سورہ فاطر: آیت 2 - ما يفتح الله للناس من... - اردو

آیت 2 کی تفسیر, سورہ فاطر

مَّا يَفْتَحِ ٱللَّهُ لِلنَّاسِ مِن رَّحْمَةٍ فَلَا مُمْسِكَ لَهَا ۖ وَمَا يُمْسِكْ فَلَا مُرْسِلَ لَهُۥ مِنۢ بَعْدِهِۦ ۚ وَهُوَ ٱلْعَزِيزُ ٱلْحَكِيمُ

اردو ترجمہ

اللہ جس رحمت کا دروازہ بھی لوگوں کے لیے کھول دے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جسے وہ بند کر دے اسے اللہ کے بعد پھر کوئی دوسرا کھولنے والا نہیں وہ زبردست اور حکیم ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ma yaftahi Allahu lilnnasi min rahmatin fala mumsika laha wama yumsik fala mursila lahu min baAAdihi wahuwa alAAazeezu alhakeemu

آیت 2 کی تفسیر

ما یفتح اللہ ۔۔۔۔۔۔۔ وھو العزیز الحکیم (2) ” “۔

اس سورة کی اس دوسری آیت میں اللہ کی قدرتوں کا ایک رنگ دکھایا گیا ہے جبکہ پہلی آیت میں اللہ کی قدرت کا ذکر تھا۔ جب یہ رنگ کسی انسان کے تصور اور عمل میں بیٹھ جاتا ہے تو اس کے تصورات ، اس کا شعور ، اس کا رخ ، اس کے حسن و قبح کے پیمانے بھی اس رنگ میں رنگے جاتے ہیں اور اسکی پوری زندگی اس رنگ میں رنگی جاتی ہے۔

یوں کہ یہ رنگ انسان کو اس کائنات کی پوری قوتوں سے کاٹ کر اللہ کی قوت سے جوڑ دیتا ہے۔ اسے زمین و آسمان کی تمام مشکوک رحمتوں سے مایوس کردیتا ہے۔ صرف اللہ کی رحمت سے جو ڑتا ہے اور اس کے امیدوار بنا دیتا ہے۔ زمین و آسمان کے تمام دروازے بند کرکے صرف اللہ کا دروازہ کھلا چھوڑتا ہے اور اس کے سامنے زمین و آسمان کے تمام راستے بند کرکے صرف اللہ کا دروازہ کھلا چھوڑتا ہے۔ اس کے سامنے زمین و آسمانوں کے تمام راستے بند کرکے صرف اللہ کا راستہ کھلا چھوڑتا ہے۔

اللہ کی رحمت کے مظاہر متعدد ہوتے ہیں ، لا تعداد ہوتے ہیں۔ اللہ نے انسانوں کی جس انداز سے تخلیق کی ، اس کی نفس

کے اندر جو ممتاز قوتیں ودیعت کیں اور اپنی مخلوق میں سے جس طرح اسے مکرم بنایا صرف ان رحمتوں کو اگر انسان قلم بند کرنا چاہئے تو وہ انتہاؤں تک نہیں پہنچ سکتا۔ جس طرح اللہ نے انسان کے لیے اس کے ماحول کو سازگار بنایا ہے۔ اس کے اردگرد ، اس کے اوپر نیچے ہر چیز کو اس کے لیے مسخر کیا ہے اور اس کے اوپر جو انعامات کیے ہیں جنہیں وہ جانتا ہے اور وہ انعامات جنہیں وہ نہیں چاہتا ، یہ انعامات بیشمار ہیں ، ان گنت ہیں۔

اللہ کی رحمت ان چیزوں میں بھی موجود ہے جو ممنوع ہیں۔ ان میں بھی موجود ہے ، جن کی اجازت ہے اور جس شخص پر اللہ کی رحمتوں کا دروازہ کھل جاتا ہے ، اسے یہ رحمت ہر چیز میں نظر آتی ہے۔ ہر حال ، ہر ماحول ، اور ہر جگہ نظر آتی ہے۔ اس کے شعور میں ، اس کے ماحول میں جہاں بھی وہ ہو ، جیسا بھی ہو ، اگرچہ انسان ان تمام نعمتوں سے محروم ہوجائے جنہیں لوگ محرومیت سمجھتے ہیں۔ اس رحمت سے اپنی آپ کو وہ ہر شخص محروم پاتا ہے جس پر اللہ اس کا دروازہ ہر چیز میں بند کردیتا ہے۔ ایسا شخص پھر ہر حال میں ، ہر صورت میں اور ہر جگہ محروم ہی ہوتا ہے اگرچہ اس کے پاس بظاہر وہ سازوسامان موجود ہوں جس کو لوگ خوشحالی تصور کرتے ہیں۔ دنیا کے بیشمار سازوسامان ایسے ہوتے ہیں جن کے ساتھ اللہ کی رحمت شامل نہیں ہوتی ، وہ عذاب الٰہی بن جاتے ہیں اور کئی ایسی مشکلات ہوتی ہیں جن کے ساتھ اللہ کی رحمت شامل ہوتی ہے۔ یہ مشکلات بذات خود رحمت بن جاتی ہیں۔ بعض اوقات انسان کانٹوں پر سوتا ہے مگر اس پر اللہ کی رحمت ہوتی ہے۔ یہ کانٹے اس کے لیے نرم بچھونا ہوجاتے ہیں ۔ بعض اوقات نرم و نازک بستر انسان کے لیے کانٹے بن جاتے ہیں اور بہت ہی اذیت کا باعث ہوتے ہیں۔ انسان مشکل ترین کام کر رہا ہوتا ہے اور وہ اس کے لیے اللہ کی رحمت ہوتے ہی پر تعیش زندگی بسر کر رہا ہوتا ہے لیکن وہ اس کے لیے مصیبت ہوتی ہے۔ بعض اوقات وہ ایک خوفناک صورت حالات میں گھس جاتا ہے اور وہ اس کے لیے امن ہوتا ہے اور بعض اوقات وہ مشکلات کے بغیر مراحل عبور کرلیتا ہے اور وہ اس کے لیے ہلاکت کا باعث بن جاتے ہیں۔

اللہ کی رحمت کے ساتھ کوئی تنگی ، تنگی نہیں رہتی۔ اگرچہ کوئی جیل کی تاریکیوں میں ہو ، یا ہلاکت کی دیواروں میں یا سخت مصائب میں ہو ، بلکہ اللہ کی رحمت کے سوا تمام کشادگیاں تنگی ہوتی ہیں۔ اگرچہ کوئی نعمتوں اور سہولتوں میں زندگی بسر کر رہا ہو۔ خوشحال ہو ، اسے زندگی کی تمام سہولیات حاصل ہوں۔ جب انسان اللہ کی رحمت کی وجہ سے قلبی طمانیت کا مقام حاصل کرلیتا ہے تو اس کے اندر سے نیک بختی ، رضا مندی اور اطمینان کے سرچشمے پھوٹنے لگتے ہیں اور یوں نفس کے اندر قلق ، تھکاوٹ ، واماندگی اور محنت و مشقت کی تکلیف وہ نیش زیناں ختم ہونا شروع ہوجاتی ہیں اگرچہ وہ نفس کے اندر جمی ہوئی ہوں۔

اللہ کی رحمت کی کنجی تمام دروازوں کے لیے ماسٹر چابی ہے۔ اس سے تمام دروازے کھل جاتے ہیں ، اس سے تمام چھوٹی چھوٹی کھڑکیاں بند ہوجاتی ہیں اور تمام غلط راہیں مسدود ہوجاتی ہیں ، انسان بےفکر ہوجاتا ہے ، اللہ کی رحمت کا دروازہ کھل جانے سے پھر وسعتیں ، کشادگیاں اور آرام و سکون حاصل ہوجاتا ہے ۔ یہ ایک ایسا دروازہ ہے کہ اس کے کھل جانے سے تمام نفع بخش دروازے اور راستے کھل جاتے ہیں اور تمام غیر نفع بخش دروازے بند ہوجاتے ہیں اور جب یہ دروازہ بند ہوجائے تو تمام ایسے دروازے ، کھڑکیاں اور راستے کھل جاتے ہیں جو نفع بخش نہیں ہوتے اور انسان تنگی ، کرب ، سختی ، بےچینی اور داماندگی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔

بعض اوقات اللہ کا یہ فیض انسان کو ڈھانپ لیتا ہے ، پھر اگر زندگی تنگ ہو یا مالی حالت اچھی نہ ہو ، رہنے اور سہنے کے حالات خراب ہوں تو کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ یہ فیض رحمت ہی دوام ، راحت ، سعادت ہے۔ اور جب اس رحمت کا دروازہ بند ہوتا ہے اور دوسری جانب سے رزق کشادہ ہوتا ہے اور ہر سامان کی آمد آمد ہوتی ہے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا بلکہ اسے سے تنگی ، حرج اور شقاوت و بدبختی حاصل ہوتی ہے۔ مال و دولت ، صحت و قوت ، شان و شوکت بھی بسا اوقات رنج الم اور تھکاوٹ اور مشقت کا باعث ہوتے ہیں۔ اگر دست قدرت اپنا فضل و رحمت کھینچ لے۔

بعض اوقات اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت اور متاع حسن اور دنیا کے سازو سامان کو جمع کردیا ۔ پھر کیا ہوتا ہے ہر طرف آرام اور سکون ہوتا ہے۔ دنیا میں عیش و عشرت اور آخرت کے لیے پوری تیاری ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کے خلاف پھر دنیا پرستوں کے دل میں حسد اور کینہ برپا ہوتا ہے لیکن مال و دولت کے ساتھ ایک شخص کو اگر بخل دے دیا جائے تو وہ محروم ہوجاتا ہے یا مال و دولت کے ساتھ بیماری بھی دے دی جائے تو بھی وہ دنیا کے انعامات سے محروم ہوجاتا ہے اور بعح اوقات مالدار سرکش ہوجاتا ہے اور اس کا مال تلف بھی ہوجاتا ہے۔

بعض اوقات اللہ کسی بو اولاد دیتا ہے اور اس اولاد کے ساتھ رحمت خداوندی بھی شامل ہوتی ہے ۔ پھر یہ اولاد زینت حیات بن جاتی ہے۔ خوشی اوسعادت کا باعث بن جاتی ہے اور آخرت میں ، مزید اجر کا باعث بنتی ہے۔ وہ اس شخص کے لیے نیک اور اچھے جانشین بن جاتے ہیں اور اسی اولاد کے ساتھ اگر رحمت خداوندی نہ ہو تو یہی میٹھی اولاد زحمت بن جاتی ہے ، بلائے جان ہوتی ہے ، باعث بدبختی اور پریشانی ہوتی ہے۔ راتوں کی نیند حرام کردیتی ہے اور دن کا آرام غارت کردیتی ہے۔ اللہ انسان کو صحت اور قوت دیتا ہے۔ اب اگر اس صحت اور قوت کے ساتھ رحمت خداوندی بھی ہو تو یہ نعمت ہوتی ہے۔ زندگی اچھی طرح بسر ہوتی ہے۔ زندگی کی لذتوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر اس صحت و قوت کے ساتھ رحمت خداوندی شامل نہ ہو تو یہ صحت اور یہ قوت بلائے جان بن جاتی ہے۔ اور ایک صحیح اور قوی شخص مصیبت میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ وہ اپنی صحت اور اپنی قوت کو ان کاموں میں کھپا دیتا ہے جو خود اس کی صحت اور قوت کے لیے تباہ کن ثابت ہوتے ہیں۔ اس کی روح اور اس کے اخلاق کی تباہی کے ساتھ ساتھ اس کی آخرت بھی تباہ ہوجاتی ہے۔

بعض لوگوں کو اللہ مرتبہ اور مقام دیتا ہے اور اس کی رحمت ایسے لوگوں کے شامل حال ہوتی ہے ۔ یہ مرتبہ و مقام اصلاح کا ذریعہ بن جاتے ہیں ۔ ملک میں امن قائم ہوجاتا ہے اور یہ مرتبہ و جاہ اس بات کا ذریعہ بن جاتے ہیں کہ انسان اپنے پیچھے اچھے اعمال اور اچھے آثار چھوڑے جو آخرت کا بہترین ذخیرہ ہوں ۔ اگر اللہ کی رحمت اقتدار اور جاہ کے ساتھ شامل نہ ہو تو وہ شخص بےچین رہتا ہے۔ لوگوں پر ظلم کرتا ہے ۔ حد دے تجاوز کرتا اور سرکشی اختیار کرتا ہے۔ لوگوں کے ساتھ نہایت بغض اور کینہ رکھتا ہے۔ یہ جاہ و اقتدار ہی ایسے لوگوں کے لیے عداوت کا ذریعہ بن جاتا ہے اور ایسا شخص پھر ایسے کام کرتا ہے کہ اپنے لیے آخرت میں آگ کا ایک بہت بڑا سرمایہ جمع کرلیتا ہے۔

گہرا علم اور طویل عمر اور جاہ و مرتبہ بدلتے رہتے ہیں۔ کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ علم و معرفت کسی کے لیے مفید ہوتے ہیں اور کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ طویل عمر باعث برکت ہو۔ بعض اوقات یوں ہوتا ہے کہ قلیل عمر ہی برکت کا باعث ہوتی ہے اور نہایت ہی قلیل مال و دولت بڑی سعادت مندی کا ذریعہ ہوجاتا ہے۔

جماعت بھی ایک فرد کی طرح ہوتی ہے اور ملت بھی ایک فرد ہے۔ ہر حال اور ہر صورت میں اور مثالوں پر غور کرنے سے کوئی نتیجہ نکالنا مشکل کام نہیں ہے۔ اللہ کی رحمت کی علامت یہ ہے کہ انسان اللہ کی رحمت کو محسوس کرے۔ اس طرح اللہ کی رحمت پھر انسان کو سینے سے لگا لیتی ہے اور رحمر الٰہی کی بارش ہوجاتی ہے۔ فیوض و برکات نازل ہوتے ہیں۔ لیکن کسی کا یہ شعور کہ اس پر اللہ کی رحمت ہے ، سب سے بڑی رحمت یہی ہے ۔ کسی انسان کا صرف اللہ سے امیدوار ہونا ، اسی پر بھروسہ کرنا رحمت ہے۔ ہر معاملے میں اللہ سے امیدیں وابستہ کرنا اور اللہ پر اعتماد کرنا ہی رحمت ہے۔ اور حقیقی عذاب یہ ہے کہ انسان اس سے چھپ جائے۔ اس سے مایوس ہوجائے اور اس میں شک کرے۔ یہ ایک ایسا عذاب ہے جو کسی مومن کے کبھی قریب ہی نہیں جاتا۔

انہ لا بیئس ۔۔۔۔۔ الکفرون ” اس میں شک نہیں ہے کہ اللہ کی رحمت سے مایوس صرف کافر ہوا کرتے ہیں “۔

اللہ کی رحمت کا اگر کوئی طالب ہو تو وہ ہر کسی کو ہر جگہ مل جاتی ہے۔ کسی کے لیے ناپید نہیں ہے۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے اسے آگ میں پایا۔ یونس (علیہ السلام) نے اسے مچھلی کے پیٹ کے اندھیروں میں پایا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اسے سمندر کی لہروں میں پایا جبکہ وہ طفل ناتواں تھے۔ پھر انہوں نے اسے فرعون کے محل میں پایا جبکہ وہ ان کا دشمن ہوگیا اور اس کی تلاش میں نکل گیا۔ اصحاب کہف نے اسے غار میں پایا جبکہ محلات اور شہروں میں وہ اس سے محروم رہے جب انہوں نے یہ فیصلہ کیا۔

فاوا الی الکھف ینشرلکم ربکم من رحمتہ (18: 16) ” غار میں پناہ لے لو ، تمہارا رب تمہارے لیے اپنی رحمت کی چادر بچھا دے گا “۔ رسول اللہ ﷺ اور ان کے رفیق نے اسے غار میں پایا جبکہ کفار ان لوگوں کا تعاقب کر رہے تھے۔ اور ان کے قدموں کے نشانات کو تلاش کرکے غار کے دھانے تک پہنچ گئے تھے۔ یہ رحمت ہر اس شخص کو ملتی ہے جو تمام دوسرے ذرائع سے مایوس ہوجائے اور اسے بالکل یہ امید نہ رہے کہ اللہ کے سوا کوئی اور قوت بھی بچانے والی ہے اور وہ پوری طرح یقین کرتا ہے کہ اب اللہ کی رحمت ہی بچانے والی ہے اور تمام دروازوں کو چھوڑ کر وہ اللہ کے در پر سوالی ہوگیا ہو۔

پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر اللہ اپنی رحمت کا دروازہ کسی پر کھول دے تو اس کا بند کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ اور جب اللہ اپنی رحمت کے دروازے کسی پر بند کر دے تو کوئی کھولنے والا نہیں ہوتا۔ لہٰذا ایک سچے مومن کے دل میں کسی کا ڈر نہیں ہوتا۔ کسی سے کچھ امید نہیں رہتی۔ کسی چیز کے چلے جانے کا خوف نہیں رہتا اور کسی چیز کی امید نہیں رہتی کسی ذریعے کے فوت ہونے کا ڈر نہیں ہوتا اور کسی وسیلے کی موجودگی کی بھی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی۔ اللہ کی مطلق مشیت ہی اصل فیکٹر ہے۔ لہٰذا اللہ اپنی رحمت کے دروازے کھول دے تو کوئی بند کرنے والا نہیں ہے اور اگر وہ بند کر دے تو کوئی کھولنے والا نہیں ہے۔ معاملہ براہ راست اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ وہ عزیز و حکیم ہے۔ وہ ایسے اندازے اور تقدیر مقرر کرتا ہے کہ کسی کو روکنے یا عطا کرنے کا کوئی اختیار ہی نہیں رہتا۔ اللہ کی عطا اور اللہ کا روک لینا اس کی اپنی رحمت کے مطابق ہوتا ہے۔ بلکہ اس کی اپنی حکمتوں کے مطابق ہوتا ہے اور اللہ کے ہر کام کے پیچھے ایک حکمت کام کر رہی ہوتی ہے۔

ما یفتح اللہ ۔۔۔۔۔ ممسک لھا ” اللہ جس رحمت کا دروازہ بھی لوگوں کے لیے کھول دے اسے کوئی روکنے والا ہی نہیں ہے “۔ اللہ کی رحمت اور لوگوں کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں۔ لوگ براہ راست اللہ سے براہ راست طلب کرسکتے ہیں۔ وہ بلا وسیلہ طلب کرسکتے ہیں۔ صرف بندے کی طرف سے توجہ ، اطاعت ، امید ، بھروسے اور سر اطاعت ختم کردینے کی ضرورت ہے

وما یمسک فلا مرسل لہ من بعدہ ” اور جسے وہ بند کر دے اسے پھر اللہ کے سوا کوئی کھولنے والا نہیں ہے “۔ یہ آیت انسانی ضمیر کو انتہائی قرار و سکون اور انسانی شعور اور تصور کو نہایت ہی نمایاں کرتی اور انسانی اقدار اور پیمانوں کو اونچا معیار عطا کرتی ہے۔ انسانی شخصیت کو وقار اور اطمینان ملتا ہے۔ یہ ایک مختصر آیت ہے لیکن زندگی کے لیے بالکل ایک نیا نقشہ تیار کرتی ہے۔ انسانی تصور اور شعور کو نہایت مستحکم قدریں عطا کرتی ہیں۔ ایسی قدریں جن میں نہ تزلزل ہے ، نہ جھکاؤ اور نہ وہ وقتی باتوں سے متاثر ہوتی ہیں۔ یہ اثرانداز ہونے والے فیکٹر آئیں یا جائیں ، بڑے ہوں یا چھوٹے ہوں ، عظیم ہوں یا چھوٹے ہوں ، ان کا مبدا لوگ ہوں یا واقعات ہوں ، یا اشیاء ہوں۔ ان سے یہ قدریں متاثر نہیں ہوتیں۔

یہ زندگی کی ایک صورت ہے اگر یہ عقیدہ انسانی زندگی میں بیٹھ جائے تو وہ واقعات ، اشیاء ، افراد ، بڑی بڑی قوتوں ، اقدار اور حالات کے سامنے پہاڑ کی طرح سینہ سپر ہو کر کھڑا ہوجائے۔ اگرچہ اس پر جن و انس باہم مل کر ، سب کے سب ٹوٹ پڑیں۔ یہ تمام جن و انس نہ اللہ کی رحمت کے دروازے کو بند کرسکتے اور نہ اگر بند ہوں تو کھول سکتے ہیں۔ صرف اللہ ہی العزیز اور الحکیم ہے۔

اسلام کے آغاز میں اسلام اور قرآن نے انسانوں کا ایک ایسا ہی گروہ پیدا کردیا تھا۔ یہ ایسا گروہ تھا کہ اللہ نے خود اپنی نگرانی میں اس قرآن کے ذریعہ پیدا کردیا تھا ، تاکہ یہ گروہ قدرت الہیہ کے لیے دست قدرت ہو۔ یہ گروہ اس زمین کے اندر وہ عقائد و تصورات تخلیق کرے جنہیں اللہ چاہتا تھا۔ وہ قدریں عطا کرے جن کو اللہ کھڑا کرنا چاہتا تھا۔ وہ حالات اور صورت حالات پیدا کر دے جو اللہ چاہتا تھا اور دنیا کے اندر ایک ایسی زندگی ، عملی زندگی قائم کرکے چلا جائے جس کے بارے میں آج جب ہم پڑھتے ہیں تو وہ ہمیں افسانہ اور قصے نظر آتے ہیں۔ وہ گروہ جو اللہ کی تقدیر تھا ، اسے اللہ جس پر چاہتا تھا ، مسلط کردیتا تھا۔ اس کے ذریعہ اللہ نے کچھ کو اقوام کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا اور کچھ کو قائم کردیا۔ جنہیں اللہ مٹانا چاہتا تھا یا جنہیں اللہ کھڑا کرنا چاہتا تھا۔ یہ اس لیے کہ یہ یہ گروہ اس قرآن کے الفاظ ہی کے ساتھ معاملہ نہ کرتا تھا ، نہ خوبصورت نطریات و تصورات ہی سے بحث کرتا تھا بلکہ اس نے قرآن کو اپنی زندگیوں کے اندر عملاً قائم کردیا تھا اور وہ گروہ قرآن کی دنیا میں زندہ رہتا تھا۔

وہی قرآن لوگوں کے پاس موجود ہے۔ یہ قرآن اب بھی ایسے گروہ پیدا کرسکتا ہے جو دنیا سے اقوام کو مٹا دیں اور دوسری

اقوام کو اٹھا دیں۔ لیکن یہ تب ہوگا کہ قرآنی تصورات کسی گروہ کی زندگی میں ٹھوس شکل میں ، عملی شکل میں بیٹھ جائیں ، رائج ہوجائیں اور قرآن کسی گروہ کی زندگی میں چلتا پھرتا نظر آئے ۔ اسے لوگ آنکھوں سے دیکھ سکیں اور ہاتھوں سے چھو سکیں۔

اب میں اس طرح آتا ہوں کہ اس مختصر آیت کے ذریعے میں نے معلوم کرلیا ہے کہ اللہ کی مجھ پر خاص رحمت ہے۔ میں نے جب اس آیت کا سامنا کیا تو میں روحانی لحاظ سے نہایت ہی خشک ، فکری لحاظ سے بہت تنگ ، نفسیاتی لحاظ سے بہت ہی پریشان ، جسمانی اور سازوسامان کے لحاظ سے مشکل حالات میں تھاما۔ ایسے سخت اور شدید حالات میں ، میں نے اس آیت کا مطالعہ کیا۔ اللہ نے مجھے اس آیت کی حقیقت تک پہنچا دیا۔ یہ حقیقت میری روح میں انڈیل دی گئی۔ گویا وہ ایک شراب طہور ہے جو میرے جسم کی رگ رگ میں سرایت کر رہی ہے اور میں اسے محسوس کر رہا ہوں۔ یہ حقیقت ہے جس کا میں ادراک کر رہا ہوں۔ محض تصور نہیں ہے۔ یہ حقیقت بذات خود میرے لیے رحمت ہے اور یہ آیت میرے سامنے خود اپنی تفسیر بیان کر رہی ہے۔ یہ ایک واقعی اور عملی تفسیر تھی۔ جس طرح اس آیت کے اسرار و رموز میرے سامنے کھلے اسی طرح اللہ کی رحمت کے دروازے بھی میرے سامنے کھلے۔ اس سے قبل میں اس آیت کو پڑھتا رہا اور اس آیت کے پاس سے اس سے قبل میں بارہا گزرا ہوں لیکن آج یہ آیت مجھ پر رحمت کا فیضان کر رہی ہے۔ میں اس کے معانی اور مفہومات سے سیراب ہو رہا ہوں۔ میں اس آیت کی حقیقت کو صاف صاف دیکھ رہا ہوں۔ یہ آیت مجھے پکار رہی ہے کہ آئیے میں ادھر ہوں۔ میں اللہ کی رحمت ہوں ، جس کا دروازہ کبھی کبھی کھلتا ہے۔ ذرا دیکھئے اللہ کی رحمت کے کرشمے۔

غور کیجئے میرے ماحول کی کوئی چیز نہیں بدلی لیکن میرے احساس نے اب ہر چیز کو ایک نیا رنگ دے دیا ہے۔ یہ ایک نہایت عظیم رحمت ہے جو کسی پر ہوجاتی ہے۔ اللہ کی رحمت کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ جس طرح اس آیت کے خزانے مجھ پر کھل گئے۔ یہ ایک نعمت خدواندی ہے اور جب یہ کسی پر آتی ہے تو انسان اسے چکھتا ہے۔ اس کے اندر زندگی بسر کرتا ہے لیکن اس کے لیے اس کا بیان کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اسی طرح اس احسا کو اور اس ذوق کو قلم بند کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ میں ایک عرصہ رحمت خداوندی کے اس فیضان میں زندہ رہا ہوں ، اسے محسوس کرتا رہا ہوں اور اسے پہچانتا رہا ہوں۔ اپنی زندگی کے مشکل ترین حالات میں مجھ پر یہ کیفیت طاری ہوئی ہے۔ اب میری حالت یہ ہے کہ میں کشادگی ، خوشی ، سیرابی ، آزادی اور بےقیدی محسوس کرتا ہوں۔ ہر چیز سے آزادی ، ہر کرب اور ہر رنج سے آزادی محسوس کرتا ہوں اور میں اسی جگہ ہوں ، جہاں تھا۔ یہ اللہ کی رحمت ہی ہے جس کے دروازے مجھ پر کھل گئے ہیں۔ یہ اللہ کا فیض ہی ہے جس کی مجھ پر اس آیت کے ذریعہ بارش ہو رہی ہے۔ یہ آیت ہے ، قرآن کی بس ایک ہی آیت لیکن اس نے تاریک کوٹھڑی میں روشنی کا ایک طاق کھول دیا ہے۔ اس نے میری سیرابی کے لیے خشک جگہ پر ایک چشمہ آب صافی بہا دیا ہے اور میں اب نہایت ہی کھلی شاہراہ پر رضائے الٰہی کی سمت نہایت ہی اطمینان کے ساتھ بڑھ رہا ہوں۔ اور چشم زون میں۔ اذیت کے بجائے میری زندگی راحت میں بدل گئی ہے۔ الحمدللہ ، حمدا کثیرا ” اے پروردگار ، جس نے اس قرآن کو اللہ کی رحمت بنا کر بھیجا مومنین کے لیے رحمت اور شفاء اور ہدایت “۔

مطالعہ کلام الٰہی کے دوران یہ ایک چمک تھی جسے میں نے قلم بند کردیا۔ اب دوبارہ ہم سورة کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ پہلی دو آیات کے اندر جو اشارات تھے وہی تیسری آیت میں بھی ہیں۔ لوگوں پر ان کے حوالے سے اللہ کے انعامات اور رحمتوں کا ذکر ہے۔ اللہ جس کے سوا کوئی الٰہ مالک اور حاکم اور رازق نہیں ہے۔ تعجب انگیز اسلوب سے کہا جاتا ہے کہ اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے بھی یہ لوگ یہ اختیارات اللہ کے سوا کسی اور معبود کو دیتے ہیں۔

آیت 2 { مَا یَفْتَحِ اللّٰہُ لِلنَّاسِ مِنْ رَّحْمَۃٍ فَلَا مُمْسِکَ لَہَا } ”جو رحمت کا دروازہ بھی اللہ لوگوں کے لیے کھول دے تو اسے بند کرنے والا کوئی نہیں۔“ یہاں ”رحمت“ سے مراد نبوت ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے انسانیت کی ہدایت کے لیے وحی کا جو سلسلہ شروع کیا ہے وہ اللہ کی رحمت کا بہت بڑا مظہر ہے۔ اسی لیے سورة الانبیاء میں نبی اکرم ﷺ کے بارے میں فرمایا گیا : { وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ۔ ”اور اے نبی ﷺ ! ہم نے نہیں بھیجا ہے آپ کو مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر“۔ بنی نوع انسان کو چونکہ ایک بہت بڑے امتحان سے سابقہ ہے ‘ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کی آسانی کے لیے نبوت کا دروازہ کھول دیا ہے اور اپنے رسول کی شخصیت اور سیرت کو ان کے سامنے رکھ دیا ہے ‘ جو بذات خود اللہ کی نشانیوں میں سے ایک بہت بڑی نشانی ہے ‘ تاکہ لوگ احکامِ وحی سے راہنمائی حاصل کریں اور رسول اللہ ﷺ کی سیرت کی پیروی کر کے اس امتحان میں سرخرو ہونے کی کوشش کریں۔ بہر حال یہاں پر اس حوالے سے اللہ تعالیٰ کی حکمت ‘ مشیت اور اختیار کا ذکر اس طرح فرمایا گیا کہ انسانیت کی راہنمائی کے لیے اس نے نبوت کی صورت میں اپنی رحمت کا جو دروازہ کھولا ہے اسے کوئی بند نہیں کرسکتا۔ { وَمَا یُمْسِکْ فَلَا مُرْسِلَ لَہٗ مِنْ بَعْدِہٖ } ”اور جسے وہ روک لے تو پھر اسے کوئی جاری کرنے والا نہیں ہے اس کے بعد۔“ جب اللہ تعالیٰ اپنی حکمت اور مشیت سے نبوت کا دروازہ بند فرما دے گا تو پھر اسے کوئی کھول نہیں سکے گا۔ چناچہ محمد رسول اللہ ﷺ کے بعد نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہوچکا ہے ‘ اس لیے اب کوئی نبی نہیں آئے گا۔ البتہ مختلف ادوار میں نبوت کے جھوٹے دعویداروں کی صورت میں دجالوں کا ظہور ہوتا رہے گا۔ { وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ } ”اور یقینا وہ زبردست ہے ‘ کمال حکمت والا ہے۔“

اللہ تعالیٰ کا چاہا ہوا سب کچھ ہو کر رہتا ہے بغیر اس کی چاہت کے کچھ بھی نہیں ہوتا۔ جو وہ دے اسے کوئی روکنے والا نہیں۔ اور جسے وہ روک لے اسے کوئی دینے والا نہیں۔ نماز فرض کے سلام کے بعد اللہ کے رسول ﷺ ہمیشہ یہ کلمات پڑھتے۔ اور حضور ﷺ فضول گوئی اور کثرت سوال اور مال کی بربادی سے منع فرماتے تھے اور آپ لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے اور ماؤں کی نافرنیاں کرنے اور خود لینے اور دوسروں کو نہ دینے سے بھی روکتے تھے (بخاری۔ مسلم وغیرہ) صحیح مسلم شریف میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے اسی آیت جیسی آیت (وَاِنْ يَّمْسَسْكَ اللّٰهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهٗٓ اِلَّا هُوَ ۭ وَاِنْ يَّمْسَسْكَ بِخَيْرٍ فَهُوَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ 17؀) 6۔ الانعام :17) ہے۔ اور بھی اس کی نظیر کی آیتیں بہت سی ہیں۔ حضرت امام مالک ؒ فرماتے ہیں کہ بارش برستی تو حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہم پر فتح کے تارے سے بارش برسائی گئی۔ پھر اسی آیت کی تلاوت کرتے (ابن ابی حاتم)

آیت 2 - سورہ فاطر: (ما يفتح الله للناس من رحمة فلا ممسك لها ۖ وما يمسك فلا مرسل له من بعده ۚ وهو العزيز...) - اردو