سورہ فاطر: آیت 1 - الحمد لله فاطر السماوات والأرض... - اردو

آیت 1 کی تفسیر, سورہ فاطر

ٱلْحَمْدُ لِلَّهِ فَاطِرِ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ جَاعِلِ ٱلْمَلَٰٓئِكَةِ رُسُلًا أُو۟لِىٓ أَجْنِحَةٍ مَّثْنَىٰ وَثُلَٰثَ وَرُبَٰعَ ۚ يَزِيدُ فِى ٱلْخَلْقِ مَا يَشَآءُ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ

اردو ترجمہ

تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جو آسمانوں اور زمین کا بنانے والا اور فرشتوں کو پیغام رساں مقرر کر نے والا ہے، (ایسے فرشتے) جن کے دو دو اور تین تین اور چار چار بازو ہیں وہ اپنی مخلوق کی ساخت میں جیسا چاہتا ہے اضافہ کرتا ہے یقیناً اللہ ہر چیز پر قادر ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Alhamdu lillahi fatiri alssamawati waalardi jaAAili almalaikati rusulan olee ajnihatin mathna wathulatha warubaAAa yazeedu fee alkhalqi ma yashao inna Allaha AAala kulli shayin qadeerun

آیت 1 کی تفسیر

درس نمبر 199 تشریح آیات

1 ۔۔۔ تا۔۔ 3

الحمدللہ فاطر السمٰوٰت ۔۔۔۔۔۔۔۔ کل شیء قدیر (1) “۔ سورة کا آغاز حمد باری سے ہو رہا ہے ۔ اس پوری سورة کا مضمون یہ ہے کہ انسانی دل کو اللہ کی طرف متوجہ کیا جائے ۔ اللہ کی نعمتوں کو دیکھا جائے ، اللہ کی رحمتوں کا شعور زندہ کیا جائے اور انسان کو اس طرف متوجہ کیا جائے کہ اپنی مخلوقات میں اللہ نے کیا کیا عجائبات پیدا لیے ہیں ۔ انسانی احساس کو ان عجائنات کے شعور سے بھر دیا جائے اور نتیجہ انسان اللہ کی حمد وثنا میں رطب اللسان ہو۔

سب حمد اللہ کے لیے ہے ۔

الحمدللہ (35: 1) ” سب تعریف اللہ کے لیے ہے “۔ اور اس کے بعد اللہ کی وہ صفت بیان ہورہی ہے جو خلق اور ایجاد پر دلالت کرتی ہے ۔

فاطرالسموت والارض (35: 1) ” جو آسمانوں اور زمین کا بنانے والا ہے “۔ وہ ان عظیم اور ہولناک مخلوقات کا پیدا کرنے والا ہے جنہیں ہم اپنے اوپر نیچے دیکھ رہے ہیں ۔ جہاں بھی ہم ہوں اور ان میں سے نہایت ہی چھوٹے اجسام اور ہم سے قریب ترین اجسام کے بارے میں ہم کچھ معلومات رکھتے ہیں ۔ ان تمام اجسام کو ایک ہی قانون قدرت کنٹرول کرتا ہے ، نہایت ہی تناسب اور توافق کے ساتھ ۔ یہ سب چیزیں چلتی ہیں اور ان کا تصور بھی ہم اپنے ذہن پر بہت بڑا بوجھ ڈال کر ، کرسکتے ہیں۔ یہ تمام اجسام اپنی عظمت اور خوفناکی کے ساتھ ساتھ ایک ایسے دقیق اور پیچیدہ تناسب کے ساتھ اپنے مدارات میں ایک ہی رخ پر چلتے ہیں کہ اگر اس تناسب میں بالفعل ایک معمولی فرق آجائے تو یہ تمام عظیم اجسام ایک دوسرے کے ساتھ ٹکراکر پاش پاش ہوجائیں اور قیامت برپا ہوجائے اور سب کے سب روٹی کے گالوں کی طرح بکھر جائیں ۔

قرآن کریم اسی عظیم تخلیق سماوات کی طرف باربار اشارہ کرتا ہے اور ہم اس پر سے یو نہی گزر جاتے ہیں ، بغیر اس کے کہ ہم اس کے سامنے رک کر قدرت تامل اور تدبر کریں ۔ اس کی کیا وجہ ہے ؟ یہ کہ ہمارا احساس جمود اختیار کر گیا ہے ۔ ہماری عقل وخرد کے تار زنگ آلود ہوگئے ہیں اور ان پر قرآن کو یم کے منصراب کی اس قدر سخت ضربات بھی کارگر نہیں ہیں اور ان ضربات کے باوجود ان سے کوئی نغمہ نہیں نکلتا۔ وہ سرودجو کبھی اللہ کے لیے جڑے ہوئے دلوں سے نکلتا تھا ، جو اللہ کو یاد کرتے تھے اور اللہ کی قدرت کی ان نشانیوں کو دیکھ کر دنگ رہ جاتے تھے ۔ اس کی وجہ یہ ہے اور یہ بڑی وجہ ہے کہ اس عظیم کائنات کو ہم دیکھتے دیکھتے اس کے اس قدر عادی بن گئے ہیں کہ اس کے عجائبات ہمیں عجائبات ہی نہیں لگتے ۔ ان کو بےمثال حسن ہمیں متاثر ہی نہیں کرتا اور ان کی نہایت ہی پیچیدہ ٹیکنا لوجی ہمیں ششدر نہیں کرتی ۔ اگر ہم ان پر ایسی نظر ڈالیں جس طرح کوئی انہیں پہلی مرتبہ دیکھتا ہے اور بہت ہی حیران ہوجاتا ہے ۔

یاد رہے کہ کھلے دل ، اللہ کے ساتھ جڑے ہوئے دل کے لیے آسمان میں ، ستاروں کے مواقع دمدار ات پر غور اور تد بر کرنے کے لیے ، ان کے حجم اور عظمت کو دیکھنے کے لیے ، اور ان کے ماحول کے مطالعے کے لیے ، بعض کا دوسرے کے ساتھ تعلق اور کشش کے معلوم کرنے کے لیے ۔ اور ہر ایک کے حجم ، ہر ایک کی حرکت اور ہر ایک کی حالات معلوم کرنے کے لیے کسی بڑے علم کی ضرورت نہیں ہے ، جو دل اللہ سے جڑا ہوا ہو ، اس کے لیے کسی بڑے اور گہرے علم کی ضرورت نہیں ہے ۔ معمولی توجہ سے اس کائنات کے حسن و جمال کو دیکھا جاسکتا ہے ۔ یہ مناظر ایک خدا سیدہ شخص کے دماغ کے تاروں کے اندر نغمہ پیدا کرنے کے لیے کافی ہیں ۔ رات کے وقت ذراصاف ستھری فضا اور صاف موسم میں ان گنت تاروں ہی کو چمکتا ہوا دیکھ لیجئے ! تاریک رات ہو اور موسم صاف ہو اور ہر ستارہ زمین پر ضوپاشی کررہاہو۔ پھر صبح کے وقت ذراسپیدۂ صبح کی نموداری اور سورج کے طلوع ہونے کے منظر کو دیکھئے ۔ اسی طرح پہاڑوں کی اوٹ میں ذدبنے والے سورج اور سرخ شفق ہی کو دیکھئے ۔ پھر اس چھوٹی سی زمین اور اس کے مختلف مواقع اور مناظر کو دیکھئے ۔ ان مناظر کو کوئی سیاح ختم نہیں کرسکتا اور نہ ان کی سیر سے سیر ہوسکتا ہے ۔ بلکہ میں کہوں گا کہ صرف ایک پھول ہی کو دیکھئے ۔ اس کا رنگ اور اس کی پتیاں اور اس کی تشکیل اور رنگوں کی تنظیم سبحان اللہ احسن الخالقین ۔

قرآن کریم ان امور کی طرف جابجا اشارات کرتا ہے ۔ بڑے بڑے مناظر کی طرف بھی اور چھوٹے چھوٹے پیش پا افتادہ مناظر کی طرف بھی ۔ اگر کوئی زندہ دل ان میں سے ایک کی طرف بھی اشارہ کر دے تو زندہ دبیدار مغز انسان کی ہدایت کے لیے صرف ایک ہی چیز یا ایک ہی پھول کا مطالعہ کا فی ہے اور کسی ایک چیز کے اندر موجود عجائبات پر بھی انسان اللہ کی حمد وثنا کا حق ادا نہیں کرسکتا ۔

الحمداللہ ۔۔۔۔ وربع (35: 1) ” تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جو آسمانوں اور زمین کا بنانے والا اور فرشتوں کو پیغام رساں مقرر کرنے والا ہے ، جن کے دودو ، تین تین ، اور چارچار بازو ہیں “۔ اس سورة میں موضوع سخن رسولوں ، وحی الٰہی اور نزول وحی ہے ، فرشتوں کا اس کے اندر بہت اہم کردار ہے کیونکہ یہ فرشتے ہی آسمانوں سے وحی لے کر مختار رسولوں کے پاس آیا کرتے ہیں اور یہ پیظام رسانی جو اللہ سے رسولسوں کے پاس آتی ہے ، نہایت ہی اہم اور نہایت ہی بھاری کام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کائنات کی عظیم تخلیقات کے بعد فرشتوں کی تخلیق کا خصوصی ذکر ہوا کیونکہ یہ فرشتے ہی زمین اور آسمان کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہیں۔ وہی رابطہ ہوتے ہیں خالق سماوات وارض اور اللہ کے مختار بندوں یعنی رسولوں کے درمیان اور یہ پیغام رسانی اور ذریعہ ربط اس کائنات کا اہم کام فریضہ رسالت کے بارے میں ہوتا ہے۔

قرآن کریم میں آغاز سے یہاں تک فرشتوں کا ذکر ہوتا رہا ہے لیکن فرشتوں کی شکل و صورت کے بارے میں پہلی مرتبہ بتایا گیا ہے ۔ اس سے قبل فرشتوں کی طبیعت اور ان کے فریضہ منصبی کی بات ہوتی رہی ہے مثلاً

ومن عندہ لا ۔۔۔۔۔ لا یفترون (انبیاء : 19- 20) ” اور جو اس کے پاس ہیں وہ نہ اپنے آپ کو بڑا سمجھ کر اس کی بندگی سے سرتابی کرتے ہیں۔ نہ ملول ہوتے ہیں۔ شب و روز تسبیح کرتے رہتے ہیں۔ دم نہیں لیتے “۔ دوسری جگہ ہے۔

ان الذین عند ۔۔۔۔۔ ولہ یسجدون (7: 206) ” جو فرشتے تمہارے رب کے حضور تقرب کا مقام رکھتے ہیں اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں آکر اس کی عبادت سے منہ نہیں موڑتے۔ اور اس کی تسبیح کرتے ہیں اور اس کے آگے جھکے رہتے ہیں “۔ (7: 206) یہاں ایک نیہ بات یہ کہی گئی ہے کہ ان کی تخلیقی صورت کیا ہے کہ ” جن کے دو دو ، تین تین اور چار چار بازو ہیں “۔ یہ ایک ایسی صفت ہے جس کی کوئی مثال نہیں ہے ، نہ اس کا ہم کوئی تصور کرسکتے ہیں کہ ان کے بازو اور پر کیسے ہیں۔ ہمیں بس چاہئے اور ہم یہی کرسکتے ہیں کہ بس اجمالاً ایمان لائیں کہ ان کے پر ایسے ہوں گے۔ اس بارے میں کوئی متعین تصور ہم نہیں کرسکتے کیونکہ ہم جو اندازہ بھی کریں گے اس میں غلطی ہوگی جبکہ ان کی شکل کے بارے میں تفصیلات ہمیں احادیث صحیحہ سے بھی نہیں ملتیں۔ قرآن کریم میں دوسری جگہ ان کی ایک اور صفت آئی ہے اور وہ یہ ہے۔

علیھا ملئکۃ ۔۔۔۔ ما یومرون (66: 6) ” جن پر نہایت تندخو اور سخت گیر فرشتے ہوں گے جو کبھی اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم بھی انہیں دیا جاتا ہے اسے بجا لاتے ہیں “۔ اس میں بھی فرشتوں کی شکل کو متعین نہیں کیا گیا۔ احادیث میں جو کچھ آتا ہے وہ یہ ہی ہے کہ رسول اللہ نے جبرائیل (علیہ السلام) کو دو مرتبہ اپنی اصل شکل میں دیکھا۔ ایک روایت میں آیا ہے کہ اس کے چھو سو پر تھے اس سے بھی ان کی شکل وہیبت کا تعین نہیں ہوتا۔ لہٰذا یہ معاملہ بھی علوم غیبیہ میں سے ایک ہے۔

ان کے دو دو یا تین تین یا چار چار پر ہیں اور انسانوں نے صرف پرندوں کے پر دیکھے ہیں۔ اس لیے اللہ فرماتے ہیں۔

یزید فی الخلق ما یشآء (35: 1) ” وہ اپنی مخلوق کی ساخت میں جیسا چاہتا ہے ، اضافہ کرتا ہے “۔ یوں اللہ کی مشیت بےقید ہے اور وہ خود اپنی بنائی ہوئی اشکال کا پابند نہیں ہے۔ اس کی مخلوقات میں ہم دیکھتے ہیں کہ لاتعداد شکلیں ہیں اور لاتعداد شکلیں ایسی ہیں جو ابھی تک ہمارے علم ہی سے باہر ہیں۔

ان اللہ علی کل شئ قدیر (35: 1) ” اللہ ہر چیز پر قادر ہے “۔ یہ تبصرہ نہایت وسیع ہے اور زیادہ جامع ہے “۔ لہٰذا کسی صورت کے تعین کی ضرورت نہیں ہے۔ یعنی تمام شکلیں اللہ کی قدرت کے دائرے کے اندر آتی ہیں۔ ہر قدم کا تغیر و تبدل اللہ کی قدرت کے تحت ہوتا ہے۔

آیت 1 { اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ } ”کل حمد اور کل شکر اللہ کے لیے ہے جو پید ا کرنے والا ہے آسمانوں اور زمین کا“ فَاطِرکے لغوی معنی ہیں : عدم کے پردے کو چاک کر کے کسی چیز کو وجود بخشنے والا۔ یہاں پر ایک اہم لغوی نکتہ ضمنی طور پر نوٹ کرلیں کہ ”ف“ سے شروع ہونے والے عربی کے اکثر الفاظ میں توڑنے ‘ چاک کرنے ‘ پھاڑنے وغیرہ کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ مثلاً فَطَرَکے علاوہ فَلَقَ ‘ فَرَطَ ‘ فَلَحَ ‘ فَتَحَ ‘ فَصَلَ ‘ فَتَرَوغیرہ الفاظ میں یہی مفہوم پایا جاتا ہے۔ فَترۃ الوحی سے وہ عرصہ مراد ہے جس میں وحی رکی رہی ‘ یعنی وحی کا تسلسل ٹوٹ گیا اور فترۃ من الرسل سے مراد چھ سو برس کا وہ زمانہ ہے جس کے دوران پیغمبروں کا سلسلہ رکا رہا۔ { جَاعِلِ الْمَلٰٓئِکَۃِ رُسُلًا اُولِیْٓ اَجْنِحَۃٍ مَّثْنٰی وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ } ”فرشتوں کو پیغام رساں بنانے والا ‘ جو دو دو ‘ تین تین اور چار چار َپروں والے ہیں۔“ فرشتوں کے پروں کی ہیئت اور کیفیت کو ہم نہیں سمجھ سکتے۔ لیکن تمثیل کے انداز میں سمجھنے کے لیے مختلف اقسام کے طیاروں کا تصور ذہن میں رکھا جاسکتا ہے ‘ جیسے کسی طیارے میں دو انجن ہوتے ہیں اور کسی میں چار۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے مختلف فرشتوں کو اپنی مشیت اور حکمت کے مطابق مختلف نوعیت کی صلاحیتوں سے نواز رکھا ہے۔ { یَزِیْدُ فِی الْخَلْقِ مَا یَشَآئُط اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ} ”اللہ اضافہ کرتا رہتا ہے تخلیق میں جو چاہتا ہے۔ یقینا اللہ ہرچیز پر قادر ہے۔“ آج سائنس بھی ہمیں یہی بتاتی ہے کہ تخلیق کا سلسلہ جاری وساری ہے ‘ مسلسل نئے نئے ستارے وجود میں آرہے ہیں اور نئی نئی کہکشائیں بن رہی ہیں۔ اقبالؔ نے اس نکتے کو یوں بیان کیا ہے : یہ کائنات ابھی نا تمام ہے شاید کہ آرہی ہے دمادم صدائے کُن فیکُون

حضرت ابن عباس فرماتے ہیں فاطر کی بالکل ٹھیک معنی میں نے سب سے پہلے ایک اعرابی کی زبان سے سن کر معلوم کئے۔ وہ اپنے ایک ساتھی اعرابی سے جھگڑتا ہوا آیا ایک کنویں کے بارے میں ان کا اختلاف تھا تو اعرابی نے کہا انا فطرتھا یعنی پہلے پہل میں نے ہی اسے بنایا ہے پس معنی یہ ہوئے کہ ابتداء بےنمونہ صرف اپنی قدرت کاملہ سے اللہ تبارک و تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا۔ ضحاک سے مروی ہے کہ فاطر کے معنی خالق کے ہیں۔ اپنے اور اپنے نبیوں کے درمیان قاصد اس نے اپنے فرشتوں کو بنایا ہے۔ جو پر والے ہیں اڑتے ہیں تاکہ جلدی سے اللہ کا پیغام اس کے رسولوں تک پہنچا دیں۔ اس میں سے بعض دو پروں والے ہیں بعض کے تین تین ہیں بعض کے چار چار پر ہیں۔ بعض ان سے بھی زیادہ ہیں۔ چناچہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جبرائیل کو دیکھا ان کے چھ سو پر تھے اور ہر دو پر کے درمیان مشرق و مغرب جتنا فاصلہ تھا۔ یہاں بھی فرماتا ہے رب جو چاہے اپنی مخلوق میں زیادتی کرے۔ جس سے چاہتا ہے اس سے بھی زیادہ پر کردیتا ہے اور کائنات میں جو چاہے رچاتا ہے۔ اس سے مراد اچھی آواز بھی لی گئی۔ چناچہ ایک شاذ قرأت فی الحلن " ح " کے ساتھ بھی ہے۔ واللہ اعلم۔

آیت 1 - سورہ فاطر: (الحمد لله فاطر السماوات والأرض جاعل الملائكة رسلا أولي أجنحة مثنى وثلاث ورباع ۚ يزيد في الخلق ما يشاء ۚ...) - اردو