سورہ توبہ: آیت 5 - فإذا انسلخ الأشهر الحرم فاقتلوا... - اردو

آیت 5 کی تفسیر, سورہ توبہ

فَإِذَا ٱنسَلَخَ ٱلْأَشْهُرُ ٱلْحُرُمُ فَٱقْتُلُوا۟ ٱلْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَٱحْصُرُوهُمْ وَٱقْعُدُوا۟ لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ ۚ فَإِن تَابُوا۟ وَأَقَامُوا۟ ٱلصَّلَوٰةَ وَءَاتَوُا۟ ٱلزَّكَوٰةَ فَخَلُّوا۟ سَبِيلَهُمْ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

اردو ترجمہ

پس جب حرام مہینے گزر جائیں تو مشرکین کو قتل کرو جہاں پاؤ اور انہیں پکڑو اور گھیرو اور ہر گھات میں اُن کی خبر لینے کے لیے بیٹھو پھر اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں تو انہیں چھوڑ دو اللہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faitha insalakha alashhuru alhurumu faoqtuloo almushrikeena haythu wajadtumoohum wakhuthoohum waohsuroohum waoqAAudoo lahum kulla marsadin fain taboo waaqamoo alssalata waatawoo alzzakata fakhalloo sabeelahum inna Allaha ghafoorun raheemun

آیت 5 کی تفسیر

اب یہا بتایا جاتا ہے کہ مسلمان اس مدت کے اختتام پر کیا اقدامات کریں گے ؟

یہاں لفظ الاشہر الحرام (حرام مہینے) کی تفسیر میں کئی اقوال ہیں کہ ان سے مراد کون سے مہینے ہیں ؟ عام مشہور حرام مہینے ہیں یعنی ذوالقعدہ ، ذوالحجہ اور محرم اور پھر رجب تو پھر چار مہینوں سے مراد تین ماہ اور ذوالحجہ کے باقی بیس دن ہوں گے۔ یہ پچاس دن ہوئے ، یعنی اعلان کے بعد یا اس سے مراد مردت چار ماہ ہے اور اس کا آغاز دس ذوالحجہ سے ہے اور اختتام دس ربیع الاخر تک ہے یا اس سے مراد یہ ہے کہ پہلی مدت ان لوگوں کے لیے ہے جنہوں نے عہد توڑا اور دوسری مدت ان لوگوں کے لیے جن کے ساتھ اس سے قبل کوئی معاہدہ ہی نہ تھا۔ یہ ہیں مختلف اقوال۔

میرے نزدیک یہاں جن چار مہینوں کا تذکرہ ہوا ہے اس سے اصطلاحی اشہر حرم مراد نہیں ہیں اور ان چار مہینوں کو اشہر حرم (محترم مہینے) اس لیے کہا گیا ہے کہ ان میں قتل و مقاتلہ حرام قرار دے دیا گیا تھا تاکہ اس عرصے میں مشرکین چل پھر سکیں۔ یہ عام میعاد تھی۔ البتہ جن لوگوں کے معاہدوں میں مدت مقرر تھی اور ان کے لیے مدت تک مہلت دے دی گئی تھی۔۔ چونکہ اللہ نے ان کو چار مہینے آزادی کا اختیار دے دیا تھا۔ اس لیے اس مدت کا آغاز اس کے اعلان سے ہونا چاہیے اور جس نوعیت کا یہ اعلامیہ تھا اس کی نسبت سے یہی راجح ہے کہ اس مدت کا آغاز روز اعلان سے چار ماہ تصور کیا جائے۔

اللہ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ اس مدت کے خاتمے کے بعد جہاں بھی مشرک ملے ، اسے قتل کردیں یا قید کردیں اور ہر راہ اور گھات پر بیٹھ جائیں تاکہ ان میں سے کوئی بھاگ کر نکلنے نہ پائے ، ماسوائے ان لوگوں کے جن کے بارے میں استثناء وارد ہے۔ اور وہ اس کے سوا کوئی دوسرا سلوک ان کے ساتھ نہیں کرسکتے۔ کیونکہ مشرکین کو ایک عرصہ تک انجام بد سے ڈرایا گیا اور انہیں مہلت دی گئی۔ اس لیے ان کے خلاف یہ ایکشن نہ اچانک ہے اور نہ ہی غیر منصفانہ ہے۔ جبکہ ان کے ساتھ طے شدہ معاہدے ختم کردیے گئے ہیں۔ اب ان کے لیے کوئی بات غیر متوقع نہیں ہے۔

بہرحال مشرکین کے خلاف یہ ایکشن اس غرض کے لیے نہ تھا کہ ان کو نییست و نابود کردیا جائے بلکہ اس لیے تھا کہ وہ اسلام قبول کرلیں۔

فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَخَــلُّوْا سَـبِيْلَهُمْ ۭاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ: " پس اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکوۃ دیں تو انہیں چھوڑ دو ۔ اللہ در گزر فرمانے والا اور رحم فرمانے والا ہے " اس سے قبل ان کے ساتھ تحریک اسلامی کے 12 سال گزرے تھے اور اس عرصے میں دعوت و تبلیغ کا حق ادا کردیا گیا تھا۔ اس عرصے میں انہوں نے مسلمانوں کو بےپناہ اذیتیں پہنچائیں۔ انہوں نے مسلمانوں کے خلاف لشکر کشیاں کیں اور ان کی حکومت کو ختم کرنے کی کوششیں کیں۔ پھر دین اسلام نے ان کے ساتھ جس قدر نرم رویہ اختیار کیا (اللہ کے رسول نے ان کے ساتھ جس قدر شریفانہ سلوک کیا وہ ایک طویل تاریخ ہے۔ اس کے باوجود اسلام کے دروازے ان کے لیے کھلے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان مسلمانوں کو جن کی اذیت دی گئی ، جن کے ساتھ جنگ کی گئی اور جن کو ملک سے نکالا گیا اور قتل کیا گیا ایسے مسلمانوں اور نبی ﷺ کو اللہ تعالیٰ حکم دیتے ہیں کہ اگر یہ مشرکین توبہ کرلیں تو ان سے ہاتھ کھینچ لو اگر وہ سچے دل سے اسلام کو قبول کرلیں اور اسلامی شعائر کو قبول کرلیں۔ جس سے اس بات کا اظہار ہوتا ہو کہ وہ سچے دل سے مسلمان ہوگئے ہیں اس لیے کہ اللہ کسی بھی ایسے شخص کو مایوس نہیں کرتا جو سچی توبہ کرکے لوٹ آتا ہے۔ ان اللہ غفور رحیم " بیشک اللہ درگزر فرمانے والا اور رحم فرمانے والا ہے " اس آیت کے بارے میں فقہاء کے درمیان جو فقہی مباحث چلے ہیں ، ہم ان سے کوئی تعرض نہیں کرتے یعنی فان تابوا و اقاموا الصلوۃ واتوا الزکوۃ " یعنی اگر توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکوۃ دیں " فقہاء نے یہ بحثیں کی ہیں کہ آیا ادائے نماز اور ادائے زکوۃ شروط اسلام میں سے ہیں یا ان کے تارک کو کافر کہا جائے گا ؟ اور کب وہ کافر ہوگا ؟ اور کیا نماز اور زکوۃ ہی کو علامت توبہ سمجھا جائے گا یا دوسرے ارکان اسلام کا مطالبہ بھی ان سے کیا جائے گا

میں سمجھتا ہوں کہ ان سوالات میں سے کسی سوال کے حل کے لیے یہ آیت نازل ہی نہیں ہوئی ہے۔ یہ نص اس وقت مشرکین عرب کے واقعی حالات کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ اور اس وقت یہ تصور ہی نہ تھا کہ کوئی توبہ کرے تو صرف نماز اور زکوۃ پر عمل پیرا ہو اور دوسرے اعمال کو نظر انداز کردے ، جو توبہ کرتا تھا وہ پورے اسلام میں داخل ہوتا تھا بلکہ اس آیت نے اگرچہ ان دو باتوں کا ذکر کیا ہے لیکن یہ اس لیے کہ اسوقت جو لوگ اسلام میں داخل ہوتے تھے وہ اسلام کی تمام شرائط کے ساتھ اس میں داخل ہوتے تھے۔ اور ان میں سے پہلی شرط یہ ہوتی کہ وہ پوری زندگی میں اللہ کا دین نافذ کریں گے۔ اور محمد ﷺ کی رسالت پر ایمان لے آئیں۔۔۔ لہذا فقہاء اور مفسرین نے جو بحثیں کی ہیں۔ اس آیت کے وہ پیش نظر نہ تھیں بلکہ یہ ایک عملی کارروائی کے سلسلے میں ہدایت تھی۔

یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہنا چاہئے کہ چار ماہ کی مدت کے بعد بھی اسلام رواداری ، سنجیدگی اور واقعیت پسندی کا دامن نہیں چھوڑتا ، جیسا کہ ہم نے کہا اسلام کی یہ جنگ نسل کشی کے لیے نہیں ہے ، بلکہ وہ ہدایت کی ایک مہم ہے۔ وہ مشرکین جو جاہلی سوسائٹی کی صورت میں جتھ بند نہیں ہیں ، افراد کی شکل میں ہیں ، اور وہ اسلام کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتے ، ان کے لیے دار الاسلام میں مکمل امن وامان کے حقوق محفوظ ہیں۔ اللہ تعالیٰ رسول اللہ اور مسلمانوں کو حکم دیتے ہیں کہ آپ ان کو پناہ دیں اور وہ اللہ کے کلام کو سنیں اور سمجھیں اور پھر ان کو ایسے علاقے میں پہنچا دیں جہاں وہ امن سے ہوں۔

آیت 5 فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْہُرُ الْحُرُمُ یہاں محترم مہینوں سے مراد وہ چار مہینے ہیں جن کی مشرکین کو مہلت دی گئی تھی۔ چار مہینے کی یہ مہلت یا امان غیر میعادی معاہدوں کے لیے تھی ‘ جبکہ میعادی معاہدوں کے بارے میں فرمایا گیا کہ ان کی طے شدہ مدت تک پابندی کی جائے۔ لہٰذا جیسے جیسے کسی گروہ کی مدت امان ختم ہوتی جائے گی اس لحاظ سے اس کے خلاف اقدام کیا جائے گا۔ بہر حال جب یہ مہلت اور امان کی مدت گزر جائے :فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَیْثُ وَجَدْتُّمُوْہُمْ وَخُذُوْہُمْ وَاحْصُرُوْہُمْ وَاقْعُدُوْا لَہُمْ کُلَّ مَرْصَدٍ ج ان الفاظ میں موجود سختی کو محسوس کرتے ہوئے اس منظر اور ماحول کو ذہن میں لائیے جب یہ آیات بطور اعلان عام پڑھ کر سنائی جا رہی تھیں اور اندازہ کیجیے کہ ان میں سے ایک ایک لفظ اس ماحول میں کس قدر اہم اور پر تاثیر ہوگا۔ اس اجتماع میں مشرکین بھی موجود تھے اور ان کے لیے یہ اعلان اور الٹی میٹم یقیناً بہت بڑی ذلت و رسوائی کا باعث تھا۔ جب یہ چھ آیات نازل ہوئیں تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی رض کو قافلہ حج کے پیچھے روانہ کیا اور انہیں تاکید کی کہ حج کے اجتماع میں میرے نمائندے کی حیثیت سے یہ آیات بطور اعلان عام پڑھ کر سنادیں۔ اس لیے کہ عرب کے رواج کے مطابق کسی بڑی شخصیت کی طرف سے اگر کوئی اہم اعلان کرنا مقصود ہوتا تو اس شخصیت کا کوئی قریبی عزیز ہی ایسا اعلان کرتا تھا۔ جب حضرت علی رض قافلۂ حج سے جا کر ملے تو قافلہ پڑاؤ پر تھا۔ امیر قافلہ حضرت ابوبکر صدیق رض تھے۔ جونہی حضرت علی رض آپ رض سے ملے تو آپ رض نے پہلا سوال کیا : اَمِیرٌ اَوْ مَاْمُورٌ ؟ یعنی آپ رض امیر بنا کر بھیجے گئے ہیں یا مامور ؟ مراد یہ تھی کہ پہلے میری اور آپ رض کی حیثیت کا تعین کرلیا جائے۔ اگر آپ رض کو امیر بنا کر بھیجا گیا ہے تو میں آپ رض کے لیے اپنی جگہ خالی کر دوں اور خود آپ رض کے سامنے مامور کی حیثیت سے بیٹھوں۔ اس پر حضرت علی رض نے جواب دیا کہ میں مامور ہوں ‘ امیر حج آپ رض ہی ہیں ‘ البتہ حج کے اجتماع میں آیات الٰہی پر مشتمل اہم اعلان رسول اللہ ﷺ کی طرف سے میں کروں گا۔ اس واقعہ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حضور ﷺ نے صحابہ کرام رض کی تربیت بہت خوبصورت انداز میں فرمائی تھی اور آپ ﷺ کی اسی تربیت کے باعث ان رض کی جماعتی زندگی انتہائی منظم تھی۔ اور آج مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ یہ دنیا کی انتہائی غیر منظم قوم بن کر رہ گئے ہیں۔فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَخَلُّوْا سَبِیْلَہُمْط اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ یعنی اگر وہ شرک سے تائب ہو کر مسلمان ہوجائیں ‘ نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دینا قبول کرلیں تو پھر ان سے مواخذہ نہیں۔

جہاد اور حرمت والے مہینے حرمت والے مہینوں سے مراد یہاں وہ چار مہینے ہیں جن کا ذکر (اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ مِنْهَآ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ۭذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ ڏ فَلَا تَظْلِمُوْا فِيْهِنَّ اَنْفُسَكُمْ وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِيْنَ كَاۗفَّةً كَمَا يُقَاتِلُوْنَكُمْ كَاۗفَّةً ۭ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ 36؀) 9۔ التوبہ :36) میں ہے پس ان کے حق میں آخری حرمت والا مہینہ محرم الحرام کا ہے ابن عباس اور ضحاک سے بھی یہی مروی ہے لیکن اس میں ذرا تامل ہے بلکہ مراد اس سے یہاں وہ چار مہینے ہیں جن میں مشرکین کو پناہ ملی تھی کہ ان کے بعد تم سے لڑائی ہے چناچہ خود اسی سورت میں اس کا بیان اور آیت میں آرہا ہے۔ فرماتا ہے ان چار ماہ کے بعد مشرکوں سے جنگ کرو انہیں قتل کرو، انہیں گرفتار کرو، جہاں بھی پاؤ پس یہ عام ہے لیکن مشہور یہ ہے کہ یہ خاص ہے حرم میں لڑائی نہیں ہوسکتی جیسے فرمان ہے (وَاقْتُلُوْھُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوْھُمْ وَاَخْرِجُوْھُمْ مِّنْ حَيْثُ اَخْرَجُوْكُمْ وَالْفِتْنَةُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ ۚ وَلَا تُقٰتِلُوْھُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتّٰى يُقٰتِلُوْكُمْ فِيْهِ ۚ فَاِنْ قٰتَلُوْكُمْ فَاقْتُلُوْھُمْ ۭكَذٰلِكَ جَزَاۗءُ الْكٰفِرِيْنَ01901) 2۔ البقرة :191) یعنی مسجد حرام کے پاس ان سے نہ لڑو جب تک کہ وہ اپنی طرف سے لڑائی کی ابتداء نہ کریں۔ اگر یہ وہاں تم سے لڑیں تو پھر تمہیں بھی ان سے لڑائی کرنے کی اجازت ہے۔ چاہو قتل کرو، چاہو قید کرلو، ان کے قلعوں کا محاصرہ کرو ان کے لیے ہر گھاٹی میں بیٹھ کر تاک لگاؤ انہیں زد پر لاکر مارو۔ یعنی یہی نہیں کہ مل جائیں تو جھڑپ ہوجائے خود چڑھ کر جاؤ۔ ان کی راہیں بند کرو اور انہیں مجبور کردو کہ یا تو اسلام لائیں یا لڑیں۔ اس لیے فرمایا کہ اگر وہ توبہ کرلیں پابند نماز ہوجائیں زکوٰۃ دینے کے مانعین سے جہاد کرنے کی اسی جیسی آیتوں سے حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے دلیل لی تھی کہ لڑائی اس شرط پر حرام ہے کہ اسلام میں داخل ہوجائیں اور اسلام کے واجبات بجا لائیں۔ اس آیت میں ارکان اسلام کو ترتیب وار بیان فرمایا ہے اعلٰی پھر ادنٰی پس شہادت کے بعد سب سے بڑا رکن اسلام نماز ہے جو اللہ عزوجل کا حق ہے۔ نماز کے بعد زکوٰۃ ہے جس کا نفع فقیروں مسکینوں محتاجوں کو پہنچتا ہے اور مخلوق کا زبردست حق جو انسان کے ذمے ہے ادا ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر نماز کے ساتھ ہی زکوٰۃ کا ذکر اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے۔ بخاری و مسلم میں رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں مجھے حکم کیا گیا ہے کہ لوگوں سے جہاد جاری رکھو، جب تک کہ وہ یہ گواہی نہ دیں کہ کوئی معبود بجز اللہ کے نہیں ہے اور یہ کہ محمد ﷺ رسول اللہ ہیں اور نمازوں کو قائم کریں اور زکوٰۃ دیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ تمہیں نمازوں کے قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے کا حکم کیا گیا ہے جو زکوٰۃ نہ دے اس کی نماز بھی نہیں۔ حضرت عبد الرحمن بن زید بن اسلام فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ ہرگز کسی کی نماز قبول نہیں فرماتا جب تک وہ زکوٰۃ ادا نہ کرے۔ اللہ تعالیٰ حضرت ابوبکر ؓ پر رحم فرمائے آپ کی فقہ سب سے بڑھی ہوئی تھی۔ جو آپ نے زکوٰۃ کے منکروں سے جہاد کیا۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں مجھے لوگوں سے جہاد کا حکم دیا گیا ہے۔ جب تک کہ وہ یہ گواہی نہ دیں کہ بجز اللہ تعالیٰ برحق کے اور کوئی لائق عبادت نہیں اور حضرت محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ جب وہ ان دونوں باتوں کا اقرار کرلیں، ہمارے قبلہ کی طرف منہ کرلیں، ہمارا ذبیحہ کھانے لگیں، ہم جیسی نمازیں پڑھنے لگیں تو ہم پر ان کے خون ان کے مال حرام ہیں مگر احکام حق کے ماتحت انہیں وہ حق حاصل ہے جو اور مسلمانوں کا ہے اور ان کے ذمے ہر وہ چیز ہے جو اور مسلمانوں کے ذمے ہے یہ روایت بخاری شریف میں اور سنن میں بھی ہے سوائے ابن ماجہ کے۔ ابن جریر میں ہے رسول مقبول ﷺ فرماتے ہیں جو دنیا سے اس حال میں جائے کہ اللہ تعالیٰ اکیلے کی خالص عبادت کرتا ہو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا ہو تو وہ اس حال میں جائے گا کہ اللہ اس سے خوش ہوگا۔ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں یہی اللہ کا دین ہے اسی کو تمام پیغمبر (علیہم السلام) لائے تھے اور اپنے رب کی طرف سے اپنی اپنی امتوں کو پہنچایا تھا اس سے پہلے کہ باتیں پھیل جائیں اور خواہشیں ادھر ادھر لگ جائیں اس کی سچائی کی شہادت اللہ کی آخری وحی میں موجود ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَاِخْوَانُكُمْ فِي الدِّيْنِ ۭوَنُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ 11) 9۔ التوبہ :11) پس توبہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ واحد برحق ہے پس توبہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ واحد برحق کے سوا اوروں کی عبادت سے دست بردار ہوجائیں نماز اور زکوٰۃ کے پابند ہوجائیں اور آیت میں ہے کہ ان تینوں کاموں کے بعد وہ تمہارے دینی برادر ہیں ضحاک فرماتے ہیں یہ تلوار کی آیت ہے اس نے ان تمام عہد و پیمان کو چاک کردیا، جو مشرکوں سے تھے۔ ابن عباس کا قول ہے کہ برات کے نازل ہونے پر چار مہینے گزر جانے کے بعد کوئی عہد و ذمہ باقی نہیں رہا۔ پہلی شرطیں برابری کے ساتھ توڑ دی گئیں۔ اب اسلام اور جہاد باقی رہ گیا، حضرت علی بن ابی طالب ؓ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو چار تلواروں کے ساتھ بھیجا ایک تو مشرکین عرب میں فرماتا ہے (فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُّمُــوْهُمْ وَخُذُوْهُمْ وَاحْصُرُوْهُمْ وَاقْعُدُوْا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ ۚ فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَخَــلُّوْا سَـبِيْلَهُمْ ۭاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ) 9۔ التوبہ :5) مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کرو۔ یہ روایت اسی طرح مختصراً ہے۔ میرا خیال ہے کہ دوسری تلوار اہل کتاب میں فرماتا ہے (قَاتِلُوا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ باللّٰهِ وَلَا بالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَلَا يُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ وَلَا يَدِيْنُوْنَ دِيْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حَتّٰي يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَّدٍ وَّهُمْ صٰغِرُوْنَ 29؀) 9۔ التوبہ :29) اللہ تبارک و تعالیٰ پر قیامت کے دن پر ایمان نہ لانے والوں اور اللہ رسول کے حرام کردہ کو حرام نہ ماننے والوں اور اللہ کے سچے دین کو قبول کرنے والوں سے جو اہل کتاب ہیں جہاد کرو تاوقتیکہ وہ ذلت کے ساتھ جزیہ دینا قبول کرلیں۔ تیری تلوار منافوں میں فرمان ہے (يٰٓاَيُّھَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنٰفِقِيْنَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ ۭ وَمَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ ۭوَبِئْسَ الْمَصِيْرُ 73؀) 9۔ التوبہ :73) اے نبی کافروں اور منافقوں سے جہاد کرو۔ چوتھی تلوار باغیوں میں ارشاد ہے (وَاِنْ طَاۗىِٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَيْنَهُمَا ۚ فَاِنْۢ بَغَتْ اِحْدٰىهُمَا عَلَي الْاُخْرٰى فَقَاتِلُوا الَّتِيْ تَبْغِيْ حَتّٰى تَفِيْۗءَ اِلٰٓى اَمْرِ اللّٰهِ ۚ فَاِنْ فَاۗءَتْ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَهُمَا بالْعَدْلِ وَاَقْسِطُوْا ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ) 49۔ الحجرات :9) اگر مسلمانوں کی دو جماعتوں میں لڑائی ہوجائے تو ان میں صلح کرادو پھر بھی اگر کوئی جماعت دوسری کو دباتی چلی جائے تو ان باغیوں سے تم لڑو جب تک کہ وہ پلٹ کر اللہ کے حکم کی ماتحتی میں نہ آجائے۔ ضحاک اور سدی کا قول ہے کہ یہ آیت تلوار (فَاِذَا لَقِيْتُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَضَرْبَ الرِّقَابِ ۭ حَتّىٰٓ اِذَآ اَثْخَنْتُمُوْهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ ڎ فَاِمَّا مَنًّـۢا بَعْدُ وَاِمَّا فِدَاۗءً حَتّٰى تَضَعَ الْحَرْبُ اَوْزَارَهَاڃ ذٰ۩لِكَ ړ وَلَوْ يَشَاۗءُ اللّٰهُ لَانْتَـصَرَ مِنْهُمْ وَلٰكِنْ لِّيَبْلُوَا۟ بَعْضَكُمْ بِبَعْـضٍ ۭ وَالَّذِيْنَ قُتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ فَلَنْ يُّضِلَّ اَعْمَالَهُمْ) 47۔ محمد :4) سے منسوخ ہے یعنی بطور احسان کے یا فدیہ لے کر کافر قیدیوں کو چھوڑ دو۔ قتادہ اس کے برعکس کہتے ہیں پچھلی آیت پہلی سے منسوخ ہے۔

آیت 5 - سورہ توبہ: (فإذا انسلخ الأشهر الحرم فاقتلوا المشركين حيث وجدتموهم وخذوهم واحصروهم واقعدوا لهم كل مرصد ۚ فإن تابوا وأقاموا الصلاة وآتوا...) - اردو