جس کے ذریعے طاغوتی قوتوں کو ختم کیا جاسکتا ہے جن کا طریقہ واردات یہ ہوتا ہے کہ وہ از خود کوئی قانون اور ضابطہ اور نظریہ و عقیدہ گھڑ لیتی ہیں اور پھر کہتی ہیں کہ یہ اللہ کی جانب سے ہے حالانکہ یہ سب کچھ انہوں نے از خود تصنیف کیا ہوتا ہے۔

ہر جاہلیت کی تاریخ یہ ہے کہ کچھ لوگ کھڑے ہوئے ، انہوں نے اپنے جانب سے کوئی قانون اور ضابطہ بنایا ، لوگوں کے لیے اقار اور رسم و رواج وضع کیے اور پھر کہا کہ یہ اللہ کی جانب سے ہیں۔ اللہ کے نام پر یہ انتشار تب ہی ختم ہوسکتا ہے کہ ایک رسول پر ایمان لا کر اس کے اقوال کو من جانب اللہ تسلیم کرلیا جائے۔

یہاں شرک سے استغفار اور توبہ کو اس لیے لایا گیا ہے کہ استغفار اس بات کی دلیل ہے کہ دل کے اندر احساس موجود ہے۔ وہ برائی کے خلاف فعال ہے اور اسے گناہ کا شعور ہے اور رجوع اور لوٹنے کی طرف مائل ہے۔ لیکن احساس و شعور کے ساتھ ساتھ حقیقی توبہ یہ ہے کہ انسان عملاً اس گناہ کو ترک بھی کردے اور برے اعمال کے مقابلے میں اچھے کاموں پر عمل پیرا بھی ہوجائے۔ ترک معاصی اور عمل صالح کے بغیر توبہ کا کوئی تصور نہیں ہے۔ توبہ کے لیے دو عملی علامات یہ ہیں۔ یہ دونوں شرطیں توبہ کی ترجمان ہوتی ہیں اور توبہ کا عملی وجود صرف ان دو صورتوں میں متحقق یہ ہوتا ہے اور صرف ایسی ہی توبہ کے بعد مغفرت کی امید کی جاسکتی ہے۔ اگر کوئی یہ گمان رکھے کہ وہ شرک سے تائب ہوگیا اور اسلام میں داخل ہوگیا ہے۔ لیکن اس کے بعد وہ عملاً اللہ کی اطاعت نہیں کرتا ، اسلامی نظام کو قبول نہیں کرتا اور زندگی کی اقدار اور ترجیحات اسلام سے اخذ نہیں کرتا تو اس قسم کے زعم اور گمان کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور اس اقرار کی تکذیب اس کا عمل کر رہا ہے کہ عملاً وہ طاغوتی قوتوں نظام کو قبول کرتا ہے۔

رسالت کا بنیادی ذریعہ دو چیزوں سے مرکب ہے۔ بشارت و نذارت ، نیکوں کے لیے اچھا اجر اور بروں کے لیے برا انجام دکھانا ، رسالت کا بنیادی کام ہے۔ اللہ نے انسان کو پیدا کیا ہے اور انسانی نفسیات سے اللہ اچھی طرح باخبر ہے ، اس لیے برے انجام سے ڈرانا اور اچھے انجام کی خوشخبری دینا انسان پر گہرے اثرات چھوڑتا ہے اور اس کے اندر داعیہ عمل پیدا کرتا ہے۔

آخرت کی جواب دہی کا عقیدہ بھی ضروری اور حق ہے اور اس کے نتیجے میں اس زندگی کے بارے میں یہ شعور پیدا ہوتا ہے کہ یہ ایک بامقصد اور حکیمانہ زندگی ہے اور وہ بھلائی جس کی طرف تمام رسول دعوت دیتے چلے آئے ہیں وہ زندگی کا اصل مقصد اور مدعا ہے۔ لہذا انسان کو دعوت رسل کے قبول کرنے کا اجر ضرور ملے گا ، اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ اور اگر اس دنیا میں اسے کوئی صلہ نہ ملا تو آخرت میں ضرور ملے گا۔ جہاں اس زندگی کی تکمیل ہوگی۔ وہ لوگ جو اسلامی نظام سے کج روی اختیار کرتے ہیں اور اپنی زندگیون میں بےراہ روی اختیار کرتے ہیں وہ اپنے آپ کو عذاب کا مستحق ٹھہراتے ہیں۔ اس تصور کے ساتھ فطرت سلیمہ سیدھی راہ پر چل نکلتی ہے اور وہ بےراہ روی اختیار نہیں کرتی۔ اور اگر وہ کبھی بےراہ روی پر چل نکلے تو توبہ کا دروازہ کھلا ہوتا ہے ، اس لیے یہ نہیں ہوتا کہ وہ نافرمانی میں ڈوب ہی جائے۔ توجہ اور رجوع الی اللہ کے نتیجے ہی میں انسان کی زندگی کا سدھار ہے۔ اور زندگی کا رخ خیر اور بھلائی کی طرف موڑا جاسکتا ہے۔ عقیدہ آخرت بذات خود آخرت کے اجر کا باعث نہیں جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے بلکہ یہ عقیدہ انسان کو اس دنیا میں عمل پر آمادہ کرتا ہے اور اسے صالح اور پاکبازی کی زندگی پر قائم کرتا ہے۔ اور اس طرح انسان وہ زندگی حاسل کرلیتا ہے جو اللہ کو مطلوب ہے۔ یہ طرز زندگی انسان کے لائق ہے اور اسی کے ذریعے انسان دوسرے حیوانات سے ممتاز ہوسکتا ہے۔ اسلام نے انسان کو جو تصور دیا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ نے اسے بطور خاص بنایا ہے۔ پھر اس کے اندر اپنی خاص روح پھونکی ہے اور اسے اپنی تمام مخلوقات پر ترجیح دی ہے۔ اور اس طرح اسے حیوانیت کے مقام سے اوپر اٹھایا ہے تاکہ اس کی زندگی کے مقاصد حیوانوں سے بلند ہوسکیں اور اس کے میلانات اور مقاصد محض حیوانی میلانات اور مقاصد سے ذرا برتر ہوجائیں۔

یہ وہ غرض وغایت ہے جس کی وجہ سے اس کتاب محکم میں عقیدہ توحید ، اسلامی نظام کے قیام و اطاعت ، عقیدہ رسالت اور اتباع رسول کے بعد یہ دعوت دی گئی ہے کہ لوگو ، شرک سے توبہ کرو اور اللہ کی طرف لوٹ آؤ یہی عمل صالح اور پاکیزہ زندگی کے قیام کی سبیل ہے۔ عمل صالح کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ انسان کوئی اچھا عمل کرے اور بس بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ انسان کے اندر اس کرہ ارض پر اصلاح کے ہر مفہوم کے مطابق جدوجہد کی جائے ، اس زمین کی آبادی اور تعمیر کے لیے جدوجہد کی جائے۔ اس کی پیداوار میں اضافہ کیا جائے۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ اور جب کوئی قوم اصلاح کے اس مقام پر فائز ہوجائے تو پھر اسے یہ انعام دیا جاتا ہے۔

يُمَتِّعْكُمْ مَّتَاعًا حَسَنًا اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى وَّيُؤْتِ كُلَّ ذِيْ فَضْلٍ فَضْلَهٗ : " تو ایک مدت خاص تک تم کو سامان زندگی دے گا اور ہر صاحب فضل کو اس کا فضل عطا کرے گا " اس دنیا میں متاع حسن کبھی تو نوعیت کے اعتبار سے ہوتا ہے اور کبھی کمیت کے اعتبار سے۔ اور آخرت میں تو نوعیت اور کمیت دونوں کے اعتبار سے ہوگا اور اس قدر ہوگا جس کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا۔ البتہ ہم چاہتے ہیں کہ اس دنیا کے متاع حسن پر کچھ بات کریں۔

اس دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے پاکباز اور نیکوکار اور توبہ و استغفار کرنے والے ، اس دنیاوی زندگی میں بڑی تنگی اور ترشی سے جسم اور روح کا رشتہ جوڑے ہوئے ہوتے ہیں ، حالانکہ ان آیات میں اللہ کی جانب سے متاع حسن کا صریح وعدہ ہے۔ یہ سوال ہم بیشمار لوگوں کی زبان سے سنتے ہیں۔

اس آیت میں جو معنویت پائی جاتی ہے۔ اسے سجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم زندگی کو اس کے وسیع تر مفہوم میں سمجھنے کی کوشش کریں۔ زندگی کے ظاہری حالات سے ہٹ کر اور وسیع اور گہرے مفہوم کے مطابق سمجھنے کی سعی کریں۔

حقیقت یہ ہے کہ جس سوسائٹی میں بھی ایک صالح نظام رائج کیا جائے ، جو ایمان باللہ کی اساس پر تشکیل پایا ہو ، جس میں اطاعت فرمانبرداری صرف اللہ کی ہو ، صرف اللہ کو اس میں شارع اور قانون ساز تسلیم کیا گیا ہو ، اور اس میں لوگ اچھے اعمال اور کردار کے مالک ہوں ، تو لامحالہ وہ سوسائٹی ترقی یافتہ ہوجاتی ہے ، اس میں زندگی کی سہولیات وافر ہوجاتی ہیں ، اور وہ سوسائٹی عمومی طور پر پاک و صاف زندگی کا نمونہ پیش کرتی ہے۔ ایسی سوسائٹی میں ہر فرد کو اس کی جدوجہد کے مطابق اجرت ملتی ہے۔ اس سوسائٹی کے افراد مطمئن ہوتے ہیں اور انہیں خوشحالی نصیب ہوجاتی ہے اور اس کے مقابلے میں جب ہم دیکھتے ہیں کہ کسی سوسائٹی میں صالح اور پاک طینت لوگ بڑی مشکل سے وقت گزار رہے ہیں اور وہ سازوسامان اور وسائل رزق کے اعتبار سے محروم لوگوں میں شمار ہوتے ہیں تو لازماً صورت حال یہ ہوگی کہ اس سوسائٹی کی عمارت ایمان باللہ پر تعمیر نہ ہوگی اور اس کا نظام عادلانہ نہ ہوگا اور اس پوری سوسائٹی میں کسی بھی شخص کو اس کی جدوجہد کے مطابق معاوضہ نہ ملتا ہوگا۔

لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ صالح اور نیکوکار لوگ اگر مالی وسائل اور رزق کے اعتبار سے تنگ و ترش زندگی بسر کر رہے ہوں بھی ، اور ان پر موجود سوسائٹی کی طرف سے مظالم بھی ڈھائے جا رہے ہیں اور ان کا ہر طرف سے پیچھا کیا جا رہا ہو ، جیسا کہ مکہ کے مشرکین اس سورت کے نزول کے وقت مسلمانوں کی ایک چھوٹی سی جماعت پر مظالم ڈھا رہے تھے ، اور جس طرح ہر جاہلیت اسلام کے علم بردار داعیوں کے ساتھ ہمیشہ ایسا ہی سلوک کرتی رہتی ہے ، تب ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ لوگ اچھی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یہ بات محض خیال یا دعوی ہی نہیں ہے ، کیونکہ تعلق باللہ ، اطمینان قلب اور آخرت کی جانب سے اطمینان اور اللہ کے فضل و کرم کی امید بھی درحقیقت بہتر سازوسامان ہے۔ اور جن لوگوں کی نظریں حسی اور مادی زندگی سے ذرا اونچی ہوتی ہیں۔ یہ روحانی دولت ان کے لیے زیادہ متاع حسن ہوتی ہے۔

ہم یہ بات اس لیے نہیں کہتے کہ جن لوگوں کو ان کی محنت کے مطابق اجرت اور متاع حسن عادلانہ اور منصفانہ طور پر نہیں ملتا وہ متاع حسن کی جدوجہد ترک کردیں۔ کیونکہ اسلام کبھی ظلم پر راضی نہیں ہوتا۔ اور اس قسم کے حالات کو دیکھتے ہوئے ایک مومن کبھی خاموش نہیں ہوسکتا ، ایک مومن فرد اور ایک مومن جماعت سے اسلام تقاضا کرتا ہے کہ وہ ایسے حالات کو بدلنے کی سعی اور جدوجہد جاری رکھیں تاکہ نیکو کار اور صالح کارکن اپنی محنت کے مطابق متاع حسن حاصل کرسکیں۔ بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ ایک صالح فرد کو اپنے حقوق کا احساس کرنا چاہیے اور یہ صورت قبول نہ کرنا چاہیے کہ وہ عمل تو کرتا رہے ، محنت کرتا رہے لیکن اسے اس کا بدلہ اور مزدوری نہ ملے۔ ان کا فرض ہے کہ وہ ایسے حالات پیدا کریں جن میں نیک اور خدا ترس لوگوں کو ان کے پورے پورے حقوق ملیں۔

وَّيُؤْتِ كُلَّ ذِيْ فَضْلٍ فَضْلَهٗ ۔ (اور ہر صاحب فضل کو اس کا فضل عطا ہو) ۔ بعض مفسرین نے اسے آخرت کے فضل سے مختص کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بھی دنیا اور آخرت دونوں سے متعلق ہے۔ جس طرح ہم نے المتاع الحسن کی تفسیر کی ہے۔ ہر صاحب فضیلت اپنی فضیلت کا اظہار کرتے ہی جزا پا لیتا ہے۔ اسے نفسیاتی اور شعوری خوشی نصیب ہوتی ہے۔ یہ فضل عملی ہو یا مالی۔ اگر فی سبیل اللہ ہو تو اس وقت جزا ملتی ہے۔ اس پر اللہ کی جانب سے جو جزاء ملے گی وہ فضل پر فضل ہوگا اور احسن الجزاء ہوگی۔

وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنِّىْٓ اَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ كَبِيْرٍ (اگر تم منہ پھیرتے ہو تو میں تمہارے حق میں ایک بڑے ہولناک دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں) یہ قیامت کے دن کا عذاب ہے۔ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ اس سے مراد یوم بدر کا عذاب ہے۔ لیکن یہ رائے درست نہیں ہے کیونکہ یوم کبیر کا لفظ اگر مطلقاً بولا جائے تو اس سے مراد قیامت کا دن ہوتا ہے اور اس رائے کو تقویت اگلے فقرے سے ملتی ہے۔

اِلَى اللّٰهِ مَرْجِعُكُمْ (تم سب کو اللہ کی طرف پلٹنا ہے) اگرچہ دنیا و آخرت دونوں میں مرع اللہ ہے اور ہر لمحہ اور ہر لحظہ انسان اللہ ہی کی طرف لوٹتا ہے۔ لیکن قرآنی تعبیرات کی رو سے مراد اس دنیا کی زندگی کے بعد کی حالت ہے

وَھُوَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۔ (اور وہ سب کچھ کرسکتا ہے) اور یہ فقرہ بھی بتاتا ہے کہ اس یوم کبیر سے مراد یوم القیامت ہے کیونکہ اس میں لوگوں کو دوبارہ اٹھایا جائے گا جسے مشرکین عرب مستبعد سمجھتے تھے ، اس لیے کہا گیا کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔

۔۔۔۔

آیت 1 الۗرٰ ۣ كِتٰبٌ اُحْكِمَتْ اٰيٰتُهٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَكِيْمٍ خَبِيْرٍ اس کا ایک مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ قرآن مجید میں شروع شروع میں جو سورتیں نازل ہوئی ہیں وہ حجم کے اعتبار سے تو چھوٹی ‘ لیکن بہت جامع اور گہرے مفہوم کی حامل ہیں ‘ جیسے کو زے میں سمندر کو بند کردیا گیا ہو۔ مثلاً سورة العصر ‘ جس کے بارے میں امام شافعی فرماتے ہیں : لَوْلَمْ یُنَزَّلْ مِنَ الْقُرْآنِ سِوَاھَا لَکَفَتِ النَّاس یعنی ”اگر اس سورت کے علاوہ قرآن میں کچھ بھی نازل نہ ہوتا تو بھی یہ سورت لوگوں کی ہدایت کے لیے کافی تھی“۔ امام شافعی سورة العصر کے بارے میں مزید فرماتے ہیں : لَوْ تَدَبَّرَ النَّاسُ ھٰذِہِ السُّوْرَۃَ لَوَسِعَتْھُمْ ”اگر لوگ اس سورت پر ہی تدبر کریں تو یہ ان کی ہدایت کے لیے کافی ہوجائے گی“۔ چناچہ قرآن مجید کی ابتدائی سورتیں اور آیات بہت محکم اور جامع ہیں اور بعد میں انہی کی تفصیل بیان ہوئی ہے۔ اور اس کتاب کا بنیادی پیغام یہ ہے :

تعارف قرآن حکیم اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جو حروف سورتوں کے شروع میں آتے ہیں ان کی پوری تفصیل اس تفسیر کے شروع میں سورة بقرہ کے ان حروف کے بیان میں گزر چکی ہے جسے دوبارہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہاں فرمان ہے کہ یہ قرآن لفظوں میں محکم اور معنی میں مفصل ہے۔ پس مضمون اور معنی ہر طرح سے کامل ہے۔ یہ اس للہ کا کلام ہے جو اپنے اقوال و احکام میں حکیم ہے۔ جو کاموں کے انجام سے خبردار ہے۔ یہ قرآن اللہ کی عبادت کرانے اور دوسروں کی عبادت سے روکنے کے لیے اترا ہے۔ سب رسولوں پر پہلی وحی توحید کی آتی رہی ہے۔ سب سے یہی فرمایا گیا ہے کہ لوگ اللہ کی عبادت کریں۔ اس کے سوا اور کسی کی پرستش نہ کریں۔ پھر فرمایا کہ اللہ کی مخالفت کی وجہ سے جو عذاب آجاتے ہیں ان سے میں ڈرا رہا ہوں اور اس کی اطاعت کی بنا پر جو ثواب ملتے ہیں، ان کی میں بشارت سناتا ہوں۔ حضور ﷺ صفا پہاڑی پر چڑھ کر قریش کے خاندانوں کو آواز دیتے ہیں۔ زیادہ قریب والے پہلے، پھر ترتیب وار جب سب جمع ہوجاتے ہیں تو آپ ان سے دریافت فرماتے ہیں کہ اگر میں تم سے کہوں کہ کوئی لشکر صبح کو تم پر دھاوا کرنے والا ہے تو کیا تم مجھے سچا سمجھو گے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے آج تک آپ کی زبان سے کوئی جھوٹ سنا ہی نہیں۔ آپ نے فرمایا سنو میں تم سے کہتا ہوں کہ قیامت کے دن تمہاری ان بد اعمالیوں کی وجہ سے سخت تر عذاب ہوگا۔ پس تم ان سے ہوشیار ہوجاؤ۔ پھر ارشاد ہے کہ اے نبی ﷺ یہ بھی کہہ دو کہ میں تمہیں اپنے گذشتہ گناہوں سے توبہ کرنے اور آئندہ کے لیے اللہ کی طرف رجوع کرنے کی ہدایت کرتا ہوں اگر تم بھی ایسا ہی کرتے رہے تو دنیا میں بھی اچھی زندگی بسر کرو گے اور نیک عمل کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ آخرت میں بھی بڑے بلند درجے عنایت فرمائے گا۔ قرآن کریم نے (مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهٗ حَيٰوةً طَيِّبَةً ۚ وَلَـنَجْزِيَنَّهُمْ اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ 97؀) 16۔ النحل :97) میں فرمایا ہے کہ جو مرد و عورت ایمان دار ہو کر نیک عمل بھی کرتا رہے، اسے ہم پاکیزہ زندگی سے زندہ رکھیں گے۔ صحیح حدیث میں بھی ہے۔ حضور ﷺ نے حضرت سعد ؓ سے فرمایا کہ اللہ کی رضامندی کی تلاش میں تو جو کچھ بھی خرچ کرے گا اس کا اجر اللہ تعالیٰ سے پائے گا، یہاں تک کہ جو لقمہ تو اپنی بیوی کے منہ میں دے اس کا بھی۔ فضل والوں کو اللہ تعالیٰ فضل دے گا۔ یعنی گناہ تو برابر لکھا جاتا ہے اور نیکی دس گناہ لکھی جاتی ہے پھر اگر گناہ کی سزا دنیا میں ہی ہوگئی تو نیکیاں جوں کی توں باقی رہیں۔ اور اگر یہاں اس کی سزا نہ ملی تو زیادہ سے زیادہ ایک نیکی اس کے مقابل جاکر بھی نو نیکیاں بچ رہیں۔ پھر جس کی اکائیاں دھائیوں پر غالب آجائیں وہ تو واقعی خود ہی بد اور برا ہے۔ پھر انہیں دھمکایا جاتا ہے جو اللہ کے احکام کی رو گردانی کرلیں اور رسولوں کی نہ مانیں کہ ایسے لوگوں کو ضرور ضرور قیامت کے دن سخت عذاب ہوگا۔ تم سب کو لوٹ کر مالک ہی کے پاس جانا ہے، اسی کے سامنے جمع ہونا ہے۔ وہ ہر چیز پر قادر ہے، اپنے دوستوں سے احسان اپنے دشمنوں سے انتقام، مخلوق کی نئی پیدائش، سب اس کے قبضے میں ہے۔ پس پہلے رغبت دلائی اور اب ڈرایا۔

آیت 1 - سورہ ہود: (الر ۚ كتاب أحكمت آياته ثم فصلت من لدن حكيم خبير...) - اردو