آیت 63 { وَلَمَّا جَآئَ عِیْسٰی بِالْبَیِّنٰتِ قَالَ قَدْ جِئْتُکُمْ بِالْحِکْمَۃِ } ”اور جب آئے عیسیٰ علیہ السلام ٰ واضح نشانیاں لے کر تو انہوں نے کہا کہ میں تمہارے پاس حکمت لے کر آیا ہوں“ یہاں پر ”حکمت“ کا لفظ بہت اہم ہے۔ اس حوالے سے قبل ازیں بھی بتایا جا چکا ہے کہ انجیل میں ”کتاب“ شریعت نہیں تھی ‘ صرف حکمت تھی ‘ جبکہ تورات ”کتاب“ پر مشتمل تھی۔ اس میں احکامِ شریعت تو تھے ‘ حکمت نہیں تھی۔ دراصل نزول تورات کے زمانے میں نسل ِانسانی کا اجتماعی شعور ابھی اس قابل نہیں ہوا تھا کہ انہیں حکمت کی تلقین کی جاتی۔ اس لیے اس میں صرف احکام commandments دے دیے گئے تھے کہ یہ کرو اور یہ مت کرو۔ یعنی صرف اوامرو نواہی dos and donts کا ذکر کیا گیا تھا۔ حکمت کے لیے بعد میں انجیل آئی۔ البتہ قرآن میں کتاب شریعت بھی ہے اور حکمت بھی ہے۔ یعنی آخری کتاب ہونے کے حوالے سے یہ ما سبق تمام کتابوں کی جامع ہے۔ { وَلِاُبَیِّنَ لَکُمْ بَعْضَ الَّذِیْ تَخْتَلِفُوْنَ فِیْہِ فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوْنِ } ”اور تاکہ میں واضح کردوں تمہارے لیے بعض وہ چیزیں جن میں تم اختلاف کر رہے ہو ‘ پس تم اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو۔“