سورہ زلزلہ: آیت 8 - ومن يعمل مثقال ذرة شرا... - اردو

آیت 8 کی تفسیر, سورہ زلزلہ

وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُۥ

اردو ترجمہ

اور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waman yaAAmal mithqala tharratin sharran yarahu

آیت 8 کی تفسیر

فمن یعمل ................................ یرہ (8:99) ” پھر جس نے ذرا برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھے گا اور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہوگی وہ اس کو دیکھے گا “۔ پرانے مفسرین ذرے کی تفسیر مچھر کے برابر کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے ذرہ وہ اڑنے والا چھوٹا ایٹم ہے جو سورج کی روشنی میں نظر آیا کرتا ہے۔ دراصل اس دور میں یہ وہ چھوٹی سے چھوٹی مقدار تھی جس کا وہ لوگ تصور کرسکتے تھے لیکن آج کے جدید زمانے میں ہم جانتے ہیں کہ ذرہ کیا ہے۔ وہ ایک متعین جسم ہے اور یہ یہ ذرہ سے بہت چھوٹا ہے جو فضا میں اڑرہا ہوتا ہے اور جو سورج کی روشنی میں نظر آتا ہے اس لئے کہ ہوا میں اڑنے والی یہ چھوٹی سی مقدار محض آنکھ سے دیکھی جاسکتی ہے۔ رہے ایٹم تو وہ صرف خوردبین کے ساتھ لیبارٹری میں دیکھا جاسکتا ہے۔ سائنس دان اس ذرے کو دراصل اپنے ذہن اور عقل سے دیکھتے ہیں اور اس کے آثار کو آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں۔ پس قیامت کے دن اس ذرے یعنی ایٹم جتنی بھلائی یا برائی کی کوئی بھی جزاء وسزا ہوگی۔ یہ چھوٹی سی نیکی اور بدی بھی اس کے کرنے والے کے سامنے پیش ہوگی ، اور وہ اسے اپنی آنکھوں سے دیکھے گا۔

یہاں آکر ہر انسان چوکنا ہوجاتا ہے اور وہ اپنے خیروشر سے غافل نہیں رہتا ، اور یہ نہیں کہتا کہ یہ تو چھوٹا سا عمل نیک ہے یا یہ تو چھوٹی سی برائی ہے اور اس کا کوئی حساب و کتاب نہ ہوگا۔ اس نہایت ہی باریک اور لطیف ترازو کے سامنے ہر شخص کانپ اٹھتا ہے کہ جہاں ذرے کو بھی تولا اور ناپا جائے گا۔

اس جہاں میں تو ایسی کوئی میزان نہیں ہے جو اس قدر ناقابل وزن ذرے کو بھی ناپ اور تول سکے۔ البتہ قلب مومن میں جو تقویٰ کا میزان وہ ذرے کو ہی ناپتا اور تولتا ہے ۔ کیونکہ ایک مومن تو ذرے کے برابر گناہ سے بھی ڈرتا ہے۔ افسوس کہ اس جہاں میں ایسے سخت دل بھی ہیں جو پہاڑوں جیسے جرائم سے بھی نہیں ڈرتے ، بلکہ ایسے سنگدل لوگ بھی ہیں جو خیر کے ایسے ایسے پہاڑوں کو بھی مٹانے کے درپے ہیں جن کے سامنے اس زمین کے اونچے اونچے پہاڑ بھی ہیچ ہیں۔

یہ نہایت ہی سخت دل ہیں ، پتھروں جیسے سخت۔ یہ پتھروں کی طرح زمین کے ساتھ چمٹے ہوئے ہیں اور یہ دل جب قیامت کے دن آئیں گے تو اپنے گناہوں کے بوجھوں کے نیچے پس کر ریزہ ریزہ ہوجائیں گے۔ (1)

(1) یہ پیراگراف خود سید قطب پر صادق آتا ہے جسے قی القلب ناصر نے اس جہاں سے مٹایا ، حالانکہ وہ نیکی کے ایک بلند پہاڑ تھے۔

آیت 8{ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ۔ } ”اور جس کسی نے ذرّہ کے ہم وزن کوئی بدی کی ہوگی وہ بھی اسے دیکھ لے گا۔“ عربی لغت کے مطابق چیونٹی کے انڈے سے نکلنے والے بچے کو ”ذرّہ“ کہا جاتا ہے۔ یعنی بہت چھوٹی اور حقیر چیز۔ اسی مفہوم میں لفظ ”ذرّہ“ اردو میں بھی مستعمل ہے۔ یہ آیت انسان کو اس اہم حقیقت پر متنبہ کرتی ہے کہ چھوٹی سے چھوٹی نیکی بھی بہرحال اپنا ایک وزن اور اپنی ایک قدر رکھتی ہے ‘ اور چھوٹی سے چھوٹی بدی بھی حساب میں آنے والی چیز ہے۔ بسا اوقات انسان نیکی کے چھوٹے سے کام کو حقیر سمجھ کر نظر انداز کردیتا ہے ‘ اور بعض اوقات صغیرہ گناہوں کی پروا نہیں کرتا۔ یہ درست طرزعمل نہیں ہے۔ کسی نیکی کو چھوٹا سمجھ کر اسے چھوڑنا نہیں چاہیے اور کسی گناہ کو چھوٹا سمجھ کر اس پر جری نہیں ہونا چاہیے۔

آیت 8 - سورہ زلزلہ: (ومن يعمل مثقال ذرة شرا يره...) - اردو