اللہ الذی ............................ شیء علما (56 : 21) ” اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان بنائے اور زمین کی قسم سے بھی انہی کے مانند۔ ان کے درمیان حکم نازل ہوتا رہنا ہے۔ (یہ بات تمہیں اس لئے بتائی جارہی ہے) تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ، اور یہ کہ اللہ کا علم ہر چیز پر محیط ہے “۔
سات آسمانوں کے بارے میں ہمیں ابھی تک پورا علم حاصل نہیں ہوا ہے کہ ان کی دوریاں اور فاصلے کتنے ہیں۔ اسی طرح سات زمینوں کا بھی ہمیں علم نہیں ہے۔ یہ زمین جس کے اوپر ہم رہتے ہیں ان میں سے ایک ہوگی اور باقی اللہ کے علم میں ہوں گی اور یہ مفہوم بھی ہوسکتا ہے کہ یہ زمین آسمانوں ہی کے جنس سے ہے۔ اپنی ترکیب اور اپنے خصائص کے اعتبار سی ، ان آیات کو ابھی ہم اپنے سائنسی معلومات پر منطبق کرنا نہیں چاہتے۔ ہمارے علم نے ابھی تک اس کائنات کے بہت ہی تھوڑے حصے کا احاطہ کیا ہے۔ اس لئے یہ تحقیق کے طور پر نہیں کہہ سکتے کہ قرآن کا مفہوم یہ ہے اور انسان یہ بات اس وقت تک نہیں کہہ سکتا جب تک اسے اس کائنات کا تمام علم حاصل نہ ہوجائے۔ لہٰذا ہم اس آیت کے نفسیاتی پہلو تہی پر اکتفاء کرتے ہیں کہ اللہ کے احکام پوری کائنات پر حاوی ہیں۔
اسی پوری کائنات کی طرف یہ اشارہ ۔
سبع ................ مثلھن (56 : 21) ” سات آسمان بنائے اور زمین کی قسم سے بھی انہی کے مانند “۔ جب انسان اس پر غور کرتا ہے تو اس کے سامنے اس کائنات کا ہولناک اور محیرالعقول وسیع منظر آجاتا ہے۔ اللہ کی مملکت کی وسعت ، اللہ کی قدرت کے عظیم مشاہد ، جن کے مقابلے میں یہ زمین ، رائی کے دانے جیسی حقیر نظر آتی ہے ، اور اس کے اندر جو مخلوق ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ اس سے حقیر تر ہے۔ اور اس کے حادثات پھر مزید حقیر تر ہیں ، اللہ کی کائنات میں اگر پوری زمین ایک حقیر سی گیند ہے تو اس کے اندر چند ٹکوں کی کیا حقیقت ہے جو ایک خاوند خرچ کرتا ہے اور ایک بیوی وصول کرتی ہے ؟
اس ہولناک طور پر وسیع اور محیرالعقول طور پر عظیم کائنات کے اندر اللہ کے احکام واوامرچلتے ہیں نکاح و طلاق تو اللہ کے اوامر کا ایک حصہ ہیں۔ خود انسانی علم کے زاویہ سے بھی اللہ کے احکام جو اس کائنات میں نازل ہوتے ہیں ، خود انسانی تصورات کے پیمانوں سے بھی بہت عظیم ہیں۔ اللہ کے کسی حکم کی مخالفت گویا پوری کائنات کی مخالفت کو دعوت دیتا ہے۔ زمین و آسمان کی مخالفت کو دعوت دینا اور یہ مخالفت بہت ہی جسارت ہے۔ کوئی عقلمند آدمی اس جسارت کا ارتکاب نہیں کرسکتا۔ جبکہ رسول آگیا ہے ، وہ کھلی آیات سنا رہا ہے اور لوگوں کو اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لارہا ہے۔
زمین اور آسمان میں اللہ کے احکام کے نزول کا مطلب یہ ہے کہ قلب مومن میں یہ تصور بٹھایا جائے کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ لہٰذا وہ جو چاہتا ہے اسے کوئی چیز اس سے عاجز نہیں کرسکتی۔ وہ ہر چیز کو جانتا ہے ۔ اس کے علم سے کوئی چیز باہر نہیں۔ ہر چیز اس کی بادشاہت میں ہے اور وہ دلوں کے راز بھی جانتا ہے۔
اس بات کے یہاں دو پہلو ہیں : ایک یہ کہ جو اللہ یہاں عائلی احکام دے رہا ہے ، وہ وسیع علم رکھتا ہے۔ اللہ تمام حالات ، تمام مصلحتوں اور انسان کی استعداد کی حدود سے واقف ہے ، لہٰذا لوگوں کو اللہ کے احکام سے سرموسرتابی نہیں کرنا چاہئے کیونکہ وہ علیم و محیط کا بنایا ہوا قانون ہے۔
دوسرا یہ کہ یہ احکام اور ان پر تعمیل تمہارے دلوں اور تمہارے ضمیر پر چھوڑ دی گئی ہے اور تمہارے ضمیر اور شعور کا بھی اللہ کو علم ہے۔ لہٰذا اپنے دل کی گہرائیوں سے ان احکام پر صدق دل کے ساتھ عمل کرو ، اللہ دنیا کے قوانین کے مقستین کی طرح نہیں ہے کہ جو جانتے نہیں۔ وہ تو علیم بذات الصدور ہے۔
اس آخری زمزمے اور وسعت علم الٰہی کے زمزمے پر اس سورت کا خاتمہ ہوتا ہے۔ انسان سوچ کر ہی خائف ہوجاتا ہے اور اس کے سامنے سرجھکانے ، اطاعت کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔ سبحان اللہ ، اللہ ہی تو دلوں کا خالق ہے ، وہ ان دلوں کی وادیوں کے نشیب و فراز سے ہی واقف ہے۔
آیت 12{ اَللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَہُنَّ } ”اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان بنائے ہیں اور زمین میں سے بھی انہی کی مانند۔“ یہ آیت ”آیاتِ متشابہات“ میں سے ہے۔ ابھی تک انسان سات آسمانوں کی حقیقت سے بھی واقف نہیں ہوسکا۔ ”زمین میں سے انہی کی مانند“ کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ جتنے آسمان بنائے اتنی ہی زمینیں بھی بنائیں ‘ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جیسے اس نے متعدد آسمان بنائے ہیں ویسے ہی متعدد زمینیں بھی بنائی ہیں۔ قرآن حکیم کے بعض مقامات پر ایسے اشارے ملتے ہیں کہ جاندار مخلوقات صرف زمین پر ہی نہیں ہیں ‘ عالم بالا میں بھی پائی جاتی ہیں۔ مفسرین نے اپنے اپنے اندازوں سے اس آیت کی تفسیر کی ہے ‘ لیکن اس کا قطعی مفہوم ہم ابھی نہیں جان سکتے۔ بہرحال کسی وقت اس کی حقیقت انسان پر منکشف ہوجائے گی۔ { یَتَنَزَّلُ الْاَمْرُ بَیْنَہُنَّ } ”ان کے درمیان اللہ کا امر نازل ہوتا ہے“ اس سے مراد تدبیر ِکائنات سے متعلق اللہ تعالیٰ کے احکام ہیں۔ اس بارے میں مزید وضاحت سورة السجدۃ کی اس آیت میں ملتی ہے : { یُدَبِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَآئِ اِلَی الْاَرْضِ ثُمَّ یَعْرُجُ اِلَیْہِ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٓٗ اَلْفَ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ۔ } ”وہ تدبیر کرتا ہے اپنے امر کی آسمان سے زمین کی طرف پھر وہ اَمر چڑھتا ہے اس کی طرف یہ سارا معاملہ طے پاتا ہے ایک دن میں جس کی مقدار تمہاری گنتی کے حساب سے ایک ہزار برس ہے۔“گویا یہ اللہ تعالیٰ کی ہزار سالہ منصوبہ بندی سے متعلق احکام کا ذکر ہے جو زمین کی طرف ارسال کیے جاتے ہیں۔ متعلقہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی مشیت سے ان احکام کی تنفیذ عمل میں لاتے رہتے ہیں ‘ یہاں تک کہ ہزار سال کے اختتام پر یہ ”امر“ اٹھا لیا جاتا ہے اور اگلے ہزار سال کا امر نازل کر دیاجاتا ہے۔ { لِتَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْــرٌلا } ”تاکہ تم یقین رکھو کہ اللہ ہرچیز پر قادر ہے“ اس دورئہ ترجمہ قرآن کے دوران کئی مرتبہ پہلے بھی ذکر ہوچکا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں دو صفات خصوصی اہمیت کی حامل ہیں اور قرآن مجید میں ان دو صفات کی بہت تکرار ملتی ہے۔ یعنی اللہ کا عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْــرٌاور بِکُلِّ شَیْئٍ عِلِیْمٍ ہونا۔ لہٰذا ان دو صفات کے بارے میں ایک بندئہ مومن کا مراقبہ بہت گہرا ہونا چاہیے ‘ تاکہ اللہ تعالیٰ کے علم اور اختیار کے بارے میں اس کے یقین میں کسی لمحے کوئی کمزوری نہ آنے پائے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی ان دونوں صفات کا ذکر آیا ہے۔ { وَّاَنَّ اللّٰہَ قَدْ اَحَاطَ بِکُلِّ شَیْئٍ عِلْمًا۔ } ”اور یہ کہ اللہ نے اپنے علم سے ہر شے کا احاطہ کیا ہوا ہے۔“ پہلے اللہ کی قدرت کے بارے میں بتایا گیا اور اب اس کے علم کا ذکر آگیا۔ یعنی کائنات کی کوئی چیز اس کی قدرت سے باہر نہیں اور نہ ہی کوئی چیز اس کے علم سے پوشیدہ ہے۔
حیرت، افزا شان ذوالجلال اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ اور اپنی عظیم الشان سلطنت کا ذکر فرماتا ہے تاکہ مخلوق اس کی عظمت و عزت کا خیال کر کے اس کے فرمان کو قدر کی نگاہ سے دیکھے اور اس پر عامل بن کر اسے خوش کرے، تو فرمایا کہ ساتوں آسمانوں کا خالق اللہ تعالیٰ ہے، جیسے حضرت نوح ؑ نے اپنی قوم سے فرمایا تھا (ترجمہ) کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ پاک نے ساتوں آسمانوں کس طرح اوپر تلے پیدا کیا ہے ؟ اور جگہ ارشاد ہے (ترجمہ) یعنی ساتوں آسمان اور زمین اور ان میں جو کچھ ہے سب اس اللہ کی تسبیح پڑھتے رہتے ہیں، پھر فرماتا ہے اسی کے مثال زمینیں ہیں، جیسے کہ بخاری و مسلم کی صحیح حدیث میں ہے جو شخص ظلم کر کے کسی کی ایک بالشت بھر زمین لے لے گا اسے ساتوں زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا، صحیح بخاری میں ہے اسے ساتویں زمین تک دھنسایا جائے گا، میں نے اس کی تمام سندیں اور کل الفاظ ابتداء اور انتہا میں زمین کی پیدائش کے ذکر میں بیان کردیئے ہیں، فالحمد اللہ، جن بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اس سے مراد ہفت اقلیم ہے انہوں نے بےفائدہ دوڑ بھاگ کی ہے اور اختلاف بےجا میں پھنس گئے ہیں اور بلا دلیل قرآن حدیث کا صریح خلاف کیا ہے سورة حدید میں آیت (هُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ۚ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ) 57۔ الحدید :3) ، کی تفسیر میں ساتوں زمینوں کا اور ان کے درمیان کی دوری کا اور ان کی موٹائی کا جو پانچ سو سال کی ہے پورا بیان ہوچکا ہے، حضرت ابن مسعود ؓ وغیرہ بھی یہی فرماتے ہیں، ایک اور حدیث میں بھی ہے ساتوں آسمان اور جو کچھ ان میں اور ان کے درمیان ہے اور ساتوں زمینیں اور جو کچھ ان میں اور ان کے درمیان ہے کرسی کے مقابلہ میں ایسے ہیں جیسے کسی لمبے چوڑے بہت بڑے چٹیل میدان میں ایک چھلا پڑا ہو، ابن جریر میں حضرت ابن عباس ؓ ما سے مروی ہے کہ اگر میں اس کی تفسیر تمہارے سامنے بیان کروں تو اسے نہ مانو گے اور نہ ماننا جھوٹا جاننا ہے، اور روایت میں ہے کہ کسی شخص نے اس آیت کا مطلب پوچھا تھا اس پر آپ نے فرمایا تھا کہ میں کیسے باور کرلوں کہ جو میں تجھے بتاؤں گا تو اس کا انکار کرے گا ؟ اور روایت میں مروی ہے کہ ہر زمین میں مثل حضرت ابراہیم ؑ کے اور اس زمین کی مخلوق کے ہے اور ابن مثنی والی اس روایت میں آیا ہے ہر آسمان میں مثل ابراہیم کے ہے، بہیقی کی کتاب الاسماء والصفات میں حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ ساتوں زمینوں میں سے ہر ایک میں نبی ہے مثل تمہارے نبی کے اور آدم ہیں مثل آدم کے اور نوح ہیں مثل نوح کے اور ابراہیم ہیں مثل ابراہمی کے اور عیسیٰ ہیں مثل عیسیٰ کے پھر امام بیہقی نے ایک اور روایت بھی ابن عباس کی وارد کی ہے اور فرمایا ہے اس کی اسناد صحیح ہے لیکن یہ بالکل شاذ ہے ابو الضحیٰ جو اس کے ایک راوی ہیں میرے علم میں تو ان کی متابعت کوئی نہیں کرتا، واللہ اعلم، ایک مرسل اور بہت ہی منکر روایت ابن ابی الدنیا لائے ہیں جس میں مروی ہے کہ حضور ﷺ ایک مرتبہ صحابہ کے مجمع میں تشریف لائے دیکھا کہ سب کسی غور و فکر میں چپ چاپ ہیں، پوچھا کیا بات ہے ؟ جواب ملا اللہ کی مخلوق کے بارے میں سوچ رہے ہیں فرمایا ٹھیک ہے مخلوقات پر نظریں دوڑاؤ لیکن کہیں اللہ کیب ابت غور و خوض میں نہ پڑجانا، سنو اس مغرب کی طرف ایک سفید زمین ہے اس کی سفیدی اس کا نور ہے یا فرمایا اس کا نور اس کی سفیدی ہے سورج کا راستہ چالیس دن کا ہے وہاں اللہ کی ایک مخلوق ہے جس نے ایک آنکھ جھکپنے کے برابر بھی کبھی اس کی نافرمانی نہیں کی، صحابہ نے کہا پھر شیطان ان سے کہاں ہے ؟ فرمایا انہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ شیطان پیدا بھی کیا گیا ہے یا نہیں ؟ پوچھا کیا وہ بھی انسان ہیں ؟ فرمایا انہیں حضرت آدم کی پیدائش کا بھی علم نہیں، الحمد اللہ سورة طلاق کی تفسیر بھی پوری ہوئی۔