سورہ زمر: آیت 3 - ألا لله الدين الخالص ۚ... - اردو

آیت 3 کی تفسیر, سورہ زمر

أَلَا لِلَّهِ ٱلدِّينُ ٱلْخَالِصُ ۚ وَٱلَّذِينَ ٱتَّخَذُوا۟ مِن دُونِهِۦٓ أَوْلِيَآءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَآ إِلَى ٱللَّهِ زُلْفَىٰٓ إِنَّ ٱللَّهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فِى مَا هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَهْدِى مَنْ هُوَ كَٰذِبٌ كَفَّارٌ

اردو ترجمہ

خبردار، دین خالص اللہ کا حق ہے رہے وہ لوگ جنہوں نے اُس کے سوا دوسرے سرپرست بنا رکھے ہیں (اور اپنے اِس فعل کی توجیہ یہ کرتے ہیں کہ) ہم تو اُن کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ اللہ تک ہماری رسائی کرا دیں، اللہ یقیناً اُن کے درمیان اُن تمام باتوں کا فیصلہ کر دے گا جن میں وہ اختلاف کر رہے ہیں اللہ کسی ایسے شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو جھوٹا اور منکر حق ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ala lillahi alddeenu alkhalisu waallatheena ittakhathoo min doonihi awliyaa ma naAAbuduhum illa liyuqarriboona ila Allahi zulfa inna Allaha yahkumu baynahum fee ma hum feehi yakhtalifoona inna Allaha la yahdee man huwa kathibun kaffarun

آیت 3 کی تفسیر

الاللہ الدین الخالص (39: 3) ” خبردار دین خالص اللہ کا حق ہے “۔ نہایت ہی اونچی بہایت ہی طویل اور نہایت ہی رعب دار آواز میں۔ گویا اعلان شاہی ہے اور لفظ ” الا “ خبردار ! سے اس کا آغاز ہوتا ہے اور نہایت ہی قصر اور حصر کے الفاظ میں کہ اللہ ہی کا حق ہے زندگی اور خالص اللہ کا حق ہے ۔ جس طرح مفہوم موکد ہے اس طرح الفاظ بھی پرشوکت ہیں۔ یہ اصول حیات ہے۔ پوری زندگی اس پر قائم ہے بلکہ پوری کائنات اس اعلان پر قائم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس قدر مختصر زور دار اور قصر حصر کے الفاظ میں یہ قانون نافذ ہوتا ہے۔ اور اس کے مقابلے میں اس دور کی جاہلیت کا کلمہ اور نظریہ کیا تھا جسے رد کیا گیا۔

والذین اتخذوا۔۔۔۔ ھوکذب کفار (39: 4) ” رہے وہ لوگ جنہوں نے اس کے سوا دوسرے سرپرست بنارکھے ہیں (کہتے ہیں) ہم ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ اللہ تک ہماری رسائی کرادیں۔ اللہ یقیناً ان کے درمیان ان تمام باتوں کا فیصلہ کردے گا جن میں وہ اختلاف کررہے ہیں۔ اللہ کسی ایسے شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو جھوٹا اور منکر حق ہو “۔ وہ اعلان کرتے تھے کہ اللہ ان کا خالق ہے۔ سموات اور زمین کا خالق ہے۔ لیکن پھر وہ فطری استدلال کی راہ پر چلتے تھے کہ اگر وہی خالق ہے تو وہی بندگی کے لائق ہے۔ اور پھر دین اور دستور اور قانون اسی کا چلنا چاہیے۔ یہاں آکر وہ یہ افسانہ گھڑتے تھے کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں ۔ پھر وہ فرشتوں کے بت بناتے اور ان کو پوجتے ۔ پھر یہ کہتے کہ وہ ملائکہ کے بتوں کی عبادت اس لیے کرتے ہیں ، جن کو وہ الٰہ کہتے تھے۔ لات ، منات اور عزیٰ ، یہ دراصل ان کی عبادت نہیں ہے بلکہ یہ محض اللہ کے قریب ہونے کے لئے ہم ان کے آگے جھکتے ہیں تاکہ یہ فرشتے اللہ کے ہاں ہماری سفارش کریں۔ اور یوں ہم اللہ کے نزدیک ہوجائیں۔

یہ عقیدہ سیدھے فطری انداز فکر سے انحراف ہے اور یہ عقیدہ غلط ہونے کے ساتھ ساتھ پیچیدہ اور ناقابل فہم بھی ہے۔ نہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں اور نہ یہ بت فرشتوں کے بت ہیں۔ نہ اللہ نے اس کی اجازت دی ہے۔ نہ اللہ کسی کی سفارش سنتا ہے اور نہ اللہ اپنے بندے کو اس طریقے پر اپنے قریب لاتا ہے۔

جب بھی انسانیت نے عقیدۂ توحید کو ترک کیا ہے۔ وہ فطرت کے سیدھے انداز فکر اور سیدھے سادے انداز استدلال سے

محروم ہوگئی ہے ، جو اسلام اول روز سے لے کر آیا ہے اور آدم (علیہ السلام) سے لے کر ادھر تمام رسولان محترم نے یہی عقیدۂ توحید پیش کیا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اس وقت پر جگہ نیک لوگوں اور اولیاء کی عبادت اسی طرح کی جاتی ہے جس طرح نبی ﷺ کے دور میں عرب فرشتوں اور فرشتوں کے بتوں کی عبادت بطور تقرب الہٰی اپنے زعم کے مطابق کیا کرتے تھے۔ مقصد اک کی سفارش کا حصول ہوتا تھام لیکن اللہ عقیدۂ توحید ، اور سیدھے راستے کی نشاندہی فرماتا ہے ایسی توحید جس کے ساتھ کوئی التباس ، کوئی سفارشی اور کوئی افسانوی مقربین خدا نہ ہوں۔

ان اللہ لایھدی من ھو کذب کفار (39: 3) ” اللہ کسی ایسے شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو جھوٹا اور منکر حق ہو “۔ کیونکہ یہ لوگ اللہ پر جھوٹ بولتے ہیں۔ ایک تو جھوٹ ہے کہ ملائکہ اللہ کی بیٹیاں ہیں ، دوسرا یہ جھوٹ ہے کہ یہ اللہ کے ہاں سفارش کرتے ہیں جبکہ فرشتے ان کی بندگی کی تکذیب کرتے ہیں۔ یہ لوگ دراصل اللہ کے صریح احکام کا کفر کرتے ہیں۔ اس لیے ان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا جو اس پر جھوٹ باندھتے ہیں اور اس کا انکار کرتے ہیں۔ ہدایت تو ان کو ملتی ہے جو مخلص ہوں ، متوجہ ہوں ، برائی سے بچنا چاہتے ہوں اور ان کو نیکی کے کاموں میں دلچسپی بھی ہو اور وہ غور فکر کرکے اپنے لیے صحیح راستے کا انتخاب کرتے ہوں۔ جو لوگ جھوٹ باندھتے ہیں ، اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہیں تو وہ اللہ کی ہدایت اور مہربانیوں کے مستحق نہیں ہوتے اسلیے کہ ایسے لوگ جان بوجھ کر صحیح راستے سے دوسری اختیار کرتے ہیں۔ اسکے بعد اس شرکیہ تصور خدا کی کمزوری اور پوچ ہونے کو ظاہر کیا جاتا ہے۔

آیت 3 { اَلَا لِلّٰہِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ } ”آگاہ ہو جائو کہ اطاعت ِخالص اللہ ہی کا حق ہے۔“ اللہ کے ہاں صرف دین خالص ہی مقبول ہے۔ اللہ کو یہ ہرگز منظور نہیں کہ اس کا کوئی بندہ اس کی بندگی بھی کرے اور اپنی بندگی کا کچھ حصہ کسی دوسرے کے لیے بھی مختص کرلے۔ اللہ تعالیٰ بہت غیور ہے ‘ وہ شراکت کی بندگی کو واپس اس بندے کے منہ پردے مارتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ میرا بننا ہے تو خالصتاً میرے بنو : { یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃًص } البقرہ : 208 ”اے اہل ایمان ! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جائو“۔ اللہ تعالیٰ کے کچھ احکام ماننے اور کچھ نہ ماننے کے حوالے سے سورة البقرۃ کی اس آیت میں بہت سخت وعید آئی ہے : { اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَتَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍج فَمَا جَزَآئُ مَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِکَ مِنْکُمْ اِلاَّ خِزْیٌ فِی الْْحَیٰوۃِ الدُّنْیَاج وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یُرَدُّوْنَ اِلٰٓی اَشَدِّ الْعَذَابِطوَمَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ } ”تو کیا تم ہماری کتاب کے ایک حصے کو مانتے ہو اور ایک حصے کا انکار کردیتے ہو ؟ تو نہیں ہے کوئی سزا اس کی جو تم میں سے یہ حرکت کرے سوائے دنیا کی زندگی میں ذلت و رسوائی کے ‘ اور قیامت کے روز وہ لوٹا دیے جائیں گے شدید ترین عذاب کی طرف۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے بیخبر نہیں ہے۔“سیاق وسباق کے لحاظ سے اگرچہ اس آیت کے مخاطب بنی اسرائیل ہیں لیکن آج ہمارے لیے بھی اللہ کا حکم اور قانون یہی ہے۔ بلکہ یہ آیت ہمارے لیے آئینے کی حیثیت رکھتی ہے جس میں آج ہم اپنی تصویر واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ دنیا کی جس رسوائی کا ذکر اس آیت میں ہوا ہے وہ آج ہمارے ماتھے پر جلی حروف میں لکھی ہوئی صاف نظر آرہی ہے۔ اس وقت مسلمان تعداد میں ڈیڑھ سو کروڑ سے بھی زائد ہیں مگر عزت نام کی کوئی چیز اس وقت ان کے پاس نہیں ہے۔ بین الاقوامی معاملات میں کسی کو ان سے ان کی رائے پوچھنا بھی گوارا نہیں۔ { وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِیَآئَ } ”اور جن لوگوں نے اللہ کے سوا کچھ اور کو اولیاء بنا یا ہوا ہے“ { مَا نَعْبُدُہُمْ اِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَآ اِلَی اللّٰہِ زُلْفٰی } ” وہ کہتے ہیں کہ ہم تو ان کو صرف اس لیے پوجتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب کردیں۔“ یعنی اصل میں تو ہم اللہ ہی کو پوجتے ہیں ‘ جبکہ دوسرے معبودوں کو تو ہم اللہ تک پہنچنے اور اس کا قرب حاصل کرنے کا صرف وسیلہ سمجھتے ہیں۔ { اِنَّ اللّٰہَ یَحْکُمُ بَیْنَہُمْ فِیْ مَا ہُمْ فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ } ”یقینا اللہ فیصلہ کر دے گا ان کے مابین ان تمام چیزوں میں جن میں یہ اختلاف کر رہے ہیں۔“ { اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہْدِیْ مَنْ ہُوَ کٰذِبٌ کَفَّارٌ} ”اللہ ہرگز ہدایت نہیں دیتا جھوٹے اور نا شکرے لوگوں کو۔“

آیت 3 - سورہ زمر: (ألا لله الدين الخالص ۚ والذين اتخذوا من دونه أولياء ما نعبدهم إلا ليقربونا إلى الله زلفى إن الله يحكم...) - اردو