سورہ توبہ: آیت 1 - براءة من الله ورسوله إلى... - اردو

آیت 1 کی تفسیر, سورہ توبہ

بَرَآءَةٌ مِّنَ ٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦٓ إِلَى ٱلَّذِينَ عَٰهَدتُّم مِّنَ ٱلْمُشْرِكِينَ

اردو ترجمہ

اعلان برات ہے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اُن مشرکین کو جن سے تم نے معاہدے کیے تھے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Baraatun mina Allahi warasoolihi ila allatheena AAahadtum mina almushrikeena

آیت 1 کی تفسیر

سورة التوبہ ایک نظر میں

یہ مدنی سورت ہے اور اگر یہ نہ کہا جائے کہ قرآن کے آخری سورت ہے تو اس کا تعلق نزول قرآن کے بالکل آخری دور سے بہرحال ہے۔ کیونکہ راجح روایات میں ہے کہ سورت النصر آخری سورت ہے۔ چناچہ اس میں امت مسلمہ اور کرہ ارض پر رہنے والی دوسری اقوام کے درمیان تعلقات سے متعلق جو احکام وقوانین ہیں ، وہ آخری اور فائنل قوانین ہیں۔ اس سورت میں خود مسلم معاشرے کے اندر پائے جانے والے مختلف طقبات کی قدر و قیمت کا تعین بھی کیا گیا ہے۔ ہر ایک کے حالات و کوائف بیان کیے ہیں۔ یہاں طبقات سے مراد وہ طبقات نہیں ہیں جن کے لیے آج کل یہ لفظ استعمال ہوتا ہے بلکہ ان سے مراد وہ گروہ ہیں جو اسلامی تصورات کے مطابق مختلف گروہ قرار پائے ہیں ، مثلا انصار ، مہاجرین ، اہل بدر ، اصحاب بیعت رضوان ، وہ لوگ جنہوں نے قبل فتح مکہ مال و دولت اسلام کی راہ میں خرچ کیے ، وہ جنہوں نے فتح مکہ کے بعد اپنا مال خرچ کیا ، وہ جو جہاد میں جانے کے بجائے گھر بیٹھ گئے اور پھر وہ جو منافق رہے ، غرض اس سورت میں اسلامی معاشرے کے شب و روز اور ان میں مذکور تمام طبقات اور گروہوں کے حالات بڑی تفصیل اور تجدید کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں۔

اس پہلو سے اس سورت کی اہمیت بہت زیادہ ہے کہ اس میں تحریک اسلامی کے مختلف مراحل ، اقدامات بیان ہوئے ہیں۔ خصوصا جب اس کے فائنل احکامات کا مقابلہ ان احکامات سے کیا جائے جو اس سے متصلا پہلی سورت میں تھے اور جو وقتی تھے۔ یہ تقابلی مطالعہ بتائے گا کہ یہ انداز تفسیر کس قدر مضبوط اور فیصلہ کن ہے۔ اور اگر یہ انداز مطالعہ اختیار نہ کیا جائے تو احکام و ضوابط کی شکل ہی بدل جاتی ہے۔ مثلاً کوئی شخص ان آیات کو لے جو ایک خاص مرحلے کے ساتھ مخصوص تھیں اور ان کو آخری اور فائنل احکام قرار دے اور ان آیات میں تاویل شروع کردے جن آخری اور فائنل ہدایات دی گئی تھیں تاکہ یہ فائنل ہدایات ان آیات کے ساتھ ہم آہنگ ہوجائیں جو وقتی تھیں۔ خصوصاً جہاد اسلامی اور مسلم معاشرے اور دوسرے معاشروں کے درمیان بین الاقوامی تعلقات کے موضوع سے متعلق۔ امید ہے کہ ہم ان میں سے بعض موضوعات کی وضاحت تشریح آیات کے ضمن میں اور سورت توبہ کے اس مقدمے میں کرسکیں گے۔ یہ سورت کب نازل ہوئی ؟ اس سورت کے موضوعات کے مطالعے ، ان کے بارے میں روایات و احادیث کے مطالعے اسباب نزول کی روایات کے ملاحظے اور ان تاریخی حالات و واقعات کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورت پوری کی پوری نویں صدی ہجری میں نازل ہوئی ہے۔ لیکن یہ دفعۃ نازل نہیں ہوئی ہے۔ ہم جزم کے ساتھ یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ اس سورت کے مختلف حصے کس کس وقت نازل ہوئے ، البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ سورت تین مرحلوں میں نازل ہوئی ہے۔ پہلا حصہ نویں سال ہجری میں غزوہ تبوک سے قبل ماہ رجب میں نازل ہوا۔ دوسرا حصہ اس جنگ کے لیے تیاریوں کے دور میں اور جنگ کے دوران نازل ہوا اور تیسرا حصہ اس وقت نازل ہوا جب مسلمان اس غزوہ سے واپس ہوگئے۔ البتہ سورت کا ابتدائی حصہ یعنی آیت 1 تا 28 آخر میں سن نو ہجری کے آخری ایام میں نازل ہوئے یعنی حج سے قبل ذوالقعدہ یا ذوالحجہ میں۔ اجمالاً اسی قدر بات کہی جاسکتی ہے جس پر دل مطمئن ہوتا ہے۔

۔۔۔۔

اس سورت کے پہلے حصے میں یعنی آیت تا 1 تا 28 جزیرۃ العرب میں بسنے والے مشرکین اور مسلمانوں کے تعلقات کی فائنل ضابطہ بندی کی گئی ہے۔ اس ضابطہ بندی کے حقیقی اور عملی اسباب ، اس کی تاریخی وجوہات اور نظریاتی اساسوں کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ اور یہ سب کچھ قرآن میں اشاراتی اسلوب اور موثر انداز بیان ، فیصلہ کن اور واضح طرز تعبیر کے ساتھ پیش کیا گیا۔ مناسب ہوگا کہ اس کے چند نمونے برائے غور آپ کے سامنے پیش کیے جائیں۔

بَرَاءَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى الَّذِينَ عَاهَدْتُمْ مِنَ الْمُشْرِكِينَ (1) فَسِيحُوا فِي الأرْضِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ وَأَنَّ اللَّهَ مُخْزِي الْكَافِرِينَ (2) وَأَذَانٌ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الأكْبَرِ أَنَّ اللَّهَ بَرِيءٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ وَرَسُولُهُ فَإِنْ تُبْتُمْ فَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَإِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ وَبَشِّرِ الَّذِينَ كَفَرُوا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ (3)إِلا الَّذِينَ عَاهَدْتُمْ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ثُمَّ لَمْ يَنْقُصُوكُمْ شَيْئًا وَلَمْ يُظَاهِرُوا عَلَيْكُمْ أَحَدًا فَأَتِمُّوا إِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ إِلَى مُدَّتِهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ (4) فَإِذَا انْسَلَخَ الأشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدْتُمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (5) وَإِنْ أَحَدٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ حَتَّى يَسْمَعَ كَلامَ اللَّهِ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لا يَعْلَمُونَ (6) كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ عِنْدَ اللَّهِ وَعِنْدَ رَسُولِهِ إِلا الَّذِينَ عَاهَدْتُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ فَمَا اسْتَقَامُوا لَكُمْ فَاسْتَقِيمُوا لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ (7) كَيْفَ وَإِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ لا يَرْقُبُوا فِيكُمْ إِلا وَلا ذِمَّةً يُرْضُونَكُمْ بِأَفْوَاهِهِمْ وَتَأْبَى قُلُوبُهُمْ وَأَكْثَرُهُمْ فَاسِقُونَ (8) اشْتَرَوْا بِآيَاتِ اللَّهِ ثَمَنًا قَلِيلا فَصَدُّوا عَنْ سَبِيلِهِ إِنَّهُمْ سَاءَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (9) لا يَرْقُبُونَ فِي مُؤْمِنٍ إِلا وَلا ذِمَّةً وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُعْتَدُونَ (10) فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَنُفَصِّلُ الآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ (11) وَإِنْ نَكَثُوا أَيْمَانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوا فِي دِينِكُمْ فَقَاتِلُوا أَئِمَّةَ الْكُفْرِ إِنَّهُمْ لا أَيْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَنْتَهُونَ (12) أَلا تُقَاتِلُونَ قَوْمًا نَكَثُوا أَيْمَانَهُمْ وَهَمُّوا بِإِخْرَاجِ الرَّسُولِ وَهُمْ بَدَءُوكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ أَتَخْشَوْنَهُمْ فَاللَّهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَوْهُ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (13) قَاتِلُوهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللَّهُ بِأَيْدِيكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ (14) وَيُذْهِبْ غَيْظَ قُلُوبِهِمْ وَيَتُوبُ اللَّهُ عَلَى مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ (15) أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تُتْرَكُوا وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جَاهَدُوا مِنْكُمْ وَلَمْ يَتَّخِذُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلا رَسُولِهِ وَلا الْمُؤْمِنِينَ وَلِيجَةً وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ (16) مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِينَ أَنْ يَعْمُرُوا مَسَاجِدَ اللَّهِ شَاهِدِينَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ أُولَئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ وَفِي النَّارِ هُمْ خَالِدُونَ (17)إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلا اللَّهَ فَعَسَى أُولَئِكَ أَنْ يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِينَ (18) أَجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَاجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَجَاهَدَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ لا يَسْتَوُونَ عِنْدَ اللَّهِ وَاللَّهُ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ (19) الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ أَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللَّهِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ (20) يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوَانٍ وَجَنَّاتٍ لَهُمْ فِيهَا نَعِيمٌ مُقِيمٌ (21) خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ (22) يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا آبَاءَكُمْ وَإِخْوَانَكُمْ أَوْلِيَاءَ إِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَى الإيمَانِ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ (23) قُلْ إِنْ كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُمْ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ وَاللَّهُ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ (24) لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ فِي مَوَاطِنَ كَثِيرَةٍ وَيَوْمَ حُنَيْنٍ إِذْ أَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَيْئًا وَضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الأرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّيْتُمْ مُدْبِرِينَ (25) ثُمَّ أَنْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَى رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَأَنْزَلَ جُنُودًا لَمْ تَرَوْهَا وَعَذَّبَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَذَلِكَ جَزَاءُ الْكَافِرِينَ (26) ثُمَّ يَتُوبُ اللَّهُ مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ عَلَى مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ (27) يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَذَا وَإِنْ خِفْتُمْ عَيْلَةً فَسَوْفَ يُغْنِيكُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ إِنْ شَاءَ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ حَكِيمٌ (28)

ترجمہ : جن لوگوں کے ساتھ تم نے صلح و امن کا معاہدہ کیا تھا اب اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ان کو صاف صاف جواب ہے۔ پس اے مشرکو ملک میں چار مہینے چل پھر لو ، کوئی روک ٹوک نہیں اور جان لو کہ تم اللہ کو کبھی عاجز نہ کرسکوگے اور اللہ کافروں کو رسوا کرنے والا ہے۔ اور حج اکبر کے دن اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے منادی کی جاتی کہ اللہ اور اس کا رسول مشرکین سے بری الذمہ ہے۔ اگر تم توبہ کرلو تو تمہارے حق میں بہتر ہے۔ اور اگر روگردانی کرتے رہے تو جان رکھو کہ تم اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے اور اے پیغمبر کافروں کو دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دے۔ ہاں مشرکین میں سے جن لوگوں کے ساتھ تم نے معاہدہ کیا تھا پھر انہوں نے تمہارے ساتھ کسی قسم کی کمی نہیں کی اور نہ تمہارے خلاف کسی کی مدد کی وہ مستثنی ہیں۔ تو ان کے ساتھ جو معاہدہ ہے اس کی مدت تک پورا کرو کیونکہ اللہ متقیوں کو پسند کرتا ہے۔ پھر جب حرمت کے مہینے گزر جائیں تو مشرکین کو جہاں پاؤ، قتل کرو اور انہیں گرفتار کرو اور ان کا محاصرہ کرو اور ہر گھات کی جگہ ان کی تاک میں بیٹھو پھر اگر وہ توبہ کرلیں ، نماز قائم کریں اور زکوۃ دیں تو ان کا راستہ چھوڑ دو کیونکہ وہ اللہ غفور و رحیم ہے اور اے پیغمبر مشرکین میں سے کوئی پناہ مانگے تو پناہ دے دو تاکہ وہ اچھی طرح کلام الہی سن لے پھر اسے اس کے امن کی جگہ پہنچا دو یہ اس وجہ سے ہے کہ وہ علم نہیں رکھتے۔

یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ان مشرکین کا عہد اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک عہد ہو ؟ ہاں جن لوگوں کے ساتھ تم نے مسجد حرام کے قریب عہد کیا تھا اور انہوں نے اسے نہیں توڑا تو جب تک وہ تمہارے ساتھ اپنے عہد پر قائم رہیں ، تم بھی ان کے ساتھ اپنے عہد پر قائم رہو کیونکہ اللہ متقیوں کو پسند کرتا ہے مگر ان کے سوا دوسرے مشرین کے ساتھ عہد کیسے ہوسکتا ہے۔ جن کا حال یہ ہے کہ اگر تم پر غلبہ پائیں تو تمہارے بارے میں نہ تو قرابت کا پاس کریں اور نہ عہد و پیمان کا یہ لوگ اپنی زبانوں سے تمہیں راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر ان کے دل ان باتوں سے انکار کرتے ہیں اور ان میں سے اکثر فاسق ہیں۔ ان لوگوں نے اللہ کی آیتیں تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالیں۔ پھر اللہ کی راہ سے لوگوں کو روکنے لگے۔ افسوس ان پر بہت ہی برے کام تھے جو یہ کرتے رہے۔ یہ کسی مومن کے بارے میں نہ قرابت کا پاس کرتے ہیں نہ عہد و پیمان کا اور یہی لوگ زیادتی کرنے والے ہیں۔ بہرحال اگر یہ توبہ کرلیں ، نماز قائم کریں اور زکوۃ دیں تو تمہارے دینی بھائی ہیں اور جو لوگ سمجھ دار ہیں ان کے لیے ہم اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان کردیتے ہیں اور اگر یہ لوگ عہد کرنے کے بعد اپنی قسموں کو توڑ ڈالیں اور تمہارے دین پر طعن کریں تو ان کفر کے سرغنوں سے جنگ کرو۔ ان کی قسمیں ، قسمیں نہیں اور تمہیں ان سے جنگ اس لیے کرنی چاہئے کہ یہ اپنی شرارتوں سے باز آجائیں۔ مسلمانو کیا تم ان سے نہ لڑو گے جنہوں نے عہد کرنے کے بعد اپنی قسمیں توڑ ڈالیں اور اللہ کے رسول کو اس کے وطن سے نکال دینے کا قصد کیا اور تم سے لڑائی ہیں پہل بھی انہوں نے کی۔ کیا تم ان سے ڈرتے ہو۔ اگر تم مومن ہو تو اللہ اس کا زیادہ مستحق ہے کہ تم اس سے ڈرو۔ مسلمانو ان لوگوں سے بلا تامل لڑو۔ اللہ تمہارے ہی ہاتھوں انہیں عذاب دے گا اور ان کو رسوا کرے گا اور ان پر تمہیں غلبہ دے گا اور مومنوں کو اور ان کے دلوں کو ٹھنڈا کرے گا اور ان کے دلوں میں کافروں کی طرف سے جو غصہ بھرا ہوا ہے اس کی خلش کو بھی دور کرے گا اور جس کی چاہے توبہ قبول فرمائے گا اور اللہ سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔

مسلمانو کیا تم نے سمجھ رکھا ہے کہ سستے چھوٹ جاؤگے حالانکہ ابھی اللہ نے ان لوگوں کو جانا ہی نہیں جنہوں نے جہاد کیا اور اللہ اور اس کے رسول اور مومنین کو چھوڑ کر کسی اور کو اپنا جگری دوست نہ بنایا۔ اور یاد رکھو جو کچھ بھی تم لوگ کرتے ہو ، اللہ کو اس کی سب خبر ہے۔ مشرکین کو یہ حق نہیں کہ اللہ کی مسجدوں کو آباد کریں اور مشرکانہ اقوال و افعال سے اپنے اوپر کفر کی گواہی بھی دیتے جائیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے سارے عمل اکارت گئے اور یہ دوزخ میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ اللہ کی مسجدوں کو آباد کرنا تو ان لوگوں کا کام ہے جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہوں۔ نماز قائم کرتے ہوں ، زکوۃ دیتے ہوں اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرتے ہوں سو ایسے لوگوں سے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ ہدایت پانے والے ہوں گے۔ لوگو کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانے والے اور مسجد حرام کو آباد رکھنے کو اس شخص کے عمل کے برابر سمجھ لیا ہے۔ جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان لایا اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ اللہ کے نزدیک تو یہ لوگ ایک دوسرے کے برابر نہیں اور اللہ ظالموں کی رہنمائی نہیں کرتا۔ اللہ کے نزدیک درجے میں بڑے وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور ہجرت کی اور اپنے جان و مال سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ یہی لوگ کامیاب ہیں۔ ان کا رب انہیں اپنی رحمت اور خوشنود کی بشارت دیتا ہے۔ نیز ایسے باغوں کی جن میں ان کی دائمی آسائش ملے گی اور وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ بیشک اللہ کے پاس نیک کرداروں کے لیے بڑا اجر ہے۔ اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو اگر تمہارے باپ اور تمہارے بھائی ایمان کے مقابلے میں کفر کو عزیز رکھیں تو ان کو اپنا رفیق نہ بناؤ اور تم میں سے جو انہیں رفیق بنائیں گے تو ایسے ہی لوگ ظالم ہیں اے پیغمبر مسلمانوں سے کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہاری برادری اور وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور وہ تجارت جس کے مندا پڑجانے کا تمہیں اندیشہ ہے اور وہ مکانات جو تمہیں پسند ہیں اگر یہ ساری چیزیں اللہ اور اس کے رسول اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے سے تمہیں زیادہ پیاری ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمہارے سامنے لے آئے اور اللہ کا مقررہ قانون ہے کہ وہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔ مسلمانو ! اللہ نے بہت سے موقعوں پر تمہاری مدد کی ہے اور خاص کر جنگ حنین کے وہ جب کہ تم اپنی کثرت پر اترا گئے تھے مگر وہ کثرت تمہارے کچھ کام نہ آئی اور زمین اپنی وسعت کے باوجود تم پر تنگ ہوگئی اور تم پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے۔ پھر اللہ نے اپنے رسول اور مومنوں پر اپنی طرف سے سکون قلب نازل فرمایا اور مدد کو فرشتوں کے ایسے لشکر اتارے جو تمہیں نظر نہیں آتے تھے اور اس طرح ان لوگوں کو جنہوں نے کفر کا راستہ اختیار کیا تھا ، سخت سزا دی اور کافروں کی یہی جزا ہے۔ پھر تم دیکھ چکے ہو کہ سزا کے بعد اللہ جسے چاہتا ہے توبہ کی توفیق بھی دیتا ہے اور اللہ غفور و رحیم ہے۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، یہ حقیقت ہے کہ مشرک ناپاک ہیں۔ لہذا اس کے بعد وہ مسجد حرام کے پاس بھی نہ آنے پائیں۔ اگر ان کے ساتھ لین دین بند ہوجانے سے تمہیں مفلسی کا اندیشہ ہے تو اللہ پر بھروسہ رکھو وہ چاہے گا تو تمہیں اپنے فضل سے غنی کردے گا بیشک اللہ سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔

درج بالا جن آیات کا ہم نے اقتباس پیش کیا۔ ان میں اور اس سبق کی تمام دوسری آیات میں اس بات پر نہایت ہی تاکید اور شدت سے زور دیا گیا ہے کہ مشرکین عرب کے خلاف فیصلہ کن قدم اٹھاؤ اور مسلمانوں کو اس بات پر برانگیختہ کیا گیا ہے کہ مشرکین کے ساتھ بائیکاٹ کرو اور پورے جزیرۃ العرب میں ان کے خلاف جنگی کاروائی شروع کردو۔ اس شدید تاکید سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت جماعت مسلمہ یا ان میں سے بعض افراد کے رویوں میں یہ خوف تھا کہ پورے جزیرۃ العرب میں مشرکین کے خلاف بیک وقت اس قسم کی کاروائی شروع کرنا مناسب امر نہیں ہے یا ان کو فیصلہ کن انداز میں اس قسم کی کاروائی خوفناک نظر آتی تھی اور وہ اس بارے میں یکسو نہ تھے۔ اور اس کی بعض وجوہات بھی تھیں جن کے بارے میں ہم عنقریب اس تبصرے اور پھر تشریح آیات کے وقت کلام کریں گے۔ ان شاء اللہ۔

اس سورت کے دوسرے حصے میں ، اسلامی معاشرے اور اہل کتاب کے درمیان تعلقات کی حد بندی کی گئی اور اس میں جو احکامات دیے گئے ہیں ، وہ فائنل ہیں اور ان فیصلوں کے نظریاتی ، تاریخی اور عملی اسباب بھی بیان کیے گئے ہیں جن کی وجہ سے اسلام نے ان تعلقات کی ایسی ضابطہ بندی کی ہے۔ اس حصے میں اسلام اور اسلام کی مستقل حقیقت کو بھی بیان کیا گیا ہے اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اہل کتاب نے نظریاتی اور عملی ہر لحاظ سے اپنے صحیح دین سے انحراف کرلیا ہے۔ اس لیے اب وہ عملاً اس دین پر قائم نہیں رہے جو اللہ نے ان کی طرف بھیجا تھا اور جس کی وجہ سے وہ اہل کتاب قرار پائے تھے مثلاً درج ذیل آیات پر غور فرمائیں :

قَاتِلُوا الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلا بِالْيَوْمِ الآخِرِ وَلا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَلا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ (29): جنگ کرو اہل کتاب میں سے ان لوگوں کے خلاف جو اللہ اور روز آخر پر ایمان نہیں لاتے۔ اور جو کچھ اللہ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے ، اسے حرام نہیں کرتے اور دین حق کو اپنا دین نہیں مانتے۔ (ان سے لڑو) یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں۔

وَقَالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ وَقَالَتِ النَّصَارَى الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ ذَلِكَ قَوْلُهُمْ بِأَفْوَاهِهِمْ يُضَاهِئُونَ قَوْلَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ قَبْلُ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ (30) اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلا لِيَعْبُدُوا إِلَهًا وَاحِدًا لا إِلَهَ إِلا هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ (31): یہود کہتے کہ عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کا بیٹآ ہے۔ یہ بےحقیقت باتیں ہیں جو وہ اپنی زبانوں سے نکالتے ہیں۔ ان لوگوں کی دیکھا دیکھی جو ان سے پہلے کفر میں مبتلا ہوئے تھے۔ خدا کی مار ان پر یہ کہاں سے دھوکہ کھا رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے اور اسی طرح مسیح ابن مریم کو بھی حالانکہ ان کو ایک معبود کے سوا کسی کی بندگی کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا۔ وہ جس کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں۔ پاک ہے وہ ان مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔

يُرِيدُونَ أَنْ يُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَيَأْبَى اللَّهُ إِلا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ (32) هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ (33) : یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کی روشنی کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں۔ مگر اللہ اپنی روشنی کو مکمل کیے بغیر ماننے والا نہیں ہے۔ خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ وہ اللہ وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پوری جنس دین پر غالب کردے۔ خواہ مشرکوں کو کتنا ہی ناگوار ہو۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ كَثِيرًا مِنَ الأحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَأْكُلُونَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَيَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلا يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ (34) يَوْمَ يُحْمَى عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ هَذَا مَا كَنَزْتُمْ لأنْفُسِكُمْ فَذُوقُوا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُونَ (35) : اے ایمان لانے والو ! ان اہل کتاب کے اکثر علماء اور درویشوں کا حال یہ ہے کہ وہ لوگوں کا مال باطل طریقوں سے کھاتے ہیں اور انہیں اللہ کی راہ سے روکتے ہیں۔ دردناک عذاب کی خوشخبری دو ، ان کو جو سونے اور چاندی جمع کرکے رکھتے ہیں اور انہیں خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔ ایک دن آئے گا کہ اس سونے اور چاندی پر جہنم کی آگ دہکائی جائے گی اور پھر اسی سے ان لوگوں کی پیشانیوں اور پہلوؤں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا۔ یہ ہے وہ خزانہ جو تم نے اپنے لیے جمع کیا تھا لو اب اپنی سمیٹی ہوئی دولت کا مزہ چکھو۔

اس حصے میں جو اسلوب گفتگو اپنایا گیا ہے ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیات لوگوں کے اس خلجان کو دور کرنے کے لیے نازل ہوئیں ، جو وہ اہل کتاب کے خلاف کسی سخت ایکشن کے سلسلے میں اپنے اندر پاتے تھے ، یا یہ تردد اور خوف ان میں سے بڑی اکثریت کے دلوں میں پایا جاتا تھا کہ وہ اہل کتاب کے حوالے سے پہلی آیت کے مطابق تعلق کا آغآز کس طرح کریں ، لیکن درحقیقت ان آیات میں روئے سخن رومیوں کی طرف تھا جن کے ساتھ شام اور عرب کے عیسائیوں کے حلیفانہ تعقلات تھے۔ رومیوں کے حوالے سے یہ تردد اور خوف بجا بھی تھا ، اس لیے کہ جزیرۃ العرب کے باشندوں کے ہاں رومیوں کی تاریخی شہرت تھی۔ اگرچہ آیت کے الفاظ تمام اہل کتاب کے لیے عام ہیں اور آیت میں مذکور ہونے والے اوصاف سب ان پر منطبق تھے جیسا کہ آیت کی تشریح کے وقت ہم بتائیں گے۔

اس سورت کے تیسرے حصے میں ان کاہل اور سست لوگوں کا ذکر ہے جن کو جب جہاد کے لیے دعوت دی جاتی ہے تو وہ اپنے آپ کو بوجھل بنا کر زمین پر گرا دیتے ہیں اور نفیر عام سے سستی برتتے ہیں۔ یہ سستی کرنے والے سب کے سب منافق نہ تھے جیسا کہ بعد میں واضح ہوگا بلکہ یہ مہم چونکہ پر مشقت تھی اور بعض لوگ مشکلات راہ کی وجہ سے سست پڑگئے تھے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الأرْضِ أَرَضِيتُمْ بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنَ الآخِرَةِ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الآخِرَةِ إِلا قَلِيلٌ (38) إِلا تَنْفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا وَيَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ وَلا تَضُرُّوهُ شَيْئًا وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (39) إِلا تَنْصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللَّهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا فَأَنْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَأَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَمْ تَرَوْهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِينَ كَفَرُوا السُّفْلَى وَكَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيَا وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (40) انْفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالا وَجَاهِدُوا بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ (41) : اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، تمہیں کیا ہوگیا کہ جب تم اسے اللہ کی راہ میں نکلنے کے لیے کہا گیا تو تم زمین سے چمٹ کر رہ گئے ؟ کیا تم نے آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کو پسند کرلیا ؟ ایسا ہے تو تمہیں معلوم ہو کہ دنیا کی زندگی کا یہ سب سروسامان آخرت میں بہت تھوڑا نکلے گا۔ تم نہ اٹھوگے تو خدا تمہیں دردناک عذاب دے گا۔ اور تمہاری جگہ کسی اور گروہ کو اٹھائے گا اور تم خدا کا کچھ نہ بگاڑ سکو گے۔ وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ تم نے اگر نبی کی مدد نہ کی ، تو کچھ پروا نہیں اللہ اس کی مدد اس وقت کرچکا ہے جب کافروں نے اسے نکال دیا تھا۔ جب وہ صرف دو میں دوسرا تھا ، جب وہ دونوں غار میں تھے ، جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا کہ " غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے " اس وقت اللہ نے اس پر اپنی طرف سے سکون قلب نازل کیا اور اس کی مدد ایسے لشکروں سے کی جو تم کو نظر نہ آتے تھے اور کافروں کا بول نیچا کردیا اور اللہ کا بول تو اونچا ہی ہے۔ اللہ زبردست دانا و بینا ہے۔ نکلو خواہ ہلکے ہو یا بوجھل ، اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ ، یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔ (اگر تم جانو)

یہاں بار بار تاکید ، تہدید اور ملامت کے الفاظ لائے جاتے ہیں۔ یہ کہا جاتا ہے کہ جہاں تک رسول اللہ کی امداد کا تعلق ہے تو کسی انسان کی شرکت کے بغیر بھی اللہ نے ان کی مدد کی ہے۔ ذرا وہ وقت یاد کرو کہ جب مکہ سے کافروں نے انہیں نکالا تھا۔ کوئی فوج ان کے ساتھ نہ تھی لیکن وہ کامیاب رہے۔ پھر یہ تاکید کہ تم بوجھل ہو یا ہلکے بہرحال اس مہم میں نکلو ، یہ سب امور بتاتے ہیں کہ یہ مہم بہت سخت تھی ، لوگوں کے اندر سستی اور تردد بلکہ خوف طاری تھا۔ اس لیے یہاں سخت ترین الفاظ میں تاکید کی گئی ہے کہ لازماً اس مہم میں نکلو۔

اس کے بعد اس سورت کا چوتھا حصہ آتا ہے اور وہ قدے طویل ہے۔ اس سورت کے نصف حصے پر مشتمل ہے۔ اس میں منافقین اور اسلامی معاشرے کے خلاف ان کی ریشہ دوانیوں کو کھول کر بیان کیا گیا ہے۔ غزوہ تبوک ، اس سے پہلے اور اس کے بعد کے ادوار میں ان کی نفسیاتی حالت اور ان کی عملی بوکھلاہٹ کو لیا گیا ہے۔ ان کی نیات ، ان کے حیلوں بہانوں اور ان کے عذرات لنگ کا مضحکہ اڑایا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ کس طرح وہ اس جہاد سے پیچھے رہے۔ کس طرح اسلامی صفوں میں کمزوری ، افتراق اور بےچینی پھیلاتے رہے۔ رسول اللہ ﷺ اور مخلص مومنین کو ایذائیں دیتے رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مخلص مومنین کو ان کی ریشہ دوانیوں سے متنبہ کیا جاتا ہے۔ چناچہ ان کے ساتھ تعلقات کے سلسلے میں تجویز کیا جاتا ہے کہ مخلصین کو ان سے دور رہنا چاہیے۔ یہ حصہ سورت کا بنیادی حصہ ہے۔ اور بنیادی وجود ہے۔ اس حصے معلوم ہوتا ہے کہ نفاق جو فتح مکہ کے بعد قریبا قریباً ختم ہوگیا تھا کس طرح دوبارہ پھیل گیا تھا اور اگلے پیرا گراف میں آپ دیکھیں گے کہ اس نفاق کے پھیلنے کے اسباب کیا تھے۔ یہاں ہم اس پورے حصے کو تو نقل نہیں کرسکتے البتہ بطور نمونہ چند فقرات ملاحظہ ہوں۔

لَوْ كَانَ عَرَضًا قَرِيبًا وَسَفَرًا قَاصِدًا لاتَّبَعُوكَ وَلَكِنْ بَعُدَتْ عَلَيْهِمُ الشُّقَّةُ وَسَيَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَوِ اسْتَطَعْنَا لَخَرَجْنَا مَعَكُمْ يُهْلِكُونَ أَنْفُسَهُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ (42) : اے نبی اگر فائدہ سہل الحصول ہوتا اور سفر ہلکا ہوتا تو وہ ضرور تمہارے پیچھے چلنے پر آمادہ ہوجاتے مگر ان پر تو یہ راستہ بہت کٹھن ہوگیا۔ اب وہ خدا کی قسم کھا کھا کر کہیں گے کہ اگر ہم چل سکتے تو یقیناً تمہارے ساتھ چلتے۔ وہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں۔ اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ جھوٹے ہیں۔

وَلَوْ أَرَادُوا الْخُرُوجَ لأعَدُّوا لَهُ عُدَّةً وَلَكِنْ كَرِهَ اللَّهُ انْبِعَاثَهُمْ فَثَبَّطَهُمْ وَقِيلَ اقْعُدُوا مَعَ الْقَاعِدِينَ (46) لَوْ خَرَجُوا فِيكُمْ مَا زَادُوكُمْ إِلا خَبَالا وَلأوْضَعُوا خِلالَكُمْ يَبْغُونَكُمُ الْفِتْنَةَ وَفِيكُمْ سَمَّاعُونَ لَهُمْ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ (47) لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ وَقَلَّبُوا لَكَ الأمُورَ حَتَّى جَاءَ الْحَقُّ وَظَهَرَ أَمْرُ اللَّهِ وَهُمْ كَارِهُونَ (48): اگر واقعی ان کا ارادہ نکلنے کا ہوتا تو وہ اس کے لیے کچھ تیاری کرتے لیکن اللہ کو ان کا اٹھنا پسند ہی نہ تھا۔ اس لیے ان کو سست کردیا گیا اور کہہ دیا گیا کہ بیٹھ رہو بیٹھنے والوں کے ساتھ۔ اگر وہ تمہارے ساتھ نکلتے تو تمہارے اندر سوائے خرابی کے کسی چیز کا اضافہ نہ کرتے۔ وہ تمہارے درمیان فتنہ پردازی کے لیے دوڑ دھوپ کرتے اور تمہپارے گروہ کا یہ حال ہے کہ ابھی اس میں بہت سے لوگ موجود ہیں جو ان کی باتیں کان لگا کر سنتے ہیں۔ اللہ ان ظالموں کو خوب جانتا ہے۔ اس سے پہلے بھی ان لوگوں نے فتنہ انگیزی کی کوششیں کی ہیں اور تمہیں ناکام کرنے کے لیے ہر طرح کی تدبیروں کا الٹ پھیر کرچکے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کی مرضی کے خلاف حق آگیا اور اللہ کا کام ہوکر رہا۔

وَمِنْهُمُ الَّذِينَ يُؤْذُونَ النَّبِيَّ وَيَقُولُونَ هُوَ أُذُنٌ قُلْ أُذُنُ خَيْرٍ لَكُمْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَيُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِينَ وَرَحْمَةٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ رَسُولَ اللَّهِ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (61): ان میں سے کچھ لوگ اپنی باتوں سے نبی کو دیکھ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ شخص کانوں کا کچا ہے۔ کہا " وہ تمہاری بھلائی کے لیے ایسا ہے ، اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور اہل ایمان پر اعتماد کرتا ہے اور سراسر رحمت ہے ان لوگوں میں سے جو تم میں ایماندار ہیں اور جو لوگ اللہ کے رسول کو دکھ دیتے ہیں ان کے لیے دردناک سزا ہے "

وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ ائْذَنْ لِي وَلا تَفْتِنِّي أَلا فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُوا وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِيطَةٌ بِالْكَافِرِينَ (49)إِنْ تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِنْ تُصِبْكَ مُصِيبَةٌ يَقُولُوا قَدْ أَخَذْنَا أَمْرَنَا مِنْ قَبْلُ وَيَتَوَلَّوْا وَهُمْ فَرِحُونَ (50): ان میں سے کوئی ہے جو کہتا ہے کہ " مجھے رخصت دیجئے اور مجھ کو فتنہ میں نہ ڈالیے " سن رکھو ! فتنے میں ہی تو یہ لوگ پڑے ہوئے ہیں اور جہنم نے ان کافروں کو گھیر رکھا ہے۔ تمہارا بھلا ہوتا ہے تو انہیں رنج ہوتا ہے۔ اور تم پر کوئی وصیت آتی ہے تو یہ منہ پھیر کر خوش خوش پلٹتے ہیں اور کہتے جاتے ہیں کہ اچھا ہوا ہے ہم نے پہلے ہی اپنا معاملہ ٹھیک کرلیا تھا۔

وَيَحْلِفُونَ بِاللَّهِ إِنَّهُمْ لَمِنْكُمْ وَمَا هُمْ مِنْكُمْ وَلَكِنَّهُمْ قَوْمٌ يَفْرَقُونَ (56) لَوْ يَجِدُونَ مَلْجَأً أَوْ مَغَارَاتٍ أَوْ مُدَّخَلا لَوَلَّوْا إِلَيْهِ وَهُمْ يَجْمَحُونَ (57): وہ خدا کی قسم کھا کھا کر کہتے ہیں کہ ہم تمہیں میں سے ہیں۔ حالانکہ وہ ہر گز تم میں سے نہیں ہیں۔ اصل وہ تو ایسے لوگ ہیں جو تم سے خوفزدہ ہیں۔ اگر وہ کوئی جائے پناہ لیں یا کوئی کھول یا گھس بیٹھنے کی جگہ تو بھاگ کر اس میں جا چھپیں۔

وَمِنْهُمْ مَنْ يَلْمِزُكَ فِي الصَّدَقَاتِ فَإِنْ أُعْطُوا مِنْهَا رَضُوا وَإِنْ لَمْ يُعْطَوْا مِنْهَا إِذَا هُمْ يَسْخَطُونَ (58) وَلَوْ أَنَّهُمْ رَضُوا مَا آتَاهُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ سَيُؤْتِينَا اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَرَسُولُهُ إِنَّا إِلَى اللَّهِ رَاغِبُونَ (59): اے نبی ان میں بعض لوگ صدقات کی تقسیم میں تم پر اعتراض کرتے ہیں۔ اگر اس مال میں سے انہیں کچھ دے دیا جائے تو خوش ہوجائیں۔ اور نہ دیا جائے تو بگڑنے لگتے ہیں۔ کیا اچھا ہوتا کہ اللہ اور رسول نے جو کچھ بھی انہیں دیا تھا ، اس پر وہ راضی رہتے اور کہتے کہ اللہ ہمارے لیے کافی ہے۔ اور وہ اپنے فضل سے اور بہت کچھ دے گا اور اس کا رسول بھی ہم پر عنایت فرمائے گا۔ ہم اللہ ہی کی طرف نظر جمائے ہوئے ہیں۔

وَمِنْهُمُ الَّذِينَ يُؤْذُونَ النَّبِيَّ وَيَقُولُونَ هُوَ أُذُنٌ قُلْ أُذُنُ خَيْرٍ لَكُمْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَيُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِينَ وَرَحْمَةٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ رَسُولَ اللَّهِ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (61): ان میں سے کچھ لوگ اپنی باتوں سے نبی کو دکھ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ شخص کانوں کا کچا ہے۔ کہو " وہ تمہاری بھلائی کے لیے ایسا ہے ، اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور اہل ایمان پر اعتماد کرتا ہے اور سراسر رحمت ہے ان لوگوں کے لیے جو تم میں سے ایماندار ہیں اور جو لوگ اللہ کے رسول کو دکھ دیتے ہیں ان کے لیے دردناک سزا ہے "۔

يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَكُمْ لِيُرْضُوكُمْ وَاللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَقُّ أَنْ يُرْضُوهُ إِنْ كَانُوا مُؤْمِنِينَ (62) أَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّهُ مَنْ يُحَادِدِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَأَنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدًا فِيهَا ذَلِكَ الْخِزْيُ الْعَظِيمُ (63): یہ لوگ تمہارے سامنے قسمیں کھاتے ہیں تاکہ تمہیں راضی کریں ، حالانکہ اگر یہ مومن ہیں تو اللہ و رسول اس کے زیادہ حقدار ہیں کہ یہ ان کو راضی کرنے کی کوشش کریں۔ کیا انہیں معلوم نہیں ہے کہ جو اللہ اور رسول کا مقابلہ کرتا ہے۔ اس کے لیے دوزخ کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ یہ بہت بڑی رسوائی ہے۔

يَحْذَرُ الْمُنَافِقُونَ أَنْ تُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ سُورَةٌ تُنَبِّئُهُمْ بِمَا فِي قُلُوبِهِمْ قُلِ اسْتَهْزِئُوا إِنَّ اللَّهَ مُخْرِجٌ مَا تَحْذَرُونَ (64) وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ قُلْ أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ (65) لا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ إِنْ نَعْفُ عَنْ طَائِفَةٍ مِنْكُمْ نُعَذِّبْ طَائِفَةً بِأَنَّهُمْ كَانُوا مُجْرِمِينَ (66): یہ منافق ڈر رہے ہیں کہ کہیں مسلمانوں پر کوئی ایسی سورت نازل نہ ہوجائے جو ان کے دلوں کے بھید کھول کر رکھ دے۔ اے نبی ان سے کہو " اور مذاق اڑاؤ، اللہ اس چیز کو کھول دینے والا ہے جس کے کھل جانے سے تم ڈرتے ہو " اگر ان سے پوچھو کہ تم کیا باتیں کر رہے تھے ، تو جھٹ کہہ دیں گے کہ ہم تو ہنسی مذاق اور دل لگی کررہے تھے۔ ان سے کہو " تمہاری ہنسی دل لگی اللہ اور اس کے آیات اور اس کے رسول ہی کے ساتھ تھی۔ اب عذرات نہ تراشو ، تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا ہے ، اگر ہم نے تم میں سے ایک گروہ کو معاف کرد بھی دیا تو دوسرے گروہ کو ہم ضرور سزا دیں گے ، کیونکہ وہ مجرم ہیں۔

الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ بَعْضُهُمْ مِنْ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمُنْكَرِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوفِ وَيَقْبِضُونَ أَيْدِيَهُمْ نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ هُمُ الْفَاسِقُونَ (67) وَعَدَ اللَّهُ الْمُنَافِقِينَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْكُفَّارَ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا هِيَ حَسْبُهُمْ وَلَعَنَهُمُ اللَّهُ وَلَهُمْ عَذَابٌ مُقِيمٌ (68): منافق مرد اور منافق عورتیں سب ایک دوسرے کے ہم رنگ ہیں۔ برائی کا حکم دیتے ہیں اور بھلائی سے منع کرتے اور اپنے ہاتھ خیر سے روکے رکھتے ہیں۔ یہ اللہ کو بھول گئے تو اللہ نے بھی انہیں بھلا دیا۔ یقیناً یہ منافق ہی فاسق ہیں۔ ان منافق مردوں اور عورتوں اور کافروں کے لیے اللہ نے آتش دوزخ کا وعدہ کیا ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔ وہی ان کے لیے موزوں ہے۔ ان پر اللہ کی پھٹکار ہے اور ان کے لیے قائم رہنے والا عذاب ہے۔

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ (73) يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ مَا قَالُوا وَلَقَدْ قَالُوا كَلِمَةَ الْكُفْرِ وَكَفَرُوا بَعْدَ إِسْلامِهِمْ وَهَمُّوا بِمَا لَمْ يَنَالُوا وَمَا نَقَمُوا إِلا أَنْ أَغْنَاهُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ مِنْ فَضْلِهِ فَإِنْ يَتُوبُوا يَكُ خَيْرًا لَهُمْ وَإِنْ يَتَوَلَّوْا يُعَذِّبْهُمُ اللَّهُ عَذَابًا أَلِيمًا فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ وَمَا لَهُمْ فِي الأرْضِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ (74): اے نبی کفار اور منافقین دونوں کا پوری قوت سے مقابلہ کرو اور ان کے ساتھ سختی سے پیش آؤ، آخر کار ان کا ٹکانا جہنم ہے اور وہ بدترین جائے قرار ہے۔ یہ لوگ خدا کی قسم کھا کھا کر کہتے ہیں کہ ہم نے وہ بات نہیں کہی ، حالانکہ انہوں نے ضرور وہ کافرانہ بات کہی ہے۔ وہ اسلام لانے کے بعد کفر کے مرتکب ہوئے اور انہوں نے وہ کچھ کرنے کا ارادہ کیا جسے کر نہ سکے۔ یہ ان کا سارا غصہ اس بات پر ہے ، تاکہ اللہ اور اس کے رسول نے اپنے فضل سے ان کو غنی کردیا ہے۔ اب اگر یہ اپنی روش سے باز آجائیں تو انہی کے لیے بہتر ہے اور اگر یہ باز نہ آئے تو اللہ ان کو نہایت دردناک سزا دے گا۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اور زمین میں کوئی نہیں جو ان کا حمایتی اور مددگار ہو۔

وَمِنْهُمْ مَنْ عَاهَدَ اللَّهَ لَئِنْ آتَانَا مِنْ فَضْلِهِ لَنَصَّدَّقَنَّ وَلَنَكُونَنَّ مِنَ الصَّالِحِينَ (75) فَلَمَّا آتَاهُمْ مِنْ فَضْلِهِ بَخِلُوا بِهِ وَتَوَلَّوْا وَهُمْ مُعْرِضُونَ (76) فَأَعْقَبَهُمْ نِفَاقًا فِي قُلُوبِهِمْ إِلَى يَوْمِ يَلْقَوْنَهُ بِمَا أَخْلَفُوا اللَّهَ مَا وَعَدُوهُ وَبِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ (77): ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگر اس نے اپنے فضل سے ہم کو نوازا تو ہم خیرات کریں گے اور صالح بن کر رہیں گے۔ مگر جب اللہ نے اپنے فضل سے ان کو دولتمند کردیا تو وہ بخل پر اتر آئے اور اپنے عہد سے ایسے پھرے کہ انہیں اس کی پروا تک نہیں ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی اس بدعہدی کی وجہ سے جو انہوں نے اللہ کے ساتھ کی اور اس جھوٹ کی وجہ سے جو وہ بولتے رہے ، اللہ نے ان کے دلوں میں نفاق بٹھا دیا ، جو اس کے حضور انکی پیشی کے دن تک ان کا پیچھا نہ چھوڑے گا۔

الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فِي الصَّدَقَاتِ وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلا جُهْدَهُمْ فَيَسْخَرُونَ مِنْهُمْ سَخِرَ اللَّهُ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (79) اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً فَلَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَاللَّهُ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ (80): جو لوگ برضا ورغبت دینے والے اہل ایمان کی مالی قربانیوں پر باتیں چھانٹتے ہیں اور ان لوگوں کا مذاق اڑانے والوں کا مذاق اڑاتا ہے اور ان کے لیے دردناک سزا ہے۔ اے نبی تم ایسے لوگوں کے لیے معافی کی درخواست کرو یا نہ کرو ، اگر تم ستر مرتبہ بھی انہیں معاف کردینے کی درخواست کروگے تو اللہ انہیں ہرگز معاف نہ کرے گا۔ اس لیے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا ہے اور اللہ فاسق لوگوں کو راہ نجات نہیں دکھاتا ہے۔

فَرِحَ الْمُخَلَّفُونَ بِمَقْعَدِهِمْ خِلافَ رَسُولِ اللَّهِ وَكَرِهُوا أَنْ يُجَاهِدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَقَالُوا لا تَنْفِرُوا فِي الْحَرِّ قُلْ نَارُ جَهَنَّمَ أَشَدُّ حَرًّا لَوْ كَانُوا يَفْقَهُونَ (81) فَلْيَضْحَكُوا قَلِيلا وَلْيَبْكُوا كَثِيرًا جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ (82) فَإِنْ رَجَعَكَ اللَّهُ إِلَى طَائِفَةٍ مِنْهُمْ فَاسْتَأْذَنُوكَ لِلْخُرُوجِ فَقُلْ لَنْ تَخْرُجُوا مَعِيَ أَبَدًا وَلَنْ تُقَاتِلُوا مَعِيَ عَدُوًّا إِنَّكُمْ رَضِيتُمْ بِالْقُعُودِ أَوَّلَ مَرَّةٍ فَاقْعُدُوا مَعَ الْخَالِفِينَ (83) وَلا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ إِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَمَاتُوا وَهُمْ فَاسِقُونَ (84) وَلا تُعْجِبْكَ أَمْوَالُهُمْ وَأَوْلادُهُمْ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ أَنْ يُعَذِّبَهُمْ بِهَا فِي الدُّنْيَا وَتَزْهَقَ أَنْفُسُهُمْ وَهُمْ كَافِرُونَ (85): جن لوگوں کو پیچے رہنے کی اجازت دی گئی تھی وہ اللہ کے رسول کا ساتھ نہ دینے اور گھر پر بیٹھے رہنے پر خوش ہوئے اور انہیں گوارا نہ ہوا کہ اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کریں۔ انہوں نے لوگوں سے کہا کہ " اس سخت گرمی میں نہ نکلو " ان سے کہو کہ جہنم کی آگ اس سے زیادہ گرم ہے۔ کاش انہیں اس کا شعور ہوتا۔ اب چاہئے کہ یہ لوگ ہنسنا کم کریں اور روئیں زیادہ۔ اس لیے کہ جو بدی یہ کما رہے ہیں اس کی جزا ایسی ہی ہے۔ اگر اللہ ان کے درمیان تمہیں واپس لے جائے اور آئندہ ان میں سے کوئی گروہ جہاد کے لیے نکلنے کی تم سے اجازت مانگے تو صاف کہہ دینا کہ " اب تم میرے ساتھ ہرگز نہیں چل سکتے اور نہ میری معیت میں کسی دشمن سے لڑسکتے ہو ، تم نے پہلے بیٹھ رہنے کو پسند کیا تھا تو اب گھر میں بیٹھ رہنے والوں کے ساتھ بیٹھے رہو۔ اور آئندہ ان میں سے جو کوئی مرے اس کی نماز جنازہ بھی تم ہرگز نہ پڑھنا اور نہ کبھی اس کی قبر پر کھڑے ہونا کیونکہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا ہے اور وہ مرے ہیں اس حال میں کہ وہ فاسق تھے۔ ان کی مالداری اور ان کی کثرت اولاد تم کو دھوکے میں نہ ڈالے۔ اللہ نے تو ارادہ کرلیا ہے کہ اس مال اور اولاد کے ذریعے سے ان کو اسی دنیا میں سزا دے اور ان کی جانیں اس حال میں نکلیں کہ وہ کافر ہوں۔

یہ طویل تنقید جس میں بیشمار انکشافات کیے گئے اس بات کی مظہر ہے کہ اس وقت منافقین کی طرف سے اسلامی جماعت کی ایذا رسانی کے لیے رات دن کوششیں ہوتی رہتی تھیں۔ یہ منافق مختلف قسم کی سازشوں ، فتنہ انگیزیوں اور جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعے مسلمانوں کو اپنے نصب العین سے ہٹآنے کی سعی کرتے رہتے تھے۔ نیز اس تنقیدی تقریر سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت اسلامی صفوں میں ہم آہنگی اور مکمل اتحاد کی کمی تھی اور جماعت مسلمہ کی عضویاتی تکمیل ابھی تک ادھوری تھی۔ اس کی طرف اس فقرے کے ذریعے اشارہ بھی کیا گیا ہے۔ و فیکم سمعون لہم " اور تم میں ان کی بات پر کان دھرنے والے موجود ہیں " نیز ایسے لوگوں کے لیے دعا کرنے کی سخت ممانعت اور ان کا نماز جنازہ نہ پڑھنے کی تاکید سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت ایسے لوگوں کے لیے ہمدردی کے جذبات اسلامی صفوں میں موجود تھے۔ یہ صورت حال اس لیے پیدا ہوگئی تھی کہ فتح مکہ کے بعد لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہوگئے تھے اور ان کے دلوں میں ابھی تک ایمان اچھی طرح جاگزیں نہ ہوا تھا۔ نہ وہ ابھی تک پوری طرح اسلامی رنگ میں رنگے گئے تھے۔ اس کی تفصیلات ہم اس سورت میں ان آیات کے ضمن میں دیں گے جن میں اسلامی جماعت کے اجزائے ترکیبی پر بحث کی گئی ہے جن سے اس وقت جماعت کی تالیف ہوئی تھی۔

(بہت طویل ہونے کی وجہ سے اس آیت کی مکمل تفسیر شامل نہیں کی جا سکی۔ ہم اس کے لیے معذرت خواہ ہیں۔ برائے مہربانی اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ فی ظلال القرآن جلد سے پڑھیں)

تمہیدی کلمات سورۃ التوبہ کئی خطبات پر مشتمل ہے اور ان میں سے ہر خطبہ الگ پس منظر میں نازل ہوا ہے۔ جب تک ان مختلف خطبات کے پس منظر اور زمانۂ نزول کا الگ الگ تعین درست انداز میں نہ ہوجائے ‘ متعلقہ آیات کی درست توضیح و تشریح کرنا ممکن نہیں۔ چناچہ جن لوگوں نے اس سورت کی تفسیر کرتے ہوئے پوری احتیاط سے تحقیق نہیں کی ‘ وہ خود بھی مغالطوں کا شکار ہوئے ہیں اور دوسروں کو بھی شکوک و شبہات میں مبتلا کرنے کا باعث بنے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ سورت قرآن حکیم کی مشکل ترین سورت ہے اور اس کی تفہیم کے لیے انتہائی محتاط تحقیق اور گہرے تدبر کی ضرورت ہے۔سورۃ التوبہ اور حضور ﷺ کی بعثت کے دو پہلو : محمد رسول اللہ ﷺ سے قبل ہر پیغمبر کو ایک خاص علاقے اور خاص قوم کی طرف مبعوث کیا گیا ‘ مگر آپ ﷺ اپنی قوم بنواسماعیل کی طرف بھی رسول بن کر آئے اور قیامت تک کے لیے پوری دنیا کے تمام انسانوں کی طرف بھی۔ یہ فضیلت تمام انبیاء و رسل میں صرف آپ ﷺ کے لیے مخصوص ہے کہ آپ ﷺ کو دو بعثتوں کے ساتھ مبعوث فرمایا گیا ‘ ایک بعثت خصوصی اور دوسری بعثت عمومی۔ آپ ﷺ کی بعثت کے ان دونوں پہلوؤں کے حوالے سے سورة التوبہ کی آیات میں بھی ایک بڑی خوبصورت تقسیم ملتی ہے۔ وہ اس طرح کہ اس سورت کے بھی بنیادی طور پر دو حصے ہیں۔ ان میں سے ایک حصہ آپ ﷺ کی۔ بعثت کے خصوصی پہلو سے متعلق ہے ‘ جبکہ دوسرے حصے کا تعلق آپ ﷺ کی بعثت کے عمومی پہلو سے ہے۔ چناچہ سورت کے ان دونوں حصوں کے موضوعات و مضامین کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے حضور ﷺ کی بعثت کے ان دونوں پہلوؤں کے فلسفے کو اچھی طرح ذہن نشین کرلیا جائے۔حضور ﷺ کی بعثت خصوصی : محمد عربی ﷺ کی خصوصی بعثت مشرکین عرب یا بنو اسماعیل کی طرف تھی۔ آپ ﷺ کا تعلق بھی اسی قوم سے تھا اور آپ ﷺ نے ان لوگوں کے اندر رہ کر ‘ خود ان کی زبان میں ‘ اللہ کا پیغام ان تک پہنچا دیا اور ان پر آخری حد تک اتمام حجت بھی کردیا۔ اسی ضمن میں پھر مشرکین عرب پر اللہ کے اس قدیم قانون کا نفاذ بھی عمل میں آیا کہ جب کسی قوم کی طرف کوئی رسول بھیجا جائے اور وہ رسول اپنی دعوت کے سلسلے میں اس قوم پر اتمام حجت کر دے ‘ پھر اگر وہ قوم اپنے رسول کی دعوت کو رد کر دے تو اس پر عذاب استیصال مسلط کردیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں مشرکین عرب پر عذاب استیصال کی نوعیت معروضی حالات کے پیش نظر پہلی قوموں کے مقابلے میں مختلف نظر آتی ہے۔ اس عذاب کی پہلی قسط غزوۂ بدر میں مشرکین مکہ کی ہزیمت و شکست کی صورت میں سامنے آئی جبکہ دوسری اور آخری قسط کا ذکر اس سورت کے آغاز میں کیا گیا ہے۔ بہر حال اپنی بعثت خصوصی کے حوالے سے حضور ﷺ نے جزیرہ نمائے عرب میں دین کو غالب کردیا ‘ اور وہاں آپ ﷺ کی حیات مبارکہ ہی میں اقامت دین کا عملی نقشہ اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہوگیا۔ حضور ﷺ کی بعثت عمومی : نبی اکرم ﷺ کی بعثت عمومی پوری انسانیت کی طرف قیامت تک کے لیے ہے۔ اس سلسلے میں دعوت کا آغاز آپ ﷺ نے صلح حدیبیہ 6 ہجری کے بعد فرمایا۔ اس سے پہلے آپ ﷺ نے کوئی مبلغ یا داعی عرب سے باہر نہیں بھیجا ‘ بلکہ تب تک آپ ﷺ نے اپنی پوری توجہ جزیرہ نمائے عرب تک مرکوز رکھی اور اپنے تمام وسائل اسی خطہ میں دین کو غالب کرنے کے لیے صرف کیے۔ لیکن جونہی آپ ﷺ کو اس سلسلے میں ٹھوس کامیابی ملی ‘ یعنی قریش نے آپ ﷺ کو بطور فریق ثانی کے تسلیم کر کے آپ ﷺ سے صلح کرلی ‘ قرآن نے سورة الفتح کی پہلی آیت میں اس صلح کو فتح مبین“ قرار دیا ہے تو آپ ﷺ نے اپنی بعثت عمومی کے تحت دعوت کا آغاز کرتے ہوئے عرب سے باہر مختلف سلاطین و امراء کی طرف خطوط بھیجنے شروع کردیے۔ اس سلسلے میں آپ ﷺ نے جن فرمانرواؤں کو خطوط لکھے ‘ ان میں قیصر روم ‘ ایران کے بادشاہ کسریٰ ‘ مصر کے بادشاہ مقوقس اور حبشہ کے فرمانروا نجاشی یہ عیسائی حکمران اس نجاشی کا جانشین تھا جنہوں نے اسلام قبول کرلیا تھا ‘ اور جن کی غائبانہ نماز جنازہ حضور ﷺ نے خود پڑھائی تھی کے نام شامل ہیں۔ [ نوٹ : ماضی قریب میں یہ چاروں خطوط اصل متن کے ساتھ اصل شکل میں دریافت ہوچکے ہیں۔ ] آپ ﷺ کے انہی خطوط کے ردِّ عمل کے طور پر سلطنت روما کے ساتھ مسلمانوں کے ٹکراؤ کا آغاز ہوا ‘ جس کا نتیجہ نبی اکرم ﷺ کی حیات طیبہ ہی میں جنگ موتہ اور غزوۂ تبوک کی صورت میں نکلا۔ بہر حال ان تمام حالات و واقعات کا تعلق آپ ﷺ کی بعثت عمومی سے ہے ‘ جس کی دعوت کا آغاز آپ ﷺ کی زندگی مبارک ہی میں ہوگیا تھا ‘ اور پھر خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر آپ ﷺ نے واضح طور پر یہ فریضہ امت کے ہر فرد کی طرف منتقل فرما دیا۔ چناچہ اب تا قیام قیامت آپ ﷺ پر ایمان رکھنے والا ہر مسلمان دعوت و تبلیغ اور اقامت دین کے لیے محنت و کوشش کا مکلف ہے۔موضوعات : مضامین و موضوعات کے حوالے سے یہ سورت دو حصوں پر مشتمل ہے ‘ جن کی تفصیل درج ذیل ہے :حصہ اول : یہ حصہ سورت کے پہلے پانچ رکوعوں پر مشتمل ہے اور اس کا تعلق رسول اللہ ﷺ کی بعثت خصوصی کے تکمیلی مرحلے سے ہے۔ آیات کی ترتیب کے مطابق اگرچہ یہ پانچ رکوع بھی مزید تین حصوں میں بٹے ہوئے ہیں ‘ مگر موضوع کے اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ حصہ ہمیں دو خطبات پر مشتمل نظر آتا ہے ‘ جن کا الگ الگ تعارف ذیل کی سطور میں دیا جا رہا ہے۔پہلا خطبہ : پہلا خطبہ دوسرے اور تیسرے رکوع پر مشتمل ہے اور یہ فتح مکہ 8 ہجری سے پہلے نازل ہوا۔ ان آیات میں مسلمانوں کو فتح مکہ کے لیے نکلنے پر آمادہ کیا گیا ہے۔ یہ مسئلہ بہت نازک اور حساس تھا۔ مسلمان مہاجرین کی مشرکین مکہ کے ساتھ براہ راست قریبی رشتہ داریاں تھیں ‘ ان کے خاندان اور قبیلے مشترک تھے ‘ حتیٰ کہ بہت سے مسلمانوں کے اہل و عیال مکہ میں موجود تھے۔ کچھ غریب ‘ بےسہارا مسلمان ‘ جو مختلف وجوہات کی بنا پر ہجرت نہیں کرسکے تھے ‘ ابھی تک مکہ میں پھنسے ہوئے تھے۔ اب سوال یہ تھا کہ اگر جنگ ہوگی ‘ مکہ پر حملہ ہوگا تو ان سب کا کیا بنے گا ؟ کیا گندم کے ساتھ گھن بھی پس جائے گا ؟ دوسری طرف قریش مکہ کا بظاہر یہ اعزاز بھی نظر آتا تھا کہ وہ بیت اللہ کے متولی تھے اور حجاج کی خدمت کرتے تھے۔ اس حوالے سے کہیں سادہ دل مسلمان اپنے خدشات کا اظہار کر رہے تھے تو کہیں منافقین ان سوالات کی آڑ لے کر لگائی بجھائی میں مصروف تھے۔ چناچہ ان آیات کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ پس منظر مدنظر رہنا چاہیے۔دوسرا خطبہ : دوسرا خطبہ پہلے ‘ چوتھے اور پانچویں رکوع پر مشتمل ہے اور یہ ذوالقعدہ 9 ہجری کے بعد نازل ہوا۔ موضوع کی اہمیت کے پیش نظر اس میں سے پہلی چھ آیات کو مقدم کر کے سورت کے آغاز میں لایا گیا ہے۔ یہ وہی آیات ہیں جن کے ساتھ حضور ﷺ نے حضرت علی رض کو قافلۂ حج کے پیچھے بھیجا تھا۔ اس کی تفصیل یوں ہے کہ 9 ہجری میں حضور ﷺ خود حج پر تشریف نہیں لے گئے تھے ‘ اس سال آپ ﷺ نے حضرت ابو بکرصدیق رض کو امیرحج بنا کر بھیجا تھا۔ حج کا یہ قافلہ ذوالقعدہ 9 ہجری میں روانہ ہوا اور اس کے روانہ ہونے کے بعد یہ آیات نازل ہوئیں۔ چناچہ نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی رض کو بھیجا کہ حج کے موقع پر علی الاعلان یہ احکامات سب کو سنا دیے جائیں۔ سن 9 ہجری کے اس حج میں مشرکین مکہ بھی شامل تھے۔ چناچہ وہاں حج کے اجتماع میں حضرت علی رض نے یہ آیات پڑھ کر سنائیں ‘ جن کے تحت مشرکین کے ساتھ ہر قسم کے معاہدے سے اعلان براءت کردیا گیا اور یہ واضح کردیا گیا کہ آئندہ کوئی مشرک حج کے لیے نہ آئے۔ مشرکین عرب کے لیے چار ماہ کی مہلت کا اعلان کیا گیا کہ اس مہلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ ایمان لانا چاہیں تو لے آئیں ‘ ورنہ ان کا قتل عام ہوگا۔ یہ آیات چونکہ قرآن کریم کی سخت ترین آیات ہیں ‘ اس لیے ضروری ہے کہ ان کے پس منظر کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے۔ یہ احکامات دراصل اس عذاب استیصال کے قائم مقام ہیں جو قوم نوح علیہ السلام ‘ قوم ہود علیہ السلام ‘ قوم صالح علیہ السلام ‘ قوم شعیب ‘ علیہ السلام قوم لوط علیہ السلام اور آل فرعون پر آیا تھا۔ ان تمام قوموں پر عذاب استیصال اللہ کے اس اٹل قانون کے تحت آیا تھا جس کا ذکر قبل ازیں بھی ہوچکا ہے۔ اس قانون کے تحت مشرکین مکہ اب عذاب استیصال کے مستحق ہوچکے تھے ‘ اس لیے کہ حضور ﷺ نے انہی کی زبان میں اللہ کے احکامات ان تک پہنچا کر ان پر حجت تمام کردی تھی۔ اس سلسلے میں اللہ کی مشیت کے مطابق ان کو جو مہلت دی گئی تھی وہ بھی ختم ہوچکی تھی۔ چناچہ ان پر عذاب استیصال کی پہلی قسط میدان بدر میں نازل کی گئی اور دوسری اور آخری قسط کے طور پر اب انہیں الٹی میٹم دے دیا گیا کہ تمہارے پاس سوچنے اور فیصلہ کرنے کے لیے صرف چار ماہ ہیں۔ اس مدت میں ایمان لانا چاہو تو لے آؤ ورنہ قتل کردیے جاؤ گے۔ اس حکم کے اندر ان کے لیے یہ آپشن خود بخود موجود تھا کہ وہ چاہیں تو جزیرہ نمائے عرب سے باہر بھی جاسکتے ہیں ‘ مگر اب اس خطہ کے اندر وہ بحیثیت مشرک کے نہیں رہ سکتے ‘ کیونکہ اب جزیرہ نمائے عرب کو شرک سے بالکل پاک کردینے اور محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت خصوصی کی تکمیلی شان کے ظہور کا وقت آن پہنچا تھا۔ایک اشکال کی وضاحت : یہاں ایک اشکال اس وجہ سے پیدا ہوتا ہے کہ آیات کی موجودہ ترتیب خطبات کی زمانی ترتیب کے بالکل برعکس ہے۔ جو خطبہ پہلے 8 ہجری میں نازل ہوا ہے وہ سورت میں دوسرے رکوع سے شروع ہو رہا ہے ‘ جبکہ بعد 9 ہجری میں نازل ہونے والی آیات کو مقدم کر کے ان سے سورت کا آغاز کیا گیا ہے۔ پھر یہ دوسرا خطبہ بھی آیات کی ترتیب کے باعث دو حصوں میں تقسیم ہوگیا ہے۔ اس کی ابتدائی چھ آیات پہلے رکوع میں آگئی ہیں ‘ جبکہ بقیہ آیات چوتھے اور پانچویں رکوع میں ہیں۔ دراصل ترتیب آیات میں اس پیچیدگی کی وجہ قرآن کا وہ خاص اسلوب ہے جس کے تحت کسی انتہائی اہم بات کو موضوع کی منطقی اور روایتی ترتیب میں سے نکال کر شہ سرخی head line کے طور پر پہلے بیان کردیا جاتا ہے۔ اس اسلوب کو سمجھنے کے لیے سورة الانفال کے آغاز کا انداز ذہن میں رکھیے۔ وہاں مال غنیمت کا مسئلہ انتہائی اہم اور حساس نوعیت کا تھا ‘ جس پر تفصیلی بحث تو بعد میں ہونا مقصود تھی ‘ لیکن اس ضمن میں بنیادی اصول سورت کی پہلی آیت میں بیان کردیا گیا اور مسئلے کی خصوصی اہمیت کے پیش نظر اس موضوع سے سورت کا آغاز فرمایا گیا۔ بالکل اسی انداز میں اس سورت کا آغاز بھی ایک انتہائی اہم مسئلے کے بیان سے کیا گیا ‘ البتہ اس مسئلے کی بقیہ تفصیل بعد میں چوتھے اور پانچویں رکوع میں بیان ہوئی۔ حصہ دوم : اس سورت کا دوسرا حصہ چھٹے رکوع سے لے کر آخر تک گیارہ رکوعوں پر مشتمل ہے اور اس کا تعلق حضور ﷺ کی بعثت عمومی سے ہے۔ اس لیے کہ اس حصے کا مرکزی موضوع غزوۂ تبوک ہے اور غزوۂ تبوک تمہید تھی ‘ اس جدوجہد کی جس کا آغاز اقامت دین کے سلسلے میں جزیرہ نمائے عرب سے باہر بین الاقوامی سطح پر ہونے والا تھا۔ اِن گیارہ رکوعوں میں سے ابتدائی چار رکوع تو وہ ہیں جو غزوۂ تبوک کے لیے مسلمانوں کو ذہنی طور پر تیار کرنے سے متعلق ہیں ‘ چند آیات وہ ہیں جو تبوک جاتے ہوئے دوران سفر نازل ہوئیں ‘ چند آیات تبوک میں قیام کے دوران اور چندتبوک سے واپسی پر راستے میں نازل ہوئیں ‘ جبکہ ان میں چند آیات ایسی بھی ہیں جو تبوک سے واپسی کے بعد نازل ہوئیں۔ آیت 1 بَرَآءَ ۃٌ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖٓ اِلَی الَّذِیْنَ عٰہَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسے تمام معاہدے ختم کرنے کا دو ٹوک الفاظ میں اعلان ہے جو مسلمانوں نے مشرکین کے ساتھ کر رکھے تھے۔ یہ اعلان چونکہ انتہائی اہم اور حساس نوعیت کا تھا اور قطعی categorical انداز میں کیا گیا تھا ‘ اس لیے اس کے ساتھ کچھ شرائط یا استثنائی شقوں کا ذکر بھی کیا گیا جن کی تفصیل آئندہ آیات میں آئے گی۔ سورة التوبہ کے ضمن میں ایک اور بات لائق توجہ ہے کہ یہ قرآن کی واحد سورت ہے جس کے آغاز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم“ نہیں لکھی جاتی۔ اس کا سبب حضرت علی رض نے یہ بیان فرمایا ہے کہ یہ سورت تو ننگی تلوار لے کر یعنی مشرکین کے لیے قتل عام کا اعلان لے کر نازل ہوئی ہے ‘ لہٰذا اللہ تعالیٰ کی رحمانیت اور رحیمیت کی صفات کے ساتھ اس کے مضامین کی مناسبت نہیں ہے۔

یہ سورت سب سے آخر رسول ﷺ پر اتری ہے بخاری شریف میں ہے سب سے آخر (آیت یسفتونک الخ،) اتری اور سب سے آخری سورت سورة براۃ اتری ہے۔ اس کے شروع میں بسم اللہ نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ صحابہ نے امیرالمومنین حضرت عثمان بن عفان ؓ کی اقتدا کر کے اسے قرآن میں لکھا نہیں تھا۔ ترمذی شریف میں ہے کہ حضرت ابن عباس نے حضرت عثمان سے پوچھا کہ آخر کیا وجہ ہے آپ نے سورة انفال کو جو مثانی میں سے ہے اور سورة براۃ کو جو مئین میں سے ہے ملا دیا اور ان کے درمیان بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں لکھی اور پہلے کی سات لمبی سورتوں میں انہیں رکھیں ؟ آپ نے جواب دیا کہ بسا اوقات حضور رسول اللہ ﷺ پر ایک ساتھ کئی سورتیں اترتی تھیں۔ جب آیت اترتی آپ وحی کے لکھنے والوں میں سے کسی کو بلا کر فرما دیتے کہ اس آیت کو فلاں سورت میں لکھ دو جس میں یہ یہ ذکر ہے۔ سورة انفال مدینہ شریف میں سب سے پہلے نازل ہوئی اور سورة براۃ سب سے آخر میں اتری تھی بیانات دونوں کے ملتے جلتے تھے مجھے ڈر لگا کہ کہیں یہ بھی اسی میں سے نہ ہو حضور صلی اللہ علیہ کا انتقال ہوگیا اور آپ ﷺ نے ہم سے نہیں فرمایا کہ یہ اس میں سے ہے اس لیے میں نے دونوں سورتیں متصل لکھیں اور انکے درمیان بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں لکھیں اور سات پہلی لمبی سورتوں میں انہیں رکھا۔ اس سورت کا ابتدائی حصہ اس وقت اترا جب آپ غزوہ تبوک سے واپس آرہے تھے۔ حج کا زمانہ تھا مشرکین اپنی عادت کے مطابق حج میں آکر بیت اللہ شریف کا طواف ننگے ہو کر کیا کرتے تھے۔ آپ نے ان میں خلا ملا ہونا ناپسند فرما کر حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو حج کا امام بنا کر اس سال مکہ شریف روانہ فرمایا کہ مسلمانوں کو احکام حج سکھائیں اور مشرکوں میں اعلان کردیں کہ وہ آئندہ سال سے حج کو نہ آئیں اور سورة براۃ کا بھی عام لوگوں میں اعلان کردیں۔ آپ کے پیچھے پھر حضرت علی ؓ کو بھیجا کہ آپ کا پیغام بحیثیت آپ کے نزدیکی قرابت داری کے آپ بھی پہنچا دیں جیسے کہ اس کا تفصیلی بیان آرہا ہے۔ انشاء اللہ۔ پس فرمان ہے کہ یہ بےتعلق ہے۔ اور اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے بعض تو کہتے ہیں یہ اعلان اس عہد و پیمان کے متعلق پہچان سے کوئی وقت معین نہ تھا یا جن سے عہد چار ماہ سے کم کا تھا لیکن جن کا لمبا عہد تھا وہ بدستور باقی رہا۔ جیسے فرمان ہے کہ (فَاَتِمُّــوْٓا اِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ اِلٰى مُدَّتِهِمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ) 9۔ التوبہ :4) ان کی مدت پوری ہونے تک تم ان سے ان کا عہد نبھاؤ۔ حدیث شریف میں بھی ہے کہ آپ نے فرمایا ہم سے جن کا عہد و پیمان ہے ہم اس پر مقررہ وقت تک پابندی سے قائم ہیں گو اس بارے میں اوراقوال بھی ہیں لیکن سب سے اچھا اور سب سے قوی قول یہی ہے۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ جن لوگوں سے عہد ہوچکا تھا ان کے لیے چار ماہ کی حد بندی اللہ تعالیٰ نے مقرر کی اور جن سے عہد نہ تھا ان کے لیے حرمت والے مہینوں کے گذر جانے کی عہد بندی مقرر کردی یعنی دس ذی الحجہ سے محرم الحرام تک کے پچاس دن۔ اس مدت کے بعد حضور ﷺ کو ان سے جنگ کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے جب تک وہ اسلام قبول نہ کرلیں۔ اور جن سے عہد ہے وہ دس ذی الحجہ کے اعلان کے دن سے لے کر بیس ربیع الآخر تک اپنی تیاری کرلیں پھر اگر چاہیں مقابلے پر آجائیں یہ واقعہ سنہ009ھ کا ہے۔ آپ نے حضرت ابوبکر کو امیر حج مقرر کر کے بھیجا تھا اور حضرت علی کو تیس یا چالیس آیتیں قرآن کی اس صورت کی دے کر بھیجا کہ آپ چار ماہ کی مدت کا اعلان کردیں۔ آپ نے ان کے ڈیروں میں گھروں میں منزلوں میں جا جا کر یہ آیتیں انہیں سنا دیں اور ساتھ ہی سرکار نبوت کا یہ حکم بھی سنا دیا کہ اس سال کے بعد حج کے لیے کوئی مشرک نہ آئے اور بیت اللہ شریف کا طواف کوئی ننگا شخص نہ کرے۔ قبیلہ خزاعہ قبیلہ مدلج اور دوسرے سب قبائل کے لیے بھی یہی اعلان تھا۔ تبوک سے آکر آپ نے حج کا ارادہ کیا تھا لیکن مشرکوں کا وہاں آنا ان کا ننگے ہو کر وہاں کا طواف کرنا آپ ﷺ کو ناپسند تھا اس لیے حج نہ کیا اور اس سال حضرت ابوبکر کو اور حضرت علی کو بھیجا انہوں نے ذی المجاز کے بازاروں میں اور ہر گلی کوچے اور ہر ہر پڑاؤ اور میدان میں اعلان کیا کہ چار مہینے تک کی تو شرک اور مشرک کو مہلت ہے اس کے بعد ہماری اسلامی تلواریں اپنا جو ہر دکھائیں گی بیس دن ذی الحجہ کے محرم پورا صفر پورا اور ربیع الاول پورا اور دس دن ربیع الآخر کے۔ زہری کہتے ہیں شوال محرم تک کی ڈھیل تھی لیکن یہ قول غریب ہے۔ اور سمجھ سے بھی بالا تر ہے کہ حکم پہنچنے سے پہلے ہی مدت شماری کیسے ہوسکتی ہے ؟

آیت 1 - سورہ توبہ: (براءة من الله ورسوله إلى الذين عاهدتم من المشركين...) - اردو