سورۃ الطور: آیت 7 - إن عذاب ربك لواقع... - اردو

آیت 7 کی تفسیر, سورۃ الطور

إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ لَوَٰقِعٌ

اردو ترجمہ

کہ تیرے رب کا عذاب ضرور واقع ہونے والا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna AAathaba rabbika lawaqiAAun

آیت 7 کی تفسیر

ان عذاب ربک لواقع (25 : 7) مالہ من دافع (25 : 8) ” کہ تیرے رب کا عذاب ضرور واقع ہونے والا ہے جسے کوئی دفع کرنے والا نہیں ہے۔ “

یہ عذاب یقینا ہونے والا ہے اور اسے کوئی طاقت روک نہیں سکتی۔ ان دونوں آیات کا اثر اور ان کا سجع دونوں فیصلہ کن ہیں۔ الفاظ کے ترنم سے بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ یہ واقع ہونے والا ہے اور اس میں کوئی دوسری بات ممکن نہیں ہے اور اس سے کوئی بچانے والا نہیں ہے۔ جب یہ اثر انسان کے پردہ احساس پر پڑتا ہے اور براہ راست پڑتا ہے تو یہ دل کو ہلا کر رکھ دیتا ہے اور اس کے ساتھ اس کی حالت بدل کر رکھ دیتا ہے۔ حافظ ابوبکر ابن ابی الدنیا نے نقل کیا ہے اپنے باپ سے انہوں نے موسیٰ ابن داؤد سے ، انہوں نے صالح مری سے ، انہوں نے جعفر ابن زید عبدی سے وہ کہتے ہیں حضرت عمر ایک رات مدینہ میں گشت کے لئے نکلے ، وہ مسلمانوں کے گھروں میں سے ایک گھر کے پاس سے گزرے ، دیکھا تو ایک شخص نماز میں کھڑا ہے۔ حضرت عمر ؓ کھڑے ہوگئے اور اس کی تلاوت سننے لگے۔ اس شخص نے سورة طور پڑھنا شروع کی۔ جب یہاں تک پہنچا۔ ان عذاب ربک لواقع (25 : 7) مالہ من دافع (25 : 8) ” کہ تیرے رب کا عذاب واقع ہونے والا ہے جسے کوئی دفع کرنے والا نہیں۔ “ تو حضرت عمر ؓ نے فرمایا رب کعبہ کی قسم یہ حق ہے حضرت عمر ؓ اپنے گدھے سے اتر گئے اور ایک دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گئے اور کچھ دیر بیٹھے رہے۔ پھر وہ اپنے گھر کی طرف لوٹ گئے۔ پورا ایک ماہ لیٹ گئے۔ لوگ ان کی عیادت کرتے لیکن معلوم نہ تھا کہ آپ کو کیا بیماری لاحق ہے۔

حضرت عمر ؓ نے تو یہ سورة اس سے پہلے بھی سنی تھی اور بار بار سنی تھی۔ انہوں نے خودبھی اسے پڑھا تھا۔ نماز میں پڑھایا تھا۔ رسول اللہ ہمیشہ مغرب کی نماز میں اسے پڑھا کرتے تھے اور حضرت عمر ؓ اسی بات کو جانتے تھے اور اس طرح آپ بھی مغرب میں اس سورة کو پڑھتے۔ اسوہ رسول پر عمل کرتے ہوئے لیکن اس دن ان پر اس کا بہت اثر ہوگیا کیونکہ ان کا دل اس تاثر کے لئے کھلا تھا۔ ان کے احساسات اس دن اثرات قبول کرنے کے لئے تیار ہوں گے اس لئے ان معانی نے ان کے دل میں نفوذ کرلیا اور ان پر اس طرح اثر انداز ہوئے جس طرح اس روایت سے معلوم ہوتا ہے۔ جب یہ آیات اپنے پورے وزن ، پوری شدت اور پوری حقیقت کے ساتھ براہ راست ان کے دل میں اتریں۔ بعض اوقات دلوں پر ایسے اثرات پڑا کرتے ہیں۔ یہ دراصل وقت کی بات ہوتی ہے۔ ایک خاص وقت میں یہ اثرات دلوں کی گہرائیوں میں اتر جاتے ہیں اور یہ اس وقت اترتے ہیں جب وہ براہ راست دلوں کو مس کرلیں۔ ان لمحات میں دل ان آیات کو اپنے اصل سرچشمے سے لے لیتے ہیں جس طرح قلب رسول پر ان کا الہامی اثر تھا اس طرح سننے والے کے دل پر اثر ہوجاتا ہے۔ قلب رسول پر تو ہر بار یہ ہوتا تھا اور اللہ نے قلب رسول کو یہ صلاحیت دی تھی بعض اوقات دوسرے لوگوں پر بھی یہ معجزانہ اثر ہوجاتا ہے جس طرح حضرت عمر ؓ پر ہوگیا۔

آیت 7{ اِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ لَوَاقِعٌ۔ } ”تیرے رب کا عذاب یقینا واقع ہو کر رہے گا۔“ اس سے قیامت کا سخت دن مراد ہے جس کے اٹل ہونے کی حقیقت کو سورة الشوریٰ کی آیت 47 میں { یَوْمٌ لاَّ مَرَدَّ لَـہٗ } ”وہ دن جسے لوٹایا نہ جاسکے گا“ کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔

آیت 7 - سورۃ الطور: (إن عذاب ربك لواقع...) - اردو