سورہ التکاثور: آیت 8 - ثم لتسألن يومئذ عن النعيم... - اردو

آیت 8 کی تفسیر, سورہ التکاثور

ثُمَّ لَتُسْـَٔلُنَّ يَوْمَئِذٍ عَنِ ٱلنَّعِيمِ

اردو ترجمہ

پھر ضرور اُس روز تم سے اِن نعمتوں کے بارے میں جواب طلبی کی جائے گی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thumma latusalunna yawmaithin AAani alnnaAAeemi

آیت 8 کی تفسیر

تم سے پوچھا جائے گا کہ یہ نعمتیں تم نے کہاں سے حاصل کیں۔ کہاں ان کو خرچ کیا۔ کیا اللہ کی اطاعت کرکے حاصل کیا اور اللہ کی اطاعت میں خرچ کیا یا اللہ کی معصیت کرکے حاصل کیا اور معصیت میں خرچ کیا۔ حلال راستہ سے کمایا اور حلال راہ میں خرچ کیا یا حرام راستہ سے کمایا اور حرام میں خرچ کیا۔ کیا تم نے ان نعمتوں کا شکر ادا کیا ؟ کیا ان کا حق ادا کیا۔ کیا اس میں دوسروں کو شر کی کیا یا خود ہی استعمال کرتے رہے۔

یہ سوالات لازماً تم سے ہوں گے کہ یہ دولت کس طرح اکھٹی کی اور کس طرح تم نے اس پر تفاخر کیا۔ یہ دولت اور یہ انعامات تمہیں اپنی مدہوشی اور غفلت کی وجہ سے ہلکی نظر آتی ہیں۔ اور کھیل نظر آتی ہیں لیکن ان کے پیچھے تو ایک بھاری ذمہ داری ہے اور ایک سخت جوابدہی ہے۔

یہ سورت نہایت ہی مختصر سورت اپنی تفسیر آپ ہے۔ یہ انسانی احساس پر چھاجاتی ہے ، اسے اپنی گرفت میں لے لیتی ہے اور انسانی قلب ونظر اس کی گرفت میں بوجھل نظر آتے ہیں۔ انسان یکدم دنیا کی حقیقت پاکر ، اس کی حقیر لذتوں اور کم قیمت ترجیحات کو چھوڑ کر فکر آخرت میں مشغول ہوجاتا ہے جبکہ عام لوگ جن کے دل ان حقائق اور اثرات سے فارغ ہوتے ہیں وہ ان حقیر چیزوں کے لئے مرمٹ رہے ہوتے ہیں۔

یہ سورت اس دنیا کو اس طرح پیش کرتی ہے جس طرح ایک طویل فلم میں ایک سیکنڈ کی ایک جھلک۔

الھکم ................ المقابر (2:102) ” تم کو تکاثر کی دھن نے قبرستان پہنچایا “۔ ان چند الفاظ میں پوری دنیاوی زندگی کی جھلک دکھا کر اسے لپیٹ لیا جاتا ہے۔ پھر دائمی اور حیات جاوداں کی فلم چلتی ہے۔ طویل زمانے میں اور مجرمین ابدالا باد تک بوجھ اٹھاتے پھریں گے۔ یہ تصور نہایت ہی خوبصورت انداز تعبیر میں دیا جاتا ہے اور اصل حقیقت اور انداز بیان یکساں ہوجاتے ہیں۔

ایک عظیم خوفناک اور گہرے معانی رکھنے والی سورت جو شخص بھی سمجھ کر پڑے گا ، جس کے اثرات زمین سے طوفان کی شکل میں اٹھ کر فضاﺅں میں جاکر دور بلند مطالع پر نمودار ہوتے ہیں ، جس کے معانی نہایت ٹھوس ہیں اور دل و دماغ کے سمندر میں نہایت ہی گہرائیوں میں جاکر قرارپکڑتے ہیں تو اس کا دل بوجھل ہوجاتا ہے۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ اس کرہ ارض پر زندگی کی ایک جھلک اور چمک ، اپنے نتائج واثرات کے لحاظ سے کس قدر طویل ہے۔ تو ہر باشعور شخص اخروی زندگی کی طویل تیاری کی راہ پر چل نکلتا ہے۔ اور اس راہ میں پھر وہ چھوٹی چھوٹی باتوں کے حوالے سے بھی حساس ہوجاتا ہے۔

آیت 8{ ثُمَّ لَتُسْئَلُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیْمِ۔ } ”پھر اس دن تم سے ضرور پوچھا جائے گا نعمتوں کے بارے میں۔“ اس دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ایک ایک نعمت کے بارے میں تم سے جواب طلبی ہوگی کہ دنیا میں تم نے اس کی کون کون سی نعمتوں سے استفادہ کیا اور ان کے حقوق کہاں تک ادا کیے۔

آیت 8 - سورہ التکاثور: (ثم لتسألن يومئذ عن النعيم...) - اردو