آیت نمبر 22 تا 23
جس طرح آسمانوں سے پانی نازل ہوتا ہے ، زمین سے نباتات اگتے ہیں اور ان کے رنگ مختلف ہوتے ہیں۔ اسی طرح آسمان سے ذکر اور نصیحت نازل ہوتی ہے۔ اس ذکر اسے بھی زندہ دل فائدہ اٹھاتے ہیں ، ان دنوں کے دروازے کھلے ہوتے ہیں۔ وہ ہدایات لیتے ہیں اور اچھے کاموں کے لئے بڑھتے ہیں۔ اور جس طرح آسمانوں کی بارش پتھروں پر فصل نہیں اگاتی۔ اسی طرح
سنگدل لوگوں پر ذکر آسمانی کا کوئی اثر نہیں ہوتا اور نہ ان میں کارخیر کی روئیدگی ہوتی ہے اور نہ فکر خیر کی روئیدگی ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ اسلام کے لیے ایسے دلوں کے اندر شرح صدر پیدا کردیتا ہے جن کے بارے میں اللہ کے علم میں ہوتا ہے کہ ان کے اندر خیر ہے۔ ان تک نور الہٰی پہنچتا ہے تو چمک اٹھتے ہیں اور ان سے زوشنی پھولتی ہے۔ اور شرح صدر والے قلوب اور سنگدل قلوب میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے۔
فویل للقٰسیة قلوبھم من ذکر اللہ (39: 22) ” تباہی ان لوگوں کے لیے جن کے دل نصیحت سے اور سخت ہوجاتے ہیں “۔
اولٰئک فی ضلل مبین (39: 22) ” وہ لوگ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں “۔ یہ آیت کریمہ ان دلوں کی حقیقت بیان کرتی ہے جو اسلام کے لیے کھل جاتے ہیں ، جو اسلام سے ہدایات لیتے ہیں اور اسلام سے تروتازگی حاصل کرتے ہیں اور اپنے دلوں کا تعلق اللہ سے جوڑتے ہیں۔ ان کی شرح صدر کی حالت سے ان کی تازگی ، ان کے اندر پائی جانے والی بشاشت اور مسرت اور نورانیت اور اشراق کی کیفیات وجود میں آتی ہیں اس کے مقابلے میں یہ آیت ان دلوں کا حال بھی بتاتی ہے جو سخت اور پتھر ہیں۔ جو اپنی خشکی کی وجہ سے مرچکے ہیں۔ بانجھ اور تاریک ہوچکے ہیں۔ غرض اللہ جس کو اسلام کے لیے پسند کرتا ہے اس کا دل اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور اسلام کا نور ان کے دلوں میں داخل ہوجاتا ہے اور جسے محروم کرنا چاہتا ہے اس کا دل سخت کردیتا ہے اور ان دونوں کے اندر بہت بڑا فرق ہوتا ہے۔
دوسری آیت میں یہ بتایا گیا کہ اہل ایمان قرآن کریم کو کس انداز میں لیتے ہیں۔ قرآن کریم ایک ایسی کتاب ہے جس کے اندر کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اس کی طبیعت اور مزاج میں ، اس کی سمت میں اس کی روح میں ، اس کے خصائص میں ، یہ ان تمام زاویوں سے مشابہ اور مثانی ہے (دہرائی ہوئی) ۔ اس کی آیات کے آخری حصے یعنی مقطعے ، اس کے قصص اور اس کی ہدایات اور اس کے مناظر باربار دہرائے جاتے ہیں۔ لیکن ان میں تضاد نہیں ہوتا۔ ہر جگہ ایک نئے زاویہ سے دہرائے جاتے ہیں اور ہر جگہ نئے لگتے ہیں اور پر جگہ نیا فائدہ ہوتا ہے۔ نہایت ہم آہنگی ، نہایت سنجیدگی اور مضبوط اصولوں کے مطابق ، جن میں نہ تصادم ہے اور نہ تضاد ہے۔ وہ لوگ جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور اس کے احکام کے مطابق پرہیز کرتے ہیں اور ہر وقت احتیاط میں زندگی بسر کرتے ہیں اور ہر وقت اللہ کے فضل کے امیدوار ہوتے ہیں۔ وہ قرآن کریم کے باران رحمت کو نہایت خوف اور کپکپی سے لیتے ہیں۔ اور وہ اس قدر متاثر ہوتے ہیں کہ کانپ اٹھتے ہیں۔ ان کے جسم پر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور اس کے بعد ان کے نفوس کے اوپر سکون کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور ان کے دل اس ذکر سے مانوس ہوجاتے ہیں ، پھر ان کے دل نرم ہوکر اس نصیحت کو قبول کرلیتے ہیں۔ یہ ایک زندہ حساس صورت حالات ہے ۔ یہ صورت حالات الفاظ کے رنگ سے منقش ہے اور یہ تصاویر یوں نظر آتی ہیں کہ گویا زندہ ومتحرک ہیں۔
ذٰلک ھدی اللہ یھدی به من یشآء (39: 23) ” یہ اللہ کی ہدایت ہے جس سے وہ جس کو چاہتا ہے ، راہ راست پر لے آتا ہے “۔ یہ دل از خود اس طرح کانپ نہیں جاتے بلکہ یہ رحمٰن کی دو انگلیوں کے درمیان ہوتے ہیں اور رحمٰن کے فضل وکرم سے وہ لبیک کہتے ہیں اور ان کے اندر نور پیدا ہوجاتا ہے ، اللہ کو تمام قلوب کی حقیقت کا علم ہوتا ہے۔ لہٰذا وہ کسی کو ہدایت دیتا ہے اور کسی کو گمراہی لیکن یہ ان قلوب کی پسند کے مطابق ہوتا ہے۔
ومن یضلل اللہ فما له من ھاد (39: 23) ” اور جسے اللہ گمراہ کردے اس کے لیے پھر کوئی ہادی نہیں ہے “۔ اللہ اس کو اس لیے گمراہ کرتا ہے کہ وہ شخص گمراہی اختیار کرتا ہے اور اللہ کو علم ہوتا ہے کہ اس نے ایسا کرلیا ہے یا کرے گا اور وہ کبھی بھی ہدایت کو قبول نہ کرے گا۔ اور نہ ہدایت کے سامنے سر جھکائے گا۔
آیت 22 { اَفَمَنْ شَرَحَ اللّٰہُ صَدْرَہٗ لِلْاِسْلَامِ فَہُوَ عَلٰی نُوْرٍ مِّنْ رَّبِّہٖ } ”بھلا وہ شخص کہ جس کے سینے کو اللہ نے کھول دیا ہے اسلام کے لیے اور وہ اپنے رب کی طرف سے نور پر ہے !“ یہاں پھر وہی ”حذف“ کا اسلوب ہے۔ چناچہ اس جملے کے بعد یہاں پر کَمَنْ ھُوَ فِی الظُّلُمٰت کا جملہ محذوف مانا جائے گا۔ یعنی ایک وہ شخص ہے جسے اندرونی بصیرت حاصل ہے اور اس کا دل ایمان کے نور سے جگمگا رہا ہے ‘ کیا وہ اس شخص کی طرح ہوجائے گا جو اندھیروں میں بھٹک رہا ہے ؟ { فَوَیْلٌ لِّلْقٰسِیَۃِ قُلُوْبُہُمْ مِّنْ ذِکْرِ اللّٰہِ } ”تو ہلاکت اور بربادی ہے ان لوگوں کے لیے جن کے دل سخت ہوگئے ہیں اللہ کے ذکر سے۔“ ان کے دل نرمی اور گداز سے محروم ہوچکے ہیں ‘ چناچہ اب نہ تو ان کے دلوں میں اللہ کے ذکر کا ذوق ہے اور نہ ہی اس کی طرف رجوع کرنے کا شوق۔ { اُولٰٓئِکَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ } ”یہ لوگ کھلی گمراہی میں ہیں۔“