سورہ التین: آیت 1 - والتين والزيتون... - اردو

آیت 1 کی تفسیر, سورہ التین

وَٱلتِّينِ وَٱلزَّيْتُونِ

اردو ترجمہ

قسم ہے انجیر اور زیتون کی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waaltteeni waalzzaytooni

آیت 1 کی تفسیر

اللہ انسانی فطرت مستقیمہ پر انجیر ، زیتون ، طور سینا اور پرامن شہر مکہ کی قسم اٹھائی ہے۔ اور یہ قسم دراصل اس حقیقت یعنی فطرت انسان کے لئے ایک موزوں اور مناسبت فریم کا کام دیتی ہے۔ ہم اس سے قبل ثابت کرچکے ہیں کہ جس حقیقت کی تصویر کو فریم کرنے کے لئے جن مناظر قدرت کی قسم اٹھائی جاتی ہے اس حقیقت اور مناظر قدرت کے درمیان ایک خاص مناسبت ہوتی ہے اور یہ کسی جگہ واضح اور کسی جگہ بہت دقیق ولفیف ہوتی ہے۔

طور سینین سے مراد وہ پہاڑ ہے جس کے دامن میں اللہ اور موسیٰ علیہ اسلام کے درمیان مکالمہ ہوا تھا اور بلد امین سے مراد شہر مکہ ہے۔ ان دونوں مقامات کا دینی حقائق کے ساتھ تعلق بالکل واضح ہے۔ انجیر اور زیتون تو بظاہر ان دونوں کا تعلق واضح نہیں ہے کہ ان کا فطرت انسانی اور تخلیق انسانی یا دینی حقائق کے ساتھ کیا تعلق ہے۔

تین اور زیتون کی تفسیر میں روایات اور اقوال بہت وارد ہیں۔ بعض اقوال میں آیا ہے کہ ” تپن “ سے مراد ” طوتینا “ کا مقام ہے جو دمشق کے قریب ہے .... بعض نے کہا کہ تین سے راد وہ درخت ہے جس کے پتے حضرت آدم اور حوا (علیہما السلام) نے اپنے جسم پر لپیٹے تھے ، جبکہ جنگ میں شیطان کے ورخلانے پر ان کا لباس سے محروم ہونا پڑا تھا۔ اور اس کے بعد یہ دونوں زمین پر اتارے گئے تھے اور انہوں نے یہاں زندگی کا آغاز کیا تھا۔ بعض اقوال میں یہ تفسیر کی گئی ہے کہ اس سے مراد کشتی نوح کے رکنے اور ٹھہرنے والی پہاڑی ہے جس میں انجیر کے درخت زیادہ اگے ہوئے تھے۔

زیتون کے بارے میں بہت سے اقوال وارد ہیں ، بعض کے مطابق اس سے مراد ” طورزیتا “ ہے جو بیت المقدس میں ہے ، بعض نے کہا کہ اس سے مراد خود بیت المقدس ہے ، بعض نے کہا کہ اس سے مراد زیتون کی وہ شاخ ہے جو وہ کبوتر لے کر آیا تھا جسے حضرت نوح (علیہ السلام) نے کشتی سے چھوڑا تھا ، تاکہ آپ طوفان کے حالات کا مطالعہ کریں جب یہ کبوتر زیتون کی شاخ لے کر آیا تو آپ نے معلوم کرلیا کہ زمین کے بعض حصوں سے پانی اتر گیا ہے اور وہاں درخت اگ آئے ہیں۔

بعض حضرات اس طرف گئے ہیں کہ تین اور زیتون سے وہی پھل مراد ہیں جو ہم کھاتے ہیں اور جانتے ہیں اور ان سے کوئی اشاراتی مفہوم مراد نہیں ہے۔ یا اگر کوئی ہے تو صرف وہ جگہ ہے جہاں یہ اگتے ہیں۔ یہ تو تھے اقوال۔ جہاں تک زیتون کا تعلق ہے قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر بھی اس کا ذکر آیا ہے کہ یہ طور کے پہاڑ میں لگتا ہے۔

وشجرة ............................ للا کلین (20:23) ” اور وہ درخت جو طور سینا سے نکلتا ہے تیل کی پیداوار دیتا ہے اور کھانے والوں کے لئے سالن ہے “ اور سورة عبس میں ہے۔

وزیتونا ونخلا (29:80) ” اور زیتون اور کھجور کے درخت “۔ جبکہ تین کا ذکر پورے قرآن مجید میں صرف اس جگہ آیا ہے۔

لہٰذا مذکورہ بالا اقوال میں سے کسی ایک کے بارے میں ہم کوئی قطعی بات نہیں کرسکتے ، البتہ پورے قرآن مجید میں قسموں کے معاملے میں قرآن کریم کے انداز کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ تین اور زیتون سے اشارہ ایسے مقامات یا ایسے واقعات کی طرف ہو جن کا تعلق دین اور ایمان سے ہو ، یا اس بات سے ہو جو جواب قسم کے طور پر آرہی ہے کہ انسان کو ہم نے ایک بہترین انداز پر پیدا کیا۔ شاید جنت کی وہ جگہ مراد ہو جہاں انسان نے اپنی زندگی کا آغاز کیا تاکہ ان دونوں قسموں کا یہ اشارہ بھی قرآن کریم کے عام انداز کے ساتھ ہم رنگ ہوجائے اور یہ فریم اس تصویر کے ہم آہنگ ہوجائے جو اس میں ہے۔ موضوع کے اعتبار سے سورت میں جو بات کہی گئی ہے وہ یہ ہے :

تین سے مراد کسی کے نزدیک تو مسجد دمشق ہے کوئی کہتا ہے خود دمشق مراد ہے، کسی کے نزدیک دمشق کا ایک پہاڑ مراد ہے بعض کہتے ہیں کہ اصحاب کہف کی مسجد مراد ہے، کوئی کہتا ہے کہ جودی پہاڑ پر مسجد نوح ہے وہ مراد ہے۔ بعض کہتے ہیں انجیر مراد ہے زیتون سے کوئی کہتا ہے مسجد بیت المقدس مراد ہے۔ کسی نے کہا کہ وہ زیتون جسے نچوڑتے ہو، طور سینین وہ پہاڑ ہے جس پر حضرت موسیٰ سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا تھا بلد الامین سے مراد مکہ شریف ہے اس میں کسی کو اختلاف نہیں۔ بعض کا قول یہ ہے کہ یہ تینوں وہ جگہیں ہیں جہاں تین اولو العزم صاحب شریعت پیغمبر بھیجے گئے تھے، تین سے مراد تو بیت المقدس ہے۔ جہاں پر حضرت عیسیٰ ؑ کو نبی بنا کر بھیجا گیا تھا اور طور سینین سے مراد طور سینا ہے جہاں حضرت موسیٰ بن عمران ؑ سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا تھا اور بلد امین سے مراد مکہ مکرمہ جہاں ہمارے سردار حضرت محمد ﷺ بھیجے گئے، تورات کے آخر میں بھی ان تینوں جگہوں کا نام ہے اس میں ہے کہ طور سینا سے اللہ تعالیٰ آیا یعنی وہاں پر حضرت عیسیٰ کو وہاں بھیجا اور فاران کی چوٹیوں پر وہ بلند ہوا یعنی مکہ کے پہاڑوں سے حضرت محمد ﷺ کو بھیجا، پھر ان تینوں زبردست بڑے مرتبے والے پیغمبروں کی زمانی اور وجودی ترتیب بیان کردی۔ اسی طرح یہاں بھی پہلے جس کا نام لیا اس سے زیادہ شریف چیز کا نام پھر لیا اور پھر ان دونوں سے بزرگ تر چیز کا نام آخر میں لیا۔ پھر ان قسموں کے بعد بیان فرمایا کہ انسان کو اچھی شکل و صورت میں صحیح قدو قامت والا، درست اور سڈول اعضاء والا خوبصورت اور سہانے چہرے والا پیدا کیا پھر اسے نیچوں کا نیچ کردیا یعنی جہنمی ہوگیا، اگر اللہ کی اطاعت اور رسول کی اتباع نہ کی تو اسی لیے ایمان والوں کو اس سے الگ کرلیا، بعض کہتے ہیں کہ مراد انتہائی بڑھاپے کی طرگ لوٹا دینا ہے۔ حضرت عکرمہ فرماتے ہیں جس نے قرآن جمع کیا وہ رذیل عمر کو نہ پہنچے گا، امام ابن جریر اسی کو پسند فرماتے ہیں لیکن اگر یہی بڑھاپا مراد ہوتا تو مومنوں کا استشناء کیوں ہوتا ؟ بڑھاپا تو بعض مومنوں پر بھی آتا ہے پس ٹھیک بات وہی ہے جوا وپر ہم نے ذکر کی جیسے اور جگہ سورة والعصر میں ہے کہ تمام انسان نقصان میں ہیں سوائے ایمان اور اعمال صالح والوں کے کہ انہیں ایسی نیک جزاملے گی جس کی انتہا نہ ہو جیسے پہلے بیان ہوچکا ہے پھر فرماتا ہے اے انسان جبکہ تو اپنی پہلی اور اول مرتبہ کی پیدائش کو جانتا ہے تو پھر جزا و سزا کے دن کے آنے پر اور تیرے دوبارہ زندہ ہونے پر تجھے کیوں یقین نہیں ؟ کیا وجہ ہے کہ تو اسے نہیں مانتا حالانکہ ظاہر ہے کہ جس نے پہلی دفعہ پیدا کردیا اس پر دوسری دفعہ کا پیدا کرنا کیا مشکل ہے ؟ حضرت مجاہد ایک مرتبہ حضرت ابن عباس سے پوچھ بیٹھے کہ اس سے مراد آنحضرت ﷺ ہیں ؟ آپ نے فرمایا معاذ اللہ اس سے مراد مطلق انسان ہے عکرمہ وغیرہ کا بھی یہی قول ہے۔ پھر فرماتا ہے کہ کیا اللہ حکم الحاکمین نہیں ہے وہ نہ ظلم کرے نہ بےعدلی کرے اسی لیے وہ قیامت قائم کرے گا اور ہر ایک ظالم سے مظلوم کا انتقال لے گا، حضرت ابوہریرہ سے مرفوع حدیث میں یہ گذر چکا ہے کہ جو شخص والتین والزیتون پڑھے اور اس کے آخر کی آیت الیس اللّٰہ پڑھے تو کہہ دے بلی وانا علی ذالک من الشاھدین یعنی ہاں اور میں اس پر گواہ ہوں۔ اللہ کے فضل و کرم سے سورة التین کی تفسیر ختم ہوئی فالحمد اللہ۔

آیت 1 - سورہ التین: (والتين والزيتون...) - اردو