سورہ توبہ: آیت 2 - فسيحوا في الأرض أربعة أشهر... - اردو

آیت 2 کی تفسیر, سورہ توبہ

فَسِيحُوا۟ فِى ٱلْأَرْضِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَٱعْلَمُوٓا۟ أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِى ٱللَّهِ ۙ وَأَنَّ ٱللَّهَ مُخْزِى ٱلْكَٰفِرِينَ

اردو ترجمہ

پس تم لوگ ملک میں چار مہینے اور چل پھر لو اور جان رکھو کہ تم اللہ کو عاجز کرنے والے نہیں ہو، اور یہ کہ اللہ منکرین حق کو رسوا کرنے والا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faseehoo fee alardi arbaAAata ashhurin waiAAlamoo annakum ghayru muAAjizee Allahi waanna Allaha mukhzee alkafireena

آیت 2 کی تفسیر

(سورۃ براء ۃ/ توبہ پر ایک نظر کا دوسرا حصہ )

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَاءَتْكُمْ جُنُودٌ فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا وَجُنُودًا لَمْ تَرَوْهَا وَكَانَ اللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرًا (9)إِذْ جَاءُوكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ وَإِذْ زَاغَتِ الأبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا (10) هُنَالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُونَ وَزُلْزِلُوا زِلْزَالا شَدِيدًا (11) وَإِذْ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ مَا وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِلا غُرُورًا (12) وَإِذْ قَالَتْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ يَا أَهْلَ يَثْرِبَ لا مُقَامَ لَكُمْ فَارْجِعُوا وَيَسْتَأْذِنُ فَرِيقٌ مِنْهُمُ النَّبِيَّ يَقُولُونَ إِنَّ بُيُوتَنَا عَوْرَةٌ وَمَا هِيَ بِعَوْرَةٍ إِنْ يُرِيدُونَ إِلا فِرَارًا (13) وَلَوْ دُخِلَتْ عَلَيْهِمْ مِنْ أَقْطَارِهَا ثُمَّ سُئِلُوا الْفِتْنَةَ لآتَوْهَا وَمَا تَلَبَّثُوا بِهَا إِلا يَسِيرًا (14)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، اپنے اوپر اللہ کا احسان یاد کرو ، جب لشکر تم پر چڑھ آئے ہو تو ہم نے ان پر آندھی بھیج دی۔ اور ایسی فوجیں جو تم کو دکھائی نہیں دیتی تھیں اور جو کچھ تم کر رہے تھے ، اللہ دیکھ رہا تھا۔ جب تمہارے اوپر کی طرف سے اور تمہارے نیچے کی طرف سے تم پر چڑھ آئے اور جب آنکھیں پتھرا گئیں ، کلیجے منہ کو آگئے اور اللہ کے بارے میں تم لوگ گمان کرنے لگے۔ اس موقعہ پر ایمان والے آزمائے گئے اور بری طرح جھنجھوڑے گئے اور جب منافقین نے اور ان لوگوں نے جن کے دلوں میں روگ تھا ، کہنا شروع کیا کہ اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے جو وعدہ کیا تھا وہ نرا دھوکہ تھا اور جب ان میں سے ایک گروہ نے کہا کہ اے یثرب کے لوگو ، تمہارے لیے اب ٹھہرنے کا موقعہ نہیں ہے ، پس اپنے گھروں کو واپس جاؤ اور ان میں سے ایک فریق نبی سے یہ کہہ کر رخصت مانگ رہا تھا کہ ہمارے گھر غیر محفوظ ہیں حالانکہ وہ غیر محفوظ نہ تھے۔ وہ جنگ سے بھاگنا چاہتے تھے۔ اگر وہ شہر کے اطراف سے گھس آئے ہوتے۔ اور ان سے فساد کو کہا جاتا تو یہ اسے مان لیتے اور اس میں ذرا بھی دیر نہ کرتے "

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا خُذُوا حِذْرَكُمْ فَانْفِرُوا ثُبَاتٍ أَوِ انْفِرُوا جَمِيعًا (71) وَإِنَّ مِنْكُمْ لَمَنْ لَيُبَطِّئَنَّ فَإِنْ أَصَابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَالَ قَدْ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيَّ إِذْ لَمْ أَكُنْ مَعَهُمْ شَهِيدًا (72) وَلَئِنْ أَصَابَكُمْ فَضْلٌ مِنَ اللَّهِ لَيَقُولَنَّ كَأَنْ لَمْ تَكُنْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُ مَوَدَّةٌ يَا لَيْتَنِي كُنْتُ مَعَهُمْ فَأَفُوزَ فَوْزًا عَظِيمًا (73): اے لوجو جو ایمان لائے ہو۔ اپنی حفاظت اور تیاری میں لگے رہو۔ پھر نکلو الگ الگ گروہوں میں ہو کر یا اکٹھے ہو کر اور یقینا تم میں کوئی ایسا بھی ہے جو دیر کرے۔ پھر اگر کوئی مصیبت آپڑے تو کہتا ہے کہ اللہ نے مجھ پر بڑا ہی احسان کیا کہ ان لوگوں کے ساتھ نہ تھا اور اگر تم پر اللہ کا فضل ہو تو بول اٹھے کہ گویا تمہارے اس کے درمیان محبت کا کوئی رشتہ تھا ہی نہیں کہ کاش میں بھی ان کے ساتھ ہوتا تو بڑی کامیابی حاصل کرلیتا۔

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ قِيلَ لَهُمْ كُفُّوا أَيْدِيَكُمْ وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ إِذَا فَرِيقٌ مِنْهُمْ يَخْشَوْنَ النَّاسَ كَخَشْيَةِ اللَّهِ أَوْ أَشَدَّ خَشْيَةً وَقَالُوا رَبَّنَا لِمَ كَتَبْتَ عَلَيْنَا الْقِتَالَ لَوْلا أَخَّرْتَنَا إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيلٌ وَالآخِرَةُ خَيْرٌ لِمَنِ اتَّقَى وَلا تُظْلَمُونَ فَتِيلا (77) أَيْنَمَا تَكُونُوا يُدْرِكُكُمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنْتُمْ فِي بُرُوجٍ مُشَيَّدَةٍ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا هَذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَقُولُوا هَذِهِ مِنْ عِنْدِكَ قُلْ كُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ فَمَالِ هَؤُلاءِ الْقَوْمِ لا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثًا (78): کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا ، جن کو حکم دیا گیا کہ تم اپنے ہاتھوں کو روکے رکھو اور نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو ، پھر جب ان پر قتال فرض کردیا گیا تو ان میں سے ایک گروہ انسانوں سے ایسا ڈرنے لگا جسے اللہ سے ڈرا جاتا ہے یا اس سے بھی بڑھ کر۔ وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب تونے ہم پر جنگ کیوں فرض کردی اور مہلت کیوں نہ دی ، کہہ دو ، اس دنیا کا سرمایہ بہت قلیل ہے اور جو شخص تقوی اختیار کرے اس کے لیے آخرت ہی بہتر ہے۔ اور تم لوگوں کی ذرہ برابر حق تلفی نہ ہوگی۔ تم کہیں بھی ہو ، موت تمہیں پا لے گی۔ اگرچہ تم مضبوط قلعوں میں کیوں نہ ہو۔ اور ان لوگوں کو اگر کچھ فائدہ پہنچ جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے اور اگر کوئی نقصان پہنچتا ہے تو کہتے ہیں یہ تمہاری طرف سے ہے۔ تم کہو کہ سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے۔ پھر ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ یہ بات ہی نہیں سمجھتے۔

إِنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَإِنْ تُؤْمِنُوا وَتَتَّقُوا يُؤْتِكُمْ أُجُورَكُمْ وَلا يَسْأَلْكُمْ أَمْوَالَكُمْ (36)إِنْ يَسْأَلْكُمُوهَا فَيُحْفِكُمْ تَبْخَلُوا وَيُخْرِجْ أَضْغَانَكُمْ (37) هَا أَنْتُمْ هَؤُلاءِ تُدْعَوْنَ لِتُنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَمِنْكُمْ مَنْ يَبْخَلُ وَمَنْ يَبْخَلْ فَإِنَّمَا يَبْخَلُ عَنْ نَفْسِهِ وَاللَّهُ الْغَنِيُّ وَأَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ثُمَّ لا يَكُونُوا أَمْثَالَكُمْ (38): دنیا کی زندگی تو بس نرا کھیل تماشا ہے۔ اور اگر تم ایمان لاؤ گے اور تقوی اختیار کرو گے تو اللہ تمہارے اجر تمہیں عطا کرے گا۔ اور تمہارے مال تم سے طلب نہیں کرے گا اور اگر وہ تم سے تمہارے مال طلب کرے پھر انتہا درجے تک تم سے طلب کرتا رہے تو تم ضرور بخل کرنے لگو اور وہ تمہاری ناگواری ضاطر ہکردے۔ تم وہ لوگ ہو کہ تمہیں دعوت دی جا رہی ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرو۔ اس پر بھی تم میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں کہ جو بخل کرتے ہیں اور جو بخل کرتا ہے تو درحقیقت وہ خود اپنے سے بخل کرتا ہے۔ ورنہ اللہ تو بےنیاز ہے اور تم محتاج ہو اور اگر تم منہ موڑوگے تو وہ دوسری قوم کو لا بٹھائے گا اور وہ تم جیسی نہ ہوگی۔

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ تَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مَا هُمْ مِنْكُمْ وَلا مِنْهُمْ وَيَحْلِفُونَ عَلَى الْكَذِبِ وَهُمْ يَعْلَمُونَ (14) أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ عَذَابًا شَدِيدًا إِنَّهُمْ سَاءَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (15) اتَّخَذُوا أَيْمَانَهُمْ جُنَّةً فَصَدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ فَلَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ (16) لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوَالُهُمْ وَلا أَوْلادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا أُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (17) يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعًا فَيَحْلِفُونَ لَهُ كَمَا يَحْلِفُونَ لَكُمْ وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ عَلَى شَيْءٍ أَلا إِنَّهُمْ هُمُ الْكَاذِبُونَ (18) اسْتَحْوَذَ عَلَيْهِمُ الشَّيْطَانُ فَأَنْسَاهُمْ ذِكْرَ اللَّهِ أُولَئِكَ حِزْبُ الشَّيْطَانِ أَلا إِنَّ حِزْبَ الشَّيْطَانِ هُمُ الْخَاسِرُونَ (19)إِنَّ الَّذِينَ يُحَادُّونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُولَئِكَ فِي الأذَلِّينَ (20) كَتَبَ اللَّهُ لأغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ (21) لا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ أُولَئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الإيمَانَ وَأَيَّدَهُمْ بِرُوحٍ مِنْهُ وَيُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الأنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ أُولَئِكَ حِزْبُ اللَّهِ أَلا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (22) : کیا تونے ان لوگوں کو نہیں دیکھا کہ جنہوں نے ایسے گروہ کو دوست بنایا جن پر اللہ کا غضب ہے اور وہ لوگ نہ تم میں سے اور نہ ان میں سے اور باوجود یہ کہ وہ جانتے ہیں اور پھر بھی جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں۔ اللہ نے ان کے لیے سخت عذاب تیار کر رکھا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ وہ بہت برا کر رہے ہیں انہوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں۔ لہذا ان کے لیے رسوا کن عذاب ہے۔ ان کے مال اور ان کی اولاد اللہ سے انہیں ذرا نہ بچا سکیں گے۔ وہ ہیں دوزخ والے اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ جس دن اللہ ان کو اٹھائے گا تو وہ اس کے آگے قسمیں کھائیں گے جس طرح تمہارے آگے اٹھاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ خوب کر رہے ہیں۔ خوب جان لو وہ جھوٹ ہیں۔ ان پر شیطان مسلط ہوچکا ہے اور اس نے ان کو اللہ کی یاد بھلا دی ہے۔ وہ شیطان کے گروہ کے لوگ ہیں ، سن لو ، شیطان کا گروہ ہی خسارے میں رہنے والا ہے۔ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں یقینا وہ ذلیل ترین لوگوں میں سے ہیں ، اللہ تو لکھ چکا ہے کہ ہم اور ہمارے پیغمبر ہی غالب ہو کر رہیں گے۔ بلاشبہ اللہ ہی بڑی قوت والا اور زبردست ہے۔ تم کبھی یہ پاؤگے کہ جو لوگ اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہوں وہ ایسوں سے دوستی رکھیں جو اللہ اور اسکے رسول کی مخالفت کرتے ہیں خواہ وہ لوگ ان کے باپ یا ان کے بیٹے یا ان کے بھائی یا ان کے کنبے کے ہی ہوں ، یہی ہیں جن کے دلوں میں ایمان ثبت کردیا ہے اور اپنی طرف سے ایک روح عطا کرکے ان کی مدد کی ہے اور وہ ان کو باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی ، ہمیشہ ان میں رہیں گے۔ اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے ، وہ اللہ کا گروہ ہیں اور اللہ کا گروہ ہی فلاح پانے والا ہے۔ (سورۃ الحشر)

َيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ (51) فَتَرَى الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ يُسَارِعُونَ فِيهِمْ يَقُولُونَ نَخْشَى أَنْ تُصِيبَنَا دَائِرَةٌ فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ أَوْ أَمْرٍ مِنْ عِنْدِهِ فَيُصْبِحُوا عَلَى مَا أَسَرُّوا فِي أَنْفُسِهِمْ نَادِمِينَ (52) وَيَقُولُ الَّذِينَ آمَنُوا أَهَؤُلاءِ الَّذِينَ أَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ إِنَّهُمْ لَمَعَكُمْ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فَأَصْبَحُوا خَاسِرِينَ (53): اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، یہود و نصاری کو اپنا دوست نہ بناؤ۔ یہ لوگ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے جو کوئی ان کو دوست بنائے گا تو وہ بیشک ان ہی میں سے ہوگا۔ یقینا اللہ ظالموں کو راہ راست نہیں دکھاتا۔ تم دیکھتے ہو کہ جن لوگوں کے دلوں میں روگ ہے ، وہ ان لوگوں کی طرف دوڑے جا رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہم ڈرتے ہیں کہ کسی مصیبت کے پھیر میں نہ آجائیں۔ تو وہ وقت دور نہیں جب اللہ تمہیں فتح دے یا اپنی طرف سے کوئی بات لے آئے تو یہ لوگ اس بات پر نادم ہوجائیں جو وہ اپنے دلوں میں چھپائے ہوئے تھے۔ اور اہل ایمان کہیں گے کہ یہ وہی لوگ ہیں جو بڑے زور و شور سے اللہ کی قسمیں کھایا کرتے تھے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ ان کے تمام اعمال اکارت گئے اور یہ سراسر نقصان میں آگئے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوا بِمَا جَاءَكُمْ مِنَ الْحَقِّ يُخْرِجُونَ الرَّسُولَ وَإِيَّاكُمْ أَنْ تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ رَبِّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ خَرَجْتُمْ جِهَادًا فِي سَبِيلِي وَابْتِغَاءَ مَرْضَاتِي تُسِرُّونَ إِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَأَنَا أَعْلَمُ بِمَا أَخْفَيْتُمْ وَمَا أَعْلَنْتُمْ وَمَنْ يَفْعَلْهُ مِنْكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ (1)إِنْ يَثْقَفُوكُمْ يَكُونُوا لَكُمْ أَعْدَاءً وَيَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ وَأَلْسِنَتَهُمْ بِالسُّوءِ وَوَدُّوا لَوْ تَكْفُرُونَ (2) لَنْ تَنْفَعَكُمْ أَرْحَامُكُمْ وَلا أَوْلادُكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَفْصِلُ بَيْنَكُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (3) قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَآءُ مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاءُ أَبَدًا حَتَّى تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَحْدَهُ إِلا قَوْلَ إِبْرَاهِيمَ لأبِيهِ لأسْتَغْفِرَنَّ لَكَ وَمَا أَمْلِكُ لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ شَيْءٍ رَبَّنَا عَلَيْكَ تَوَكَّلْنَا وَإِلَيْكَ أَنَبْنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ (4): اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، اگر تم ہماری راہ میں جہاد کرنے اور ہماری رضا جوئی کے لیے نکلے ہو تو ہمارے اور اپنے دشمنوں کو اپنا دوست نہ بناؤ کہ لگو ان کے ساتھ دوستی ڈالنے۔ حالانکہ تمہارے پاس جو حق آیا ہے وہ اس کا انکار کرچکے ہیں۔ رسول کو اور تم کو صرف اس بات پر نکالتے ہیں کہ تم اپنے رب پر ایمان لائے ہو۔ تم چپکے چپکے ان کو دوستانہ پیغام بھیجتے ہو ، حالانکہ ہم جانتے ہیں جو کچھ تم چھپا کر کرتے ہو اور جو علانیہ کرتے ہو اور جو تم میں سے ایسا کرے وہ سیدھی راہ سے بھٹک گیا۔ اگر یہ تم پر قابو پائیں تو تمہارے دشمن ہوجائیں اور تم پر برائی کے ساتھ دست درازی کریں اور زبان درازی کریں۔ وہ تو چاہتے ہیں کہ تم بھی کافر ہوجاؤ۔ قیامت کے دن نہ تمہاری رشتہ داریاں تمہارے کام آئیں گی اور نہ تمہاری اولاد۔ اس دن اللہ تمہارے درمیان جدائی ڈال دے گا اور جو کچھ بھی تم کرتے ہو اللہ اس کو دیکھ رہا ہے۔ تمہارے لیے اچھا نمونہ تو ابراہیم اور اس کے ساتھیوں میں ہے۔ جب کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ ہم تم سے اور تمہارے ان معبودوں سے جن کی تم عبادت کرتے ہو ، قطعی بیزار ہیں۔ ہم تمہارا انکار کرتے ہیں اور ہمارے اور تمہارے درمیان عداوت ہوگئی۔ جب تک تم اللہ وحدہ رپ ایمان نہ لاؤ مگر ابراہیم کا اپنے باپ سے یہ کہنا کہ میں آپ کے لیے مغفرت کی دعا ضرور کروں گا ، اگرچہ آپ کے لیے اللہ کی طرف سے کسی چیز پر کوئی اختیار نہیں رکھتا۔ اے ہمارے رب ہم نے تجھ ہی پر بھروسہ کیا اور تیری ہی طرف رجوع کرتے ہیں اور تیری ہی طرف ہمیں لوٹ کر جانا ہے۔

مختلف سورتوں میں یہ دس شواہد ہمارے مدعا کے لیے کافی ہیں کہ اسلامی معاشرہ میں بعض اوقات اس قسم کے عارضی حالات پیش آتے تھے اور یہ اس لیے پیش آتے تھے کہ اسلامی معاشرے میں اچانک نئے لوگوں کا ایک ریلا داخل ہوگیا تھا جو اپنے ساتھ اپنی پرانی عادات لے کر آئے تھے۔ اور یہ عادات مسلسل تربیت اور تطہیر کے بعد ہی دور ہوسکتی تھیں اور اس کے لیے مسلسل تربیتی جدوجہد کی ضرورت تھی۔

لیکن مدینہ طیبہ میں مسلم معاشرے کا بنیادی ڈھانچہ درست تھا ، اس لیے کہ اس ڈھانچے میں بنیادی اہمیت صرف ان لوگوں کو حاصل تھی جو مہاجرین وانصار میں سے سابقین اولین تھے اور نہایت ہی مضبوط لوگ تھے۔ نیز اس معاشرے کی تعمیر و تربیت میں اتحاد و اتفاق اور اس کے ڈھانچے میں اس قدر پختگی تھی اس نے ان کمزوریوں اور عوارض اور انتشار پر قابو پا لیا تھا اور وہ عناصر جو خوف اور پریشانی سے متاثر ہوجاتے تھے اور جن کی ابھی تک پوری تربیت نہ ہوئی تھی اور وہ اس جدید معاشرے میں ابھی تک ڈھل نہ گئے اور ان کے اندر پوری ہم آہنگی پیدا نہ ہوئی تھی ان کو بھی اجتماعی معاشرتی نظام سنبھالا دیتا تھا۔

بہرحال آہستہ آہستہ یہ جدید عناصر تربیت پا رہے تھے۔ اس معاشرے میں ڈھل رہے تھے اور ان کی تطہیر مسلسل ہو رہی تھی اور وہ اسلامی معاشرے کی اصل قوت کے ساتھ ملتے رہتے تھے۔ اور ضعیف القلب ، نافرمانی کرنے والوں اور ڈھل مل یقین قسم کے لوگوں کی تعداد روز بروز کم ہو رہی تھی۔ مفادات سے ڈرنے والے اور ایسے لوگ جن کے دلوں میں ابھی تک اسلامی نظریہ حیات پوری طرح نہ بیٹھا تھا تاکہ وہ اپنے سوشل روابط بھی اسی نظریہ کی اساس پر استوار کریں۔

یہاں تک کہ فتح مکہ سے پہلے حالت یہ ہوگئی تھی کہ اسلامی معاشرہ تعلیم وتربیت اور اپنی ظاہری شکل و صورت کے اعتبار سے مقام کمال کے قریب پہنچ گیا تھا اور اکثر لوگ مہاجرین وانصار میں سے سابقین اولین کے نقش قدم پر چل پڑے تھے۔ اور یہ معاشرہ اس قدر پاک اور تربیت یافتہ ہوگیا تھا کہ وہ اسلامی نظام حیات کے پیش نظر مطلوبہ معیار کے قریب تر تھا۔

یہ بات درست ہے کہ ابھی تک اس معاشرے میں ایسی قدریں نشوونما پا چکی تھیں کہ جن کا تعلق براہ راست اسلامی نظریات کے ساتھ تھا۔ ان اقدار کی وجہ سے تحریک کے اندر کچھ لوگ زیادہ ممتاز تھے اور زیادہ ثابت قدم تھے اور تحریک کی صفوں میں اوروں سے آگے تھے۔ مثلاً مہاجرین و انصار میں سے سابقین اولین ، اہل بدر ، حدیبیہ میں بیعت رضوان کرنے والے۔ پھر جن لوگوں نے فتح مکہ سے قبل جہاد ، انفاق اور قتال میں حصہ لیا اور جنہوں نے بعد میں لیا۔ نصوص کتاب اللہ ، احادیث نبوی اور تحریک کے بعض عملی اقدامات سے یہ تفاوت مراتب اور اقدار کا ثبوت ملتا ہے۔ یہ اسلامی اقدار اور تفاوت اسلامی نظریہ حیات کو آگے بڑھانے کے نقطہ نظر سے متعین ہوئیں۔ قرآن مجید کی تصریحات :

وَالسَّابِقُونَ الأوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالأنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الأنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (100) وہ مہاجرین و انصار جنہوں نے سب سے پہلے دعوت ایمان پر لبیک کہنے میں سبقت کی ، نیز وہ جو بعد میں راست بازی کے ساتھ ان کے پیچھے آئے ، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ اللہ نے ان کے لیے ایسے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہی عظیم الشان کامیابی ہے۔ (التوبہ)

ایک حدیث کے الفاظ میں یہ بھی ہے " شاید اللہ نے اہل بدر کو یہ اطلاع کردی ہو کہ تم جو چاہو کرو ، بس درحقیقت تمہارے لیے جنت واجب ہوچکی ہے " یہ بخاری کی حدیث کا ایک حصہ ہے۔ ان الفاظ میں حضرت عمر کی اس تجویز کو مسترد فرمایا جس میں انہوں نے ایک بدری صحابی حضرت حاطب بن ابی بلتعہ کی گردن اڑانے کی اجازت طلب فرمائی تھی ، جنہوں نے یہ کمزوری دکھائی تھی کہ قریش کو فتح مکہ کی تیاریوں کے سلسلے میں اطلاع دی تھی جسے پکڑ لیا گیا تھا۔

لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنْزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًا (18) وَمَغَانِمَ كَثِيرَةً يَأْخُذُونَهَا وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا (19): اللہ مومنین سے خوش ہوگیا جب وہ درخت کے نیچے تم سے بیعت کر رہے تھے اور اللہ کو معلوم تھا ، جو کچھ ان کے دلوں میں تھا ، اس لیے ان پر سکینت نازل فرمائی اور ان کو فتح بھی دے دی ، اور بہت سی غنیمتیں بھی دیں جنہیں یہ لوگ لے رہے ہیں اور اللہ زبردست اور حکمت والا ہے۔ (الفتح)

لا يَسْتَوِي مِنْكُمْ مَنْ أَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ أُولَئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِنَ الَّذِينَ أَنْفَقُوا مِنْ بَعْدُ وَقَاتَلُوا وَكُلا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَى وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ (10): تم میں سے جن لوگوں نے فتح سے پہلے خرچ کیا اور دشمنوں سے لڑے وہ لوگ بڑا درجہ رکھتے ہیں ان سے جنہوں نے بعد میں خرچ کیا اور دشمن سے لڑے۔ اگرچہ دونوں سے اللہ نے اچھے وعدے فرمائے ہیں اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے اچھی طرح باخبر ہے۔ (الحدید)

" خالد ذرا آرام سے رہو ، میرے ساتھیوں کو چھوڑ دو ، خدا کی قسم اگر تمہارے پاس اور جتنا سونا بھی ہو اور تم اسے فی سبیل اللہ خرچ کردو تو تم وہ ثواب نہیں کما سکتے جو انہوں نے صبح و شام جہاد میں حصہ لے کر کمایا "۔ یہ حدیث ابن قیم نے زاد المعاد میں نقل کی ہے۔ یہ الفاظ حضور نے حضرت خالد کو متنبہ کرتے ہوئے کہے۔ جب انہوں نے حضرت عبدالرحمن ابن عوف کے ساتھ تلخ کلامی کی۔ خالد اگرچہ سیف اللہ تھے مگر ابن عوف سابقون اولون میں سے تھے۔ " میرے ساتھیوں کو چھوڑ دو " حضور ﷺ و آلہ وسلم کا مقصد یہ تھا کہ اسلامی معاشرہ میں یہ ممتاز طبقہ ہے۔

اسلامی تحریک نے ان حضرات کے دلوں میں جو ایمان پیدا کیا اور اس کے نتیجے میں ان کے اندر جو قریں پیدا ہوئیں ان کے اختلاف کے مطابق ان کے درجے بھی مختلف تھے ، لیکن فتح مکہ سے قبل یہ تفاوت بہت کم ہوگیا تھا اور اسلامی معاشرہ پوری طرح ہم آہنگ تھا اور اس کی ناہمواریاں پوری طرح چھپ گئی تھیں۔ ان کی اکثر کمزوریاں دور ہوگئی تھیں اور جان و مال کے سلسلے میں ان کی شخصیات میں سے بخل دور ہوگیا تھا۔ ان کے عقائد واضح ہوگئے تھے اور ان کی زندگی سے نفاق پوری طرح دور ہوگیا تھا اور فتح مکہ سے قبل مدنی معاشرہ کی حالت یہ تھی کہ وہ ایک مکمل اسلامی معاشرہ بن گیا تھا جو اسلامی انقلاب کی اساس تھا۔

مگر جب سن آٹویں ہجری میں مکہ فتح ہوا اور اس کے بعد جنگ حنین کے نتیجے میں ہوازن ثقیف اور دوسرے قبائل فتح ہوگئے۔ یہ دو قبائل قریش کے بعد عرب کی ممتاز قوتیں تھیں۔ تو انسانوں کا ایک سیلاب اسلامی معاشرے میں داخل ہوگیا تھا۔ ایمان و اخلاق کے اعتبار سے یہ مختلف سطح کے لوگ تھے۔ ان لوگوں میں منافقین کی ایک بڑی تعداد بھی تھی جو اسلام کو دل سے ناپسند کرتے تھے۔ ان میں ایسے لوگ بھی تھے جو اسلام کی شوکت کو دیکھ کر بہہ گئے تھے۔ ان میں مؤلفۃ القلوب بھی تھے اور یہ طبقات ایسے تھے کہ وہ اسلامی قالب میں ابھی تک ڈھل نہ گئے تھے اور نہ ان کی پوری تربیت ہوئی تھی۔ اسلام کی حقیقی روح سے یہ نئے لوگ نابلد تھے۔

جزیرۃ العرب میں اسلام کے پھیلاؤ کی راہ میں قریش ایک دیوار اور بند کی طرح کھڑے تھے ، کیونکہ دینی اور دنیاوی معاملات میں قریش کو ایک بڑا مقام حاصل تھا۔ پھر ادبی ، ثقافتی اور علمہ و اقتصادی اعتبار سے بھی وہ دوسرے عربوں کے لیے قابل تقلید تھے۔ اس وجہ سے ان کا مقابلے پر اتر آنا اور اس دین کی راہ روک دینا اس بات کا باعث ہوا کہ تمام عرب نے اس دین سے منہ پھیرلیا۔ اور اسلام میں داخل نہ ہوئے یا اگر انہوں نے صرف نظر نہ کیا تو کم از کم یہ صورت حالات ضرور تھی کہ لوگ تردد میں رہے اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ انتظار کیا جائے ، تاکہ مسلمانوں اور قریش کی کشمکش کا کوئی فیصلہ ہوجائے۔ جب فتح مکہ کے بعد قریش سرنگوں ہوئے تو ہوازن ثقیف بھی سرنگوں ہوگئے۔ مدینہ میں جو قوی یہودی قبائل تھے ، ان کی قوت اس سے پہلے ہی ٹوٹ گئی تھی۔ بنی قینقاع ، اور بنو نضیر شام کی طرف جلا وطن ہوگئے۔ بنو قریظہ بھی ختم ہو کر رہ گئے اور خیبر کا معاملہ بھی صاف ہوگیا تھا۔ خیبر کو فتح کرلیا گیا۔ ان واقعات کی وجہ سے اب پورے جزیرۃ العرب میں اسلام پھیل گیا اور لوگ فوج در فوج دین اسلام میں داخل ہونے لگے اور صرف ایک سال کے عرصے میں لوگ دین اسلام میں داخل ہوگئے۔

اسلام کا گراف افقی طور پر بلند ہونے کی وجہ سے وہ کمزوریاں اسلامی صفوں میں در آئیں جو جنگ بدر کی حیران کن کامیابی کی وجہ سے آگئی تھیں۔ اب یہ کمزوریاں بہت بڑے پیمانے پر تھیں۔ بدر الکبری کے بعد جو کمزور عناصر اسلامی صفوں میں در آئے تھے ان کو تعلیم و تربیت کے ذریعے اس قدر پاک و صاف کردیا گیا کہ بدر الکبری کے بعد فتح مکہ تک سات سالوں میں قریب تھا کہ مدنی معاشرہ تمام کمزوریوں سے پاک ہوجائے اور اہل مدینہ اسلامی انقلاب کے لیے مضبوط بیس اور مضبوط بنیاد بن جائے۔ یہاں اولین ، مہاجرین و انصار کی ایک ایسی جمعیت تیار بیٹھی تھی کہ وہ ہر وقت اسلامی نظام کے لیے امین تھی۔ اگر یہ جمعیت نہ ہوتی تو اس عظیم انقلاب کو سنبھالنا مشکل ہوجاتا۔ لیکن بدر الکبری کے بعد اس جمعیت نے جو مہاجرین و انصار کے سابقین اولین پر مشتمل تھی اس عظیم انقلابی امانت کی مسلسل نگہبانی کی۔ ان سات سالوں میں اللہ تعالیٰ نے مدینہ طیبہ کی اس جمعیت کو اس کام کے لیے تیار کیا اور تربیت دی کہ یہ لوگ فتح عظیم کے بعد اسلام میں داخل ہونے والے انسانوں کے سیلاب کو کنٹرول کرسکیں۔ اللہ خوب جانتا تھا کہ وہ اپنی اس رسالت اور انقلابی رسالت کی حفاظت کا کام کس کے سپرد کرے۔

ان کمزوریوں کا سب سے پہل ظہور یوم حنین میں ہوا۔ اس کا تذکرہ سورت توبہ میں ان الفاظ میں ہوا ہے :

لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ فِي مَوَاطِنَ كَثِيرَةٍ وَيَوْمَ حُنَيْنٍ إِذْ أَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَيْئًا وَضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الأرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّيْتُمْ مُدْبِرِينَ (25) ثُمَّ أَنْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَى رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَأَنْزَلَ جُنُودًا لَمْ تَرَوْهَا وَعَذَّبَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَذَلِكَ جَزَاءُ الْكَافِرِينَ (26): " اللہ اس سے پہلے بہت سے مواقع پر تمہاری مدد کرچکا ہے۔ ابھی غزوہ حنین کے روز۔ اس روز تمہیں اپنی کثرت تعداد کا غرہ تھا۔ مگر وہ تمہارے کچھ کام نہ آئی اور زمین اپنی وسعت کے باوجود تم پر تنگ ہوگئی اور تم پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلے۔ پھر اللہ نے اپنی سکینت اپنے رسول پر اور مومنین پر نازل فرمائی اور وہ لشکر اتارے جو تم کو نظر نہ آتے تھے۔ اور منکرین حق کو سزا دی کہ یہی بدلہ ہے ان لوگوں کا جو حق کا انکار کریں "۔

اس جنگ میں ابتدائی شکست کا پہلا سبب یہ تھا کہ دس ہزار اسلامی لشکر میں دو ہزار طلقاء شریک تھے۔۔۔ یہ یوم فتح مکہ پر ایمان لائے تھے اور اسلامی لشکر کے ساتھ جہاد کے لیے نکلے تھے۔ چناچہ اسلامی لشکر کے ساتھ ان دو ہزار افراد کا وجود ہی اس اتنشار کا سبب بنا۔ دوسرا سبب یہ تھا کہ ہوازن نے بالکل اچانک حملہ کیا اور لشکر اسلام چونکہ صرف مدینہ طیبہ کی حقیقی تربیت یافتہ فوج پر مشتمل نہ تھا ، جن کی تربیت گذشتہ سات سالوں میں مکمل ہوچکی تھی اور جو اس تحریک کی اصل اساس اور سرمایہ تھے۔ اس لیے انتشار پیدا ہوگیا۔

غزوۂ حنین میں جو کمزوریاں سامنے آئیں وہ اسلام کی عددی قوت کے گراف اچانک عمودی بلندی کی وجہ سے تھیں۔ جدید لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہوئے۔ جو ایمان اور اخلاص کے اعتبار سے مختلف درجات کے لوگ تھے۔ جن کے درمیان تفاوت درجات تھا۔ اور سورت توبہ میں ان کمزوریوں سے بحث کی گئی ہے۔ اور پھر مختلف زاویوں سے اور مختلف پہلوؤں سے سخت تنقید کی گئی ہے۔ جن کے تفصیلی اقتباسات ہم اس سے قبل دے آئے ہیں۔

اسلامی معاشرے کی تشکیل اور اس کی تربیت کی تاریخ کے مطالعے کے لیے ضروری ہے کہ ہم فتح مکہ کے ٹھیک دو سال بعد کی تاریخ کے واقعات پر نظر ڈالیں۔ ٹھیک دو سال بعد جب حضور اکرم ﷺ کا انتقال ہوا تو تمام جزیرۃ العرب ایک بار مرتد ہوگیا۔ صرف مدینہ کی تربیت یافتہ اسلامی سوسائٹی اپنی جگہ پر قائم رہی اور جیسا کہ ہم نے کہا ، یہی اسلامی معاشرے کی مضبوط بنیاد تھی۔ چناچہ ان حالات کو اگر نظر میں رکھا جائے تو ان کمزوریوں کے ظہور کو سمجھا جاسکتا ہے۔ اس لیے کہ فتح مکہ کے بعد صرف دو سال کے عرصے میں یہ ممکن نہ تھا کہ اسلام میں داخل ہونے والے لوگوں کی اخلاقی تربیت اور تطہیر کردار کے کام کو مکمل کیا جاسکے۔ جبکہ آنے والوں کا معیار درجہ ایمانی کے اعتبار سے مختلف تھا۔ حضور ﷺ کے انتقال کے بعد حالت یہ تھی کہ پورا جزیرۃ العرب فکری انتشار و خلفشار کا شکار تھا اور مدینہ طیبہ کا بیس (Base) اپنے موقف پر سختی سے قائم تھا۔ اپنی مضبوطی اور پختگی کے بل بوتے پر اور اپنے اتحاد اور یگانگت کے ذریعے سے اس انتشار اور سیلاب کے مقابلے میں یہ سوسائٹی جم گئی اور انسانوں کے سیلاب کو غلط بہاؤ سے روک کر اس کا دھارا پھر اسلام کی طرف پھیر دیا۔

ان حقائق کو اس زاویہ سے دیکھنے کے بعد ہمیں اچھی طرح یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ مکہ میں دعوت اسلامی کو جن مشکلات اور مصائب سے دوچار کیا گیا تھا وہ اللہ کی تعمیری حکمت کے تحت ایک با مقصد امر تھا تاکہ یہ سوسائٹی جو اسلام کی بنیاد تھی ، ان مشکلات سے کندن ہوکر نکلے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مکہ میں مشرکین نے مسلمانوں کو کس قدر اذیت دی۔ فتنوں میں مبتلا کیا ، ان کا خون بہایا اور ان کے ساتھ کیا کیا ، کیا۔

اللہ کو معلوم تھا کہ مضبوط اسلامی تحریک کے قیام کے لیے یہی منہاج تربیت ہے تاکہ جماعت کی بنیاد مضبوط ہو ، کیونکہ اس مضبوطی کے بغیر جو بھی عمارت کھڑی ہے ، اس کا بوجھ برداشت کرنا مشکل تھا۔ کیونکہ تحریک کے آغاز کے لیے اس قدر مضبوطی ، خلوص ، نصب العین کے حصول پر اصرار ، اللہ کی راہ میں مشکلات انگیز کرنا ، قلت جلا وطنی ، بھوک اور افلاس ، قلت تعداد اور زمینی وسائل کی کمی جیسی مشکلات کو برداشت کرنے کی صلاحیت ضروری تھی۔ تحریک کے آغاز کے لیے اسی معیار کی پختگی ضروری تھی۔

جب یہ ابتدائی گروہ مدینہ پہنچا تو اس گروہ کے ساتھ انصار میں سے سابقون اولون آ ملے۔ اللہ کی حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ یہ لوگ اسلامی تحریک کے لیے بنیاد بنیں اور بدر الکبری کے بعد آنے والوں کو سنبھال سکیں جن کی مکمل تربیت نہ ہوئی تھی۔

فتح مکہ سے پہلے مدینہ طیبہ کی سوسائٹی کی حالت ایسی ہوگئی تھی کہ یہاں کے باسیوں کی اکثیرت تکمیل و تربیت کے اعلی مدارج طے کرچکی تھی۔ اور یہی تربیت یافتہ صحابہ کا گروہ تھا جنہوں نے فتح مکہ کے بعد آنے والی افواج کو سنبھالا اور پھر حضور ﷺ کی وفات کے بعد ارتداد کے سیلاب کا مقابلہ کیا۔

اس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ پورے مکی دور میں اللہ تعالیٰ نے جو اسلامی تحریک کو سخت ترین مشکلات میں مبتلا کیا اور پھر مکی دور میں صلح حدیبیہ تک بروقت اس تحریک کو مشکلات ، جنگوں اور خوف کی حالت میں رکھا۔ اس کی حقیقی حکمت کیا تھی اس سے تحریکی عمل سے ہم یہ اصول اخذ کرسکتے ہیں کہ ہمارے دور میں اسلام کے تحریکی عمل کا منہاج کیا ہونا چاہئے۔

ابتدائی مراحل میں ، تمام اسلامی تحریکات کے لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ وہ زیادہ توجہ اسلامی تحریک کی بنیادوں کو مضبوط کرنے پر صرف کریں۔ ابتدائی گروہ کی تربیت اور اخلاقی تطہیر پر توجہ دیں تاکہ تحریک کی عمارت کو مضبوط بنیادوں پر اٹھا یا جائے۔ ان کے اندر ایمان کو گہرائی تک اتارا جائے تاکہ ان کے اندر پختگی پیدا ہو ، وہ تحریک کے ساتھ لگن رکھتے ہوں اور ان کو اپنے نصب العین کا اچھی طرح شعور حاصل ہو۔ اور جب تک تحریک کے اندر ابتدائی گروہ کی اچھی طرح تربیت نہ ہوجائے ، دعوت کی توسیع کا کام نہ شروع کیا جائے کیونکہ بنیادی گروہ کی اچھی تیاری سے قبل ہی کسی تحریک کو سعت دے دینے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس آغاز ہی میں انتشار شروع ہوجائے۔ اگر کوئی اس طرح کرے گا تو وہ ربانی طریقہ تربیت کے خلاف کرے گا اور سنت نبوی اور طریقہ نبوی کے خلاف چلے گا۔

اس دعوت کی کامیابی کا کفیل اللہ ہے۔ جب اللہ کو منظور ہوتا ہے کہ کسی تحریک کو مضبوط بنیادوں پر اٹھایا جائے تو اللہ تعالیٰ تحریک کے اتبدائی دستوں کو بےپناہ مشکلات سے دوچار کرکے ان کو کردار کی پختگی عطا کردیتا ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ ان کو کامیابی کا طویل انتظار کراتا ہے۔ ان کی تعداد قلیل ہوتی ہے۔ لوگ ان سے دور رہتے ہیں لیکن جب معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ لوگ اب صبر کرنے والے ہیں۔ یہ ثابت قدم ہوچکے ہیں۔ اور انہوں نے تیار مکمل کرلی ہے اور وہ صلاحیت پیدا کرچکے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ ان کو ذریعہ بناتا ہے کہ ان سے اس عظیم کام کا آغاز ہوسکے۔ اور وہ اس کے امین اور علمبردار ہوں۔ پھر اللہ ان کو قدم بقدم آگے بڑھاتا ہے۔ اللہ اپنے کاموں پر غالب ہے۔ لیکن لوگ در حقیقت نہیں جانتے۔

ان مباحث کے بعد ہم اس طرح آتے ہیں کہ اس سورت کے مضامین کا اجمالی خلاصہ یہاں دے دیں۔ اس کے بڑے بڑے موضوعات اور خصوصا وہ احکام جن میں مشرکین اور کافرین کے ساتھ اسلامی ریاست کے آئندہ تعلقات کی ضابطہ بندی کی گئی ہے کیونکہ اس موضوع پر جو احکام آئے ہیں ، وہ آخری احکام ہیں۔ لہذا ان میں بلند ترین تحریکی خطوط کھینچے گئے ہیں۔

پارہ نہم میں سورت انفال کے تعارف میں ہم نے کفار و مشرکین کے ساتھ آخری ضابطہ کے بارے میں جو کچھ نقل کیا تھا ، میں سمجھتا ہوں یہاں اس کا خلاصہ دوبارہ نقل کردیا جائے۔ اگرچہ امام ابن قیم کا یہ اقتباس مکرر یہاں آجائے گا لیکن اس تکرار کے باوجود اس کے چند فقرے یہاں نہایت ہی موزوں اور سیاق کلام کے ساتھ مناسب رہیں گے اور ان کی وجہ سے بات میں جان پیدا ہوگی۔

امام ابن قیم جوزی نے اپنی مشہور کتاب زاد المعاد میں حضور ﷺ کی مجاہدانہ زندگی کے بارے میں ایک عنوان قائم کیا ہے ، " بعثت سے لے کر وفات تک کفار اور منافقین کے ساتھ آپ کا طرز عمل " اس عنوان کے تحت وہ رقم طراز ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے آپ کی طرف یہ وحی نازل کی کہ " آپ اپنے رب کے نام سے پڑھیں " یوں ہوا آپ کی نبوت کا آغاز ، اس وقت جو حکم دیا گیا تھا وہ یہ تھا کہ آپ اپنے دل میں پڑھیں۔ ابھی آپ کو تبلیغ کا حکم نہ ملا تھا ، کچھ عرصہ بعد یہ آیت نازل ہوئی یا ایہا المدثر قم فانذر یعنی اقراء سے آپ کو نبوت ملی اور یا ایہا المدثر سے آپ کو منصب رسالت عطا ہوا اور حکم دیا گیا کہ آپ اپنے رشتہ داروں کو ڈرائیں ، رشتہ داروں کے بعد آپ نے اپنی قوم کو انجام بد سے ڈرایا۔ قوم کے بعد مکہ مکرمہ کے ارگرد پھیلے ہوئے قبائل کو تبلیغ کی۔ اس کے بعد یہ پیغام پوری عرب دنیا تک عام کردیا گیا اور بالآخر اس دعوت کو بین الاقوامی دعوت بنا دیا گیا۔

دعوت اسلامی کا کام شروع کرنے کے بعد نبی ﷺ کئی سال تک صرف وعظ اور تبلیغ کرتے رہے اور طاقت کا استعمال نہ کیا ، بلکہ آپ کو حکم دیا گیا کہ آپ صبر اور درگزر سے کام لیں اور اینٹ کا جواب پتھر سے نہ دیں۔ ایک عرصہ بعد آپ کو ہجرت کی اجازت دی گئی اور ساتھ ہی دشمنوں سے لڑنے کی بھی اجازت دی گئی تاہم یہ اجازت اس حد تک تھی کہ صرف ان لوگوں سے جنگ کی جائے جو لڑنے کے لیے میدان میں اتر آئیں اور دوسروں سے نہ لڑا جائے۔ سب سے آخر میں یہ حکم دیا گیا کہ کفار اور مشرکین سے اس وقت تک جنگ جاری رکھی جائے جب تک دین اللہ کے لیے خالص نہیں ہوجاتا۔ (لیکون الدین کلہ للہ) جس وقت آپ کو جہاد کا حکم دیا گیا ، اس وقت حضور اور کفار کے درمیان تعلقات کی صرف تین شکلیں تھیں ، اہل صلح ، اہل حرب اور اہل ذمہ ، اہل صلح یعنی جن کے ساتھ امن کے معاہدات ہوئے تھے ، ان کے بارے میں حکم ہوا کہ عہد کو آخر تک نبھایا جائے ، لیکن صرف اس صورت میں کہ جانب مخالف اپنے معاہدے کا پابند ہو اور اگر وہ عہد شکنی اور غداری کریں تو آپ بھی معاہدہ ان کے منہ پر دے ماریں ، البتہ ایسے لوگوں کے ساتھ عملاً جنگ اس وقت تک نہ چھیڑی جائے جب تک انہیں باقاعدہ اطلاع نہ دی جائے کہ معاہدہ ختم ہوچکا ہے۔ جب سورة براءت نازل ہوئی تو ان تمام اقسام کے احکام علیحدہ علیحدہ بیان ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے ، نبی ﷺ کو حکم دیا کہ وہ اہل کتاب (یہود و نصاری) سے اس وقت تک لڑیں کہ یا وہ جزیہ قبول کریں اور یا اسلام میں داخل ہوجائیں اور مشرکین اور منافقین سے بھی جہاد کا حکم دیا گیا۔ نیز منافقین سے مزید سختی برتنے کا حکم دیا گیا۔ کفار کے ساتھ آپ کا جہاد مسلح جنگ کی شکل میں تھا اور منافقین کے ساتھ زبان اور دلیل سے۔

سورة براۃ میں یہ حکم بھی دیا گیا کہ کفار کے ساتھ کیے ہوئے تمام معاہدات کو ختم کردیا جائے اور علی الاعلان ان سے براءت کا اظہار کردیا جائے۔ اس اعلان کے بعد اہل عہد کی تین اقسام قرار پائیں ، وہ جن کے ساتھ جنگ کا حکم دیا گیا۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے عہد شکنی کی تھی اور اپنے عہد پر قائم نہیں رہے تھے ، ان لوگوں کے ساتھ حضور نے جنگ کی اور ان پر فتح پائی۔ دوسری قسم ان لوگوں کی تھی جن کے ساتھ عہد تھا اور وہ اسے نبھاتے بھی رہے۔ آپ کو حکم دیا گیا کہ ان کے ساتھ جو معاہدہ ہے اسے مقرر مدت تک برقرار رکھا جائے اور شرائط کی پابندی کی جائے۔ تیسری قسم ایسے لوگوں کی تھی کہ جن کے ساتھ اگرچہ معاہدہ تو نہ تھا لیکن یہ لوگ آپ کے خلاف کسی جنگ میں بھی شریک نہ ہوئے تھے یا ان کے ساتھ تعین مدت کے بغیر معاہدہ طے پا گیا تھا ، ایسے لوگوں کے بارے میں حکم ہوا کہ انہیں چار ماہ کی مہلت دی جائے اور ان سے کہہ دیا جائے کہ اس کے بعد کوئی معاہدہ نہیں کیا جائے گا۔ یا مسلمان ہوجاؤ ورنہ لڑنے کے لیے تیارہ ہوجاؤ۔

(یہ حکم صرف مشرکین عرب کے لیے ہے انہیں جزیہ دے کر اسلامی ریاست کے زیر سایہ ذمی کی حیثیت سے زندگی گزارنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ یہ اس لیے کہ حق کے پورے انکشاف کے بعد ان کے انحراف کے لیے کوئی عذر باقی نہیں رہ گیا تھا۔ نبی ﷺ کے متعلق یہ اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ نبی ہیں اور قرآن ان کی اپنی زبان میں نازل ہونے کی وجہ سے انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔ محض ہٹ دھرمی کی بناء پر یہ انکار کیے جا رہے تھے اس لیے یہ کسی رعایت کے مستحق نہیں تھے۔ عرب اہل کتاب اور غیر عرب مشرکین اور اہل کتاب کے ساتھ یہ رعایت رکھی گئی کہ اگر وہ چاہیں تو حفاظت جان و مال کا معاوضہ یا جزیہ دے کر اسلام حکومت کے زیر سایہ باعزت شہری کے طور پر رہیں۔ )

چناچہ انہی ہدایات کے مطابق آپ نے عہد شکنوں کے ساتھ جنگ کی ، اور جن کے ساتھ کوئی عہد نہ تھا انہیں چار ماہ کی مہلت دی اور راست باز معاہدین کے ساتھ اپنا عہد پورا کیا اور ایسے تمام لوگ معاہدہ کی مدت پوری ہونے سے پہلے ہی اہل ایمان اور مسلمانوں کا جزو بن گئے اور اہل ذمہ پر جزیہ عائد ہوا۔

جیسا کہ کہا گیا سورة براءت کے نزول کے بعد کفار کے ساتھ آپ کے تعلقات تین قسم کے رہ گئے تھے یعنی محارب ، اہل ذمہ اور اہل عہد اور چونکہ اہل سب کے سب اسلام میں داخل ہوگئے تھے ، اس طرح صرف اہل ذمہ اور اہل حرب ہی باقی رہ گئے۔ اہل حرب کی حالت یہ رہتی تھی کہ آپ کے دور میں وہ ہمیشہ آپ سے خائف رہتے تھے۔

چناچہ حضور ﷺ کی عمر کے آخری دور میں حضور اور تمام انسانوں کے تعلقات کی نوعیت صرف یہ رہ گئی تھی کہ ان میں سے بعض مسلم اور مومن تھے ، بعض آمن اور مسالم تھے اور بعض آپ سے خائف اور محارب تھے۔

منافقین کے ساتھ آپ کا طرز عمل یہ تھا کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تھا کہ آپ ان کے اعلان اسلام کو قبول فرمائیں اور ان کے باطن کو اللہ کے سپرد کردیں اور ان کے مقابلے میں علم و استدلال کے ہتھیار ہی استعمال کریں اور ان کے ساتھ سرد مہری کا رویہ اختیار کریں اور ان سے سختی برتیں اور ان کی نفسی کیفیات کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے ارشادات عالیہ سے ان کی اصلاح کی سعی کریں۔ ان کی نماز جنازہ میں شرکت نہ کریں اور نہ حضور ان کی قبر پر کھڑے ہوکر دعا کریں اور یہ کہ اگر آپ ان کے لیے دعائے مغفرت مانگ بھی لیں تو بھی اللہ انہیں ہر گز نہ بخشے گا۔ یہ تھا مختصر بیان حضور کے طرز عمل کا اپنے کفار اور منافق دشمنوں کے ساتھ "

علامہ ابن قیم نے اسلامی جہاد کے مختلف مراحل کی یہ بہترین تلخیص پیش کی ہے اور اس سے دین حق کے تحریکی پہلو کی مستقل اور گہری بنیادیں واضح ہوجاتی ہیں جو اس لائق ہیں کہ خاصی دیر ٹھہر کر ان پر اچھی طرح غور کرلیا جائے۔ اس مختصر سی بحث میں ہم صرف چند اشارات پر ہی اکتفاء کریں گے۔

1 ۔ ابن قیم کے اس " سیرت پارہ " سے " اسلامی جہاد کی جو پہلی بنیاد سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ دین حق اپنے طریق کار میں بھرپور واقعیت پسند ہے ، یہ طریق کار در اصل اس حرکت کا نام ہے ، جو زمین پر موجود کسی انسانی سوسائٹی کا سامنا کرتی ہے اور ایسے سب ذرائع سے اس کا سامنا کرتی ہے ، جو سوسائٹی کے واقعی وجود کے مقابلہ میں کام آسکیں۔

وہ جاہلیت کے اس فکری دائرہ پر یلغار کرتی ہے جس پر عملاً زندگی کا چلتا پھرتا ایک نظام قائم ہے جسے وقت کا اقتدار مادی قوت کے ذریعہ سہارا دئیے چلا جاتا ہے۔

اسلامی تحریک عالم واقع میں اس واقعی صورت حال کا مقابلہ کرتی ہے۔ ان تمام ذرائع و وسائل کو کام لاکر جن سے کہ یہ جاہلیت کام لیتی ہے۔ وہ اس جاہلیت کا سامنا بیان و تقریر سے بھی کرتی ہے ، تاکہ سوسائٹی کے افکار و عقائد کی اصلاح ہوسکے اور وہ غایت درجہ سعی کے ساتھ طاقت بھی استعمال کرتی ہے ، تاکہ جاہلیت کے نظام و اقتدار کو ملیا میٹ کیا جاسکے۔

وہی اقتدار جو عوام اور تعمیر افکار کی اصلاح کے کام میں روگ بن کر کھڑا ہے اور جو جبراً ان پر مسلط ہے اور انہیں اندھیرے میں رکھے ہوئے ہے اور جو انہیں رب اکبر کے مقابلہ میں دوسروں کا بندہ بنائے ہوئے ہے۔ یہ ایک ایسی تحریک ہے جو صرف بیان و اظہار پر اکتفاء کرکے ختم نہیں ہوجاتی جس طرح کہ اس تحریک میں یہ بھی نہیں ہے کہ مادی غلبہ حاصل کرکے لوگوں سے جبراً اپنی بات منوالے۔ یہ رد و قبول میں جبر کی قائل ہی نہیں لا اکراہ فی الدین دین حق کے طریق کار میں یہ دنوں ہی باتیں نہیں ہیں وہ تو ایک تحریک ہے۔ اس لیے برپا کی گئی ہے کہ لوگوں کو بندوں کی غلامی سے نجات دلا کر اللہ وحدہ لا شریک کی بندگی میں داخل کردے۔

(بہت طویل ہونے کی وجہ سے اس آیت کی مکمل تفسیر شامل نہیں کی جا سکی۔ ہم اس کے لیے معذرت خواہ ہیں۔ برائے مہربانی اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ فی ظلال القرآن جلد سے پڑھیں)

آیت 2 فَسِیْحُوْا فِی الْاَرْضِ اَرْبَعَۃَ اَشْہُرٍ “یعنی اس جزیرہ نمائے عرب میں تمہیں رہنے اور گھومنے پھرنے کے لیے صرف چار مہینے کی مہلت دی جارہی ہے۔وَّاعْلَمُوْٓا اَنَّکُمْ غَیْرُ مُعْجِزِی اللّٰہِلا وَاَنَّ اللّٰہَ مُخْزِی الْکٰفِرِیْنَ اب ان مشرکین کے لیے اللہ کے عذاب کی آخری قسط آکر رہے گی۔ یہ قطعی اعلان تو ایسے معاہدوں کے ضمن میں تھا جن میں کوئی میعاد معین نہیں تھی ‘ جیسے عام دوستی کے معاہدے ‘ جنگ نہ کرنے کے معاہدے وغیرہ۔ ایسے تمام معاہدوں کو چارہ ماہ کی پیشگی وارننگ کے ساتھ ختم کردیا گیا۔ یہ ایک معقول طریقہ تھا جو سورة الانفال کی آیت 58 میں بیان کردہ اصول فَانْبِذْ اِلَیْہِمْ عَلٰی سَوَآءٍ ط کے مطابق اختیار کیا گیا۔ یعنی معاہدے کو علی الاعلان دوسرے فریق کی طرف پھینک دیا گیا ‘ اور پھر فوراً اقدام بھی نہیں کیا گیا ‘ بلکہ چار ماہ کی مہلت بھی دے دی گئی۔

آیت 2 - سورہ توبہ: (فسيحوا في الأرض أربعة أشهر واعلموا أنكم غير معجزي الله ۙ وأن الله مخزي الكافرين...) - اردو