سورہ توبہ: آیت 3 - وأذان من الله ورسوله إلى... - اردو

آیت 3 کی تفسیر, سورہ توبہ

وَأَذَٰنٌ مِّنَ ٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦٓ إِلَى ٱلنَّاسِ يَوْمَ ٱلْحَجِّ ٱلْأَكْبَرِ أَنَّ ٱللَّهَ بَرِىٓءٌ مِّنَ ٱلْمُشْرِكِينَ ۙ وَرَسُولُهُۥ ۚ فَإِن تُبْتُمْ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَٱعْلَمُوٓا۟ أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِى ٱللَّهِ ۗ وَبَشِّرِ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ

اردو ترجمہ

اطلاع عام ہے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے حج اکبر کے دن تمام لوگوں کے لیے کہ اللہ مشرکین سے بری الذمہ ہے اور اُس کا رسول بھی اب اگر تم لوگ توبہ کر لو تو تمہارے ہی لیے بہتر ہے اور جو منہ پھیرتے ہو تو خوب سمجھ لو کہ تم اللہ کو عاجز کرنے والے نہیں ہو اور اے نبیؐ، انکار کرنے والوں کو سخت عذاب کی خوشخبری سنا دو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waathanun mina Allahi warasoolihi ila alnnasi yawma alhajji alakbari anna Allaha bareeon mina almushrikeena warasooluhu fain tubtum fahuwa khayrun lakum wain tawallaytum faiAAlamoo annakum ghayru muAAjizee Allahi wabashshiri allatheena kafaroo biAAathabin aleemin

آیت 3 کی تفسیر

(درس نمبر 87 کا بقیہ حصہ)

اور دین کے معاملے میں ہر قسم کے جبر اور اکراہ کے استعمال کو ممنوع قرار دیا جس طرح ہم نے آیات (256:2، ص 26 ۔ 40 ، ج 3) میں تفصیل سے دیا ہے۔ چناچہ مشرکین نے حضور کا مقابلہ کیا اور مسلمانوں کو فتنہ میں مبتلا کرکے ان پر تشدد کیا۔ اور ان کو اللہ کی راہ سے روکنے کی کوشش کی۔ اور حضور ﷺ کو بھی انہوں نے تبلیغ کرنے سے جبراً منع کردیا۔ اور حالات ایسے ہوگئے کہ آپ کے متبعین میں سے کوئی بھی مامون نہ تھا۔ ہر کسی کو تشدد اور جان کا خطرہ لاحق تھا۔ الا یہ کہ وہ کسی کی پناہ میں ہوں یا کسی کے حلیف ہوں۔ لہذا مسلمانوں نے کئی بار ہجرت کی۔ اس کے بعد ان کی ایذا رسانی اور نیش زنی میں مزید اضافہ ہوگیا ، چناچہ انہوں نے خفیہ فیصلہ کیا کہ آپ کو دائمی طور پر قید کردیا جائے یا ملک بدر کردیا جائے یا قتل کردیا جائے اور یہ مشورہ انہوں نے دار الندوہ میں علانیہ کیا۔ لیکن آخری فیصلہ یہ کیا کہ آپ کو قتل کردیا جائے۔ چناچہ اللہ نے آپ کو ہجرت کا حکم دیا جیسا کہ اس کی تفصیلات ہم نے آیت (3:8) میں دے دی ہیں۔ واذ یمکر بک الذین (ج 9، ص 650) چناچہ آپ نے ہجرت فرمائی اور جن دوسرے لوگوں کی قسمت میں یہ اعزاز لکھا تھا انہوں نے بھی ہجرت فرمائی اور ان لوگوں کو مدینہ میں انصار ملے جن کے دلوں میں رسول اللہ اور ہجرت کرنے والوں کی محبت بسی ہوئی تھی۔ ان لوگوں نے مثالی ایثار سے کام لیا اور اہل ہجرت اور رسول اللہ اور کفار مکہ کے درمیان اس وقت کے عرف کے مطابق حالت جنگ تھی۔ مدینہ کے ارد گرد پھیلے ہوئے اہل کتاب نے آپ کے ساتھ معاہدہ امن کیا لیکن انہوں نے اس معاہدے کو پورا نہ کیا اور خیانت اور غداری کی۔ اور مشرکین عرب کے ساتھ ساز باز کرکے وہ ہمیشہ رسول اللہ اور مسلمانوں کے خلاف قوتوں کی حمایت کرتے رہے جس کی تفصیلات ہم نے سورت انفال میں دی ہیں۔ دیکھئے اسی جلد کے صفحات (53 تا 68)

اس قبل آپ نے حدیبیہ میں مشرکین کے ساتھ دس سالہ معاہدہ کیا تھا اور یہ معاہدہ آپ نے کمزوری کی وجہ سے نہیں بلکہ قوت اور غلبے کے باوجود مشرکین کے شرائط پر کیا۔ محض اس لیے کہ آپ امن و سلامتی کو پسند فرماتے تے۔ اور اپنے دین کو حجت و دلیل کے ساتھ پھیلانا چاہتے تھے۔

(یہ بات اس حد تک درست ہے کہ تحریکی انداز میں تبلیغ اسلام بھی حجت و دلیل کے ساتھ ہے۔ لیکن اگر اس سے مراد یہ ہے کہ اسلام میں جہاد صرف دفاع کے لیے ہے تو یہ درست نہیں ہے۔ دفاع کے سوا بھی جہاد مسلمانوں پر فرض ہے۔ )

بنو خزاعہ نے آپ کے ساتھ عہد کیا اور بنوبکر نے قریش کے ساتھ عہد کیا۔ اور اس کے بعد قریش نے بنوبکر کی حمایت کرتے ہوئے خزاعہ پر حملہ کردیا اور اس طرح نقض عہد کے مستحق قرار پائے۔ اور اس نقض عہد کی وجہ سے مسلمانوں اور مشرکین مکہ کے درمیان دوبارہ حالت جنگ عود کر آئی۔ اس کے نتیجے میں مکہ فتح ہوا۔ جس کی وجہ سے شوکت اسلامی قائم ہوئی اور مشرکین ذلیل ہوئے۔ لیکن اس کے باوجود جس وقت بھی ممکن ہوا یہ لوگ حضور اکرم کے ساتھ غداری کرتے رہے۔ اور یہ بات تجربے سے ثابت ہوگئی کہ وہ قوی ہوں یا ضعیف ہوں ، مسلمانوں کے ساتھ غداری ان کے دلوں میں بیٹھی ہوئی ہے اور وہ ہر گز پاس عہد نہیں رکھتے۔ جیسا کہ اسی سورت کی آیت کی تشریح میں آئے گا کہ وہ ہر وقت نقض عہد کے لیے آمادہ تھے۔

کیف یکون للمشرکین عھد عند اللہ تا آخر آیت 12 فقاتلوا ائمۃ الکفر انھم لا ایمان لھم لعلھم ینتھون۔ تک

یعنی ان کے بارے میں یہ سمجھ لو کہ وہ کسی عہد کو پورا کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ یعنی ان لوگوں کے ساتھ مسلمانوں کا بذریعہ معاہدہ یکجا رہنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اس طرح کہ ان میں سے ہر فریق دوسرے کے شرر اور فتنہ سے محفوظ و مامون ہو اور مشرکین اپنے نظریات پر رہیں اور قانون ان کا نہ چلے۔ اور اس طرح باہم مل کر دونوں فریق زندہ رہ سکیں۔ کیونکہ ان کی سابقہ غداریوں اور مکاریوں کی وجہ سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ایسا ممکن نہیں ہے حالانکہ ان کے حسب حال یہ تھا کہ وہ اہل کتاب ہونے کے ناطے وفائے عہد کرتے۔

(تعجب کی بات ہے کہ مصنف اس گہری حقیقت تک پہنچ گئے ہیں جو ان اقدامات کا اصل سبب ہے اور یہ کہ ان معاہدات کا جو حشر ہوا اس سے ثابت ہوگیا کہ اسلامی محاذ اور مشرکین کے محاذ کے درمیان باہم سلامتی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ الا یہ کہ چند مختصر عرصے کے لیے کوئی وقفہ ایسا ہو ، لیکن اس کے باوجود مصنف اسلامی نظام اور شرکیہ نظام کے درمیان ایسے معاہدات کے قائل ہیں ، جن کی وجہ سے دار الاسلام میں دونوں نظام یکجا ہوکر رہ سکتے ہیں۔ یہ ان کے نزدیک دائماً ممکن ہے اور اس کے خلاف اگر کوئی صورت ہوئی ہے تو وہ استثنائی ہے۔ الا یہ کہ امر مشرکین مکہ کے ساتھ مخصوص ہے۔ (کسی حد تک یہ بات درست ہے کہ یہ حکم مشرکین مکہ تک محدود ہے لیکن دوسرے مشرکین کی حالت بھی جزیرۃ العرب کے مشرکین سے مختلف کس طرح ہوسکتی ہے۔ تفصیلات ہم آگے دے رہے ہیں۔ )

" یہ ہے وہ حقیقی شرعی اصول جس کے مطابق مطلق معاہدات کی منسوخی کے احکا امت وارد ہوئے اور جن لوگوں نے معاہدے کی خلاف ورزی نہ کی تھی ان کے ساتھ معاہدات کو اپنی مدت تک پورا کرنے کی ہدایت آئی اور ان احکام کی حکمت یہ تھی کہ جزیرۃ العرب سے شرک جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے اور جزیرۃ العرب کو مسلمانوں کے لیے مخصوص کردیا جائے ، لیکن سابقہ اصول اپنی جگہ قائم رکھے گئے مثلاً بقرہ 190 میں کہا گیا وقاتلوا فی سبیل اللہ الذین یقاتلونکم (یعنی اللہ کی راہ میں ان لوگوں کے ساتھ جنگ کی جائے جو تمہارے ساتھ لڑتے ہیں) اور دوسری وان جنحوا لسلم فاجنح لھا (یعنی اگر وہ سلامتی و امن کے لیے جھکیں تو تم بھی ان کی طرف جھکو) ۔ حتی الامکان یہ پالیسی رہی۔ اگرچہ جمہور علماء کی رائے یہی ہے کہ یہ سابقہ آیات اس سورت کی آیت سیف کے ذریعے منسوخ ہیں اور اہل شرک کے ساتھ تمام عہد منسوخ ہیں۔

اس اقتباس اور اس پر آخری تعقیب اور تفسیر منار کی دوسری تشریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ مصنف معاہدات کی منسوخی اور مشرکین و اہل کتاب کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف آغاز جنگ کے حقیقی اسباب تک بہرحال پہنچ گئے ہیں لیکن وہ اس سبب کی حقیقی جڑوں تک نہیں پہنچے اور نہ اس سبب کو وہ وسعت دے کر اسے عام پالیسی بنانا چاہتے ہیں۔ اس لیے وہ اس معاملے میں دین کی حقیقت اور اس کے تحریکی مزاج تک نہیں پہنچ سکتے اور وہ اس نکتے تک بھی نہیں پہنچ سکے کہ اسلامی نظام حیات اور انسانوں کے بنائے ہوئے نظامہائے حیات کے درمیان بنیادی اور حقیقی تضاد پایا جاتا ہے اور ان دونوں کا ایک جگہ زندہ رہنا ممکن نہیں ہے۔

تفسیر منار کے علاوہ اس مسئلے پر استاد محمد عزہ کی تصریحات بھی قابل غور ہیں۔ وہ اپنی تفسیر " التفسیر و الحدیث " میں جو کچھ فرماتے ہیں وہ اس حقیقت کبریٰ سے بہت دور ہے اور وہ ان واقعات و احکامات کے حقیقی اسباب کو پا ہی نہیں سکے۔ استاد محمد عزہ زمانہ حال کے دوسرے اہل قلم کی طرح رات دن اس تلاش میں رہتے ہیں کہ وہ اسلام کو امن و آشتی کا دین ثابت کریں اور اس کے لیے دلائل تلاش کریں ، یہ لوگ آج کل جب ان نسلوں کے برے دنوں کو دیکھتے ہیں جن کے آباؤاجداد مسلان تھے اور پھر اس کے مقابلے میں دیکھتے ہیں کہ آج کل کے بےدین ، ملحدین اور نام نہاد اہل کتاب مادی لحاظ سے عروج پر ہیں تو یہ لوگ رات دن یہ ثابت کرنے بیٹھ جاتے ہیں کہ اسلام تو نہایت ہی گوسفندانہ مذہب ہے اور وہ اپنے حدود کے اندر دبک کر رہنے والا ہے۔ اور جب بھی اس کے ساتھ کوئی امن و سلامتی کے سلسلے میں بات کرے وہ قبول کرتا ہے۔

یہ لوگ سورت توبہ کی ان آیات کا سبب نزول صرف اس بات کو قرار دیتے ہیں کہ بعض لوگوں نے حضور اکرم ﷺ کے ساتھ چونکہ نقض عہد کردیا تھا لہذا ان کے خلاف یہ اقدام ہوا اور جن لوگوں نے نقض عہد نہ کیا تھا چاہے ان کے معاہدے موقت ہوں یا دائمی ہوں ان کو یہ سورت بحال رکھتی ہے۔ اور اگر کسی نے نقض عہد کر بھی لیا تھا تو یہ سورت اجازت دیتی ہے کہ ان لوگوں کے ساتھ از سر نو عہد کرلیا جائے۔ یہ لوگ ابتدائی مراحل کی آیات کو اصل الاصول قرار دیتے ہیں اور اس سورت کی ان آخری آیات کو مفید قرار دیتے ہیں۔

اس لیے یہ صاحب اس آیت 4، 5 توبہ کی تشریح اس طرح کرتے ہیں۔

اِلَّا الَّذِيْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ ثُمَّ لَمْ يَنْقُصُوْكُمْ شَيْــــًٔـا وَّلَمْ يُظَاهِرُوْا عَلَيْكُمْ اَحَدًا فَاَتِمُّــوْٓا اِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ اِلٰى مُدَّتِهِمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ ۔ فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُّمُــوْهُمْ وَخُذُوْهُمْ وَاحْصُرُوْهُمْ وَاقْعُدُوْا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ ۚ فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَخَــلُّوْا سَـبِيْلَهُمْ ۭاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْم : " بجز ان مشرکین کے جن سے تم نے معاہدے کیے۔ پھر انہوں نے اپنے عہد کو پورا کرنے میں تمہارے ساتھ کوئی کمی نہیں کی اور نہ تمہارے خلاف کسی کی مدد کی ، تو ایسے لوگوں کے ساتھ تم بھی مدت معاہدہ تک وفا کرو کیونکہ اللہ متقیوں ہی کو پسند کرتا ہے۔ جب حرام مہینے گزر جائیں تو مشرکین کو قتل کرو جہاں پاؤ اور انہیں پکڑو اور گھیرو اور ہر گھات میں ان کی خبر لینے کے لیے بیٹھو۔ پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں کریں اور زکوۃ دیں تو انہیں چھوڑ دو ۔ اللہ در گزر فرمانے والا اور رحم فرمانے والا ہے "

ان دو آیات میں اور ان سے پہلی آیات میں حضور اکرم ﷺ کی زندگی کے مدنی دور کے آخری دنوں کا ایک رنگ ہے۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں اور مشرکین کے درمیان فتح مکہ کے بعد یا فتح مکہ کے قبل کے دور میں منعقد ہونے والے کچھ معاہدے تھے۔ مشرکین میں سے کچھ لوگ تو ایسے تھے کہ وہ اپنے معاہدوں کو پورا کرتے رہے اور بعض لوگ ایسے تے جنہوں نے عہد شکنی کی اور مسلمانوں کے خلاف اٹھنے والی قوتوں کی طرفداری کرتے رہے۔ اور غداری اور نقض عہد کے مرتکب ہوتے رہے "۔

ہم اس سے قبل کہہ آئے ہیں کہ مفسرین اور اہل تاویل زیر تفسیر دو آیتوں میں سے دوسری آیت کو آیت السیف کہتے ہیں۔ اور یہ سمجھتے ہیں کہ یہ آیت ان تمام آیات کو منسوخ کردیتی ہے جن میں مشرکین کے حوالے سے تسامح ، تساہل ، چشم پوشی اور صرف نظر کے احکام یا اشارے موجود ہیں۔ بلکہ اس آیت کے بموجب علی الاطلاق ان کا قتل واجب ہے۔ بعض مفسرین نے اتنا کہا ہے کہ جن لوگوں کے ساتھ معاہدہ ہے ، ان کے بارے یہ حکم دیا ہے کہ وہ لوگ اپنی مدت معاہدہ تک اس کے حکم سے مستثنی ہوں گے اور بعض لوگ ان کو بھی مستثنی نہیں کرتے اور ماسوائے قبول اسلام کے ان سے کوئی اور صورت قبول نہیں کرتے۔

ہم نے اس پر اس سے قبل متنبہ کردیا ہے کہ اس رائے میں غلو پایا جاتا ہے اور یہ رائے قرآن مجید کے صریح احکام کے خلاف ہے۔ جن میں واضھ طور پر کہا گیا ہے کہ ماسوائے اعداء کے کسی اور کو قتل نہ کیا جائے اور یہ کہ دوستی کرنے والوں اور معاہدے کرنے والوں کے ساتھ منصفانہ سلوک کیا جائے۔ مفسرین نے اپنے اقوال اور روایات مکرر اسی حوالے سے قدیم اہل تفسیر و تاویل سے نقل کیے ہیں۔ علامہ ابن کثیر نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کو حکم دیا ہے کہ آپ ان تمام لوگوں کی گردن پر تلوار رکھ دیں جن کے ساتھ معاہدات ہوئے تھے یہاں تک کہ وہ اسلام میں داخل ہوجائیں اور ان کے ساتھ جو معاہدات ہوئے تھے ان کو ختم کردیا جائے۔ خود اس مصنف نے سلیمان ابن عیینہ کا ایک عجیب قول نقل ہے جنہوں نے آیات اور سورت اور دوسری سورتوں میں آنے والی دوسری آیات جن میں مشرکین کے ساتھ قتال کا حکم نہیں ہے ، کے درمیان تطابق اس طرح پیدا کیا ہے کہ یہ آیات تین تلواریں ہیں اور یہ کہ حضور نے حج اکبر کے دن حضرت علی ابن ابوطالب کو یہ تین آیات دے کر بھیجا تھا اور ان میں سے یہ آیت بھی ہے اور اسے انہوں نے عرب مشرکین کے لیے تلوار کہا ہے اور ایک تلوار اہل کتاب کے لیے ہے اور وہ سورت توبہ کی آیت 29 ہے یعنی قَاتِلُوا الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلا بِالْيَوْمِ الآخِرِ وَلا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَلا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ (29): " جنگ کرو اہل کتاب میں سے ان لوگوں کے خلاف جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان نہیں لاتے اور جو کچھ اللہ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے ، اسے حرام نہیں کرتے اور دین حق کو اپنا دین نہٰں بتاتے یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں "

ایک تلوار منافقین کے لیے ہے اور وہ سورت توبہ کی آیت (73) ہے۔

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ (73): " اے نبی کفار اور منافقین دونوں کا پوری قوت سے مقابلہ کرو اور ان کے ساتھ سختی سے پیش آؤ آخر کار ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بدترین جائے قرار ہے " اور ایک تلوار باغیوں کے خلاف ہے اور وہ سورت الحجرات کی آیت (9) ہے۔

و ان طائفتان من المومنین اقتتلوا فاصلحوا بینھما فان بغت احداھما علی الاخری فقاتلوا التی تبغی حتی تفیء الی امر اللہ " اور اگر اہل ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑ جائیں تو ان کے درمیان صلح کراؤ پھر اگر ان میں سے ایک گروہ دوسرے گروہ پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے " اور مزید تعجب کی بات یہ ہے کہ امام طبری اس طرف گئے ہیں کہ اس آیت کا اطلاق معاہدین اور غیر معاہدین سب پر ہوتا ہے۔ ان دونوں کے درمیان کوئی تفریق نہیں۔ حالانکہ سورت ممتحنہ کی آیت (8) کی تفسیر میں انہوں نے یہ قرار دیا کہ یہ آیت محکم ہے۔ آیت یہ ہے۔

لاینھاکم اللہ عن الذین لم یقاتلوکم فی الدین ولم یخرجوکم من دیارکم ان تبروھم و تقسطوا الیھم ان اللہ یحب المقسطین " اللہ تمہیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتاؤ کرو جنہوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالا ، اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے "۔ لہذا اللہ مسلمانوں کو اس بات سے نہیں منع کرتا کہ جو شخص ان کے معاملات سے غیر جانبدار رہتا ہے اور امن و سلامتی کا معاہدہ کرتا ہے خواہ جس مذہب و ملت کا ہو ، اس کے ساتھ تم احسان و انصاف کا رویہ اختیار کرو۔ ہو سکتا ہے کہ ایسے لوگ معاہد بھی نہ ہوں "۔

" یہ تمام دلائل اور اس آیت کے سیاق وسباق سے یہ بات واضح ہے کہ یہ حکم صرف ان لوگوں کے لیے آای ہے جو معاہد تھے اور جنہوں نے اپنے عہد سے روگردانی کرلی تھی اس کے سوا کسی اور گروہ سے مطلق قتال جائز نہیں ہے۔ لہذا یہ کہنا کہ یہ آیت السیف ہے اور ہر مشرک پر اس کا عموماً اطلاق ہوتا ہے۔ یہ ایسی بات ہے جس کی متحمل یہ آیت نہیں ہے اور نہ ہی سیاق کلام سے یہ مطلب نکلتا ہے اور نہ یہ کہنا درست ہے کہ یہ آیت متعدد آیات کی ناسخ ہے۔ خصوصاً ان آیات کی ناسخ ہے جن کا مضمون اصولی اور عمومی ہے۔ مثلاً لا اکراہ فی الدین یا الدعوت بالحکمت اور بذریعہ وعظ حسن یا مباحثہ و مجادلہ بطریق احسن ، یا نیکی اور انصاف کی تلقین کرنے والی آیات خصوصاً جبکہ بعد میں اس مضمون کی آیات آرہی ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ مسجد حرام کے پاس تمہارے ساتھ جن لوگوں نے معاہدہ کیا ہے ، جب تک وہ معاہدے پر قائم رہیں اس معاہدے کا احترام کیا جائے جس پر ہم عنقریب تفصیلی بحث کریں گے "

" ان آیات میں جو احکامات ہیں ان کے بارے میں دو سوالات اٹھتے ہیں ؟ پہلا یہ کہ پہلی آیت میں جو استثناء ہے وہ معاہدے کی مدت کے ختم ہونے تک ہے تو کیا معاہدہ کرنے والے مشرکین اس مدت کے خاتمے پر اللہ اور رسول اللہ کی ذمہ داری سے نکل جائیں گے اور اب ان کے ساتھ جنگ فرض ہوگی۔ مفسرین کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک اس سوال کا جواب اثبات میں ہے۔ لیکن اس سلسلے میں ہمیں رسول اللہ ﷺ سے کوئی قابل اعتبار روایت نہیں ملی ہے۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ اگر آیت اول کے مفہوم کو علی الاطلاق لیا جائے تو مفسرین کا اخذ کردہ مفہوم درست ہے۔ اس کی پھر وضاحت کی ضرورت ہے۔ اس لیے یہ دیکھا جائے گا کہ جن لوگوں نے معاہدہ کیا تھا ان کی پوزیشن اس معاہدے سے پہلے کیا تھی ؟ یا تو وہ معاہدے سے پہلے دشمن تھے اور ان کے ساتھ جنگ اور مقاتلہ ہوا تھا۔ پھر مسلمانوں نے ان کے ساتھ معاہدہ کیا جس طرح قریش کے ساتھ حضور ﷺ نے حدیبیہ کے مقام پر صلح کی تھی۔ یا وہ ایسے لوگ ہوں گے جنہوں نے بغیر جنگ وجدال اور مقاتلہ کے مسلمانوں کے ساتھ امن اور دوستی کا معاہدہ کرلیا تھا۔ سورت نساء کی یہ آیت (90) انہی لوگوں کے بارے میں ہے : إِلا الَّذِينَ يَصِلُونَ إِلَى قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِيثَاقٌ أَوْ جَاءُوكُمْ حَصِرَتْ صُدُورُهُمْ أَنْ يُقَاتِلُوكُمْ أَوْ يُقَاتِلُوا قَوْمَهُمْ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ عَلَيْكُمْ فَلَقَاتَلُوكُمْ فَإِنِ اعْتَزَلُوكُمْ فَلَمْ يُقَاتِلُوكُمْ وَأَلْقَوْا إِلَيْكُمُ السَّلَمَ فَمَا جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ عَلَيْهِمْ سَبِيلا (90): " البتہ وہ منافق اس حکم سے مستچنی ہیں جو کسی ایسی قوم سے جا ملیں جس کے ساتھ تمہارا معاہدہ ہے ، اسی طرح وہ منافق بھی مستثنی ہیں جو تمہارے پاس آتے ہیں اور لڑائی سے دل برداشتہ ہیں ، نہ تم سے لڑنا چاہتے ہیں اور نہ اپنی قوم سے ، اللہ چاہتا تو ان کو تم پر مسلط کردیتا اور وہ بھی تم سے لڑتے لہذا اگر وہ تم سے کنارہ کش ہوجائیں اور لڑنے سے باز رہیں اور تمہاری طرف صلح و آشتی کا ہاتھ بڑھائیں تو اللہ نے تمہارے لیے ان پر دست درازی کرنے کی کوئی سبیل نہیں رکھی) "۔ تو ایسے لوگوں کا حکم اس آیت میں بطور واقعہ ذکر ہے۔ سیرت کے بعض واقعات میں بھی ایسے لوگوں کی مثالیں موجود ہیں۔ ابن اسحاق نے نقل کیا کہ حضور نے کنانہ کی شاخ بنو صخر سے یہ معاہدہ کیا تھا کہ آپ ان پر حملہ نہ کریں۔ اور نہ وہ مدینہ پر حملہ کریں گے۔ نہ وہ کسی قوم کی تعداد آپ کے خلاف بڑھائیں گے نہ آپ کے دشمن کی معاونت کریں۔ اسی سلسلے میں آپ نے ان کے ساتھ ایک تحریری معاہدہ بھی کیا تھا۔ پھر اس آیت میں کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ کسی کے ساتھ تجدید عہد نہ کیا جاسکتا ہو یا یہ کہ کسی ایسی قوم کے ساتھ معاہدے کی مدت کو نہ بڑھایا جاسکتا ہو جبکہ ایسی قوم نے نہ وعدہ خلافی کی ہو اور نہ غداری کا ارتکاب کیا ہو۔ اور مسلمانوں کو اس کا کوئی اختیار بھی نہیں ہے۔ کیونکہ ان کو حکم دیا گیا ہے کہ ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑیں یا کسی نہ کسی شکل میں دست درازی کریں۔ خصوصاً اس آیت میں جو عنقریب آرہی ہے۔ بصراحت کہا گیا ہے کہ مشرکین کے ساتھ عہد کو پورا کرو جب تک وہ عہد کو پورا کرتے ہیں ، اس آیت میں بھی اس بات پر قرینہ موجود ہے جو تم کہہ رہے ہو۔ ان شاء اللہ۔

" دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ دوسری آیت کے آخر میں کہا گیا ہے اگر وہ نماز پڑھیں اور زکوۃ دیں تو انہیں چھوڑ دیا جائے اور ان کے ساتھ قتال کو ختم کردیا جائے "۔

" اس سوال کے سلسلے میں جو بات ذہن میں آتی ہے وہ یہ ہے جن مشرکین نے نقض عہد کیا اور مسلمانوں کے ساتھ جنگ کی تو اب وہ اس بات کے مستحق نہیں رہے کہ ان کے ساتھ دوبارہ کوئی معاہدہ کیا جائے لہذا مسلمانوں پر یہ فرض ہوگیا کہ ان پر ایسی شائط مسلط کردیں جن کے نتیجے میں علاقے میں امن و سلامتی کی ضمانت دی جاسکے اور وہ شرائط یہی ہو سکتی ہیں کہ وہ شرک سے توبہ کرلیں۔ اور اسلام میں داخل ہوجائیں اور اسلامی عبادات ادا کریں اور مالی ذمہ داریاں پوری کریں۔ اور ایسے اقدامات کو اکراہ فی الدین تصور نہ کیا جائے گا۔ قطع نظر اس بات سے کہ جس نظام شرک میں وہ پڑے ہوئے ہیں وہ انسانیت کو نہایت ہی ذلت کے مقام تک گراتا ہے اور انسانوں کو ایسے عقائد و اعمال دیتا ہے جو نہایت ہی بودے اور عقل و منطق کے خلاف ہوتے ہیں اور ان نظریات کے نتیجے میں ایک ایسا جاہلی نظام رائج ہوتا ہے جو نہایت ہی ظالمانہ نظام ہوتا ہے۔ جس میں نہایت ہی مکروہ اور منکر فعال کا ارتکاب ہوتا ہے اور لوگ عجیب قسم کے تعصبات کا شکار ہوتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں اسلام ان پر جس نظام اسلامی میں داخلے کی شرائط عائد کرتا ہے اس میں ان کے لیے آزادی ، ترقی عقلی اور عملی کمال کی ضمانت دی گئی ہے۔ اسلامی نظام ان کو عبادت کے اچھے طریقے ، اخلاق کا اعلی معیار اور فکر و نظر کا منطقی نظام دیتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہم یہ نہیں سمجھتے کہ ایسے نقض عہد کرنے والوں کے ساتھ دوبارہ کسی معاہدے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اگر فریقین کی مصلحت اسی میں ہو اور بعض اوقات ایسا ہو سکتا ہے کہ مسلمان جنگ کرنے کے قابل ہی نہ ہوں یا ایسے لوگوں کو وہ جنگ کے ذریعے زیر نگیں لانے کی قوت ہی نہ کر رکھتے ہوں واللہ اعلم "۔

مصنف کی تفسیر سے ہم نے جو فقرے اوپر منتخب کیے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ مصنف اور ان جیسے دوسرے لوگ اسلام کو یہ حق نہیں دیتے کہ وہ اٹھے اور اس پوری دنیا سے انسانوں کو اپنے جیسے انسانوں کی غلامی سے آزاد کرے اور انہیں اللہ کی غلامی میں داخل کردے ، جہاں جہاں بھی اسلام کے لیے یہ ممکن ہو اور جب بھی ممکن ہو ، قطع نظر اس سے کہ کہیں مسلمانوں پر زیادتی ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو اور یہ زیادتی مسلمانوں پر ان کے اقلیمی حدود کے اندر ہوئی ہو یا باہر۔ ایسے لوگ اس اصول ہی کو مسترد کردتے ہیں حالانکہ اس اصول پر اسلامی کا نظام جہاد مرتب ہوتا ہے اور اس اصول کے سوا دین اسلام کو یہ حق حاصل نہیں ہوتا کہ وہ اپنی راہ سے وہ تمام مادی رکاوٹیں دور کردے۔ اگر اس اصول کی نفی کردی جائے تو پھر اسلامی نظام واقعیت اور سنجیدگی کے ساتھ مساوی وسائل و مواقف کے ساتھ انسانیت کا مقابلہ نہیں کرسکتا اور نہ وہ مختلف حالات اور مراحل میں ان کے حسب حال اور حالات کے مطابق کوئی حکمت عملی اختیار کرسکتا ہے اور اسلام کے لیے صرف یہی راستہ رہ جاتا ہے کہ وہ مادی قوتوں کے سامنے صرف وعظ و ت

تبلیغ سے کام لے۔ یہ ایک ایسی کمزور پوزیشن ہے جو اللہ اپنے دین کے لیے ہرگز پسند نہیں کرتا۔

(تفصیلات کے لیے دیکھئے مولانا ابو الاعلی مودودی کی کتاب الجہاد فی الاسلام اور اس تفسیر کے نویں پارے میں ہم نے اس کتاب کے جو اقتباسات دیے ہیں)

ان اقتباسات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مصنف کے فکر و نظر میں احیائے اسلام کا تحریکی منہاج نہیں ہے جس میں ہر موقع پر دشمن کے مقابلے میں برابر کے ہتھیار استعمال کیے جانے ضروری ہیں۔ مصنف نے جو انداز تفسیر اختیار کیا ہے وہ یہ ہے کہ وہ تحریک اسلامی کے سابقہ مراحل والی آیات کو فائنل قرار دے کر آخری دور میں آنے والی آیات کو ان کے ذریعے مقید کرتا ہے۔ اور وہ یہ نہیں دیکھتے کہ سابقہ ادوار میں جو آیات نازل ہوئیں وہ سابقہ مراحل اور حالات جیسے کے لیے ہیں۔ ہم بھی کہتے ہیں کہ یہ احکام در اصل منسوخ نہیں ہیں بایں معنی کہ اب بھی کسی جگہ اگر ایسے حالات درپیش ہوں جس طرح کے حالات سابقہ آیات کے وقت تھے تو ان آیات کے احکام پر عمل نہ ہوگا اور سورتوبہ کی ان آخری آیات ہی کو لیا جائے گا۔ سابقہ آیات اب بھی باقی رہیں لیکن یہ آیات مسلمانوں کو اس بات کے لیے پابند نہیں کرتیں کہ اگر وہ سورت توبہ کی آخری آیات جیسے حالات میں داخل ہوچکے ہیں تو بھی وہ مناسب اقدامات نہ کرسکیں۔ اور زیر بحث آیات کو نافذ نہ کریں۔

یہ موضوع نہایت ہی وسعت قلبی اور گہری سوچ کا تقاضا کرتا ہے اور اس کا حق ادا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ احیائے اسلام میں اسلام کے مزاج اور اس کے تحریکی منہاج کو سمجھا جائے جیسا کہ ہم نے اوپر کہا۔

اب میں سمجھتا ہوں ان سطور پر ایک بار پھر نظر ڈالی جائے جن سے ہم نے اس سبق پر تبصرے کا آغاز کیا تھا۔

" جو لوگ سیرت النبی کے احوال و واقعات کا اچھی طرح مطالعہ کریں تو انہیں اچھی طرح معلوم ہوجائے گا کہ احیائے اسلام کا تحریکی منہاج کیا ہے۔ اس کی نوعیت اور مزاج کیا ہے اور اس عمل میں مختلف اقدامات کے لیے مراحل کیا ہیں ؟ اور اس کے آخری اہداف کیا ہیں۔ نیز وہ بآسانی معلوم کرسکتے ہیں کہ اسلامی محاذ اور جزیرۃ العرب کے مشرکین اور اہل کتاب کے مختلف کیمپوں کے درمیان اس سورت میں تعلقات کے جو آخری خطوط کھینچے گئے ہیں وہ بالکل بروقت تھے۔ ان کے لی زمین تیار ہوگئی تھی ، حالات سازگار تھے اور یہی خطوط اور اقدامات فیصلہ کن تھے اور ان کو اپنے وقت پر ہونا تھا "۔

بار بار کے تجربات سے یہ اصول اور قانون متعین ہو رہا تھا کہ ایک ایسے معاشرے جس میں حاکمیت اور اقتدار اعلی صرف اللہ کے لیے مخصوص ہو اور جس کے قوانین اللہ کے بنائے ہوئے ہوں اور ایک ایسے معاشرے کے درمیان جو جاہلی معاشرہ ہو جس میں یہ تمام امور غیر اللہ کے لیے مخصوص ہوں یا ان میں اللہ کے ساتھ کوئی غیر اللہ بھی شریک ہو ، کے درمیان تعلقات کی آخری نوعیت کیا ہو اور یہ تعلقات کا حتمی اصول وہ دائمی کشمکش ہے جو ایک اسلامی اور کسی بھی جاہلی معاشرے کے درمیان ہر وقت برپا ہوتی ہے۔ جس کا تذکرہ سورت الحج کی اس آیت میں کیا گیا ہے۔

الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ إِلا أَنْ يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ وَلَوْلا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ (40): " اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ریعے سے دفع نہ کرتا رہے تو زمین میں فساد برپا ہوجائے) اس آخری اور حتمی قانون کے آثار دو طرح ظاہر ہوئے۔

ایک یہ اسلام قدم بقدم آگے بڑھتا رہا۔ ایک غزوے کے بعد دوسرا غزوہ پیش آیا۔ ایک مرحلے کے بعد دوسرا مرحلہ آیا اور اسلام ارد گرد کے علاقے میں پھیلتا رہا۔ اور اللہ کا کلمہ علاقوں کے بعد دوسرے علاقوں اور قبیلے کے بعد دوسرے قبائل تک پھیلتا رہا۔ اس طرح پورے کرہ ارض تک دعوت اسلامی کو پہنچانا اور اس تبلیغ اور اشاعت کی راہ میں آنے والی تمام رکاوٹوں کو دور کرنا تاکہ دنیا کے تمام انسانوں تک یہ دعوت بغیر کسی مادی رکاوٹ کے پہنچ سکے۔ ان مراحل کے آخر میں مسلمانوں نے مکہ مکرمہ کو فتح کرلیا اور اسلام کے پھیلاؤ کی راہ میں آنے والی بڑی رکاوٹ دور ہوگئی اور ہوازن اور ثقیف جو قریش کے بعد طاقتور قبیلے تھے ، انہوں نے بھی اسلام کی برتری کو قبول کرلیا۔ اور اس مرحلے میں اسلام ایک ایسی قوت بن گیا جس سے اسلام کے دشمن خوف کھانے لگے اور اس طرح جزیرۃ العرب میں آخری اور فیصلہ کن اقدام کے لی راہ ہموار ہوگئی اور یہ بات جزیرۃ العرب تک موقوف نہ تھی بلکہ یہی پالیسی تھی۔ پوری دنیا میں کوئی فتنہ نہ رہے اور دین سب کا سب اللہ کے لیے ہوجائے۔

دوسرا مظہر یہ ہے کہ جاہلی کیمپ بار بار ان معاہدوں کو تور دیتا تھا ، جو معاہدے وہ خود اسلامی محاذ سے کرتا تھا اور جب بھی اسے موقعہ ملتا وہ یہ عہد توڑ دیتا تھا۔ جب بھی اہل جاہلیت کو یہ احساس ہوتا اسلامی محاذ خطرے میں ہے اور زندگی اور موت کی کشمکش میں ہے یا کم از کم عہد تڑنے والے مشرکین اور اہل کتاب کو یہ یقین ہو کہ ان کا مستقبل محفوظ ہے۔ جس قدر بھی معاہدے ان لوگوں نے کیے ان کے پیچھے یہ خواہش نہ تھی کہ یہ لوگ مسلمانوں کے ساتھ فی الواقعہ امن و آشتی چاہتے تھے بلکہ یہ انہوں نے نہایت ہی مجبوری کی حالت میں کیے تھے اور ایک مناسب وقت کے لیے تھے۔ یہ معاہدے تو وہ کرلیتے لیکن وہ جب دیکھتے کہ اسلام موجود ہے اور ترقی کر رہا ہے تو وہ بےبس ہوجاتے اور ان معاہدوں کو توڑ دیتے تھے۔ کیونکہ اسلام اپنے وجود کے اعتبار سے ان کے وجود کے لیے متضاد تھا۔ اور زندگی کے چھوٹے اور بڑے معاملات میں ان کے طور طریقوں کے متضاد تھا۔ اسلام میں چونکہ سچائی ، زندگی ، حرکت ، پھیلاؤ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ اس لیے وہ ان کے وجود کے لیے خطرہ تھا کیونکہ اسلام کا مقصد وحید ہی یہ تھا کہ تمام لوگوں کو الل کی غلامی میں داخل کیا جائے۔

یہ آخری مطہر اور وہ اصول جس کے نتیجے میں یہ رنگ ظاہر ہوتا تھا اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے متعدد آیات میں اشارہ کیا ہے۔ ولا یزالون یقاتلونکم حتی یردوکم عن دینکم ان استطاعوا (اور وہ مسلسل تم سے لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ وہ تمہیں تمہارے دین سے پھیر دیں ، اگر وہ ایسا کرسکیں) یہ تو تھا مشرکین کے بارے میں اور اہل کتاب کے بارے میں۔

ود کثیر من اھل الکتب لو یردونکم من بعد ایمانکم کفارا حسدا من عند انفسہم من بعد ما تبین لھم الحق " اہل کتاب میں سے اکثر لوگ یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح تمہیں ایمان سے پھیر کر پھر کفر کی طرف پلٹا لے جائیں اگرچہ حق ان پر ظاہر ہوچکا ہے ، مگر اپنے نفس کے حسد کی بنا پر تمہارے لی ان کی یہ خواہش ہے) اور دوسری جگہ ہے ولن ترضی عنک الیھود والنصری حتی تتبع ملتھم (یہودی اور عیسائی تم سے ہر گز راضی نہ ہوں گے جب تک کہ تم ان کے طریقے پر نہ چلنے لگو) چناچہ ان قطعی نصوص کے ذریعے اللہ تعالیٰ خود اسلام کے خلاف تمام محاذوں کی سرگرمیوں کی اطلاع دیتا ہے ، کہ وہ اسلام کے خلاف متحد ہیں اور ان کا یہ موقف عارضی نہیں ہے بلکہ دائمی ہے اور عالم گیر موقف ہے اور کسی زمان و مکان کا پابند نہیں ہے۔

اسلامی معاشرے اور اس کی حکومت اور جاہلی نظاموں اور حکومتوں کے درمیان تعلقات کے حوالے سے اسلام کے حتمی اور آخری قانون اور ضابطے کو سمجھے بغیر اور اس قانون اور ضابطے کے تاریخی مظاہر پر غور کیے بغیر اور اسلامی تاریخ کے حوالے سے دونوں محاذوں کے موقف کو سمجھے بغیر اسلام کے نظریہ جہاد کو بالکل نہیں سمجھا جاسکتا۔ نہ اس طویل تاریکی کشمکش کو سمجھا جاسکتا ہے۔ موجودہ سو سال سے اسلامی کیمپ اور جاہلیت کے کیمپوں کے درمیان قائم رہی ہے۔ نہ یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ صحابہ کرام کے مجاہد گروہ نے کیوں یہ کارروائیاں کیں ، نہ بعد کے ادوار میں ہونے والی اسلامی فتوحات کو سمجھا جاسکتا ہے ، نہ بت پرستی اور اسلام کی جنگ کو سمجھا جاسکتا ہے ، نہ اسلام اور صلیبی جنگوں کی طویل جنگوں کی طویل کشمکش کو سمجھا جاسکتا ہے ، جو چودہ سو سال تک رہیں اور آج یہ جنگیں مسلمانوں کی اولاد کے خلاف بھی جاری ہیں ، اگرچہ بدقسمتی کی وجہ سے انہوں نے اسلام کی حقیقت کو ایک عرصہ ہوا ہے ، خیر باد کہہ دیا ہے ، ان کے ہاں اسلام کا صرف نام اور عنوان ہی رہ گیا ہے۔ مسلمانوں کی اولاد کے خلاف یہ صلیبی جنگ روسی علاقوں اور عیسائی صلیبی علاقوں میں آج بھی جاری ہے۔ روس میں ، چین میں ، یوگو سلاویہ میں ، جاپان میں ، ہندوستان اور کشمیر میں غرض ہر جگہ یہ جنگ جاری ہے۔ حبشہ ، زنجبار ، کینیا ، جنوبی افریقہ اور امریکہ ہر جگہ اسلام کے خلاف صلیبی جنگ جاری ہے۔ پھر جہاں جہاں اسلامی تحریکات اٹھتی ہیں ان کو سر اٹھانے نہیں دیا جاتا۔ خود عالم اسلام کے اندر یا اس خطے میں جو کبھی اسلامی تھا ، اسلام کی احیاء کی تحریکات اٹھتی ہیں ان کو سر اٹھانے نہیں دیا جاتا۔ خود عالم اسلام کے اندر یا اس خطے میں جو کبھی اسلامی تھا ، اسلام کی احیاء کی تحریکات کو ختم کیا جاتا ہے بلکہ کچلا جاتا ہے۔ اور اس معاملے میں بت پرست ، مغرب کے صلیبی اور مشرق کے کمیونسٹ بالکل متفق اور متحد ہیں۔ اور جو حکومتیں یہ فریضہ سر انجام دیتی ہیں ان کو اس قدر امداد دی جاتی ہے کہ ان کی تمام ضروریات کے لیے کفیل ہوتی ہے اور پھر یہ حکمران جو اسلامی لیڈوں پر ظلم کرتے ہیں ان کے بارے میں ان نام نہاد ترقی یافتہ اور بنیادی حقوق کے داعی ممالک مکمل خاموشی اختیار کرتے ہیں۔ حالانکہ احیائے اسلام کا کام کرنے والے لوگ نہایت ہی معزز شہری ہوتے ہیں۔

یہ اسلامی قانون بین الممالک سورت توبہ کے نزول سے قدرے پہلے ہی واضح ہوکر سامنے آگیا تھا اور فتح مکہ کے بعد یہ درج بالا دو مناظر و مظاہر کی شکل میں عیاں ہوگیا تھا ، اس لیے جزیرۃ العرب میں مشرکین کے حوالے سے جو اقدامات بھی کیے گئے یا اہل کتاب کے بارے میں جو رویہ اختیار کیا گیا اس کی تصیلات سورت توبہ کے اس حصہ میں دی گئی ہیں۔

اس قانون اور ان اقدامات کے بارے میں تو اسلامی قیادت کو شرح صدر حاصل تھا لیکن اس وقت اسلامی جماعت کے اندر جو مختلف گروہ تھے ، خصوصاً وہ لوگ جو ابھی ابھی ایمان لائے تھے یا مؤلفۃ القلوب میں شامل تھے یا ضعیف الایمان مسلمان یا منافقین تھے ان کی سمجھ میں اسلام کا نظریہ جہاد یا جزیرۃ العرب میں یہ پالیسی نہ آرہی تھی۔

اسلامی معاشرے میں ایسے لوگ بھی تھے اور شاید وہ مسلمانوں میں معزز ترین اور مدبر و فہیم لوگ تھے۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ تمام مشرکین کے ساتھ کیے ہوئے معاہدوں کو کیوں ختم کیا جا رہا ہے۔ یعنی جن لوگوں نے نقض عہد کیا تھا ، ان کو چار ماہ کی مہلت دی گئی۔ جن کے معاہدے میں کوئی وقت مقرر نہ تھا ، یا ایسے لوگ جن کے ساتھ نہ معاہدہ تھا اور نہ ہی انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ جنگ کی تھی ، یا جن کے ساتھ چار ماہ سے کم کے لیے تھا ، یا جن لوگوں کے ساتھ موقت معاہدے تھے لیکن انہوں نے معاہدوں کی خلاف ورزی نہ کی تھی اور نہ مسلمانوں کے خلاف محاذ میں شریک ہوتے تھے۔ مسلمانوں کے یہ گروہ اگرچہ نقض عہد کرنے والوں یا جن سے خیانت کا خطرہ ہوتا ان کے ساتھ معاہدوں کے ختم کرنے کے اس حکم کو سمجھ رہے تھے جیسا کہ سورت انفال میں آچکا ہے۔

و اما تخافن من قوم خیانۃ فانبذ الیھم علی سواء ان اللہ لا یحب الخائنین " اگر کبھی تمہیں کسی قوم سے خیانت کا اندیشہ ہو تو اس کے معاہدے کو علانیہ اس کے آگے پھینک دو یقیناً اللہ خائنوں کو پسند نہیں کرتا " لیکن دوسرے لوگوں کے معاہدوں کو چار ماہ کے بعد ختم کردینا یا ان کو مقررہ مدت کے بعد ختم کردینا ان کی سمجھ میں نہ آ رہا تھا کیونکہ وہ دور جاہلیت میں اس قسم کے احکام کے عادی ہیں کیونکہ جاہلیت میں جب تک فریقین معاہدے کی پابندی کرتے یا ایک دوسرے کے ساتھ دوستی کرتے یا امن و سلامتی سے رہتے تو ایسے لوگوں کے ساتھ یہ سلوک نہ کیا جاتا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی اسکیم اس عادی اسکیم سے زیادہ دور رس تھی اور عربوں کے اندر انقلاب جہاں تک ہپنچ گیا تھا یہ اس کا طبیعی مرحلہ اور اقدام تھا۔

پھر اسلامی صٖوں میں ایسے لوگ بھی موجود تھے اور ہوسکتا ہے کہ سربرآوردہ اور اہم لوگوں میں بھی ایسے لوگ ہوں جن کے خیال میں تمام مشرکین جزیرہ کے ساتھ قتال اور جنگ شروع کردینا مناسب نہ تھا۔ خصوصاً یہ جنگ اس وقت تک جاری رکھنا جب تک یہ لوگ اسلام کے سامنے جھک نہیں جاتے جبکہ اسلام جزیرۃ العرب میں فاتح و غآلب ہوگیا تھا۔ صرف چند منتشر دور دراز علاقے رہ گئے جو اسلام کے زیر نگیں نہ تھے اور ان علاقوں سے اسلام کو کوئی ڈر نہ تھا۔ اور یہ توقع بھی تھی کہ یہ علاقے بھی اسلام کو قبول کرلیتے۔ خصوصاً پر امن حالات کے اندر خصوصاً ایسے لوگ اپنے اقرباء ، ہم قبیلہ اور سماجی اور اقتصادی تعلقات رکھنے والے گروہوں اور لوگوں سے بھی لڑنا مناسب نہ سمجھتے ہوں۔ جبکہ وہ سمجھتے تھے کہ اس سخت کارروائی کے بغیر بھی ان لوگوں کے داخل اسلام ہونے کی راہ ہموار ہوگئی ہے لیکن اللہ کی منشا یہ تھی کہ دار الاسلام میں لوگوں کے باہم تعلقات صرف اسلامی نظریہ حیات کی اساس پر رہ جائیں۔ دوسرے تمام روابط کٹ جائیں اور جزیرۃ العرب اسلام کے لیے خالص ہوجائے اور یہ اسلام کا محفوظ مرکز بن جائے۔ جبکہ اللہ کو معلوم تھا کہ رومی شام کی جانب سے اسلام پر حملہ آور ہونے کی تیاریاں کر رہے تھے۔

اسلامی معاشرے میں بعض ایسے لوگ بھی تھے ، شاید یہ ان میں سے معزز اور معتبر لوگ ہوں ، جو یہ سمجھ رہے تھے کہ اس طرح مکہ و مدینہ کی منڈیاں کساد بازاری کا شکار ہوجائیں گی اور جزیرۃ العرب کے اقتصادی اور تجارتی تعلقات بگڑ جائیں گے کیونکہ اب مسلمانوں اور مشرکین کے درمیان ہر جگہ جنگ اور قتل و مقاتلہ شروع ہوجائے گا۔ خصوصا موسم حج اس سے متاثر ہوگا جبکہ اس اعلان میں یہ بات بھی ہے کہ مشرک اور ننگے حج نہ کریں گے۔ اور اب مشرکین کا حصہ تعمیر مساجد میں بھی نہ ہوگا جبکہ ایسے لوگوں کے خیال میں اسی اقدام کی کوئی جنگی ضرورت نہ تھی۔ اور اس مقصد کو تدریجی اور پر امن طریقوں سے بھی حاصل کیا جاسکتا تھا۔ لیکن اللہ کا منشا یہ تھا کہ اجتماعی معاملات و تعلقات صرف نظریات کی اساس پر ہوں اور یہ کہ مومنین کے دلوں میں عقائد و نظریات کی اہمیت تمام دوسرے مقاصد و اہداف سے برتر ہو ، چاہے یہ تعلقات قرابت داری کے ہوں ، چاہے یہ صدقوں اور تجارتی منافع کے ہوں ، چناچہ اللہ نے فرمایا کہ وہی رزاق ہے اور اسباب رزق اس کے قبضہ قدرت میں ہیں اور اللہ جس طرح چاہتا ہے انہیں پھیر دیتا ہے۔

پھر اسلامی معاشرے میں اس وقت ضعیف العقیدہ ، متردد ، مؤلفۃ القلوب ، منافقین اور دوسرے غیر جانبدار عافیت کوش لوگ بھی تھے اور یہ دین اسلام میں فوج در فوج داخل ہوگئے تھے اور یہ پوری طرح اسلامی رنگ میں نہ رنگے گئے تھے ، اور یہ لوگ مشرکین کے خلاف عمومی اعلان جنگ سے ذرا خوف کھاتے تھے۔ خصوصاً تجارتی کساد بازاری اور جنگ کی حالت میں مواصلات کی خرابی اور تجارتی راستوں کی بندش اور سب سے زیادہ یہ کہ جہاد کی مشکلات کو برداشت کرنا ، جبکہ وہ اپنے اندر اس کی قوت نہ پاتے تھے ، کیونکہ عوام کا جم غفیر اسلام کے غلبے کو دیکھ کر داخل ہوگیا تھا۔ کیونکہ یہ نفع کا سودا تھا۔ لیکن یہ اعلان عام تو ان کے حاشیہ خیال ہی میں نہ تھا کیونکہ یہ لوگ نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے تھے اور اس راہ کی مشکلات سے ابھی خبردار ہی نہ تھے اور اللہ یہ چاہتا تھا کہ اسلامی صفوں کو پاک و صاف کردے اس کا فرمان تو یہ تھا۔

أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تُتْرَكُوا وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جَاهَدُوا مِنْكُمْ وَلَمْ يَتَّخِذُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلا رَسُولِهِ وَلا الْمُؤْمِنِينَ وَلِيجَةً وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ (16): " کیا تم نے یہ سمجھ لیا ہے کہ تم جنت میں داخل ہوجاؤگے اور اللہ ان لوگوں کو ممتاز نہ کردے گا جو تم میں سے جہاد کرتے ہیں اور جنہوں نے اللہ اور رسول اللہ اور مومنین کے سوا کسی اور کو ولی نہیں بنایا اور اللہ تمہارے تمام اعمال سے خبردار ہے "

غرض اس مخلوط اسلامی معاشرے میں فتح مکہ کے بعد مختلف الاغراض لوگ تھے ، اس لیے سورت توبہ کے اس حصے میں اس قدر مفصل اور مختلف اسلوب کلام میں ہدایات دی گئیں اور اشارات دیے گئے تاکہ لوگوں کے دلوں میں جو کمزوریاں یا غلط خیالات رہ گئے تھے ان کو دور کیا جاسکے ، اسلامی صفوں میں سے بےچینی ، انتشار اور خیالات و افکار سے شبہات کو پاک کیا جاسکے ، جو بعض مخلص ترین لوگوں کے دلوں میں بھی تھے۔

چناچہ ایسے حالات میں اس سورت کا آغاز اس دو ٹوک اعلان سے ہوا کہ اللہ اور اس کے رسول مشرکین سے اب بری الذمہ ہیں۔ اور ایک آیت کے بعد اعلامیہ میں دوبارہ بتکرار یہ بات دہرائی گئی کہ اللہ اور رسول اللہ مشرکین سے بری الذمہ ہیں اور نہایت ہی پر زور الفاظ میں تاکہ کوئی مسلمان ان لوگوں سے کسی قسم کا تعلق نہ رکھے جن سے اللہ اور رسول اللہ نے براءت کا اظہار کردیا ہے۔

بَرَاۗءَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖٓ اِلَى الَّذِيْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ : " اعلان براءت ہے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ان کو مشرکین کو جن سے تم نے معاہدے کیے تھے " اور مسلمانوں کو مطمئن کرنے کے لیے اور کافروں کو ڈرانے کے لیے یہ ضروری تھا کہ یہ اعلان بھی کردیا جائے کہ اللہ منکرین حق کو رسوا کرنے والا ہے اور جو لوگ روگردانی کریں گے وہ اللہ کے عذاب سے بچ کر نکلنے والے نہیں ہیں۔

وَاَذَانٌ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖٓ اِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الْاَكْبَرِ اَنَّ اللّٰهَ بَرِيْۗءٌ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ ڏ وَرَسُوْلُهٗ : " اطلاع عام ہے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے حج اکبر کے دن تمام لوگوں کے لیے کہ اللہ مشرکین سے بری الذمہ ہے اور اس کا رسول بھی "

فَسِيْحُوْا فِي الْاَرْضِ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَّاعْلَمُوْٓا اَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللّٰهِ ۙ وَاَنَّ اللّٰهَ مُخْزِي الْكٰفِرِيْنَ : " ملک میں چار مہینے چل پھر لو اور جان رکھو کہ تم اللہ کو عاجز کرنے والے نہیں ہو الا یہ کہ اللہ منکرین حق کو رسوا کرنے والا ہے "

فَاِنْ تُبْتُمْ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۚ وَاِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوْٓا اَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللّٰهِ ۭ وَبَشِّرِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِعَذَابٍ اَلِــيْمٍ : " اب اگر تم توبہ کرلو ، تو تمہارے ہی لیے بہتر ہے اور جو منہ پھیرتے ہو تو خوب سمجھ لو کہ تم اللہ کو عاجز کرنے والے نہیں ہو۔ اور اے نبی انکار کرنے والوں کو سخت عذاب کی خوشخبری سنا دو "

اس بات پر سخت ناراضی کا اظہار کیا گیا کہ ان مشرکین کے ساتھ اللہ اور رسول اللہ کا عہد کیسے ہوسکتا ہے ؟ ماسوائے ان لوگوں کے جنہوں نے عہد کیا اور پھر اس پر پوری طرح قائم رہے ، تو یہ عہد بھی مدت عہد تک جاری رہے گا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو متنبہ کردیا گیا کہ یہ مشرکین جب بھی قدرت پائیں گے وہ عہد و پیمان کا کوئی پاس نہ رکھیں گے۔ اور وہ مسلمانوں کے خلاف کسی بھی اقدام کو مذموم نہیں سمجھتے۔ بشرطیکہ وہ اس پر قادر ہوں۔ چناچہ ان کے کفر کا نقشہ کھینچا گیا اور کہا گیا کہ یہ لوگ بڑے جھوٹے ہیں۔

كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ عِنْدَ اللَّهِ وَعِنْدَ رَسُولِهِ إِلا الَّذِينَ عَاهَدْتُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ فَمَا اسْتَقَامُوا لَكُمْ فَاسْتَقِيمُوا لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ (7) كَيْفَ وَإِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ لا يَرْقُبُوا فِيكُمْ إِلا وَلا ذِمَّةً يُرْضُونَكُمْ بِأَفْوَاهِهِمْ وَتَأْبَى قُلُوبُهُمْ وَأَكْثَرُهُمْ فَاسِقُونَ (8) اشْتَرَوْا بِآيَاتِ اللَّهِ ثَمَنًا قَلِيلا فَصَدُّوا عَنْ سَبِيلِهِ إِنَّهُمْ سَاءَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (9) لا يَرْقُبُونَ فِي مُؤْمِنٍ إِلا وَلا ذِمَّةً وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُعْتَدُونَ (10): " ان مشرکین کے لیے اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک کوئی آخر کیسے ہوسکتا ہے ؟ بجز ان لوگوں کے جن سے تم نے مسجد حرام کے پاس معاہدہ کیا تھا تو جب تک وہ تمہارے ساتھ سیدھے رہیں تم بھی ان کے ساتھ سیدھے رہو کیونکہ اللہ متقیوں کو پسند کرتا ہے مگر ان کے سوا دوسرے مشرکین کے ساتھ کوئی عہد کیسے ہوسکتا ہے ، جبکہ ان کا حال یہ ہے کہ تم پر قابو پاجائیں تو تمہارے معاملے میں نہ کسی قرابت کا لحاظ کریں نہ کسی معاہدے کی ذمہ درای کا ؟ وہ اپنی زبانوں سے تم کو راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر دل ان کے انکار کرتے ہیں اور ان میں سے اکثر فاسق ہیں۔ انہوں نے اللہ کی آیات کے بدلے تھوڑی سی قیمت قبول کرلی پھر اللہ کے راستے میں سد راہ بن کر کھڑے ہوگئے۔ بہت برے کرتوت تھے جو یہ کر رہے ہیں۔ کسی مومن کے معاملے میں یہ نہ قرابت کا لحاظ کرتے ہیں اور نہ کسی عہد کی ذمہ داری کا اور زیادتی ہمیشہ انہی کی طرف سے ہوتی ہے "

مسلمانوں کے دلوں میں جو تلخ یادیں تھیں یا ان کے شعور اور جذبات میں انتقام کے لیے جو غیظ و غضب تھا ، حالات کا تقاضا یہ تھا کہ ذرا اسے ابھارا جائے ، اس طرح اللہ کے دشمنوں ، اللہ کے دین کے دشمنوں اور خود مسلمانوں کے دشمنوں کو کچل کر دلوں کو ٹھنڈا کیا جائے۔

أَلا تُقَاتِلُونَ قَوْمًا نَكَثُوا أَيْمَانَهُمْ وَهَمُّوا بِإِخْرَاجِ الرَّسُولِ وَهُمْ بَدَءُوكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ أَتَخْشَوْنَهُمْ فَاللَّهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَوْهُ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (13) قَاتِلُوهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللَّهُ بِأَيْدِيكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ (14) وَيُذْهِبْ غَيْظَ قُلُوبِهِمْ وَيَتُوبُ اللَّهُ عَلَى مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ (15): " کیا تم نہ لڑو گے ایسے لوگوں سے جو اپنے عہد توڑتے رہتے ہیں اور جنہوں نے رسول کو ملک سے نکال دینے کا قصد کیا تھا اور زیادتی کی ابتدا کرنے والے وہی تھے ؟ کیا تم ان سے ڈرتے ہو ؟ اگر تم مومن ہو تو اللہ اس کا زیادہ مستحق ہے کہ تم اس سے ڈرو۔ ان سے لڑو ، اللہ تمہارے ہاتھوں ، ان کو سزا دلوائے گا اور انہیں ذلیل و خوار کرے گا اور ان کے مقابلے میں تمہاری مدد کرے گا اور بہت سے مومنوں کے دل ٹھنڈے کرے گا اور ان کے قلوب کی جلن مٹا دے گا اور جسے چاہے گا توبہ کی توفیق بھی دے دے گا۔ اللہ سب کچھ جانے والا اور دانا ہے "

حالات کا تقاضا یہ تھا کہ نظریات کی اساس پر مکمل جدائی ہوجائے اور ذاتی مصلحوں اور رشتہ داری کے جذبات کا مقابلہ کیا جائے اور ان کو اللہ ، رسول اللہ اور جہاد فی سبیل اللہ کی راہ میں رکاوٹ بننے نہ دیا جائے۔ چناچہ مسلمانوں کو دو راستوں کے درمیان کھڑا کردیا جاتا ہے کہ وہ ایک کے بارے میں فیصلہ کریں۔

(بہت طویل ہونے کی وجہ سے اس آیت کی مکمل تفسیر شامل نہیں کی جا سکی۔ ہم اس کے لیے معذرت خواہ ہیں۔ برائے مہربانی اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ فی ظلال القرآن جلد سے پڑھیں)

آیت 3 وَاَذَانٌ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖٓ اِلَی النَّاسِ یَوْمَ الْحَجِّ الْاَکْبَرِ عمرے کو چونکہ حج اصغر کہا جاتا ہے اس لیے یہاں عمرے کے مقابلے میں حج کو حج اکبر کہا گیا ہے۔ اس سلسلے میں ہمارے ہاں عوام میں جو یہ بات مشہور ہے کہ حج اگر جمعہ کے دن ہو تو وہ حج اکبرہوتا ہے ‘ ایک بےبنیاد بات ہے۔اَنَّ اللّٰہَ بَرِیْٓءٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَلا وَرَسُوْلُہٗ ط یہ اعلان چونکہ حج کے اجتماع میں کیا گیا تھا اور حج کے لیے جزیرہ نمائے عرب کے تمام اطراف و اکناف سے لوگ آئے ہوئے تھے ‘ لہٰذا اس موقع پر اعلان کرنے سے گویا عرب کے تمام لوگوں کے لیے اعلان عام ہوگیا کہ اب اللہ اور اس کا رسول ﷺ مشرکین سے برئ الذمہ ہیں اور ان کے ساتھ کسی بھی قسم کا کوئی معاہدہ نہیں رہا۔

حج اکبر کے دن اعلان اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے عام اعلان ہے اور ہے بھی بڑے حج کے دن۔ یعنی عید قرباں کو جو حج کے تمام دنوں سے بڑا اور افضل دن ہے کہ اللہ اور اس کا رسول ﷺ مشرکوں سے بری الذمہ بیزار اور الگ ہے اگر اب بھی تم گمراہی اور شرک و برائی چھوڑ دو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے توبہ کرلو نیک بن جاؤ اسلام قبول کرلو، شرک و کفر چھوڑ دو اور اگر تم نے نہ مانا اپنی ضلالت پر قائم رہے تو تم نہ اب اللہ کے قبضے سے باہر ہو نہ آئندہ کسی وقت اللہ کو دبا سکتے ہو وہ تم پر قادر ہے تمہاری چوٹیاں اس کے ہاتھ میں ہیں وہ کافروں کو دنیا میں بھی سزا کرے گا اور آخرت میں بھی عذاب کرے گا۔ صحیح بخاری شریف میں ہے حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے قربانی والے دن ان لوگوں میں جو اعلان کے لیے بھیجے گئے تھے بھیجا۔ ہم نے منادی کردی کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج کو نہ آئے اور بیت اللہ شریف کا طواف کوئی شخص ننگا ہو کر نہ کرے پھر حضور ﷺ نے حضرت علی کو بھیجا کہ سورة براۃ کا اعلان کردیں پس آپ نے بھی منٰی میں ہمارے ساتھ عید کے دن انہیں احکام کی منادی کی۔ حج اکبر کا دن بقرہ عید کا دن ہے۔ کیونکہ لوگ حج اصغر بولا کرتے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے اعلان کے بعد حجتہ الوداع میں ایک بھی مشرک حج کو نہیں آیا تھا۔ حنین کے زمانے میں رسول اللہ ﷺ نے جعرانہ سے عمرے کا احرام باندھا تھا پھر اس سال حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو امیر حج بنا کر بھیجا اور آپ نے حضرت ابوہریرہ ؓ کو منادی کے لیے روانہ فرمایا پھر حضور ﷺ نے حضرت علی ؓ کو بھیجا کہ برات کا اعلان کردیں امیر حج حضرت علی ؓ کے آنے کے بعد بھی حضرت ابوبکر صدیق ؓ ہی رہے ؓ۔ لیکن اس روایت میں غربت ہے عمرہ جعرانہ والے سال امیر حج حضرت عتاب بن اسید تھے حضرت ابو بکرصدیق ؓ تو سنہ009ھ میں امیر حج تھے۔ مسند کی روایت میں ہے حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں اس سال حضرت علی ؓ کے ساتھ میں تھا ہم نے پکار پکار کر منادی کردی کہ جنت میں صرف ایماندار ہی جائیں گے بیت اللہ کا طواف آئندہ سے کوئی شخص عریانی کی حالت میں نہیں کرسکے گا۔ جن کے ساتھ ہمارے عہد و پیمان ہیں ان کی مدت آج سے چار ماہ کی ہے، اس مدت کے گذر جانے کے بعد اللہ اور اس کا رسول ﷺ مشرکوں سے بری الذمہ ہیں اس سال کے بعد کسی کافر کو بیت اللہ کے حج کی اجات نہیں۔ حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں۔ یہ منادی کرتے کرتے مرا گلا پڑگیا۔ حضرت علی کی آواز بیٹھ جانے کے بعد میں نے منادی شروع کردی تھی۔ ایک روایت میں ہے جس سے عہد ہے اس کی مدت وہی ہے۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں مجھے تو ڈر ہے کہ یہ جملہ کسی راوی کے وہم کی وجہ سے نہ ہو۔ کیونکہ مدت کے بارے میں اس کے خلاف بہت سی روایتیں ہیں۔ مسند میں ہے کہ براۃ کا اعلان کرنے کو آپ ﷺ حضرت ابو بکرصدیق ؓ کو بھیجا وہ ذوالحلیفہ پہنچے ہوں گے جو آپ نے فرمایا کہ یہ اعلان تو یا میں خود کروں گا یا میرے اہل بیت میں سے کوئی شخص کرے گا پھر آپ نے حضرت علی کو بھیجا حضرت علی فرماتے ہیں سورة برات کی دس آیتیں جب اتریں آپ نے حضرت ابوبکر کو بلا کر فرمایا انہیں لے جاؤ اور اہل مکہ کو سناؤ پھر مجھے یاد فرمایا اور ارشاد ہوا کہ تم جاؤ ابوبکر صدیق ؓ سے تم ملو جہاں وہ ملیں ان سے کتاب لے لینا اور مکہ والوں کے پاس جاکر انہیں پڑھ سنانا میں چلا جحفہ میں جا کر ملاقات ہوئی۔ میں نے ان سے کتاب لے لی آپ واپس لوٹے اور حضور ﷺ سے پوچھا کہ کیا میرے بارے میں کوئی آیتیں نازل ہوئی ہیں ؟ آپ نے فرمایا نہیں جبرائیل ؑ میرے پاس آئے اور فرمایا کہ یا تو یہ پیغام خود آپ پہنچائیں یا اور کوئی شخص جو آپ میں سے ہو۔ اس سند میں ضعف ہے اور اس سے یہ مراد بھی نہیں حضرت ابوبکر صدیق ؓ اس وقت لوٹ آئے نہیں بلکہ آپ نے اپنی سرداری میں وہ حج کرایا حج سے فارغ ہو کر پھر واپس آئے جیسے کہ اور روایتوں میں صراحتاً مروی ہے۔ اور حدیث میں ہے کہ حضرت علی ؓ سے جب حضور ﷺ نے اس پیغام رسانی کا ذکر کیا تو حضرت علی ؓ نے عذر پیش کیا کہ میں عمر کے لحاظ سے اور تقریر کے لحاظ سے اپنے میں کمی پاتا ہوں آپ نے فرمایا لیکن ضرورت اس کی ہے کہ اسے یا تو میں آپ پہنچاؤں یا تو پہنچائے حضرت علی ؓ نے کہا اگر یہی ہے تو لیجئے میں جاتا ہوں آپ ﷺ نے فرمایا جاؤ اللہ تیری زبان کو ثابت رکھے اور تیرے دل کو ہدایت دے۔ پھر اپناہاتھ ان کے منہ پر رکھا۔ لوگوں نے حضرت علی سے پوچھا کہ حج کے موقع پر حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے ساتھ آپ کو رسول اللہ ﷺ نے کیا بات پہنچانے بھیجا تھا ؟ آپ نے وہی اوپر والی چاروں باتیں بیان فرمائیں۔ مسند وغیرہ میں یہ روایت کسی طریق سے آئی ہے اس میں لفظ یہ ہیں کہ جن سے معاہدہ ہے وہ جس مدت تک ہے اسی تک رہے گا اور حدیث میں ہے کہ آپ سے لوگوں نے کہا کہ آپ حج میں حضرت صدیق اکبر ؓ کو بھیج چکے ہیں کاش کہ یہ پیغام بھی انہیں پہنچا دیتے آپ نے تو حج کا انتظام کیا اور عید والے دن حضرت علی ؓ نے لوگوں کو رسول اللہ ﷺ کے یہ احکام پہنچائے۔ پھر یہ دونوں آپ کے پاس آئے پس مشرکین میں سے جن سے عام عہد تھا ان کے لیے تو چار ماہ کی مدت ہوگئی۔ باقی جس سے جتنا عہد تھا وہ بدستور رہا۔ اور روایت میں ہے کہ ابوبکر صدیق کو تو رسول اللہ ﷺ نے امیر حج بنا کر بھیجا تھا اور مجھے ان کے پاس چالیس آیتیں سورة برات کی دے کر بھیجا تھا آپ نے عرفات کے میدان میں عرفہ کے دن لوگوں کو خطبہ دیا۔ پھر حضرت علی ؓ سے فرمایا اٹھئے اور سرکار رسالت مآب کا پیغام لوگوں کو سنا دیجئے۔ پس حضرت علی ؓ نے کھڑے ہو کر ان چالیس آیتوں کی تلاوت فرمائی۔ پھر لوٹ کر منٰی میں آکر جمرہ پر کنکریاں پھینکیں اونٹ نحر کیا سر منڈوایا پھر مجھے معلوم ہوا کہ سب حاجی اس خطبے کے وقت موجود تھے اس لیے میں نے ڈیروں میں اور خیموں میں اور پڑاؤ میں جا جا کر منادی شروع کردی میرا خیال ہے کہ شاید اس وجہ سے لوگوں کو یہ گمان ہوگیا یہ دسویں تاریخ کا ذکر ہے حالانکہ اصل پیغام نویں کو عرفہ کے دن پہنچا دیا گیا تھا۔ ابو اسحاق کہتے ہیں میں نے ابو جحیفہ سے پوچھا کہ حج اکبر کا کونسا دن ہے ؟ آپ نے فرمایا عرفے کا دن۔ میں نے کہا یہ آپ اپنی طرف سے فرما رہے ہیں یا صحابہ ؓ سے سنا ہوا۔ فرمایا سب کچھ یہی ہے۔ عطاء بھی یہی فرماتے ہیں حضرت عمر ؓ بھی یہی فرما کر فرماتے ہیں پس اس دن کو کوئی روزہ نہ رکھے۔ راوی کہتا ہے میں نے اپنے باپ کے بعد حج کیا مدینے پہنچا اور پوچھا کہ یہاں آج کل سب سے افضل کون ہیں ؟ لوگوں نے کہا حضرت سعید بن مسیب ہیں ؓ۔ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ میں نے مدینے والوں سے پوچھا کہ یہاں آج کل سب سے افضل کون ہیں ؟ تو انہوں نے آپ کا نام لیا تو میں آپ کے پاس آیا ہوں یہ فرمائیے کہ عرفہ کے دن کے روزے کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا میں تمہیں اپنے سے ایک سو درجے بہترین شخص کو بتاؤں وہ عمرو بن عمر ہیں وہ اس روزے سے منع فرماتے تھے اور اسی دن کو حج اکبر فرماتے تھے۔ (ابن ابی حاتم وغیرہ) اور بھی بہت سے بزرگوں نے یہی فرمایا ہے۔ کہ حج اکبر سے مراد عرفے کا دن ہے ایک مرسل حدیث میں بھی ہے آپ نے اپنے عرفے کے خطبے میں فرمایا یہی حج اکبر کا دن ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد بقرہ عید کا دن۔ حضرت علی یہی فرماتے ہیں۔ ایک مرتبہ حضرت علی بقر عید والے دن اپنے سفید خچر پر سوار جا رہے تھے کہ ایک شخص نے ان کی لگام تھام لی اور یہی پوچھا آپ نے فرمایا حج اکبر کا دن آج ہی کا دن ہے لگام چھوڑ دے۔ عبداللہ بن ابی اوفی کا قول بھی یہی ہے۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ نے اپنے عید کے خطبے میں فرمایا آج ہی کا دن یوم الاضحی ہے آج ہی کا دن یوم النحر ہے۔ آج ہی کا دن حج اکبر کا دن ہے۔ ابن عباس سے بھی یہی مروی ہے اور بھی بہت سے لوگ اسی طرف گئے ہیں کہ حج اکبر بقرہ عید کا دن ہے۔ امام ابن جریر کا پسندیدہ قول بھی یہی ہے۔ صحیح بخاری کے حوالے سے پہلے حدیث گذر چکی ہے۔ کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے منادی کرنے والوں کو منٰی میں عید کے دن بھیجا تھا۔ ابن جریر میں ہے رسول اللہ ﷺ حجتہ الوداع میں جمروں کے پاس دسویں تاریخ ذی الحجہ کو ٹھہرے اور فرمایا یہی دن حج اکبر کا دن ہے اور روایت میں ہے کہ آپ کی اونٹنی سرخرنگ کی تھی آپ نے لوگوں سے پوچھا کہ جانتے بھی ہو ؟ آج کیا دن ہے ؟ لوگوں نے کہا قربانی کا دن ہے۔ آپ نے فرمایا سچ ہے یہی دن حج اکبر کا ہے۔ اور روایت میں ہے کہ آپ اونٹنی پر سوار تھے لوگ اس کی نکیل تھامے ہوئے تھے۔ آپ نے صحابہ ؓ سے پوچھا کہ یہ کونسا دن ہے جانتے ہو ؟ ہم اس خیال سے خاموش ہوگئے کہ شاید آپ اس کا کوئی اور ہی نام بتائیں۔ آپ نے فرمایا یہ حج اکبر کا دن نہیں ؟ اور روایت میں ہے کہ لوگوں نے آپ کے سوال پر جواب دیا کہ یہ حج اکبر کا دن ہے۔ سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ عید کے بعد کا دن ہے۔ مجاہد کہتے ہیں حج کے سب دنوں کا یہی نام ہے۔ سفیان بھی یہی کہتے ہیں کہ جیسے یوم جمل یوم صفین ان لڑائیوں کے تمام دنوں کا نام ہے ایسے ہی یہ بھی ہے۔ حسن بصری سے جب یہ سوال ہوا تو آپ نے فرمایا تمہیں اس سے کیا حاصل یہ تو اس سال تھا جس سال حج کے امیر حضرت ابوبکر صدیق ؓ تھے۔ ابن سیرین اسی سوال کے جواب میں فرماتے ہیں یہی وہ دن تھا جس میں رسول اللہ کا اور عام لوگوں کا حج ہوا۔

آیت 3 - سورہ توبہ: (وأذان من الله ورسوله إلى الناس يوم الحج الأكبر أن الله بريء من المشركين ۙ ورسوله ۚ فإن تبتم فهو...) - اردو