سورہ التین: آیت 5 - ثم رددناه أسفل سافلين... - اردو

آیت 5 کی تفسیر, سورہ التین

ثُمَّ رَدَدْنَٰهُ أَسْفَلَ سَٰفِلِينَ

اردو ترجمہ

پھر اُسے الٹا پھیر کر ہم نے سب نیچوں سے نیچ کر دیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thumma radadnahu asfala safileena

آیت 5 کی تفسیر

ثم رددنہ ........................ سفلین (5:95) ” پھر اسے الٹا پھیر کر ہم نے نیچوں سے نیچا کردیا “۔ اس قدر نیچے کہ بہائم بھی اس سے بلند نظر آنے لگے ، وہ ایسے انسانوں کے مقابلے میں سیدھی راہ پر نظر آنے لگے کیونکہ وہ فطرت پر قائم ہوتے ہیں ، ان کو اللہ کی تسبیح وتہلیل کا الہام ہوتا ہے اور وہ اس کرہ ارض پر جس مقصد کے لئے پیدا کیے گئے ہیں اسے پورا کرتے رہتے ہیں حالانکہ اس انسان کو دوسرے بہائم کے مقابلے میں نہایت ہی اچھی ساخت پر پیدا کیا گیا تھا ، لیکن یہ رب تعالیٰ کا انکار کرنے لگا اور ایسے گہرے گڑھے میں گرا کہ اس سے زیادہ اور کوئی گہرائی اور گراوٹ نہ رہی۔

لقد خلقنا ........................ تقویم (4:95) ” ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا “۔ یعنی اپنی فطرت اور اپنی صلاحیتوں کے لحاظ سے وہ بہترین تھا۔

ثم رددنہ .................... سفلین (5:95) ” پھر اسے الٹا پھیر کر ہم نے نیچوں سے نیچا کردیا “۔ جب اس نے اپنی فطرت کو اس سطح سے گرادیا جو اس کے لئے رب تعالیٰ نے مقرر کی تھی اور یہ تشریح کردی تھی کہ اس خط سے نیچے گراوٹ ہے اور اوپر انسانیت اور فطرت ہے۔

آیت 5{ ثُمَّ رَدَدْنٰــہُ اَسْفَلَ سٰفِلِیْنَ۔ } ”پھر ہم نے لوٹا دیا اس کو پست ترین حالت کی طرف۔“ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی اس عظیم المرتبت مخلوق کی روح کو اس کے جسد خاکی میں بٹھا کر نیچے دنیا میں بھیج دیا۔ لیکن واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین پر جہالت کی تاریکی میں نہیں بلکہ ہدایت کے اجالے میں بھیجا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اسے کامیابی اور ناکامی کے راستوں کا شعور بھی عطا کیا ‘ اس کی فطرت میں نیکی و بدی کی تمیز بھی ودیعت کی اور وقتاً فوقتاً وہ براہ راست ہدایات بھی بھیجتا رہا : { وَلَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ نَسُوا اللّٰہَ فَاَنْسٰٹـھُمْ اَنْفُسَھُمْط } الحشر : 19 کہ تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے اللہ کو فراموش کردیا اور اس کی پاداش میں اللہ نے انہیں اپنے آپ سے ہی غافل کردیا۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ اب اگر وہ اپنے شرفِ انسانی کو بھلا کر محض حیوانی سطح پر زندگی بسر کرتا رہے اور خود کو حیوان ہی سمجھتا رہے تو یہ اس کی مرضی ہے۔ اس فلسفے کا خلاصہ یہ ہے کہ اپنی سرشت حیوانی وجود کے تقاضوں کے اعتبار سے انسان میں کچھ کمزوریاں اور خامیاں پائی جاتی ہیں ‘ لیکن اپنی فطرت روح کے لحاظ سے یہ بہت اعلیٰ اور عظیم المرتبت مخلوق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی روح کو اس کے حیوانی جسم میں متمکن فرما کر اسے دنیا میں بھیجاتو اس کا ارفع و اعلیٰ روحانی وجود اس کے حیوانی جسم میں قید ہو کر گویا اسفل نچلی مخلوق کی سطح پر آگیا۔ چناچہ دنیوی زندگی میں اس کے سامنے اصل ہدف یہ ہے کہ وہ اپنے شعور اور اللہ تعالیٰ کی فراہم کردہ ہدایت کے مطابق راستہ اختیار کرے ‘ اس راستے کے تقاضے پورے کرنے کے لیے محنت کرے اور اسفل سطح سے اوپر اٹھ کر اپنی اصل عظمت اور حقیقی منزل کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ اب اگلی آیت میں اس راستے کی نشاندہی اور مطلوبہ محنت کے طریقے کی وضاحت کی گئی ہے :

آیت 5 - سورہ التین: (ثم رددناه أسفل سافلين...) - اردو